ہمارا بھی ایک زمانہ تھا!
پانچویں جماعت تک ھم سلیٹ پر جو بھی لکھتے تھے اسے زبان سے چاٹ کر صاف کرتے ، یوں کیلشیم کی کمی کبھی ہوئی ہی نہیں ۔
پاس یا فیل ۔۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔
ٹیوشن شرمناک بات تھی، نالائق بچے استاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان سمجھے جاتے۔
کتابوں میں مور کا پنکھ رکھنے سے ھم ذہین، ہوشیار ھو جاینگے، یہ ھمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
بیگ میں کتابیں سلیقہ سے رکھنا سگھڑ پن اور با صلاحیت ہونے کا ثبوت تھا۔
ہر سال نئی جماعت کی کتابوں اور کاپیوں پر کورز چڑھانا ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی۔
والدین ہمارے تعلیم کے تیئں زیادہ فکرمند نہ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہماری تعلیم ان پر کوئی بوجھ تھی، سالہا سال ہمارے والدین ہمارے اسکول کی طرف رخ بھی نہیں کیا کرتے تھے، کیونکہ ہم میں ذہانت جو تھی۔
اسکول میں مار کھاتے ہوئے یا مرغا بنے ہوئے ہمارے درمیاں کبھی انا (ego) بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا۔ انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا۔ مار کھانا ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی ، مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہ ہوا کرتی تھی۔
ھم اپنے والدین سے کبھی نہ کھ سکے کہ ہمیں ان سے کتنی محبت ہے ۔ نہ باپ ھمیں کہتا تھا ۔ کیونکہ I love you کہنا تب رائج نہ تھا اور ہمیں معلوم بھی نہ تھا،
کیونکہ تب محبتیں زبان سے ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ ہوا کرتی تھیں،
رشتوں میں بھی کوئی لگی بندھی نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ وہ خلوص اور محبت سے سرشار ہوا کرتے تھے۔
سچائی یہی ھے کہ ھم ( ہماری عمر یا زائد عمر کے سبھی افراد) اپنی قسمت پر ہمیشہ راضی ہی رہے، ہمارا زمانہ خوش بختی کی علامت تھا ،
اسکا موازنہ آج کی زندگی سے کر ہی نہیں سکتے۔