بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہوگا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہوگا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہوگا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہوگا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہوگا
وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
جب ہم سے کوئی نالہ سر انجام نہ ہوگا
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہوگا
جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
آزار عدو سے مجھے آرام نہ ہوگا
یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
ہر صبح توقع ہے کہ تاشام نہ ہوگا
قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
کس وقت انہیں شغلِ مئے و جام نہ ہوگا
دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالب بوسہ
محو اثر لذتِ دشنام نہ ہوگا
رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
نالہ نہیں جو آفتِ اجرام، نہ ہوگا
برق آئینۂ فرصتِ گلزار ہے اس پر
آئینہ نہ دیکھے کوئی گلفام، نہ ہوگا
اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہوگا
اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہوگا
اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہوگا
(نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)