What's new

Urdu & Hindi Poetry


اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں​

..........................
ہو لال مری، پت رکھيو بھلا، جھولے لالن
سندھڑی دا، سيہون دا، شہباز قلندر​

........................................
شکوہ نہ کر گلہ نہ کر،
یہ دنیا ہےپیارے یہاں غم کے مارے​

..............................
چاندنی راتیں، چاندنی راتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں

ان مقبول نغموں کے خالق مشیر کاظمی کی آج 46 ویں برسی ہے۔​


1638912590959.png
 
پوچھتا جا میری مرقد پہ ، گزرنے والے
کیا گزرتی ہے جان پہ ، مرنے والے

مرحبا ! اے دل و جاں لے کے مکرنے والے
ہاتھ کانوں پہ میرے نام سے ، دھرنے والے

داغِ دل ، داغِ جگر ،نقشِ وفا، نقشِ جفا
مٹانے سے نہ مٹیں گے یہ ، ابھرنے والے

آپ محشر میں بنیں قول کے سچے کیا خوب
انگلیاں اٹھیں گی وہ آئے ، مکرنے والے

داغ جنھیں کہتے ہیں دیکھیے وہ بیٹھے ہیں
آپ کی جان سے دور آپ پہ ، مرنے والے

داغ دہلوی
 

جانے اُس شخص کو , یہ کیسا ھنر آتا ھے
رات ھوتی ھے تو ، آنکھوں میں اُتر آتا ھے

اُس کی چاھت کا تو ، انداز جُدا ھے سب سے
وہ تو خوشبُو کی طرح ، رُوح میں دَر آتا ھے

بات کرتا ھے تو ، الفاظ مہک اٹھتے ھیں
جس طرح شاخِ مُحبت پہ ، ثمر آتا ھے

پُھول اُس کے لب و رخسار پہ ، مَر مٹتے ھیں
پیار شبنم کو ، بہ انداز دِگر آتا ھے

ایسا تتلی سا وہ نازک ھے کہ ، چُھو لینے سے
رنگ اُس کا ، میرے ھاتھوں پہ اُتر آتا ھے

تم تو کانٹوں ھی سے گھبرا کے ، پَلٹ جاتے ھو
عشق تو ، آگ کے دریا سے گزر آتا ھے

فاصلہ ، سات سمندر سے زیادہ ھے سلیمؔ
دل تو مِلنے کے تصًور سے ھی ، بَھر آتا ھے
سلیم کوثر
 
بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو
بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو
اب دُور دُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
مشکل ہے پھر مِلیں کبھی یارانِ رفتگاں
تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو
اُن کو تو یاد آئے ہُوئے مدّتیں ہُوئیں
جینے کی وجہ اور کوئی بات ہو تو ہو
کیا جانوں کیوں اُلجھتے ہیں وہ بات بات پر
مقصد کچھ اِس سے ترکِ ملاقات ہو تو ہو​

begāna-vār un se mulāqāt ho to ho
ab durr durr hi se koi baat ho to ho
mushkil hai phir mileñ kabhī yārān-e-raftagāñ
taqdīr hī se ab ye karāmāt ho to ho
un ko to yaad yaad aa.e muddateñ huiiñ
jiine kī vaj.h aur koi baat ho to ho
kyā jānūñ kyuuñ ulajhte haiñ vo baat baat pa
maqsad kuchh is se tark-e-mulāqāt ho to ho
Nasir Kazmi
 

کا رسالہ ماہانہ ہمدرد نونہال جنوری 1983​


1639165948290.png



ہمدرد کی انتظامی میٹنگ جاری تھی۔ اکاونٹنٹ کے پاس ایک موٹی سی فائل رکھی تھی۔ حکیم محمد سعید صاحب نے اسے مخاطب کیا اور پوچھا، اس فائل میں کیا ہے۔ اکاونٹنٹ نے فائل حکیم صاحب کو پیش کی اور بولا: ہم نے ہمدرد نونہال کی آمدنی اور خرچ کا دس سالہ گوشوارہ بنایا ہے ، اس کے اسٹاف کی تںخواہیں اور دیگر اخراجات کروڑ سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ آمدنی صرف چند لاکھ ہے۔ یہ رسالہ مسلسل خسارے میں ہے اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسے بند کردیا جائے، حکیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ' فائل ایک طرف سرکائی اور اکاونٹنٹ کو مخاطب کرکے بولے: اس رسالے سے جو منافع ہوتا ہے اسے سمجھنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ آگے چلیے ۔۔۔

بشکریہ: عقیل عباس جعفری صاحب​
 

مجھے گھر کے لحاف گدے آج بھی یاد آتے ہیں ۔ ان میں بیٹھ کر گرما گرم مونگ پھلیاں کھانا اور اس پر والدہ کا کہنا : کھا تو رہے ہو لیکن مونگ پھلی کے چھلکے لحاف پر نظر نہ آئیں ورنہ تمھاری خیر نہیں ۔ سخت سردی میں اپنے پیروں کے نیچے بھی اسی لحاف کی تہہ بنا کر سردی سے لطف اندوز ہونا کون بھول سکتا ہے ۔ لحاف سے نکل کر قدم بڑھاتے تو والدہ کی آواز آتی : خبردار جو ننگے پیر گئے ۔ اگر واش روم سے ہو کر لحاف میں آتے تو دیر تک ملی جلی کیفیت رہتی ۔ صبح اسکول جانے کے لیے جب والدہ لحاف کھینچتیں تو ٹھنڈک کی ایک لکیر جسم کو چیرتی چلی جاتی ۔

اب سردی آنے سے پہلے کا یہ رومانس ختم یو چکا ہے کیونکہ اب وہ ہاتھ کے بنے گدے لحاف جو گھروں میں نہیں رہے ہیں ۔ یہ گدے لحاف تیار ملنے لگے ہیں لیکن بیچ سے گھر ، دکان ، روئی ، دھنائی اور تاگا ڈلائی سب غائب ہے ۔ بس آپ پیسے دیں اور لحاف گدے لے لیں ۔ ہاتھ کے بنے لحاف گدے چوراہوں یا چند ایک دکانوں پر ملتے ہیں ۔ ان کی کوالٹی بیت خراب ہوتی ہے اور ایک سردی بھی نہیں نکال پاتے اسی وجہ سے یہ اتنی بڑی تعداد میں بکتے ۔ اصل میں ریڈی میڈ رضائیوں اور بلینکٹس کا زمانہ آگیا ہے ۔​
 
پابلو نرودا اور فیض

آپ نے پچھلے دنوں کہا کہ آپ جو کہنا چاھتے تھے وہ نہ کہہ سکے اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟

فیض نے دھیمے لہجے میں کہا کہ لوگوں کا ہمارے لئے پیار اپنی جگہہ لیکن ہم پوری دیانتداری سے کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی بڑا کام سرانجام نہیں دیا کہ جس پہ فخر کیا جا سکے

سوچا کہ کاش ہم اپنی شاعری کو درجہ کمال تک پہنچا سکتے اور پابلو نرودا ،ناظم حکمت یا لورکا جیسی شاعری کرسکتے ۔۔ یہ سب ہمارے ہم عصر ہیں ۔۔
عربی کی ایک کہاوت ہے کہ ۔۔
" ہم بڑے نہ تھے بڑوں کے اٹھ جانے نے ہمیں بڑا بنا دیا "

وہی پابلو نرودا جو کہا کرتا کہ اس کی شاعری چلی میں ہوا کی طرح ہر جگہہ موجود ہے ۔۔ جس نے فیض، لورکا اور ناظم حکمت کی طرح بیک وقت رومانی سیاسی اور انقلابی شاعری کی تھی

جس نے ہر بڑے شاعر کی طرح ناہموار سماج میں تبدیلی کے خواب دیکھے تھے ۔۔ جس نے کہا تھا کہ

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال سارے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہی ہیں
اسی چوک پہ خون بہتا رہا ہے

اسی چوک پہ قاتلوں کو سزا دو سزا دو، سزا دو ، سزا دو ، سزا دو

فیض نے ایک دوسرے زاوئیے سے یوں کہا تھا کہ

ہر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جم سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے

کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی

یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں پہ روز حساب ہوگا

جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اُچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اُٹھّے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہو ں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو



فیض صاحب لینن پرائیز لینے ماسکو پہنچے تو بڑی بیٹی ہمراہ تھی
وہی بیٹی جس نے بمبئی جاتے ہووئے باپ سے ایک فرمائیش کی تھی کہ وہاں سے آتے ہووئے دلیپ کمار کے آٹو گراف ضرور لیکر آئیں ۔۔

جب فیض صاحب بمبئی سے واپس لوٹے تو بیٹی نے باپ سے پوچھا کہ کیا آپ دلیپ کمار کے آٹو گراف لائے ؟ تو باپ نے شرمندگی سے کہاں کہ نہیں ۔۔

باپ نے دھیمے لہجے میں کہا کہ ابھی ہم اپنی جیب میں رکھی آپ کی آٹو گراف بک پہ دلیپ کمار سے آٹو گراف لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دلیپ کمار نے ہمارے آٹوگراف کی فرمائش کر ڈالی ۔۔

ماسکو کی ایک سرد شام پابلو نرودا سے ملاقات طے ہوئی ۔۔ شاید پہلا مشاعرہ رہا ہوگا جس میں اپنے وقت کے دو بڑے شاعر آمنے سامنے بیٹھ کر وقتا فوقتا شاعر اور سامع کا مقام بدل رہے تھے ۔۔

پابلو نرودا نے ہسپانوی زبان میں کلام کا آغاز کیا تو مترجم ترجمہ کرکے فیض صاحب کو سناتے اور فیض صاحب کی شاعری کا ترجمہ کرکے ہسپانوی زبان میں پابلو نرودا کو بتاتے جیسے جیسے رات گہری ہوتی گئی ترجمان کی ضرورت نہ رہی فیض صاحب اردو میں پڑھتے گئے اور پابلو نرودا ہسپانوی زبان میں

دل کی آواز دل تک پہنچانے میں زبانیں ثانوی ہوتی ہیں لہجہ اور آواز کا اتار چڑھاؤ ہی پیغام پہنچا دیتے ہیں ۔۔ بڑے تخلیق کاروں کے لئے مشترک سوچ ہی دوستی کی اساس ہوتی ہے ۔۔

پابلو نرودا کے ہاں بھی سیاہ رات اور صبح امید تھی اور فیض صاحب کے ہاں بھی داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر تھی ۔۔

پابلو نرودا کے ہاں ساحل سمندر لہروں جھاگ اور جل پری کا فسوں تھا ۔۔
دوبارہ دنیا میں آکر لہروں پتھروں جھاگ اور ساحل کی طرح جینے کی تمنا تھی ۔۔
مزاحمتی ادب پہ جبر کے ماحول میں نکھار آتا ہے ۔۔ فیض صاحب کے ہاں اسیری کی سیاہ رات میں بھی صبح امید کا دیا روشن تھا

شاعر تو آواز ہوتا ہے جو زنداں کی دیوار سے بھی چھن جاتا ہے ۔۔
فیض کے ہاں شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اترتی ہوئی رات تھی ۔۔
محبوبہ کے انداز میں بات کرتی ہوئی باد صبا تھی ۔۔ سر بالیں آکر جگاتی ہوئی سحر تھی ۔۔ شانہ بام پر دمکتا ہوا مہرباں چاندنی کا دست جمیل تھا ۔۔

شاعر بس خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے شاعر کوئی مصلح نہیں ہوتا نہ اس کے پاس ایسی کوئی غیبی طاقت ہوتی ہے جو سماج میں فوری تبدیلی لاسکے بڑے سے بڑا شاعر بھی محض اپنے دور کے سماج کا حصہ ہوتا ہے ۔۔ وہ ذھنوں کو بیدار کرتا ہے وہ لینن اسٹالن یا ماوزے تنگ نہیں ہوتا اس کا کردار صرف کارل مارکس کا کردار ہوتا ہے ۔۔ وہ صرف داس کیپیٹل لکھتا ہے

وہ ناظم حکمت ہوتا ہے کمال اتاترک نہیں ہوتا ۔۔

کہتے ہیں کہ علامہ اقبال سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کے اشعار نے ایک زمانے کو متاثر کیا آپ نے نوجوانوں کو یقیں محکم اور عمل پیہم کا سبق دیا ۔۔

حرکت حرارت اور عمل کو زندگی سے تعبیر کیا ۔۔ ایک سیماب صفت مرد مومن کی تصویر بنائی لیکن آپ خود دھوتی بنیان پہن کر حقہ لیکر چارپائی پر بیٹھے ہووئے ہیں ۔

علامہ نے بڑی خوبصورت بات کی کہ " قوالی میں قوال کو حال نہیں آنا چاھیئے "

حامد علی

( ابو اور ہماری چائے پر لگائی گپ شپ سے اقتباس)
 
261772585_2004643459699206_1993806868189548645_n.jpg

غریبی لڑتی رہی ٹھنڈی ہواؤں سے
‏امیروں نے کہا واہ کیا موسم آیا ہے..!
 

Latest posts

Pakistan Defence Latest Posts

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom