عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ:
قتلت یوم قتل الثور الابیض
(میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).
اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی. ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا.
ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے.
شیر نے ایک چال چلی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا. لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی.
لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا.
پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا.
سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا, بہت آوازیں دیں, پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا.
مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا.
وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا.
تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا. جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).
امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے. سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی. کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں.
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا.
ہم نے باری باری افغانستان, عراق, فلسطین, شام, بوسنیا, چیچنیا, کشمیر, برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا, حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے, فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں, عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے, برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضاء کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا, افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر "بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی.
*ذرا غور کیجیےء بھائی کہ کہیں ہم سب بھی لال بیل تو نہیں بن گئے ہیں...!!!*
اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ:
" قتلت یوم قتل الثور الابیض "
"مومنوں متّحد ہوجاؤ