What's new

What's behind the decision to revoke the status of Indian administered Kashmir? | Inside Story

.
Well I will answer the very last point made by that lady Victoria


What does india think future of Pakistan administered kashmir...

The answer is they believe they will conquer it . And than march into sindh and baluchistan and eventually make an akhand bharat


And given the policy of appeasing the enemy and playing dumb and cute blonde ready to open legs for USA, and that being the sole reason of existence for our establishment . .. I don't blame india for thinking so
 
.
indians are saying that trump offer to mediate is for azad kashmir only and not for iok,if this is true our leadership should not go to u.s after this
Well I will answer the very last point made by that lady Victoria


What does india think future of Pakistan administered kashmir...

The answer is they believe they will conquer it . And than march into sindh and baluchistan and eventually make an akhand bharat


And given the policy of appeasing the enemy and playing dumb and cute blonde ready to open legs for USA, and that being the sole reason of existence for our establishment . .. I don't blame india for thinking so
 
.
indians are saying that trump offer to mediate is for azad kashmir only and not for iok,if this is true our leadership should not go to u.s after this

Are you retarded or just too simple minded?
You seems so from the posts you make repeatedly.
What dumb and delusional indians say and don't say have to dictate our policies now?
Seriously?
 
.
The decision is timed with FATF review , if Pakistan reacts it will get put on FATF banned list if Pakistan does not reacts then India will have chance to commit genocide in region

  • Chance for war is around 80-90% people should prepare ahead ensure their homes have weapon / food supply

However the retaliation will need to be at our own time / choosing


Presently I hope the Pakistan-Afghanistan-USA dialogue reaches a climax
It will give us a time for a strategic a response on Kashmir
 
.
From where is this balanced? All are Pakistan haters in this program.

Just look at that old witch calling Pakistan as occupier and India as administrator.
 
.
From where is this balanced? All are Pakistan haters in this program.

Just look at that old witch calling Pakistan as occupier and India as administrator.

A Pakistan balanced debate on Kashmir "Its ours"
An Indian balance debate on Kashmir "its ours"

A situation that requires the wisdom of Solomon, cut the baby in half and give half to each. Perhaps then we would see the mother that thinks more of the child than them selves, who would say no, it is better for the people of Kashmir to be united and at peace than to continue as things are.
 
.
It is not time for debate and tea party , it is time to open supply routes into Indian Occupied Kashmir and provide necessary self defense tools for stranded Pakistani Kashmiri in region
 
.
An interesting article in Urdu. Even though I disagree with part of the narratives because some facts have been given journalistic "Spin" to make them more dramatic; the insight into Sh Abdullah appears to be correct. I recall reading in the 'Daily Imroze', the Urdu Daily we used to subscribe in the 1950's that the reason that Pakistan did not agree to removal of Pakistani troops from AK region ( a precondition for the Plebiscite per the UN Resolution) was that Sh Abdulah, then Chief Minister of Kashmir, would also take control of the AK region in cohorts with Nehru; presenting Pakistan & AK residents with a 'Fait-a-Compli' and with zero Kashmiri land.


آنسوؤں سے ہوشیار



حامد میر



وہ روتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے مجھ سے دھوکہ ہو گیا۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے آنسو بھی بہا رہا ہے لیکن ان آنسوئوں کے پیچھے دھوکے کی ایک لمبی کہانی چھپی ہوئی ہے اور یہ دھوکہ نمائشی آنسو بہانے والے اس شخص کے خاندان نے خود اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ اس شخص کا نام ہے فاروق عبداللہ، جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہا۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفعہ 370اور 35اے ختم کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے تو فاروق عبداللہ اور اس کا بیٹا عمر عبداللہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت نے کبھی دفعہ 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ فاروق عبداللہ کے باپ شیخ محمدعبداللہ نے مقبوضہ ریاست اور بھارت کے درمیان ایک ناجائز تعلق قائم کیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف ریاست پر اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ دفعہ 370دراصل بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو راضی رکھنے کے لئے 35اے بھی آئین میں شامل کرائی اور غیر ریاستی افراد کی طرف سے ریاست میں جائیداد خریدنے کا راستہ بند کر دیا۔ 370اور 35اے کا خاتمہ دراصل بھارتی ریاست کی طرف سے ان کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ ہے جو بھارتی ریاست کے وعدوں پر اعتبار کر کے بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھا کر اپنی قوم سے غداری کرتے رہے۔ شیخ محمد عبداللہ کو بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے سے منع کیا لیکن اُس نے قائداعظمؒ کی بات نہ سنی اور نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ تاریخ نے قائداعظمؒ کو بار بار سچا اور شیخ محمد عبداللہ کو بار بار جھوٹا ثابت کیا۔ آج جب بھارت نے بطور ریاست اپنے آپ کو بھی جھوٹا اور دغا باز ثابت کر دیا ہے تو شیخ محمد عبداللہ اور اُس کے خاندان کا اصل کردار سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خاندان نے صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی دھوکہ دیا۔

شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر تو کیا ہے لیکن قائداعظمؒ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی اصل کہانی نہیں لکھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی حالیہ تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبالؒ نے 1931میں کیا تھا۔ 13جولائی 1931کو سرینگر میں مسلمانوں کی شہادت پر پہلا احتجاجی جلسہ اور جلوس علامہ اقبالؒ کی زیرِ قیادت 14اگست 1931کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسے جلوس نے کشمیری مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دیا اور 1932میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد ریاست سے ڈوگرہ راج ختم کر کے برٹش انڈیا سے الحاق کرنا تھا۔ یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ 1933میں شیخ محمد عبداللہ کی شادی اکبر جہاں نامی ایک خاتون سے ہوئی جو ایک برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کی سابقہ بیوی قرار دی جاتی ہے۔ اکبر جہاں کا باپ ہیری نیڈوز لاہور اور سرینگر میں نیڈوز ہوٹل کا مالک تھا۔ لاہور کے نیڈوز ہوٹل کی جگہ اب آواری ہوٹل بن چکا ہے۔ اسی ہوٹل میں ٹی ای لارنس آ کر ٹھہرا کرتا تھا اور کرم شاہ کے نام سے افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا۔ یہیں پر اس کی ملاقات اکبر جہاں سے ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ جب کلکتہ کے ایک اخبار ’’لبرٹی‘‘ نے لارنس آف عریبیہ کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ واپس بھاگ گیا اور جاتے جاتے اکبر جہاں نے اُس سے طلاق لے لی۔ اکبر جہاں کی شیخ عبداللہ سے شادی ہوئی تو موصوف کے خیالات بدل گئے اور 1939میں انہوں نے مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ 1944میں قائداعظمؒ سرینگر گئے تو مسلم کانفرنس نے اُن کے لئے استقبالیے کا اہتمام کیا۔ شیخ عبداللہ نے قائداعظمؒ کو نیشنل کانفرنس کے استقبالیے میں بھی شرکت کی دعوت دیدی۔ قائداعظمؒ نے دونوں کی دعوت قبول کر لی لیکن شیخ عبداللہ کو ذاتی ملاقات میں سمجھایا کہ وہ کانگریس سے دور رہے اور تحریک پاکستان کا حصہ بن جائے۔ بقول کے ایچ خورشید ایک ملاقات میں قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کو کہا کہ ’’عبداللہ تم دھوکہ کھائو گے، باز آ جائو اور مسلم کانفرنس کا ساتھ دو‘‘۔ اس مشورے پر شیخ عبداللہ چیخ اُٹھا اور اُس نے بیان دیا کہ ’’یہ جو باہر سے لوگ آتے ہیں اُنہیں کشمیر کی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، مسٹر جناح کو چاہئے کہ وہ کشمیر سے واپس چلے جائیں‘‘۔

جب پاکستان بن گیا تو قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کے پاس ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سردار شوکت حیات سمیت کئی نمائندے بھیجے لیکن شیخ عبداللہ ان سب سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتا رہا۔ اُس نے سردار شوکت حیات کو گرفتاری کی دھمکی دیدی اور کہا کہ میں تمہیں ایک خود مختار ریاست بنا کر دکھائوں گا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز پر دستخط کر دیئے تو شیخ عبداللہ کی پوزیشن کمزور ہو گئی لیکن اُس نے نہرو کے ساتھ مل کر ریاست کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے نہرو کو یہ تاثر دیتا تھا کہ پاکستانی حکومت اُس کے ساتھ رابطے کر رہی ہے۔ 1952میں اُس نے نہرو کے ساتھ معاہدہ دہلی پر دستخط کئے اور یوں آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا علیحدہ پرچم رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اس دوران شیخ محمد عبداللہ نے کچھ مزید اختیارات مانگے تو نہرو نے موصوف کو برطرف کر کے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے شیخ محمد عبداللہ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھا کہ اُسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدے گا۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے جنوری 1958میں اُسے رہا کیا گیا لیکن اپریل 1958میں دوبارہ گرفتار کر کے اُس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا جس میں چار پاکستانیوں کو بھی شریک جرم بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ بھارت کو پاکستان کے نام پر بلیک میل کرتا رہا اور کشمیریوں کے سامنے آزادی کا ہیرو بنتا رہا اور پھر 1974میں اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ 1982میں دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کا بیٹا فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ فاروق عبداللہ نے بھی ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ فاروق عبداللہ کے بعد اُس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ ریاست کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ آج یہ خاندان اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر دُہائی دے رہا ہے کہ بھارت سرکار نے ان کے ساتھ دھوکہ کر دیا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس خاندان نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اگر 1947میں شیخ عبداللہ اقتدار کی ہوس میں نہرو کا ساتھ نہ دیتا تو آج کشمیر آزاد ہوتا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی، شبیر شاہ اور دیگر حریت پسند رہنما ٹھیک تھے اور فاروق عبداللہ جیسے لوگ غلط تھے، جو آج بھی بھارتی آئین کے وفادار ہیں۔ فاروق عبداللہ کی رسوائی دراصل بھارت نواز کشمیریوں کی رسوائی ہے۔ دفعہ 370کا خاتمہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مضبوط اور بھارتی ریاست کو کمزور ریاست کو کمزور کرے گا۔ مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہو گ

https://jang.com.pk/news/667427-hamid-mir-column-8-8-2019
 
.
An interesting article in Urdu. Even though I disagree with part of the narratives because some facts have been given journalistic "Spin" to make them more dramatic; the insight into Sh Abdullah appears to be correct. I recall reading in the 'Daily Imroze', the Urdu Daily we used to subscribe in the 1950's that the reason that Pakistan did not agree to removal of Pakistani troops from AK region ( a precondition for the Plebiscite per the UN Resolution) was that Sh Abdulah, then Chief Minister of Kashmir, would also take control of the AK region in cohorts with Nehru; presenting Pakistan & AK residents with a 'Fait-a-Compli' and with zero Kashmiri land.


آنسوؤں سے ہوشیار



حامد میر



وہ روتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے مجھ سے دھوکہ ہو گیا۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے آنسو بھی بہا رہا ہے لیکن ان آنسوئوں کے پیچھے دھوکے کی ایک لمبی کہانی چھپی ہوئی ہے اور یہ دھوکہ نمائشی آنسو بہانے والے اس شخص کے خاندان نے خود اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ اس شخص کا نام ہے فاروق عبداللہ، جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہا۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفعہ 370اور 35اے ختم کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے تو فاروق عبداللہ اور اس کا بیٹا عمر عبداللہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت نے کبھی دفعہ 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ فاروق عبداللہ کے باپ شیخ محمدعبداللہ نے مقبوضہ ریاست اور بھارت کے درمیان ایک ناجائز تعلق قائم کیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف ریاست پر اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ دفعہ 370دراصل بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو راضی رکھنے کے لئے 35اے بھی آئین میں شامل کرائی اور غیر ریاستی افراد کی طرف سے ریاست میں جائیداد خریدنے کا راستہ بند کر دیا۔ 370اور 35اے کا خاتمہ دراصل بھارتی ریاست کی طرف سے ان کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ ہے جو بھارتی ریاست کے وعدوں پر اعتبار کر کے بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھا کر اپنی قوم سے غداری کرتے رہے۔ شیخ محمد عبداللہ کو بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے سے منع کیا لیکن اُس نے قائداعظمؒ کی بات نہ سنی اور نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ تاریخ نے قائداعظمؒ کو بار بار سچا اور شیخ محمد عبداللہ کو بار بار جھوٹا ثابت کیا۔ آج جب بھارت نے بطور ریاست اپنے آپ کو بھی جھوٹا اور دغا باز ثابت کر دیا ہے تو شیخ محمد عبداللہ اور اُس کے خاندان کا اصل کردار سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خاندان نے صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی دھوکہ دیا۔

شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر تو کیا ہے لیکن قائداعظمؒ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی اصل کہانی نہیں لکھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی حالیہ تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبالؒ نے 1931میں کیا تھا۔ 13جولائی 1931کو سرینگر میں مسلمانوں کی شہادت پر پہلا احتجاجی جلسہ اور جلوس علامہ اقبالؒ کی زیرِ قیادت 14اگست 1931کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسے جلوس نے کشمیری مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دیا اور 1932میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد ریاست سے ڈوگرہ راج ختم کر کے برٹش انڈیا سے الحاق کرنا تھا۔ یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ 1933میں شیخ محمد عبداللہ کی شادی اکبر جہاں نامی ایک خاتون سے ہوئی جو ایک برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کی سابقہ بیوی قرار دی جاتی ہے۔ اکبر جہاں کا باپ ہیری نیڈوز لاہور اور سرینگر میں نیڈوز ہوٹل کا مالک تھا۔ لاہور کے نیڈوز ہوٹل کی جگہ اب آواری ہوٹل بن چکا ہے۔ اسی ہوٹل میں ٹی ای لارنس آ کر ٹھہرا کرتا تھا اور کرم شاہ کے نام سے افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا۔ یہیں پر اس کی ملاقات اکبر جہاں سے ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ جب کلکتہ کے ایک اخبار ’’لبرٹی‘‘ نے لارنس آف عریبیہ کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ واپس بھاگ گیا اور جاتے جاتے اکبر جہاں نے اُس سے طلاق لے لی۔ اکبر جہاں کی شیخ عبداللہ سے شادی ہوئی تو موصوف کے خیالات بدل گئے اور 1939میں انہوں نے مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ 1944میں قائداعظمؒ سرینگر گئے تو مسلم کانفرنس نے اُن کے لئے استقبالیے کا اہتمام کیا۔ شیخ عبداللہ نے قائداعظمؒ کو نیشنل کانفرنس کے استقبالیے میں بھی شرکت کی دعوت دیدی۔ قائداعظمؒ نے دونوں کی دعوت قبول کر لی لیکن شیخ عبداللہ کو ذاتی ملاقات میں سمجھایا کہ وہ کانگریس سے دور رہے اور تحریک پاکستان کا حصہ بن جائے۔ بقول کے ایچ خورشید ایک ملاقات میں قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کو کہا کہ ’’عبداللہ تم دھوکہ کھائو گے، باز آ جائو اور مسلم کانفرنس کا ساتھ دو‘‘۔ اس مشورے پر شیخ عبداللہ چیخ اُٹھا اور اُس نے بیان دیا کہ ’’یہ جو باہر سے لوگ آتے ہیں اُنہیں کشمیر کی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، مسٹر جناح کو چاہئے کہ وہ کشمیر سے واپس چلے جائیں‘‘۔

جب پاکستان بن گیا تو قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کے پاس ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سردار شوکت حیات سمیت کئی نمائندے بھیجے لیکن شیخ عبداللہ ان سب سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتا رہا۔ اُس نے سردار شوکت حیات کو گرفتاری کی دھمکی دیدی اور کہا کہ میں تمہیں ایک خود مختار ریاست بنا کر دکھائوں گا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز پر دستخط کر دیئے تو شیخ عبداللہ کی پوزیشن کمزور ہو گئی لیکن اُس نے نہرو کے ساتھ مل کر ریاست کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے نہرو کو یہ تاثر دیتا تھا کہ پاکستانی حکومت اُس کے ساتھ رابطے کر رہی ہے۔ 1952میں اُس نے نہرو کے ساتھ معاہدہ دہلی پر دستخط کئے اور یوں آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا علیحدہ پرچم رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اس دوران شیخ محمد عبداللہ نے کچھ مزید اختیارات مانگے تو نہرو نے موصوف کو برطرف کر کے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے شیخ محمد عبداللہ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھا کہ اُسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدے گا۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے جنوری 1958میں اُسے رہا کیا گیا لیکن اپریل 1958میں دوبارہ گرفتار کر کے اُس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا جس میں چار پاکستانیوں کو بھی شریک جرم بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ بھارت کو پاکستان کے نام پر بلیک میل کرتا رہا اور کشمیریوں کے سامنے آزادی کا ہیرو بنتا رہا اور پھر 1974میں اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ 1982میں دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کا بیٹا فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ فاروق عبداللہ نے بھی ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ فاروق عبداللہ کے بعد اُس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ ریاست کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ آج یہ خاندان اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر دُہائی دے رہا ہے کہ بھارت سرکار نے ان کے ساتھ دھوکہ کر دیا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس خاندان نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اگر 1947میں شیخ عبداللہ اقتدار کی ہوس میں نہرو کا ساتھ نہ دیتا تو آج کشمیر آزاد ہوتا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی، شبیر شاہ اور دیگر حریت پسند رہنما ٹھیک تھے اور فاروق عبداللہ جیسے لوگ غلط تھے، جو آج بھی بھارتی آئین کے وفادار ہیں۔ فاروق عبداللہ کی رسوائی دراصل بھارت نواز کشمیریوں کی رسوائی ہے۔ دفعہ 370کا خاتمہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مضبوط اور بھارتی ریاست کو کمزور ریاست کو کمزور کرے گا۔ مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہو گ

https://jang.com.pk/news/667427-hamid-mir-column-8-8-2019

Can it be translated to English somehow ?
 
.
A situation that requires the wisdom of Solomon, cut the baby in half and give half to each
As per UN resolutions, the "baby" gets to decide his fate---Pakistan wants the baby to decide, India wants to force the baby to remain with her.

And whosoever tries to dilute Indian atrocities by peddling the " happens on both sides of LOC" BS is a hypocrite and a liar.

Can it be translated to English somehow ?
Translation:

Shenanigans of Sheikh Abdullah
 
.
Can it be translated to English somehow ?

Sorry, beyond my capabilities.

The gist of the article is that Sh Abdulla was responsible for Kashmir going to India. Farooq Abdulla's family have done whatever they could to stay in power for 3 generations. Therefore we should not be fooled by Farooq Abdulla shedding crocodile tears after cooperating the with Indian gov't for a very long time.
 
Last edited:
.
Sorry, beyond my capabilities.

The gist of the article is that Sh Abdulla was responsible for Kashmir going to India. Farooq Abdulla's family have done whatever they could to stay in power for 3 generations. Therefore we should not be fooled by Farooq Abdulla shedding crocodile tears after cooperating the with Indian gov't for a very long time.

This is the 'elephant in the room' of Kashmiri politics.

Many of the dissidents of Kashmir, those who crossed the border and became, first, activists, then, promoters of active violence, left democratic politics because of the obvious and blatant manner in which Farooq Abdullah was pushed into winning his own election. There is not much in Omar, either, although he is frequently positioned as the poster child of pro-Indian and democratic Kashmiri politician; he is as morally unwholesome as most of the politicians in Kashmir, including - prominently - the nauseating hypocrites of the Hurriyat.
 
.
This is the 'elephant in the room' of Kashmiri politics.

Many of the dissidents of Kashmir, those who crossed the border and became, first, activists, then, promoters of active violence, left democratic politics because of the obvious and blatant manner in which Farooq Abdullah was pushed into winning his own election. There is not much in Omar, either, although he is frequently positioned as the poster child of pro-Indian and democratic Kashmiri politician; he is as morally unwholesome as most of the politicians in Kashmir, including - prominently - the nauseating hypocrites of the Hurriyat.

Hi Joe.

Good to see you here again and back on the internet.

My paper please ....

Cheers, Doc
 
. .
Back
Top Bottom