What's new

VIDEO: Following Prophet (PBUH), we should also sign deals with Jews to bring peace: PTI MNA

View attachment 518835

View attachment 518836

View attachment 518837

View attachment 518838

View attachment 518839

ہماری اسمبلیوں میں ایسی عجیب وغریب تقریریں ہورہی ہیں.
اس کی بھی کوئی فکر ہو اے چارہ گر!
ابھی تو کہنے والوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کہنا کس طرح ہے..
مگر تادیر یہ صورتحال برقرار نہیں رہے گی.

View attachment 518840

To aap bhi apne dushman ko parhana chahtay hain?
 
.
It seems unfortunately Molana diesel was right about Imran Khan and PTI.
View attachment 518835

View attachment 518836

View attachment 518837

View attachment 518838

View attachment 518839

ہماری اسمبلیوں میں ایسی عجیب وغریب تقریریں ہورہی ہیں.
اس کی بھی کوئی فکر ہو اے چارہ گر!
ابھی تو کہنے والوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کہنا کس طرح ہے..
مگر تادیر یہ صورتحال برقرار نہیں رہے گی.

View attachment 518840
 
. .
JI slams PTI for proposing to recognize Israel

  • November 13, 2018
Gujrat

Ameer, Jamaat e Islami, Pakistan, Senator Sirajul Haq, has strongly condemned the suggestion from a PTI MNA parliament for linking the Qibla e Awal with the Zionists and proposing the recognition of Israel. Speaking at the JI Ijtema at Gujrat, he called upon the government to immediately clarify its stance on the sensitive issue. He termed the idea a negation of the Muslim world’s 1400 years old stance on Baitul Maqdis, and said the suggestion had hurt the sentiments of the entire Muslim Ummah.

Sirajul Haq said the PTI woman member Asma Hadeed, was either totally ignorant of the Islamic teachings or the government was deliberately advancing the foreign agenda in this regard. He said that Israel had been occupying the Qibla e Awwal by force and the Palestinians were fighting for its liberation. Lakhs of Palestinians had laid down their lives for this cause. He said that such a move from a ruling part y member was extremely shocking. He said the government should immediately disown the suggestion.

https://pakobserver.net/ji-slams-pti-for-proposing-to-recognize-israel/
 
.
img-20181113-wa0004-jpg.518835
How come Prophet Muhammad (SAW) "wish" something related to Islam? All he said or did was commandment of Allah.

How did you find those Ayats are referring to Jews and Christians? There is no mention of it in the text.

Some sources claim Prophet Muhammad (SAW) great grandmother was a Jew. This makes him part-Israeli.

Again a great lie. Before Muslims invaded Palestine, the land was ruled by Romans and Persians, and before them Jews or Israelis. Read history before lying about it.

Its so hilarious that a thread about Jewish-Israeli relations has no input from Jews and Israelis. Sums up Pakistani IQ in a nutshell.

@Natan @Mountain Jew @500 @Solomon2
 
.
Must Read...

اقصیٰ کی مظلوم پکار

masjid-aqsa.jpg


جب 1917ء کے اعلان بالفور کو سو سال اور 1967ء کے قبضۂ القدس کو پچاس سال گزر چکے تھے تو کچھ نہ کچھ ہونا ہی تھا۔ قوم یہود بنواسحٰق سے ہے اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کے متعلق قرآن پاک فرماتا ہے کہ وہ ’’غلام علیم‘‘ تھے یعنی خوب علم و فہم رکھتے تھے۔ منصوبہ بندی بھی ایک علم ہے اور قوم یہود سو سال، پانچ سو سال اور ہزار سال کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے اپنی ذہانت اور منصوبہ بندی کی صلاحیت کو ہمیشہ غلط مصرف میں بے دریغ استعمال کیا جس کی بنا پر خدائی غضب اور آسمانی مصیبت کا شکار ہوئی اور آج تک ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج یہ اللہ اور بندوں کی نظر سے گر کر یوں سارے زمانے کی نفرت اور پھٹکار کا شکار نہ ہوتے۔

عراق کے بعد جب بیٹھے بٹھائے شام کا قضیہ شروع ہوا تھا تو اسی وقت ماتھا کھٹتا تھا کہ گولون کی پہاڑیوں پر اکتفا نہ ہوگا، بلکہ یہ نیل سے فرات تک کی توسیع کا خاکہ بند منصوبہ ہے۔ پھر جب حرمین کے مشرقی جانب سے بحرین اور جنوبی حمیت کے یمن کا قصہ شروع ہوا تو بات کافی واضح ہوگئی تھی۔ اس سے بھی پہلے جب ہمارے ہاں قوم یہود کا جھوٹا چاٹنے والوں نے فلسطین کی وراثت اور مسجداقصیٰ کی تولیت پر مقالے لکھ لکھ کر ارضِ مقدس اور بیت مقدس کو یہود کے حوالے کرنے کی وکالت شروع کی تھی تو اس وقت بات واضح ہوگئی تھی کہ بلاوجہ یہ مہم نہیں چل رہی۔ وظیفہ خواروں کی اس محنت کے بعد کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ برما سے شام تک عرب سے عجم تک بھڑکائی گئی آگ سے جو دھواں اٹھ رہا ہے اور اس دوران جو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں ان کی آڑ میں کوئی بڑا کھیل کھیلا جائے گا۔

اگلے پچاس سال میں لگتا یوں ہے کہ مسجداقصیٰ کی جگہ… معاذاللہ… ہیکل سلیمانی اور اس کے بعد سب… خاکم بدھن… اگلے پچاس سال میں نیل سے فرات (یعنی چوڑائی میں مصر سے عراق) اور صنوبر سے کھجور والی سرزمین (یعنی لمبائی میں لبنان سے مدینہ منورہ تک) ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ 2012ء نہ سہی تو 2017 ء میں جو کچھ ہوا اس پر تعجب کے بجائے اب آگے کی فکر کرنی چاہیے۔

منصوبہ کی اصل بنیاد یہ ہے کہ روئے زمین کے مسلمانوں کو القدس کے اہم اور نازک ترین مسئلے سے بے خبر رکھا جائے اور مسجداقصیٰ کی عظمت و اہمیت سے اتنا لاتعلق کردیا جائے کہ انہیں زمینی حقیقت کا علم ہو نہ آسمانی احکام کا، اس دوران بیرونی زائرین کی مسجداقصیٰ آمد کم سے کم اور ایسے شیڈول کے تحت رکھی جائے کہ انہیں کسی قسم کی سنگینی کا احساس نہ ہو۔ اندرونی زائرین پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کی جائیں۔ مثلاً یہ کہ 50 سال سے کم مرد اور 40 سال سے کم عمر کی خاتون مسجد میں نہ آسکے۔ نئی نسل کو حرام خوراک اور حرام کرتوتوں (سود اور زنا) میں اتنا ملوث کردیا جائے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہوجائیں، اقصیٰ کو کسی اور دنیا کا قضیہ سمجھیں، اس دوران مسلم حکمرانوں کو ’’گاجر اور چھڑی‘‘ کے ٹوٹکے کے ذریعے اور غیرمسلم حکمرانوں کو ’’چارہ اور دانہ‘‘ کی تدبیر کے ذریعے قابو رکھا جائے۔ قرآن کی شہادت ہے کہ قومِ یہود ہمیشہ دیوار کے پیچھے یا کندھے کے سہارے لڑتی ہے۔ غیرمسلم حکمران ان کے لیے دیوار ہیں اور مسلم حکمران ان کو کندھا دینے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔

لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ سب سے پہلے تو القدس کی اہمیت اور بیت المقدس کی عظمت سے آگاہی اور ان سے وابستگی کو زندہ کیا جائے۔ اس کے لیے تصویری پریزنٹیشن سے لے کر عمومی آگاہی مہم سے آغاز کیا جائے۔ مسلمانوں کی خصوصیت ہے کہ اسمٰعیل قرآن کریم کی پیشین گوئی کے مطابق نہایت حلیم اور بردبار ہیں۔ دشمن سے درگزر کرتے رہتے ہیں، لیکن جب انہیں حد سے تجاوز کا علم ہوجائے تو پھر یہ مشکل سے مشکل قدم اٹھالیتے ہیں۔ جب آگاہی کا عمل ہوگا تو کوئی نہ کوئی قدیم خان یا طیب اردگان پیدا ہو ہی جائے گا۔ اور کوئی نہ کوئی حل کسی نہ کسی شکل میں نکال ہی لیا جائے گا۔

فلسطین کا کل رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر اور مسجداقصیٰ کی کل پیمائش ایک لاکھ 44 مربع میٹر ہے۔ ترکی کے نظریاتی کارپردازوں نے فلسطین کی خاطر ’’وقف الامۃ‘‘ کے نام سے ایک بہت بڑا وقف بنایا ہے۔ اس کا مقصد خود بھی حصہ ڈالنا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینا ہے کہ اگر ہر مسلمان حکومت پورے فلسطین یا اس کے دارالحکومت القدس کا کچھ حصہ مل جل کر گود نہیں لیتی تو غیرمند مسلمان مل جل کر یہ کام کرسکتے ہیں کہ مسجداقصیٰ کی چار دیواری کے اندر آنے والے ایک لاکھ 44 ہزار مربع میٹر میں سے ایک میٹر کو گود لے لیں۔ اس کو آباد رکھنے کے لیے کاوشیں کریں۔ اس وقت فلسطینی مسلمان دسویں درجے کے شہری اور مسجداقصیٰ جیسی عظیم وقف ناگفتہ بہ حالت میں چالیسویں درجے جیسی عمارت بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی کوئی دیکھ بھال نہیں۔ آئے دن کی کھودی جانے والی سرنگیں اور اسرائیلی فوجیوں کے ہنگامے اس پر مستزاد ہیں۔ اسرائیل اور اسرائیل نواز صحافی دنیا کو کچھ اور چہرہ دکھاتے ہیں، جبکہ حقیقت انتہائی اندوہناک ہے۔

الغرض! اقصیٰ کے عاشقوں کے لیے کرنے کا کام اس وقت یہ ہے کہ وہ اقصیٰ کے متوالوں کے آنسو پونچھیں اور فی الحال اس نظریے کو زندہ کرنے میں جت جائیں کہ بیت اللہ حرم مکی ہے، روضۂ اقدس حرم مدنی ہے تو پر مسجد اقصیٰ سارے مسلمانوں کا حرم قدسی ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے جس سے، جہاں جو بن پڑتا ہے اور اس سے دریغ نہ کرے۔ کم از کم جن لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے قدسیوں سے تعاون اور القدس کی حفاظت کی قسم کھائی ہے، ان سے تعاون کرے۔ کل حرمین کی حفاظت کی طرح اس مظلوم حرم کی حفاظت کے بارے میں بھی ہم سے ضرور سوال ہونے والا ہے اور سچ بات یہ ہے کہ آخرت سے قبل دنیا ہی میں ہونے والا ہے۔

http://zarbemomin.com.pk/index.php/mufti-abu-lubaba-shah-sab/1528-aqsa-ki-mazloom-pukar
 
.
الغرض! اقصیٰ کے عاشقوں کے لیے کرنے کا کام اس وقت یہ ہے کہ وہ اقصیٰ کے متوالوں کے آنسو پونچھیں اور فی الحال اس نظریے کو زندہ کرنے میں جت جائیں کہ بیت اللہ حرم مکی ہے، روضۂ اقدس حرم مدنی ہے تو پر مسجد اقصیٰ سارے مسلمانوں کا حرم قدسی ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے جس سے، جہاں جو بن پڑتا ہے اور اس سے دریغ نہ کرے۔ کم از کم جن لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے قدسیوں سے تعاون اور القدس کی حفاظت کی قسم کھائی ہے، ان سے تعاون کرے۔ کل حرمین کی حفاظت کی طرح اس مظلوم حرم کی حفاظت کے بارے میں بھی ہم سے ضرور سوال ہونے والا ہے اور سچ بات یہ ہے کہ آخرت سے قبل دنیا ہی میں ہونے والا ہے۔
Jews have no less rights and claims to Palestine than Muslims or Christians. After all it was their forefathers that first established a Kingdom here:
800BC_Detail_Two_Kingdoms.png

And this was 2000 years before Islam, and a 1000 years before Christianity.
 
.
This post is brought to you by PML-N!!! True pillars of Islam(currently all leadership is in jails for corruption and theft, PML-N minister of finance on the run with stolen money).:enjoy:
 
.
This post is brought to you by PML-N!!! True pillars of Islam(currently all leadership is in jails for corruption and theft, PML-N minister of finance on the run with stolen money).:enjoy:
They are intellectually and morally bankrupt. Their leaders have personal business relationships with both India and Israel, and they cry here against having any national relationship with those countries. You can define Patwaris in one word: Hypocrites
 
.
Jews have no less rights and claims to Palestine than Muslims or Christians. After all it was their forefathers that first established a Kingdom here:
800BC_Detail_Two_Kingdoms.png

And this was 2000 years before Islam, and a 1000 years before Christianity.
hindus or idol worshippers have claim over Pakistan it was their ancestors who lived in Pakistan before Islam arrived! your point?
 
.
خاموش کھلاڑی بولتا کھیل


khamosh-khilari.jpg


سانپ تیزی سے حرکت کررہا ہے۔ یہ سانپ نہیں اژدھا ہے۔ سانپوں کو تو عصائے موسوی نگل گیا تھا۔ یہ وہ اژدھا ہے جو سامری وقت کی پٹاری سے برآمد ہوا ہے۔ اس اژدھا نے دم کو اپنی جگہ ٹکاکر منہ کی طرف سے حرکت شروع کی تھی۔ یہ حرکت تقریباً ستر سال پہلے (1948ئ) میں شروع ہوئی تھی اور بنی اسرائیل کے بارہ میں سے دس قبیلے ’’یروشلم واپسی‘‘ کی مہم کے تحت ’’ارض موعود‘‘ میں آآکر بسنا شروع ہوگئے تھے۔ اب گیارہویں قبیلے کے لیے ’’آزاد کردستان‘‘ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ جو قوم غیراسرائیلی خون کو ’’جنٹائل‘‘ اور ’’گویم‘‘ قرار دے کر اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتی، وہ سیکولر کردوں کو یوں گلے سے لگائے کھڑی ہے جیسے وہ اس کا بچھڑا ہوا گیارہواں بھائی ہو۔


حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ دس ایک بیوی سے اور دو دوسری زوجہ سے۔ ان بارہ کا سردار اور اس کے مشیر تو پہلے بطن میں سے تھے، لیکن ان کا چمکتا ستارہ وہ گیارہواں بھائی تھا جس کی جدائی پر اس کے والد محترم کی آنکھیں غم میں سفید ہورہی تھیں، لیکن وہ کنعان کے کنویں سے لے کر مصر کی وزارت تک اپنے اس باپ شریک بھائیوں سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ جس طرح اس زمانے میں سورج، چاند اور بارہ ستارے اکٹھے ہونے تک اجتماعی سجدہ نہ ہوا تھا، اس طرح بزعم یہود آج بھی بچھڑے ہوئے دو بھائیوں کے بغیر بارہ قبیلوں کا ستارہ گردش میں ہے۔ صہیونی افسانہ طرازوں کے نزدیک یہ داستان جس طرح کسی زمانے میں سچی تھی، آج بھی اپنی تکمیل کا سفر کررہی ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ قوم یہود کی اور کون سی بات سچی تھی کہ یہ جدید غزل بھی سچی ہو۔

بات اتنی سی ہے کہ قومِ یہود اپنے آخری انجام کے لیے ارضِ مقدس میں بالجبر والمکر آتوگئی تھی، اور اسرائیل قائم ہوگیا تھا، لیکن اب قیام کے بعد اسے توسیع چاہیے تاکہ ’’عظیم تراسرائیل‘‘ وجود میں آسکے اور دائود بادشاہ کی نسل سے آنے والا ’’مسایا‘‘ تخت دائودی کو مقدس چٹان پر بچھاکر پوری دنیا پر حکومت کرسکے۔ اس خاطر جنگ عظیم دوم کے بعد جزیرۃ العرب کے بارہ ٹکڑے کیے گئے تھے اور اب مزید تقسیم درتقسیم کا عمل جاری ہے۔ شام کے چار حصے پہلے ہوئے تھے۔ چار مزید کیے جارہے ہیں۔ عراق کے حصے بخرے بھی شروع کردیے گئے ہیں۔ شام میں گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کو ملیں۔ طرسوس کی بندرگاہ روس کے ہاتھ آئی۔ لبنان تک کا راستہ ایران کے کھاتے میں کردیا گیا۔ قطر سے بحرمتوسط تک تیل گیس کی امریکی پائپ لائن کے بعد جو رہ گیا وہ داعش اور بشار کے پاس ہے۔ عراق میں بغداد حکومت قائم کردی گئی تھی۔ اب آزاد کردستان بھی قائم ہوجائے گا۔ گیارہواں بچھڑا بھائی ملے یا نہ ملے، تیل کے کنوئوں تک رسائی اور اسرائیل سے باہر تک اسرائیل کی توسیع تو ہوجائے گی۔ رہ گیا کردستان کے دارالحکومت ’’اردبیل‘‘ سے یروشلم تک بیچ کا راستہ تو وہ اگلے دس سالوں میں طے ہوجائے گا جب دجلہ سے نیل تک کی حدود اسرائیل میں ضم ہوں گی۔

یہ ہے خاموش کھلاڑیوں کا وہ بولتا کھیل جو اب اس مرحلے میں داخل ہورہا ہے جہاں… ان کے مطابق… اب آہستہ روی کی گنجائش نہیں۔ جارحانہ اور تیز کھیل کی ضرورت ہے، ورنہ سارے برج الٹ سکتے ہیں اور سارے پتے بکھرجانے کا خطرہ ہے۔ صہیونیت کے ستر دانا بزرگوں کی رہنمائی میں اسرائیل ہر دس سال بعد وہ منصوبہ مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ چالیس سال قبل بناتے ہیں اور بیس سال قبل اس کی بازگشت سننے کا موقع دنیا کو ملنا شروع ہوجاتا ہے، مگر نہ تو دنیا سمجھتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بددعائی یہ لوگ جب تک مردودیت کی چھاپ سے نہیں نکلتے تب تک ان کے سارے منصوبے ان پر الٹے پڑیں گے۔ نہ خود یہ دھتکار پڑی قوم سمجھتی ہے کہ جن کرتوتوں کی سزا میں کل وہ ارض مقدس سے نکالی گئی تھی، جب تک ان سے باز نہیں آتی، تب تک دیوار گریہ کے پاس کھڑے ہوکر ٹسوے بہانے سے کچھ نہ ہوگا۔ اب تک عراق کا تیل اسرائیل تک پہنچایا جاتا تھا۔ اب اسرائیل خود عراق کے ان خطوں تک پہنچ جائے گا جو تیل سے مالا مال ہیں۔ کرکوک اور اردبیل ’’معاہدہ لوزان‘‘ کے سو سال بعد ختم ہونے واپس ترکی کو ملنے کے بجائے اسرائیل کو یا اسرائیل نوازوں کو مل جائیں گے۔

اے بنی اسرائیل! یاد کرو ان نعمتوں کو جو تم پر کی گئی تھیں پھر ان کی ناشکری کی سزا میں تم لونڈی غلام بناکر جلاوطن کیے گئے۔ اے اہل! کتاب! حق کو کیوں چھپاتے ہو؟ جھوٹ کیوں پھیلاتے ہو؟ ناحق قتل کیوں کرتے ہو؟ حیلہ بازی سے ناحق کو حق کیوں باور کراتے ہو؟ ان چیزوں کی بنا پر تمہارے آباء و اجداد کی صورتیں مسخ ہوئی تھیں، وہ ملعون اور مغضوب قرار پائے تھے۔ تم ان سے افضل تو نہیں ہو۔ پھر کیوں ان حرکتوں سے باز نہیں آتے؟

اپنے آپ کو خدا کے محبوب کہنے والو! تم نے قادیانی اور بہائی دو فرقے اپنے ہاں پال لیے۔ دونوں ختم نبوت کے منکر ہیں۔ دونوں پر وہ پھٹکار ہے جو تم پر اس وقت سے آج تک ہے جب سے تم نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو شہید کیا اور پھر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لایا۔ جس طرح تمہارے ان بغل بچوں کے خلاف گنہگار سے گنہگار مسلمان متحد ہوجاتا ہے اسی طرح تمہارے خلاف ارض مقدس کا ہر درخت اور پتھر متحد ہوکر پکارے گا اور تمہیں کہیں پناہ نہ ملے گی۔ تم جس عظیم تر صہیونی ریاست کی خاطر دھوکہ فریب اور ظلم کی انتہا کررہے ہو یہ تمہارا عظیم تر قبرستان بنے گا، لیکن تمہاری لاشوں کو یہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوگا۔ انہیں پرندے اٹھاکر کہیں دور ’’بلیک ہول‘‘ میں ڈال دیں گے۔ باز آجائو! اے بنی اسرائیل باز آجائو! قبل اس کے کہ مہلت ختم ہوجائے۔

http://zarbemomin.com.pk/index.php/mufti-abu-lubaba-shah-sab/1473-khamosh-khilari-bolta-khail



Jews have no less rights and claims to Palestine than Muslims or Christians. After all it was their forefathers that first established a Kingdom here:
800BC_Detail_Two_Kingdoms.png

And this was 2000 years before Islam, and a 1000 years before Christianity.

آزمائش کے دن

aazmaish.jpg


جب فیصلے کی گھڑی… لمحۂ موعود… قریب آن لگے گی تو عجیب عجیب باتیں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گی… لیکن کن عجیب باتوں کا فیصلے کے لمحے سے کس طرح کا تعلق ہے؟ یہ بات اللہ تعالیٰ نے نہایت مبہم رکھی ہے۔ اتنی مبہم کہ اس کی علامات کو بھی مبہم رکھا گیا ہے تاکہ آزمائش کے لمحات میں امتحان پر پورا اترنے والے خوش قسمت مبہم علامات کی بالجزم تطبیق میں خود کو کھپانے کے بجائے اپنے حصے کے کام میں لگے رہیں۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک قوم اپنے کرتوتوں کی بارش میں دو مرتبہ ارضِ مقدس سے نکالی گئی۔ پہلی بار شریعت موسویہ کی تحریف و استہزاء پر اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی تضحیک و تکفیر پر۔ دونوں مرتبہ انکار بھی محدود اور بوقت شریعت کا تھا اور توبہ بھی واسطے اور وسیلے دے کر کی گئی تھی، اس لیے انہیں ’’ارضِ موعود‘‘ میں واپسی کی مشروط اجازت دے دی گئی۔ تیسری مرتبہ انکار بھی دائمی اور عالمگیر شریعت محمدیہ کا ہے، اور واپسی بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر کی گئی ہے، اس لیے اب معافی بھی نہ ہوگی، بلکہ پتھر اور درخت بھی پکار پکار کر ان کے خفیہ ٹھکانوں کی آگاہی دیں گے اور ان کے کلّی خاتمے میں کائنات کی ہر چیز اپنا کردار ادا کرے گی۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ کل تک ایک قوم منت سماجت کرتی تھی کہ ہمیں ’’دیوارِ گریہ‘‘ کے پاس رونے دھونے کی تھوڑی سی جگہ دے دی جائے۔ تصویری تاریخ کی کتابوں میں وہ تنگ گلی آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جو دیوارِ گریہ اور اس کے ساتھ متصل مسلمانوں کے مکانات کے درمیان پائی جاتی تھی۔ ان امکانات کے بیچ مساجد اور خانقاہیں بھی قائم تھیں۔ قومِ یہود کو اس تنگ گلی میں کھڑے ہوکر ٹسوے بہانے کی اجازت کیا ملی کہ اس نے اجازت دینے والوں کے مکانات اور عبادت گاہوں کو ہی مسمار کرکے چٹیل میدان میں تبدیل کردیا۔ آج بیت المقدس کی اس غربی دیوار کے ساتھ کھلے میدان میں دنیا بھر کے غیرمقامی یہود اور ان کے ہم نوا جمع ہوکر جب چاہیں وہ خود ساختہ عبادت کرسکتے ہیں جس کا شریعت موسوی میں یا تورات کی آیتوں میں کوئی وجود ہی نہیں، لیکن اسی دیوار کی دوسری طرف مسجد کی حدود میں مسلمان جمعہ کے مبارک دن بھی وہ عبادت نہیں کرسکتے جو تمام شریعتوں میں متوارث چلی آئی ہے اور جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امامت میں اتنی مسجد میں ادا کی تھی۔

عجائبات کے اندر کیسے عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔ ذرا تصور تو کریں اس فریبانہ ستم ظریفی کی کوئی حد بھی ہے کہ ایک طرف فلسطین سے سعودی عرب تک حاجیوں کو ’’براہ راست‘‘ آمدو رفت کی ’’سہولتیں‘‘ دینے کے لیے اسرائیل اور ارضِ حرمین کے درمیان فضائی رابطے بحال کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف اسی فلسطین کے مسلمانوں کو ان کی اپنی سرزمین پر مسجد اقصیٰ میں جمعے کی نماز کی سہولت سے محروم کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں فرقہ واریت کی مذمت کرنے والے اپنے ہاں ان فرقوں کو مرکز بنا بناکر دے رہے اور ’’عالمی رہنمائوں‘‘ سے ان کی ملاقات کروارہے ہیں جن فرقوں کو ان کی اپنی پیدائش گاہ میں ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے۔ مفروروں، باغیوں، توہین رسالت کے مجرمو ںکو مغربی ممالک میں محفوظ و معزز پناہ گاہیں مل رہی ہیں اور ملک کی خاطر روزِ اوّل سے قربانیاں دینے اور نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرنے والے انبیائی وراثت کو سنبھالے رکھنے کے جرم میں معتوب و مطعون ٹھہرے ہیں۔ مشرق و مغرب کے یہود و ہنود باہمی فاصلے ختم کرکے ایسے شیر و شکر ہورہے ہیں کہ ابوجہل اور حیّ بن اخطب کے باہمی معاہدوں کی یاد تازہ ہورہی ہے… جبکہ پڑوس میں مل جل کر رہنے والے ’’نحن العرب‘‘ کے دعویدار ایک دوسرے کا ایسا بائیکاٹ کررہے ہیں کہ ازلی دشمن کسی ناقابل معافی جرم کے مرتکب سے بھی ایسا نہ کرتا ہوگا۔

جب زمین کے باسی عجیب عجیب کام کرتے ہیں تو قدرت کی طرف سے بھی عجیب عجیب فیصلے ظہور میں آتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان قبلۂ اوّل کے تحفظ کے لیے اکیلے کھڑے ہیں، ان کے ساتھ پوری سرزمین عرب میں سے ہمدردی کے دو بول بولنے والا نہیں۔ اگر کوئی تھا تو سب مہربان مل کر اس پر نامہربان ہوگئے ہیں۔ شام کے مسلمانوں کو ترکی کے علاوہ کوئی پناہ دینے والا نہیں، لیکن انسانی حقوق کے تحفظ کی سب سے نادر مثال قائم کرنے والے کے ساتھ انسانی حقوق کا ایک بھی علمبردار دور دور تک نظر نہیں آتا۔ کہاں تک گنوائیے کہ تعجب خیز امور کی تھپیاں اوپر تلے لگی ہوئی ہیں۔ جھوٹ ایک فن، ظلم ایک پیشہ اور دھوکہ فطرت بن گیا ہے۔ باطل کی گز بھی لمبی زبان کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہر طرف ہیں اور حق کی حمایت میں دو بول کہنے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ اسرائیل کے تحفظ کے بعد اسرائیل کی توسیع کے مرحلے میں سب حصہ بقدر جثّہ کے تحت شریک ہیں۔ خوش خبری ہو ان لوگوں کے لیے جو آج بھی قبلۂ اوّل سے آنے والی مظلومانہ صدائوں پر لبیک کہنے سے نہیں جھجکتے۔ آسمانوں کی برکتیں اور آخرت کی سعادتیں انہی کے لیے ہیں۔ تھوڑی سی آزمائش کے بعد ہمیشہ کی راحتیں انہی کے لیے ہیں۔

http://zarbemomin.com.pk/index.php/mufti-abu-lubaba-shah-sab/1410-aazmaish-k-din
 
. . . .
hindus or idol worshippers have claim over Pakistan it was their ancestors who lived in Pakistan before Islam arrived! your point?

This PTI fan previously had Indian Pakistani flag to rile up People.

Now he will put Israel Pakistani flag i am sure.

Norway is a known human trafficking Hub for Pakistani cults
 
.

Pakistan Defence Latest Posts

Back
Top Bottom