What's new

Urdu & Hindi Poetry


آج خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی برسی ہے۔

پروین شاکر نے ایک بار کہا تھا
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کی جواں مرگی نے اُن کی شہرت کو کم نہیں ہونے دیا۔ آج بھی اردو ادب میں جب ایک مکمل شاعرہ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پروین کے نعم البدل کے طور پر کوئی شاعرہ ادبی منظر پر نظر نہیں آتی


بشکریہ: زہرہ حسین

1640544637387.png





........


کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی
 
. . .

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

آج مرزا غالب کا یوم پیدائش ہے

مرزا غالب کی واحد اور نایاب تصویر​





May be an image of 1 person
 
.
Urdu Digest May 1966 Edition.

1640877649575.png



Urdu Digest is one the leading monthly magazines of Urdu language. It started publishing from Lahore in May, 1960. Dr. Aijaz Hasan Qureshi, Altaf Hasan Qureshi and Malik Zafar Ullah Khan are its pioneers and editors. Its writings present a traditional way of Pakistani life and covers a large variety of topics to promote positive thinking and national integration.

Courtesy : Hammad Ahmed / Ahmed Alvi
 
.
Death Anniversary 7th, Feb 1978
Sufi Ghulam Mustafa Tabassum (1899-1978)

1641068598259.png


A photo of his youth

He was a famous poet of Pakistan. He was well renowned for his poems for the children. He joined the Central Training College, Lahore, as a Lecturer, where he worked then till 1931. In 1931, Sufi Tabassum joined Government College, Lahore, from where he retired as Head of the Persian Department in 1954.



1641068649419.png
 
.

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
 
. .

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے

آج اس خوبصورت غزل کے خالق باقی صدیقی کی برسی ہے۔

وہ 20 ستمبر 1905ء کو راولپنڈی کے نواحی گاؤں سہام میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام قاضی محمد افضل تھا۔ میٹرک پاس کرکے گاؤں کے سکول میں مدرس ہو گئے۔ کچھہ عرصے بعد راولپنڈی آ گئے۔ سترہ برس ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور بے شمار پوٹھوہاری گیت لکھے۔ اردو کلام کے چار مجموعے۔ جام جم، دارورسن، زخم بہار اور بارِ سفر شائع ہوچکے ہیں۔ ’’کچے گھڑے ‘‘ پوٹھوہاری گیتوں کا مجموعہ ہے۔

زاد راہ کے نام سے نعتیہ مجموعہ اور "کتنی دیر چراغ جلا" کے عنوان سے ایک اور مجموعہ بعد از مرگ شائع ہوئے۔

باقی صدیقی کا 8 جنوری 1972ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا اور قبرستان قریشیاں سہام میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی لوحِ مزار پرانہی کے یہ دو اشعار کندہ ہیں:

دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
باقی ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھہ
صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا​



1641681379784.png
 
. .

انشا جی کو کُوچ کیے 44 برس ہوگئے
ابنِ انشا۔۔۔ اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ منفرد شاعر، ادیب، مترجم، مزاح نگار کالم نگار، سفر نامہ نگار تھے۔ ان کا شمار اردو کے صف اول کے مزاح نگار،شاعراور مایہ ناز قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میدانوں میں اپنی انفرادیت، فن اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔وہ نظم میں نئے لہجے اورنثر خصوصاً کالم نگاری اور سفرنامہ نگاری میں نئے اسلوب کے بانی تھے۔
جب دیکھ لیاہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اِس شہر سے دور
اِک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اس اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے۔۔۔!!!
May be an image of 3 people and people standing
 
. .

یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا

آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعر محسن نقوی کی برسی ہے۔​


1642201805677.png





اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
۔۔۔۔۔۔​


وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

 
. .

آج اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی ہے۔


منٹو 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔

ابتداءمیں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔

منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔انہوں نے بیس برس کی ادبی زندگی مین دو سو سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955ء کو جگر کی بیماری میں وفات پائی۔ وہ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔

--------------------------------------------------
اے حمید سعادت حسن منٹو سے اپنی آخری ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“میو اسپتال کی دوسری منزل کے میڈیکل وارڈ میں دروازے کے ساتھ ہی ان کا بستر لگا تھا۔ منٹو صاحب بستر پر نیم دراز تھے اور ان کی بڑی ہمشیرہ ان کو چمچ کے ساتھ سوپ پلانے کو کوشش کر رہی تھیں۔میں خاموشی سے بستر کے ساتھ بنچ پر بیٹھ گیا۔ منٹو صاحب بے حد نحیف ہوگئے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل کو بڑا دکھ ہو رہا تھا۔ میں خاموش بیٹھا تھا۔ منٹو صاحب نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا تو میں نے بڑے ادب سے پوچھا:
اب کیسی طبیعت ہے منٹو صاحب ؟ اس عظیم افسانہ نگار کے کمزور چہرے پر ایک خفیف سا اداس تبسم ابھرا اور صرف اتنا کہا:
دیکھ لو خواجہ!
اور اس کے کچھ ہی روز بعد سعادت حسن منٹو کا انتقال ہوگیا۔

اے حمید لکھتے ہیں کہ نریش کمار شاد جب دہلی سے لاہور آیا تو سعادت حسن منٹو کی قبر پر جاکر بہت رویا اور پھر کہا: “ خدا مسلمانوں کو خوش رکھے۔ہمارے پیاروں کا نشان (قبر) تو بنا دیتے ہیں۔“

(اے حمید کی کتاب یادوں کے گلاب سے اقتباس)​
 
.

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom