What's new

The terrorism which we never see

Bill Longley

SENIOR MEMBER
Joined
Apr 15, 2008
Messages
1,664
Reaction score
0
Country
Pakistan
Location
Pakistan
?BBC Urdu? - ????????? - ???? ????? ?? ???????
پاکستان میں جسم فروشی اگرچہ قانونی طور پر جرم ہے لیکن ملک میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق سے پیدا ہونے والی خلیج نے جس طرح جوان لڑکوں کو مجبور کیا کہ اپنی مالی حالت بدلنے کے لیے چوری چکاری کریں یا ڈاکے ڈالیں اسی طرح جوان لڑکیوں کو بھی پیسے کمانے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مجبور کیا کہ اپنے جسموں کو جنس بنا کر منڈیوں میں رکھیں۔ اس طرح جسم ایک جنس بنا اور جنس کے بھوکے مردوں نے اس کے دام لگائے۔ جتنا بکے گا دام اتنا ملیں گے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے دن بدن اس پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

صوبۂ پنجاب کی تحصیل چنیوٹ کے ایک گاؤں کی رہائشی کنیز فاطمہ ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ اس کے باپ نے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے سات بچوں کو پالا۔ کنیز کو میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اس کی شادی کر دی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن زندگی اس کے بعد کنیز کے لیے تنگ ہوتی گئی۔ کنیز کہتی ہے کہ اس کا شوہر کچھ نہیں کماتا تھا، اس کے دو بچے بھی ہوگئے۔اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے محنت مزدوری کرنے کی ٹھانی لیکن جس گھر میں وہ گھریلو ملازمہ بن کر گئی وہ ایک ’ڈیرہ‘ تھا۔

کنیز کے مطابق اس کے دھندے میں ڈیرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بہت سی لڑکیاں جسم فروشی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ کبھی یہ لڑکیاں بن سنور کر باہر جاتی ہیں اور کبھی گھر میں ہی اپنے گاہکوں سے ملتی ہیں۔ اس ڈیرے کا انتظام کوئی مرد یا کوئی عورت چلاتی ہے اور ایسی عورتوں کو میڈم یا آنٹی کہا جاتا ہے۔

اس ڈیرے میں عورتوں سے دھندہ کروانے والے شخص نے کنیز کو ’آسان‘ طریقے سے دولت کمانے کا گر بتایا۔ اس نے اسے منڈی بہاؤ الدین میں ایک ڈیرے پر بھیجا اور چونکہ کنیز پڑھی لکھی تھی اور حساب کتاب کر سکتی تھی اس لیے وہ ڈیرے کی انچارج بن گئی۔

اسی دوران اس کے شوہر کو اس کی حرکتوں کی خبر ہوئی۔ اس نے اسے گاؤں بلا کر گولی ماری جو اس کی ٹانگ پر لگی۔ کنیز نے شوہر سے طلاق لے لی اور ٹانگ کا علاج کروا کر ’مڈل وومن‘ بن گئی۔

لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے
کنیز فاطمہ
اب کنیز لاہور میں رہتی ہے اور لاہور اور دوسرے کئی شہروں کے ڈیروں پر لڑکیاں پہنچاتی ہے اور ان سے کمیشن لیتی ہے۔ اسے ایک لڑکی فراہم کرنے کے پانچ سے دس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ کمیشن کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق لڑکی کی خوبصورتی سے ہے۔

کنیز کہتی ہے کہ وہ ڈیرے والوں کو ضمانت بھی دیتی ہے کہ لڑکی بھاگے گی نہیں۔ اس کے مطابق غربت سے تنگ آئے ہوئے لڑکیوں کے ماں باپ، بھائی اور شوہر تک لڑکیوں کو اس کے پاس لاتے ہیں کہ انہیں کسی ڈیرے پر جسم فروشی کی نوکری دلا دے اور لڑکیوں کے یہ ورثاء ان کی کمائی ایڈوانس میں لے جاتے ہیں اور پھر ہر مہینے ڈیرے والوں سے پیسہ وصول کرتے ہیں۔

کئی لڑکیاں خود بھی کنیز کے پاس آتیں ہیں کہ ہمیں یہ کام دلا دو۔ یہ لڑکیاں اس جنسی مشقت کی قیمت بھی خود ہی وصول کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق ڈیرے سےاگر کوئی صرف چند گھنٹے کے لیے لڑکی کو لیتا ہے تو وہ ایک ہزار سے پندرہ سو تک دیتا ہے جس میں لڑکی کو دو تین سو ملتے ہیں باقی ڈیرے والی آنٹی رکھتی ہے اور تمام رات گزارنے پر لڑکی کو پندرہ سو سے دو ہزار تک مل جاتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ڈیرے کی انچارج نے خود کتنے وصول کیے۔

کنیز کے مطابق ’لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے‘۔

کنیز کہتی ہے کہ یوں تو وہ کئی شہروں کے ڈیروں میں لڑکیاں دینےجاتی ہے لیکن راولپنڈی، اسلام آباد اور بہاول پور کے ڈیروں سے اس کا زیادہ رابطہ ہے اور اس کے بقول وہاں کے ڈیروں پر دو دو سو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے سبب کئی لڑکیوں کے ورثاء ان سے یہ پیشہ کرواتے ہیں لیکن کئی لڑکیاں اپنی مرضی سے کام کرنے آتی ہیں۔کئی ایک کے گھر والے یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کام کرتی ہیں۔

اس دھندے میں ہر طرح کی لڑکیاں ہیں لیکن کنیز کے بقول اس کے پاس وہی زیادہ آتی ہیں یا لائی جاتیں ہیں جن کا مسئلہ غربت ہوتا ہے۔

کنیز کے گھر میں لاہور ہی کی ایک لڑکی ندا رہائش پذیر ہے۔ بیس سال کی عمر، رنگ گورا اور معصوم سا دل لبھانے والا چہرا۔

جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا
ندا کا کہنا ہے کہ وہ ماں کی مرضی سے اس پیشے میں آئی ہے۔’جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا۔‘ اس وقت ندا کی عمر چودہ سال تھی اور بقول اس کے وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کرنا کیا ہے۔

ندا کی کہانی بھی ان ہزاروں لاکھوں غریب لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں غربت وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جسے معاشرہ اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک سال کی تھی کہ باپ چل بسا، بڑا بھائی ہے جو ہیروئن کا نشہ کرتا ہے اور اسے باقی چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا ہے۔ ندا کہتی ہے کہ اس کے گھر میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس دھندے سے وابستہ ہے۔ اس کی سہلیاں تک یہ نہیں جانتیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ راز کبھی کھلنے نہ پائے کیونکہ بقول اسکے اپنے پیٹ سے کوئی خود کپڑا اٹھاتا ہے۔

ندا کی پیشہ ورانہ زندگی کی کئی تلخ یادیں ہیں جو ندا کو بہت افسردہ کر دیتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاہک نے ڈیمانڈ پوری نہ کرنے پر اس سے بہت بد سلوکی کی۔ایک بار گاہک نے اسے برہنہ کمرے سے باہر نکال دیا۔ ندا کو تمام دوسری لڑکیوں کی طرح شادی کرنے کا شوق ہے۔اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا کمانے والا شوہر ہو جو زندگی کی تمام ضروریات پوری کرے، سسرالی رشتے دار ہوں اور اس کے بچے ہوں۔ لیکن اسے ڈر لگتا ہے کہ جس پیشے سے وہ وابستہ ہے ایسا لگتا ہے کہ کبھی بھی کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا۔

ندا کو اپنا پیشہ برا لگتا ہے وہ کہتی ہے کہاگر حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے خاندان کے اخراجات اٹھا لے جس میں زیادہ کچھ نہیں بس مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، مہینے کا راشن اور کچھ پیسے بہن بھائیوں کے کپڑے جوتوں کے لیے مل جائیں تو وہ اس دھندے کو چھوڑ دے گی۔

ندا کے برعکس ماریہ اس پیشے میں اپنی مرضی سے آئی۔ اس کے بقول اس کا شوہر نکھٹو تھا، اس کے دو بیٹے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے اور انہیں زندگی کی ہر سہولت دے۔ ماریہ کی ایک سہیلی نے اسے پیسہ کمانے کا یہ طریقہ بتایا اور اس طرح وہ اس دھندے میں آ گئی۔

ماریہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکی ہے۔ کئی شہروں کے ڈیروں پر جسم فروشی کرتی رہی لیکن زیادہ وقت گزرا جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں۔ماریہ بتاتی ہے کہ وہ وہاں ہوٹلوں میں بھی اور بڑے بڑے گھروں میں بھی اپنے گاہکوں کے پاس جاتی تھی۔

ماریہ کے بقول اس کے گاہکوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں یہاں تک کہ گورے یعنی غیر ملکی بھی اس کے گاہک ہیں اور وہ اسے ٹپ بھی دیتے ہیں۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ دوسرے شہروں کی نسبت اسلام آباد کے لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ کافی بہتر رہا۔ ’وہ ڈیسنٹ تھے۔ ان کا اٹھنے بیٹھنے کا، بات کرنے کا، کھانے پینے کا طریقہ کافی اچھا تھا۔‘

میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے
ماریہ نے کہا کہ ’کوئی ہمیں اپنا تعارف تو نہیں کراتا لیکن انسان کے رویے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی بڑا افسر یا بڑا آدمی ہے۔‘

اس پیشے میں کافی تجربہ کار ہونے کے باوجود ماریہ اپنی آمدنی کے لیے ڈیرے والوں کی محتاج ہے کیونکہ ڈیرے والے تمام لڑکیوں کی کمائی خود وصول کرتے ہیں اور پھر اپنا حصہ رکھ کر لڑکی کو دیتے ہیں۔ ماریہ کہ بقول انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ڈیرے والے نے گاہک سے کتنا وصول کیا البتہ ٹپ ہماری ہوتی ہے۔

ماریہ کہتی ہے کہ اسلام آباد میں وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ماہانہ کما لیتی تھی لیکن اخراجات زیادہ ہیں اور بچت نہیں ہوتی۔ اخراجات میں وہ طبی ٹیسٹ بھی شامل ہیں جو ماریہ کو ہر دو ماہ بعد کروانے پڑتے ہیں جن میں ایڈز تک کا ٹیسٹ شامل ہے اور ان ٹیسٹوں کے لیے اسے کافی رقم خرچنا پڑتی ہے۔

اسلام آباد میں اچھی آمدنی کے باوجود ماریہ لاہور آ گئی کیونکہ اسے اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور وہاں بڑے بڑے ہوٹلوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ڈر لگنے لگا تھا۔ ماریہ کے بچے اسکی ایک منہ بولی بہن کے پاس ہیں اور انگریزی میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں۔ اب اس کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو اس دھندے کو چھوڑ نہیں سکتی۔ لیکن ماریہ کو احساس ہے کہ آخر کب تک کوئی عورت جسم فروشی کر سکتی ہے آخر عمر تو بڑھتی جاتی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور انتظام ہو جائے۔

ماریہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک امیر آدمی نے داشتہ بنانے کی پیشکش کی ہے ’جو مجھے مکان بھی لے کر دے گا اور میرے بچوں کی پڑھائی سمیت میرے تمام اخراجات اٹھائے گا۔ اس آدمی کی بیوی کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ اس کی بیوی بہت فربہ ہے اور وہ اپنے شوہر کو خوش دیکھنا چاہتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے۔‘

کنیز کے پاس اس پیشے سے منسلک چند خوفناک کہانیاں بھی ہیں اور ان لڑکیوں سے مل کر لگتا ہے کہ شاید سب ہی کے ذہنوں پر اس طرح کی کہانیوں کا خوف ہے۔ ایک بار کنیز نے ایک لڑکی کومنڈی بہاؤ الدین میں گاہکوں کے پاس بھیجا، وہ جرائم پیشہ تھے اور انہوں نے اس لڑکی کے سامنے اپنے ہی ایک ساتھی کو مار کر نہر میں پھینک دیا۔لڑکی اتنی خوفزدہ ہوئی کہ کئی ماہ بستر پر پڑی رہی۔

ملکوال کے علاقے میں ایک ڈیرے والی کو اس کے عاشق نے بے وفائی پر گولی مار دی لیکن کوئی کیس رجسٹر نہ ہوا۔ کنیز بتاتی ہے کہ کئی گاہک انلڑکیوں کو بھی شراب پلانا چاہتے ہیں جو شراب نہیں پیتیں۔ کئی طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں اور اگر لڑکی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرتی تو اسے گولی مار کر لاش غائب کر دیتے ہیں اور ڈیرے والی آنٹی یا اس کے وارثوں کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی لڑکی بھاگ گئی ہے۔

اس پیشے میں آنے والی کئی لڑکیاں نشہ کرنے لگتی ہیں۔ پیشے کا خوف اور تھکن ان لڑکیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ زنگی کی تلخیوں کو بھلانے کے لیے نشے کا سہارا لیں۔

ڈیروں پر گردش کرنے والی ان عبرت ناک کہانیوں کے باوجود پاکستان میں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور کنیز فاطمہ کے بقول ہر گلی محلے میں ایسے ڈیرے ہیں جہاں لڑکیاں جسم فروشی کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق جب سے وہ اس پیشے میں آئی ہے اس میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا ہے اور اتنی کم سن لڑکیوں کو خود ان کے ورثاء لے کر آتے ہیں کہ ’میرا بھی دل دہل جاتا ہے۔‘

پاکستان میں کہ جہاں بڑھتی ہوئی غربت دہشت گردی اور خود کش حملوں کا ایک سبب کہی جاتی ہے وہاں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی لڑکیوں میں اضافہ بھی غربت کا ہی شاخشانہ ہے۔
 
.
i ONLY ASK ONE THING
WHO MUCH LOW SOCIETY CAN GO
R WE MUSLIMS?
ARE WE PAKISTANIES?
ARE WE EVEN HUMANS?

GHERAT WOH JO HER GHERAT MAND KE GHERAT KA KHYAL RAKHAY
 
. . .
this happens in every society. prostitution will always be there. it is present in the most prosperour and poorest of countries. there are certain things that will always remain no matter what and no matter how heinous and saddening.
 
.
brother why to forget rich are forceing poor in major cases to prostitution
 
. .
Well, It seems true......people are moving towards wrong acts.
Reason behinds could be...

Lack of education.
Most of the Wadeera and Chodharies are illetrate and have evil mind especially in Punjab, They have so much money that they even dont respect humanity.

We need educated people in ministeris to handle all Pakistan social , economical, security and ofcourse moral problems.
 
.
Prostitution in the Islamic Nation of Pakistan
Friday, November 14, 2008
By Insaan™
Share This Article
by William Sparrow



BANGKOK – Prostitution in the Islamic nation of Pakistan, once relegated to dark alleys and small red-light districts, is now seeping into many neighborhoods of country’s urban centers. Reports indicate that since the period of civilian rule ended in 1977, times have changed and now the sex industry is bustling.

Early military governments and religious groups sought to reform areas like the famous “Taxali Gate” district of Lahore by displacing prostitutes and their families in an effort to “reinvent” the neighborhood.

While displacing the prostitutes might have temporarily made the once small red-light district a better neighborhood for a time, it did little to stop the now dispersed prostitutes from plying their trade. Reforming a neighborhood, instead of offering education and alternative opportunities, appears to be at the core of early failures to curb the nascent sex industry. This mistake would become a prophetic error as now the tendrils of the sex trade have become omnipresent in cities like Islamabad, Rawalpindi, Karachi and Lahore, not to mention towns, villages and rural outposts.

An aid worker for an Islamabad-based non-governmental organization (NGO) recently related a story: quickly after his arrival in the capital, he realized the house next to his own was a Chinese brothel. The Chinese ability to “franchise” the commercial sex industry by providing down-trodden Chinese women throughout Asia, North America and Europe would be admirable in a business sense if it were not for the atrocities – human trafficking, sexual slavery and exploitation – which cloud its practice.

Chinese bordellos, often operating as “massage parlors” or beauty salons, are across Pakistan, even spread even to war-torn and restive locations such as the Afghan capital Kabul. Chinese in the sex industry have developed a cunning ability to recognize areas where the demand for sex far outstrips the supply.

The NGO worker said that after months of living adjacent to the brothel things were shaken up – literally. One evening a drunk Pakistani drove his car into the brothel. Later the driver told authorities the ramming was a protest by a devout Muslim against the debauchery of the house and its inhabitants. The NGO worker, however, had seen the same car parked peacefully outside the house the night before.

The local sex industry comprised of Pakistani prostitutes has also grown in recent years. One can easily find videos on YouTube that show unabashed red-light areas of Lahore. The videos display house after house with colorfully lit entranceways always with a mamasan and at least one Pakistani woman in traditional dress. The women are available for in-house services for as little as 400 rupees (US$6) to take-away prices ranging 1,000 to 2,000 rupees. These districts are mostly for locals, but foreigners can indulge at higher prices.

Foreigners in Pakistan have no trouble finding companionship and may receive rates similar to locals in downtrodden districts. More upscale areas like Lahore’s Heera Mundi or “Diamond Market”, cater to well-heeled locals and foreigners. At these places prettier, younger girls push their services for 5,000 to 10,000 rupees for an all-night visit, and the most exceptional can command 20,000 to 40,000 rupees for just short time.

Rumors abound online that female TV stars and actresses can be hired for sex. “You can get film stars for 50,000 to 100,000 rupees but you need good contacts for that,” one blogger wrote after a trip to Lahore.

“The Lahore, Karachi and Rawalpindi sex scenes are totally changing and it’s easier and easier to get a girl for [sex],” another blogger wrote. “Most of the hotels provide you the girls upon request.” Bloggers also reported that it is easy to find girls prowling the streets after 6 pm, and foreigners can find young women hanging out near Western franchises like McDonald’s and KFC. Such women, the bloggers claim, can lead the customer to a nearby short-time accommodation.

Short-time hotels offering hourly rates can be found all over major cities, underscoring the profits being reaped by the sex industry.

Pakistan can also accommodate the gay community with prostitution. Unfortunately, this has also given rise to child prostitution.

A Pakistani blogger wrote, “We [ethnic] Pathans are very fond of boys. [In Pakistan] the wives are only [had sex with] once or twice a year. There are lot of gay brothels in Peshawar – the famous among them is at Ramdas Bazaar. [One can] go to any Afghan restaurant and find young waiters selling sex.”

As in many societies, access to technology, the Internet and mobile phones has only facilitated the sex trade in Pakistan. “Matchmaking” websites serve the male clientele, while providing marketing for prostitutes.

The root causes of prostitution in Pakistan are poverty and a dearth of opportunities. Widows find themselves on the streets with mouths to feed, and for many prostitution offers a quick fix. A local Pakistani prostitute can earn 2,000 to 3,000 rupees per day compared to the average monthly income of 2,500 rupees.

Forced prostitution is not rare. Women in hard times are often exploited and pushed into prostitution. Sandra (not her real name), said that after the death of her father she was left alone; friends and relatives deserted her after the grieving period. As a middle-class, educated woman she was surprised to find herself forced into prostitution from her office job.

“My boss initially spoiled me at first,” she told Khaleej Times. “[But] now I am in [the sex industry].” Sandra first thought her boss was being gracious, but quickly learned he was grooming her for sex for his own pleasure, and then acting as her pimp.

Many of Pakistan’s contemporary sexual mores may have evolved from traditional practices. For example, the polygamy permitted in Muslim society stemmed from the need for larger family units, the better to support familial ties and tend for widows. Until such ancient customs are updated, women such as Sandra will continue to be bought and sold.

It’s time for Pakistan to admit that prostitution is doing a roaring trade within its borders, and will continue to prosper until it is addressed in a modern manner. Let us hope that the people and government of this proud Muslim country will stop pretending the problem simply isn’t there.

No doubt poverty is sourse of terrorism,prostitution,corruption and all crimes of society ,but root cause of poverty is Illiteracy .
 
.
I strongly belive that all causes of our sufferings leads to palaces of our elite

God save us from our parasitic elite
 
.
Corruption level is usually high in Upper- upper class or lower-lower class.

Woman is test for Men and Wealth is test for Women!
 
.
Well do you know what are the top three buisnesses which can make you richer than bilgates in just a two years time.

1. Oil Drilling
2. Drug Trafficking
3. Prostitution and Human Smuggling.

Wel this is what an economic downturn can do to a society and culture.
 
. . . .

Pakistan Defence Latest Posts

Back
Top Bottom