What's new

Urdu Desinged Poetry

ترے فرقِ ناز پہ تاج ہے، مرے دوشِ غم پہ گلیم ہے

تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے

مری کتنی سوچتی صبحوں کو یہ خیال زہر پلا گیا

کسی تپتے لمحے کی آہ ہے، کہ خرامِ موجِ نسیم ہے

تہِ خاک، کرمکِ دانہ جُو بھی شریکِ رقصِ حیات ہے

نہ بس ایک جلوۂ طور ہے، نہ بس ایک شوقِ کلیم ہے

یہ ہر ایک سمت مسافتوں میں گندھی پڑی ہیں جو ساعتیں!

تری زندگی، مری زندگی، انہی موسموں کی شمیم ہے

کہیں محملوں کا غبار اڑے، کہیں منزلوں کے دیئے جلیں

خمِ آسماں، رہِ کارواں! نہ مقام ہے، نہ مقیم ہے

حرم اور دیر فسانہ ہے، یہی جلتی سانس زمانہ ہے!

یہی گوشۂ دلِ ناصبور ہی، کنجِ باغِ نعیم ہے

(مجید امجد)

1.jpg

ہمیں تحریر کرنا ساحلوں پر

کہ ہم تشنہ لبی کی داستاں ہیں

(آغا شورش کاشمیری)

2.jpg
 
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

کیوں نہیں کرتا ہے کوئی دوسرا کچھ بات چیت

دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے

اے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار

اب تیری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


وقت آنے دے بتادیں گے تجھے اے آسمان

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید

عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا ادھر

اور ہم تیار ہیں سینہ لئے اپنا ادھر

خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے

سر جو اٹھ جاتے ہیں وہ جھکتے نہیں للکار سے

اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن

جاں ہتھیلی پر لئے، لو لے چلے ہیں یہ قدم

زندگی تو اپنی مہماں موت کی محفل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے


یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار

کیا تمنائے شہادت بھی کسی کے دل میں ہے

دل میں طوفانوں کی ٹولی اور نسوں میں انقلاب

ہوش دشمن کے اڑادیں گے ہمیں روکو نہ آج

دور رہ پائے جو ہم سےدم کہاں منزل میں ہے

جسم بھی کیا جسم ہے جس میں نہ ہوں خون جنوں

طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتی ساحل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

(رام پرساد عظیم آبادی)

1.jpg

تم اپنے دل میں کبھی جھانک کیوں نہیں لیتے

یہیں کہیں مرا چہرہ دکھائی دے گا تمہیں

(فاخرہ بتول)

2.jpg
 
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ

میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں

روح کو اس کی اسیرِ غم الفت نہ کروں

اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں


سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ

واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں

سحرِ عیش میں اس کی اثرِ شام نہیں

زندگی اس کے لئے زہر بھرا جام نہیں!


سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں

اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا

نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا

سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا


سوچتا ہوں کہ غمِ دل نہ سناؤں اس کو

سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کروں

خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں

اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں


سوچتا ہوں کہ جلادے گی محبت اس کو

وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی

خود تو وہ آتشِ جذبات میں جل جائے گی

اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی

سوچتا ہوںکہ بہت سادہ معصوم ہے وہ

میں اسے واقفِ الفت نہ کروں

(ن م راشد)

1.jpg
 
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

(فیض احمد فیض)
1.jpg


ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

(مرزا غالب)

2.jpg
 
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح

جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے

کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تونے نوازا کیوں تھا

گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی

میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح

منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لئے

زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

(مرتضیٰ برلاس)

1.jpg

سفر سے آکر خبر ہوئی ہے کہ میرا دامن تہی نہیں ہے

سمیٹ لایا ہوں راستوں سے میں خار کتنے، گلاب کتنے

(احسان اللہ ثاقب)

2.jpg
 
میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس دنیا کا سب سے پہلا مہذب جانور کون سا ہے تو میں کہوں گا ’’خاوند‘‘۔ میں نے پوچھا ’’دوسرا مہذب جانور؟‘‘ تو جواب ملا ’’دوسرا خاوند۔‘‘

خاوند کو اردو میں عورت کا مجازی خدا اور پنجابی میں عورت کا بندا کہتے ہیں۔ جبکہ گھر میں اسے کچھ نہیں کہتے۔ جو کچھ کہتا ہے وہی کہتا ہے۔ سارے خاوند ایک جیسے ہوتے ہیں صرف ان کے چہرے مختلف ہوتے ہیں تاکہ ہر کسی کو اپنا اپنا خاوند پہچاننے میں آسانی ہو۔ ہر خاوند یہی کہتا ہے کہ مجھ جیسا دوسرا خاوند پوری دنیا میں نہیں ملے گا اور عورت اسی امید پر دوسری شادی کرتی ہے مگر اسے ہر جگہ کوئی دوسرا نہیں ملتا، خاوند ہی ملتا ہے۔

عورت مرد کا اس دنیا کا سب سے پہلا رشتہ خاوند بیوی ہی کا ہے اور پھر طوفان نوح سے اس دنیا کے ہر جاندار کا صرف یہی رشتہ بچا تھا۔ مختلف ادوار میں انسان ہر براعظم پر مختلف صورتوں میں پایا جاتا رہا لیکن وہ صورت جو ہر دور میں بکثرت ملتی رہی وہ خاوند ہی ہے۔ پھر یہی تو وہ چور دروازہ ہے جس کے رستے انسان مجازی خدا بن جاتا ہے۔ ’’ف‘‘ کہتا ہے انسان شادی خدا بننے کے لئے نہیں باپ بننے کے لئے کرتا ہے۔ شاید اسی لئے ماشا اللہ ’’ف‘‘ کے گھر میں ہر جنس کا بچہ ہے یعنی پورے تین بچے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں بیوی کا اصل بچہ تو خاوند ہوتا ہے جو کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ مرد دنیا میں دوبار یتیم ہوتا ہے ایک بار جب اس کی ماں فوت ہوتی ہے اور دوسری بار اس وقت جب اس کے بچوں کی ماں فوت ہوتی ہے۔
(’’شیطانیاں‘‘ از ڈاکٹر یونس بٹ سے اقتباس)
 
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں

لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لئے بدنام ہوئے

آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا

اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

(حبیب جالب)

1.jpg
 
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے

زندہ ہیں یہی بات، بڑی بات ہے پیارے

یہ ہنستا ہوا چاند یہ پرنور ستارے

تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے

ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح میری صبح پہ روتی رہی شبنم

ہر رات میری رات پہ بنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں

کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

(حبیب جالب)

1.jpg

اک شمع بجھائی تو کئی اور جلالیں

ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

(ادا جعفری)

2.jpg
 
میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس دنیا کا سب سے پہلا مہذب جانور کون سا ہے تو میں کہوں گا ’’خاوند‘‘۔ میں نے پوچھا ’’دوسرا مہذب جانور؟‘‘ تو جواب ملا ’’دوسرا خاوند۔‘‘

خاوند کو اردو میں عورت کا مجازی خدا اور پنجابی میں عورت کا بندا کہتے ہیں۔ جبکہ گھر میں اسے کچھ نہیں کہتے۔ جو کچھ کہتا ہے وہی کہتا ہے۔ سارے خاوند ایک جیسے ہوتے ہیں صرف ان کے چہرے مختلف ہوتے ہیں تاکہ ہر کسی کو اپنا اپنا خاوند پہچاننے میں آسانی ہو۔ ہر خاوند یہی کہتا ہے کہ مجھ جیسا دوسرا خاوند پوری دنیا میں نہیں ملے گا اور عورت اسی امید پر دوسری شادی کرتی ہے مگر اسے ہر جگہ کوئی دوسرا نہیں ملتا، خاوند ہی ملتا ہے۔

عورت مرد کا اس دنیا کا سب سے پہلا رشتہ خاوند بیوی ہی کا ہے اور پھر طوفان نوح سے اس دنیا کے ہر جاندار کا صرف یہی رشتہ بچا تھا۔ مختلف ادوار میں انسان ہر براعظم پر مختلف صورتوں میں پایا جاتا رہا لیکن وہ صورت جو ہر دور میں بکثرت ملتی رہی وہ خاوند ہی ہے۔ پھر یہی تو وہ چور دروازہ ہے جس کے رستے انسان مجازی خدا بن جاتا ہے۔ ’’ف‘‘ کہتا ہے انسان شادی خدا بننے کے لئے نہیں باپ بننے کے لئے کرتا ہے۔ شاید اسی لئے ماشا اللہ ’’ف‘‘ کے گھر میں ہر جنس کا بچہ ہے یعنی پورے تین بچے ہیں۔ ویسے میرے خیال میں بیوی کا اصل بچہ تو خاوند ہوتا ہے جو کبھی بڑا نہیں ہوتا۔ مرد دنیا میں دوبار یتیم ہوتا ہے ایک بار جب اس کی ماں فوت ہوتی ہے اور دوسری بار اس وقت جب اس کے بچوں کی ماں فوت ہوتی ہے۔
(’’شیطانیاں‘‘ از ڈاکٹر یونس بٹ سے اقتباس)
Yeh iqtibas funny hai ya serious ,mujhay samajh nahi arahi
 
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں

کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے خفا، یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

(ساغر صدیقی)

1.jpg

مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
(شبنم رومانی)

2.jpg
 
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج

یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

خود پشیماں ہوئے اسے شرمندہ نہ کیا

عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے

عمر بھر سچ ہی کہا، سچ کے سوا کچھ نہ کہا

اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے

کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل

ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

(شہریار)

1.jpg

وہم

زندگی بدلنے کو

ایک نظر ہی

کافی ہے

ہم کو ہر وقت ساتھی

اک وہم ستاتا ہے

زندگی بدل کے تم

خود بدل نہیں جانا

(شگفتہ شفیق)

2.jpg
 
@nizamuddin You are very much into Urdu poetry, aren't you ? :)
That's very much commendable. Wish I could read it. I will get my friend to read them for me.
 
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے


ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے

سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو

زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ

جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

آئینہ ہوجائے میرا عشق ان کے حسن کا

کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے

(ثاقب لکھنوی)

1.jpg

مجھ سے منسوب تھیں داستانیں کئی، ایک سے اک نئی

خوبصورت مگر اک جو الزام تھا، وہ ترا نام تھا

(قتیل شفائی)

2.jpg
 
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جا ابھی

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم

پر یہ کہاں مجال جو کچھ گفتگو کریں

ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول

منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار

کس بات پر چمن ہوسِ رنگ و بو کریں

(خواجہ میر درد)

1.jpg

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا

کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

(احمد فراز)

2.jpg
 

Country Latest Posts

Back
Top Bottom