What's new

Urdu & Hindi Poetry

راشن یا ٹشن

ایک وقت تھا جب لوگ گھر کے سودا سلف میں صرف بنیادی ضرورت کی اشیاء خریدا کرتے تھے، اور کم سے کم پیسوں میں بھی اچھا گزارا ہو جایا کرتا تھا، تب راشن کی لسٹ میں عموماً یہ چیزیں شامل ہوا کرتی تھیں....
چینی، گھی، چاول، چائے، دالیں، سرخ مرچ، نمک، صابن، ساگو دانہ، ٹوتھ پیسٹ، سرسوں کا تیل، گڑ، روح افزا، گرم مصالحہ، گرائپ واٹر، ویسلین وغیرہ.. اور ساتھ میں تھوڑی سی ریوڑیاں یا سوہن حلوہ بھی لے آتے تھے کہ چلو گھر والے منہ میٹھا کر لیں گے...
اور آج کی خریداری میں راشن کم اور ٹشن زیادہ ہوتا ہے......... اور اس لسٹ میں اوپر والی چیزوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری نئی چیزیں کچھ اس طرح شامل ہو گئی ہیں...

Horlicks, Spagheti, chicken spread, Piza sause, Tomato Ketchup, Slice Cheese, Chilli Galic Sause, Tender Pops, Stok Cubes, Choco Cream, cold drinks, Chocolate, Lay's, Dippers, Mayonnaise, Noodles, Macaroni, Sandwich Bread, Nescafe,
Olives, Creams & Pasta etc....

اوئے کون لوگ او تسی ......

اب سارے پیسے تو ان چیزوں پر لگ جاتے ہیں... پھر ہم روتے ہیں کہ گزارے مشکل ہیں... برکت اٹھ گئی ہے... یہ نہیں سوچتے کہ ساری آمدن تو ڈرامے بازیوں کی نظر کر دیتے ہیں... ابھی تو درجنوں چیزیں اور بھی ایسی ہیں.. جو بیس پچیس سال پہلے نہ تو ہماری ضرورت تھیں اور نہ ہی انکی کمی محسوس ہوتی تھی... آہستہ آہستہ یہ غیر ضروری چیزیں ہماری زندگی کا حصہ بنا دی گئی ہیں...
پہلے لوگ سموسے، پکوڑے اور گول گپے کھا کر کم پیسوں میں عیاشی کر لیتے تھے، اب پیزا، برگر، شوارما، لزانیہ اور پتہ نہیں کیا کیا الا بلا کھانے کیلئے دستیاب ہے اور بندے کے اچھے خاصے پیسے کھل جاتے ہیں..
آج سے 25 سال پہلے مرنے والا بندہ اگر زندہ ہو کر آ جائے تو یہ چیزیں اور ٹشن والی لسٹ دیکھ کر دوبارہ مر جائے...
فضول خرچی سے خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی کفایت شعاری کی ترغیب دیں...
ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور ٹشن والی آئٹم آپ کے ذہن میں ہے تو کمنٹ میں مینشن کر دیں...
😎
 
.

آج شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی برسی ہے..

جوش ملیح آبادی کی طبیعت میں ظرافت جیسے کوٹ کوٹ کر بھری تھی زندگی کی بھاگ دوڑ میں مختلف مواقع پر ان کے بے تکلفانہ کلمات ایک طرح سے لطائف کی شکل اختیار کر لی ہے. جن پڑھ قارئین اور سن کر سامعین آج بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے. جوش کی زندگی میں رونما ہونے والے ایسے چند واقعات یہاں قارئین کے لیے پیش ہیں..

کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے ۔
اکثر شعراء آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے ۔لیکن جوشؔ ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعہ پرداد تحسین کی بارش کئے جارہے تھے ۔ گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: ”قبلہ ! یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟””منافقت”۔۔۔! جوشؔ نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔

ایسے ہی ایک مولانا کے جوشؔ سے بہت اچھے تعلقات تھے ۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ تو وہ مولانا کہنے لگے.کہ ”کیا بتاؤں جوش صاحب۔پہلے ایک گردے میں پتھری تھی ، اس کا آپریش ہوا ۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے ۔” ”میں سمجھ گیا ۔”جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اللہ تعالی آپ کو اندر سے سنگسارکررہا ہے۔”

ایک بار منموہن تلخؔ نے جوش ملیح آبید کو فون کیا اور کہا کہ "میں تلخؔ بول رہا ہوں” آگے سے جوش نے جواب دیا”کیا حرج ہے اگر آپ شیریں بولیں۔”

اسی طرح ایک اردو خط کے جواب میں انگریزی زبان میں جواب ملنے والا لطیفہ بھی بے حد مشہور ہے ہوا یوں کہ ایک دفعہ جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا۔ جواب الجواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا کہ”جناب والا’ میں نے تو آپ کو اپنا مادری زبان میں خط لکھا تھا ، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے ۔”​


1645479166425.png
 
.

دھوبی کی بیوی جس کا نام مَنُوں تھا،
ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ آج تم اتنی خوش کیوں ہو۔
دھوبن نے کہا کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔
ملکہ نے اسکو مٹھائی پیش کرتے ہو کہا ماشاء اللہ
دَھنُوں کی پیدائش کی خوشی میں کھاؤ۔
اتنے میں بادشاہ بھی کمرے میں داخل ہوا۔
ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا
آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں کوئی خاص وجہ ہے؟
ملکہ نے کہا!
سلطان یہ لیں مٹھائی کھائیں
آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔
اس لیئے خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے.... !!
بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی۔
بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آو۔
بادشاہ باہر دربار میں آیا تو
بادشاہ بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو
واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگی۔
ظلِ الہٰی مزید خوش ہونے۔
ظلِ الہٰی نے کہا سبکو مٹھائی بانٹ دو۔
مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا!
بادشاہ سلامت یہ آج مٹھائی کس خوشی میں آئی ہے؟
بادشاہ نے کہا!
کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔
ایک مشیر نے چپکے سے وزیر اعظم سے پوچھا!
وزیر با تدبیر ویسے یہ دھنوں ہے کیا..؟
وزیراعظم نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا!
کہ مجھے تو علم نہیں یہ دھنوں کیا بلا ہے،
بادشاہ سے پوچهتا ہوں۔
وزیر اعظم نے ہمت کر کے پوچھا!
بادشاہ سلامت ویسے یہ دھنوں ہے کون؟
بادشاہ سلامت تھوڑا سا گھبرائے اور سوچنے لگے کہ واقعی پہلے معلوم تو کرنا چاہیے تھا کہ یہ دھنُوں کون ہے؟
بادشاہ نے کہا!
مجھے تو علم نہیں کہ یہ کون ہے... ۔
میری بیوی آج خوش تهی وجہ پوچھی تو
اس نے کہا!
کہ ٓآج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔
اس لیئے میں اسکی خوشی کی وجہ سے خوش ہوا۔
بادشاہ گھر آیا اور بیوی سے پوچھا....
ملکہ عالیہ یہ دھنوں کون تھا؟ جس کی وجہ سے آپ اتنی خوش تھی اور ہم بھی خوش ہیں۔
ملکہ عالیہ نے کہا!
کہ مجھے تو علم نہیں کہ دھنو کون ہے؟
یہ تو دھوبن بڑی خوش تھی اُس نے بتایا
آج دھنوں پیدا ہوا ہے۔
اس لیئے میں بھی خوش ہو کر اسکی خوشی میں شریک ہوئی۔
دھوبی کی بیوی کو بلایا اور پوچھا!
تیرا ستیاناس ہو.
یہ تو بتا کہ یہ دھنوں کون ہے؟
جس کی وجہ سے ہم نے پوری سلطنت میں مٹھائیاں بانٹی۔!
دھوبن بولی!
یہ دَھنُوں ہماری کھوتی کا بچہ ہے
جو کل پیدا ہوا ہے ۔


😂
😂
😂

ایسا ہی حال ہماری عوام کا ہے
جو بھی خبر ملتی ہے
بغیر تصدیق کے فورا سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں
😁
😁
😁
😁
😁
😁
😁
😁

بس سنی سنائی کو ماننے لگ جاتے ہیں
غور و فکر کی تو عادت ہی نہیں

سالاربن_نصر
 
.
قومی ترانہ فارسی یا اردو” (ایک عظیم تحقیقی کتاب)

حفیظ جالندھری کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا پاکستان کا قومی ترانہ 1968

1645648246783.png



اقوامِ عالم میں پاکستان کی اسلامی قومیت کی بنیاد پر تخلیق ہر ایسے شخص کے لئے سوہانِ روح اور شدید تکلیف کا باعث ہے جو تاریخ کے اس عظیم معجزے سے نفرت اور بغض رکھتا ہے۔ یہ سیکولر، لبرل لوگ اپنی بزدلی اور کم ہمتی کی وجہ سے براہِ راست کھل کر اسلام، پیغمبرِ اسلام یا اسلامی طرزِ زندگی کے خلاف تو گفتگو نہیں کر پاتے تو ان کا زور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں صرف ہوتا ہے اور خصوصاً پاکستان کے اسلامی وجود کو مشکوک کرنے کے لئے یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے ساتھیوں کو سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی طور پر بھی اپنے کردار اور نفرت کے حوالے سے مجلسِ احرار کے اس رکن مظہر علی اظہر سے مختلف نہیں ہیں، جس نے قائد اعظمؒ کو کافرِ اعظم کہا تھا۔ اس شخص نے تو یہ بات صرف جلسے میں ایک نعرے کے طور پر کی تھی، لیکن یہ سیکولر طبقہ، قائد اعظمؒ کو عملاً سیکولر، لبرل ثابت کر کے دراصل انہیں عملی طور پر ایک بے عمل مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کا اسلامی تشخص مجروح ہو جائے۔ ان بغض کے ماروں کے دلوں پر پاکستان کی ہر وہ علامت ایک قہر بن کر ٹوٹتی ہے جس کا تھوڑا سا بھی تعلق اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ بنتا ہو۔ یہ لوگ شروع دن سے ہی قائد اعظمؒ کی ہر اس تقریر اور اُس اقدام پر پردہ ڈالنے اور چُھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ قائد اعظمؒ اس ملک میں نفاذِ شریعت چاہتے تھے۔ انہی لوگوں کو قائد اعظمؒ نے کراچی بار میں 25 جنوری 1948ء کی اپنی تقریر میں ’’شر انگیز‘‘ پکارا تھا۔ قائد اعظمؒ نے اس تقریر میں اپنی گیارہ اگست 1947ء والی تقریر کے بارے میں پھیلائے جانے والے اس پروپیگنڈے کا جواب دیا تھا کہ وہ سیکولر ریاست چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر شرعی قوانین "Shria Law" کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ شریعت آج بھی ویسے ہی نافذالعمل ہے جیسے تیرہ سو سال پہلے تھی۔ یہ حضرات قائد اعظمؒ کی یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب والی تقریر کا بھی تذکرہ نہیں کرتے، جس میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس ملک کے معاشی نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی ہدایت کی تھی، بلکہ ساتھ ہی مغربی معاشی نظام کو دُنیا کے لئے ایک ناسور قرار دیا تھا۔ یہ لوگ قائد اعظمؒ کے اقتدار کے دوران بننے والے واحد محکمے "Department of Islamic Reconstruction" کا کبھی ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے سربراہ علامہ محمد اسد کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے اس محکمے کے اغراض و مقاصد میں لکھا تھا کہ ’’اس محکمے کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ اس ملک کے معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور قانونی نظاموں کا اسلامی ڈھانچہ مرتب کرے‘‘۔ ان حضرات نے آج تک قائد اعظمؒ کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظریے اور طرزِ حکومت پر علامہ محمد اسد کی انگریزی میں سات تقریروں اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی چھ تقریروں کا بھی ذکر نہیں کیا۔ یہ وہ بددیانت لوگ ہیں جن کے دلوں میں اسلام کے نظریۂ حکومت اور طرزِ معاشرت سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس لئے وہ پاکستان کی ہر اُس علامت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا تعلق اسلام یا مسلمان اُمت کے ساتھ ہو۔

ان کا ایک بہت بڑا اعتراض پاکستان کے ’’قومی ترانے‘‘ پر یہ ہے کہ یہ قومی زبان اُردو میں نہیں بلکہ فارسی میں لکھا گیا ہے۔ یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ’’جاہل‘‘ اور لاعلم شخص انگریزی کی کوئی کتاب پڑھے اور اس میں 29 فیصد لاطینی، 29 فیصد فرانسیسی، 26 فیصد جرمن، 6 فیصد یونانی، اور 6 فیصد متروک زبانوں کے الفاظ دیکھ کر کہے یہ تو انگریزی کی کتاب ہی نہیں۔ قانون کی ننانوے فیصد اصطلاحات لاطینی، یونانی اور فرانسیسی ہیں۔ لیکن سب اسے انگریزی قانون (English Law) کہتے ہیں۔ لیکن جہالت کا غلبہ اور کم علمی کا عفریت اس قدر خوفناک ہے کہ جب یہ کسی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو پھر بڑے بڑوں کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت تک مفقود کر دیتا ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ آئی ایس پی آر کے تحت بننے والے تازہ ڈرامے ’’صنف آہن‘‘ میں ایک انسٹرکٹر، کیڈٹوں کے علم میں یہ کہہ کر اضافہ کرتا ہے کہ پاکستان کا ’’قومی ترانہ‘‘ فارسی زبان میں ہے۔ اس طرح کے اعتراضات کا جواب ہمیشہ مرحوم ڈاکٹر صفدر محمودؒ اپنی تحقیق سے دیا کرتے تھے۔ اسی ترانے کے حوالے سے ایک معروف اینکر نے اپنے ٹاک شو میں ایک ایسا قومی ترانہ پیش کیا جسے متعصب ہندو قوم پرست تلوک چند محروم کے بیٹے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسے قائد اعظمؒ نے لکھوایا تھا۔ اس ترانے کی شاعری اس قدر گھٹیا معیار کی تھی کہ اسے ریڈیو پاکستان کی ردّی کی ٹوکری میں ہونا چاہئے تھا لیکن جاہلوں کو کون روک سکتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمودؒ نے ریڈیو پاکستان کے تمام آرکائیوز چھانے، وزارتوں میں اس زمانے کی تمام خط و کتابت اور فائلیں دیکھیں اور ثابت کیا کہ ایسے کسی ترانے کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد آج جس کتاب کو دیکھ کر روح کو سکون میسر ہوا اور یوں لگا کہ اللہ اس ملک کے اسلامی تشخص کے دفاع کے لئے کوئی نہ کوئی شخصیت ضرور پیدا کرتا رہتا ہے، وہ عابد علی بیگ صاحب کی کتاب ’’قومی ترانہ: فارسی یا اُردو‘‘ ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے سیکولر، لبرل جہلا کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ مصنّف نے تین سو صفحات پر مشتمل اس تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ قومی ترانے میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کتنے سو سالوں سے اُردو شاعری اور نثر میں استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ جس طرح ہر زبان دیگر زبانوں کے ملاپ سے ترقی و ترویج پاتی ہے ویسے ہی اُردو بھی ہے۔ اُردو کے ان الفاظ کی ماخذی زبان (Language of Origin) کی تحقیق سے بیگ صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ترانے کے چالیس الفاظ میں سے چوبیس الفاظ عربی زبان سے اُردو میں آئے، پندرہ فارسی زبان سے اور ایک سنسکرت سے۔ گویا ترانے کے ساٹھ فیصد الفاظ عربی میں ہیں۔ لیکن بزدل سیکولر چونکہ عربی پر یہ الزام لگانے سے ڈرتا ہے اس نے مشہور کر دیا کہ یہ ترانہ فارسی میں ہے۔ عابد علی بیگ صاحب نے اس کتاب میں تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے اور ترانے کے ایک ایک لفظ کا اُردو نظم و نثر میں قدیم ترین وجود ڈھونڈا ہے۔ مثلاً ان کے مطابق ترانے کا پہلا لفظ ’’پاک‘‘ اُردو میں پہلی دفعہ 1564ء میں حسن شوقی کے دیوان میں ملتا ہے، 1582ء میں شاہ برہان الدین جانم کی حمد میں، اس کے بعد 1607ء میں وجدی کی شاعری ’’تحفہ عاشقاں‘‘ میں، 1645ء میں صنعتی کے ’’قصۂ بے نظیر‘‘ میں، 1654ء کے حاجی محمد نوشہ قادری کے گنج شریف میں اور یوں وہ اس ایک لفظ ’’پاک‘‘ کا استعمال میر، غالب، داغ، اقبال کی شاعری یہاں تک نثر میں حالی، محمد حسین آزاد، اور سعادت حسن منٹو کی تحریروں میں بھی ڈھونڈ لائے ہیں۔ ایسے ہی ’’سرزمین‘‘ کا لفظ 1810ء کی کتاب ’’اخوان الصفائ‘‘ میں انہوں نے ڈھونڈ نکالا اور پھر اسے موجودہ دور تک لائے۔ ’’شاد‘‘ کا لفظ سولہویں صدی سے اُردو میں مستعمل چلا آ رہا ہے بلکہ 1564ء کے حسن شوقی کے اس شعر میں تو ترانے کے دو الفاظ بیک وقت ملتے ہیں۔ اوّل یاد کر پاک پروردگار پچھیں شاد کر شاہ عالی تبار عابد علی بیگ صاحب نے ترانے کے ان چالیس الفاظ کو نہ صرف اُردو ادب کی نظم و نثر کی چار سو سالہ تاریخ میں ڈھونڈ نکالا، بلکہ ہندی فلموں کے ناموں میں بھی ان الفاظ کی فہرست مرتب کی ہے جیسے پاک دامن (1931ئ) نشان (1949ئ)، منزل (1936 ئ) وغیرہ۔ ہندی فلمیں جو دراصل اُردو میں ہی ہوتی ہیں ان کے گیتوں میں اس ترانے کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں جنہیں مختار بیگم، رفیع، لتا، آشا، کشور اور مکیش سے لے کر پاکستان میں نور جہاں اور مہدی حسن نے بھی گایا ہے۔ یہ کتاب ایک حیران کن تحقیق ہے اور ایک ایسی محنت ہے جس نے ایسے تمام لوگوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو پاکستان کی اساس کو مشکوک کرنے کے لئے مسلسل دن رات نئے نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔

تحریر ; اوریا مقبول جان
بشکریہ ; عابد علی بیگ
بشکریہ ; ملک اسلم
 
.
ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925ءکو انبالہ شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبیدار میجر تھے۔والد کے تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈی بی ہائی سکول نشائی (صوبہ سرحد) اور نیشنل ہائی سکول پشاور سے حاصل کی. میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے بی اے نہ کرسکے. کالج کے زمانے میں شاعری میں رفیق خاور سے مشورہ کرنے لگے. جو ان سے ملنے اقبال ہاسٹل آتے رہتے تھے.

آزادی کے ساتھ ہی ان کا خاندان پاکستان آ گیا تھا اور لاہور شہر کو مسکن بنالیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہیں یکے بعد دیگرے والدین کے چل بسنے کا غم جھیلنا پڑا۔

ناصر 1950 سے 1952 ادبی رسالہ ”اوراق نو“ کے مدیر رہے اور 1952ءمیں رسالہ“ہمایوں”کی ادارت سنبھالی. 1957ءمیں“ہمایوں”کے بند ہونے پر ناصر کاظمی نے اپنا رسالہ خیال جاری کیا. 1958 میں چند ماہ محکمہ سماجی بہبود میں رابطہ افسر رہے. اس کے بعد یکم جنوری 1959 سے 31 جولائی 1968 تک دیہات سدھار پروگرام میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر اور اس کے رسالے ہم لوگ کے نائب مدیر رہے.یکم اگست 1964 سے 2 مارچ 1972 کو اپنی وفات تک ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور سٹاف آرٹسٹ کام کرتے رہے۔ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں ان کی قبر پر ان کا یہ شعر لکھا ہے

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد غزلوں کے مجموعے”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ اور نظموں کا مجموعہ ”نشاطِ خواب“ شائع ہوئے۔ "سر کی چھایا" منظوم ڈراما ہے جو ان کی وفات کے بعد 1981 میں چھپا. ان کےمضامین،ریڈیو فیچرز، مقالات، اداریوں اور انٹرویوز کا مجموعہ "خشک چشمے کے کنارے" کے نام سے شائع ہوا. چند بڑے شاعروں میر، نظیر، ولی، انشا کے الگ الگ منتخبات بھی مرتب کئے. ناصر کی ڈائری بھی شائع ہوئی ہے.

(ناصر کاظمی اپنے بھائی انصر رضا کاظمی کے ساتھ۔ 1965​


1646188535220.png
 
.
...
آج نسیم حجازی کی برسی ہے

نسیم حجازی ٭ اردو زبان کے مشہور ناول نگار نسیم حجازی 19 مئی 1914ء کو سوجان پور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد شریف تھا۔

نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ،روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔

انہوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔ نسیم حجازی کی اصل وجہ شہرت ان کی تاریخی ناول نگاری ہے جن میں داستان مجاہد، انسان اور دیوتا ، محمد بن قاسم، آخری چٹان ، شاہین ، خاک اور خون ، یوسف بن تاشقین ، آخری معرکہ ، معظم علی ، اور تلوار ٹوٹ گئی ، قیصر و کسریٰ ، قافلہ حجاز اور اندھیری رات کے مسافر کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے طنز و مزاح کے موضوع پر پورس کے ہاتھی، ثقافت کی تلاش، سفید جزیدہ اور سوسال بعد نامی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کا ایک سفر نامہ پاکستان سے دیار حرم تک بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔
نسیم حجازی کی تصانیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان پر آخری چٹان اور شاہین نامی دو ڈرامہ سیریل بھی نشر ہوئے جبکہ ان کے ایک اور ناول خاک اور خون پر فلم بھی بنائی گئی۔

2 مارچ 1996ء کو نسیم حجازی راولپنڈی میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔​
.....
1646316546255.png
 
.
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;

’’رضیہ بٹ‘‘ اردو ادب کی منفرد ناول نگار​

1646440709620.png



کچھ لوگ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنے نقوش ہمیشہ کے لیےچھوڑ جاتے ہیں۔ ایک عہد بن کر، ایک خوبصورت ماضی بن کر اور ماضی بھی ایسا، جو کہ تحریروں کی صورت مستقبل کے لیے راہیں ہموار کردے۔ رضیہ بٹ اردو ادب کا ایک ایسا ہی نام ہیں، جن کے ناول آج بھی قارئین کے دل ودماغ پر اپنا تاثر قائم کیے ہوئے ہیں۔ زمانہ طالب علمی کی بات کریں تو کالج میں پڑھنے والی اردو ادب سے متاثر زیادہ تر طالبات رضیہ بٹ کے ہی ناول پڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ رضیہ بٹ کا ناول’’ بچھڑے لمحے‘‘ ان کی حقیقی زندگی سے نزدیک ترین محسوس ہوتا ہے۔

ان کے ناولوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ان میں زندگی کی تلخ حقیقت کے عنصر کو یوں نمایاں کرتیں تھیں کہ ایک طرف معاشرتی ناہمواریوں اور اداس لمحوں کا تاثر قائم رہتا تو دوسری جانب چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثرانگیزی بھی برقرار رہتی تھی ، اسی سبب رضیہ بٹ کے ناول مقبول سے مقبول ترین ہوتے چلے گئے۔

رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی۔ اپنے کئی ناولوں میں انھوں نے عورت کوناولوں کا مرکزی کردار بنایا اور ان کے مسائل پر بحث و مباحثہ کیا، جس کی بازگشت برسوں بعد بھی سنائی دیتی ہے اور ہر دور میں سنائی دیتی رہے گی۔

ناول نگاری کو ایک خاص رنگ اور مقام دینے والی رضیہ بٹ نے فکشن نگاری میں بھی ایک خاص مقام حاصل کیا، جس کے باعث انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہوا۔ اردوادب بالخصوص ناول نگاری میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے والی رضیہ بٹ نے تحریک پاکستان میں بھی اپنے تئیں بھرپور کردار ادا کیا۔

رضیہ بٹ کو اپنی ناول نگاری کی بنا پر نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیامیں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے لیے بھی ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے کئی ناولوں پر ٹیلی ویژن کے ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں جن کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اورجن کو ٹیلی ویژن اور فلم کے ناظرین نے بے حد پسند کیا۔

رضیہ بٹ کے چند ناول

بانو: رضیہ بٹ کا یہ ناول بہت مشہور ہوا جو تحریک پاکستان کے پس منظر میں لکھا گیا ایک نہایت ہی پُر اثر اور خوبصورت ناول ہے ۔ اس ناول میں تحریک پاکستان کے تمام کردار و واقعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے جس سے تحریک پاکستان کی اصل روح بیدار ہوتی نظر آتی ہے۔


ناہید: یہ ناول ایک طوائف کا قصہ ہے جس طرح ہمارے معاشرے میں طوائف کو ایک ناپسندیدہ کردار سمجھا جاتا ہے لیکن بعض اوقات حالات انسان کو یہ خراب پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ناہید ایسی ہی حالات کی ستائی ہوئی ایک طوائف کا قصہ ہے۔

دکھ سکھ اپنے: رضیہ بٹ کے ناولوں میں زندگی کا کوئی نہ کوئی سبق ضرور ہوتا ہے۔ ان کے ناول حقیقت اور حقیقی زندگی کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ اس ناول میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔

ریطہ: اکثر لوگ روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جاتے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد کتنی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر لمحہ ان کے انتظار میں تکتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک ناول جو ملک سے باہر جانے والوں کے انتظارکی کیفیات بیان کرتا ہے...................................​
 
. .
..
شاعرِ انقلاب حبیب جالب کی 29ویں برسی

حبیب جالب ٭ پاکستان کے نامور عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب 24 مارچ 1928ء کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔

1962ء میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم دستور تحریر کی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا۔ بعدازاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔

سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی کے مسلک سے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔

ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا، عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔ حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات پیش کئے تھے۔

کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔

12 مارچ 1993ء کو حبیب جالب لاہور میں وفات پاگئے اور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں آسودۂ خاک ہوئے۔


تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری


یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم


May be an image of 8 people and people standing


............
 
. . . .
....................
آج اردو کے نامور مزاح نگار ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کا یوم ِ وفات ہے


1647705983170.png


شفیق الرحمن اُردو ادب کا وہ درخشندہ ستارہ ہے جو ساٹھ برس تک آسمانِ ادب پر پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہا۔ انھوں نے لکھنے کا آغاز اس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک کا غلغلہ ابھی تازہ تازہ بلند ہوا تھا اور ہمارے بے شمار نئے اور پرانے لکھنے والے اس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شفیق الرحمن نے ان حالات میں بھی کہانی کو سماج کی بجائے مزاج کے تابع رکھا۔

مزاج ان کا مزاح سے لگّا کھاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ افسانہ اور مزاح ہی ان کی دو بنیادی محبتیں قرار پاتی ہیں۔ ان محبتوں کو انھوں نے آخر عمر تک نبھایا۔انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی خاکہ لکھا یا تبصرہ ، سفرنامہ تحریر کیا یا افسانہ، وہ اُردو ادب میں کسی پیروڈی کے مرتکب ہوئے، یا کوئی نظم ان کے شریر قلم سے سر زد ہوئی، افسانوی اسلوب یا مزاح کی شوخی کو کسی مقام پر انھوں نے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ ان کی اکثر تحریروں میں تو افسانہ، مزاح اور شفیق الرحمن میں من تُو شدی، تُو من شدم والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ جناب سید ضمیر جعفری اُردو ادب کے اس منفرد مزاح نگار کی بابت لکھتے ہیں:’’ریٹائرڈ میجر جنرل شفیق الرحمن ساٹھ برس کی عمر میں دوبارہ سیکنڈ لفٹین بھرتی ہو سکتے ہیں۔ اُردو ادب آج تک اس سے خوش تر ’سوہنا مُنڈا‘ اور ستواں بوڑھا پیدا نہیں کر سکا۔ شفیق ا لرحمن کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھی تحریر اتفاقاً یا حادثاً نہیں لکھتے، عادتاً لکھتے ہیں۔‘‘
اُردو ادب کا یہ ’سوہنا مُنڈا‘ نو نومبر 1920 کو مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے قصبے کلانَور میں انجنیئرراؤ عبدالرحمن کے ہاں پیدا ہوا۔ چار بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا تھا۔ ابتدائی تعلیم کا کلانَور سے شروع ہونے والاسفر لاہور میں آ کے مکمل ہوا۔ یعنی پرائمری کلانَور، مڈل بہاول پور (جہاں یہ محمد خالد اختر کے کلاس فیلو اور احمد ندیم قاسمی کے سکول فیلو رہے۔ محمد خالد اختر کے بقول: ’ان دنوں کا شفیق ایک گل گوتھنا گول مٹول سا لڑکا تھا جو ترکی ٹوپی پہنتا تھا اور بچوں والے سائیکل پر سکول آتا تھا۔

وہ فضل بک ڈپو کے سنسنی خیز اور راتوں کی نیند حرام کر دینے والے جاسوسی ناولوں کا بڑی شدت سے مطالعہ کیا کرتا تھا‘) میٹرک سٹیٹ ہائی سکول بہاول نگر، ایف ایس سی روہتک اور ایم بی بی ایس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے کیا۔ بچپن میں رغبت اور تسلسل کے ساتھ چٹ پٹی کہانیاں پڑھنے کے شوق نے لاہور کے زمانۂ طالب علمی میں شگفتہ رومانی افسانے لکھنے پر اُکسایا۔ اسی زمانے میں ان کی پہلی کہانی ’چاکلیٹ‘ ماہنامہ ’خیام‘ میں چھپی تو لوگوں نے پلٹ کے دیکھا۔جناب مشتاق احمد یوسفی نے ایک بار ٹیلیفونی گپ شپ کے دوران راقم کو بتایا کہ ’جب یہ کہانی چھپی تو مَیں بھی لکھنے کا آغاز کر چکا تھا۔ اس کہانی سے اتنا متاثر ہوا کہ کچھ عرصے کے لیے مَیں نے لکھنا چھوڑ دیا اور تہیہ کیا کہ آیندہ اس وقت لکھوں گا، جب اس طرح کا لکھ سکا۔‘

ان کے افسانے ’فاسٹ باؤلر‘ کی اشاعت نے تو ادبی دنیا میں دھوم مچا دی۔ ’ادبِ لطیف‘ کے اس زمانے کے مدیر میرزا ادیب ان سے کہانی کا مطالبہ کرنے ان کے ہاسٹل جا پہنچے، جو اپنا پہلا تاثر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:’’سیڑھی پر قدم رکھا تو ایک تیز خوشبو نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ دروازے پر ایک دراز قد وجیہہ نوجوان نے اپنے پورے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہمیں خوش آمدید کہا۔ کمرے میں پڑی میز اپنی موجودات کے اعتبار سے ایک نوبیاہتا کے سنگھار میز کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ میرا پہلا تأثر یہ تھا کہ یہ شخص دنیا میں صرف مسکرانے کے لیے آیا ہے۔‘‘

شفیق الرحمن کے میڈیکل کالج کے زمانۂ طالب علمی (1942- 1937) کا لاہور، برِ عظیم کا ایک بہت بڑا ادبی مرکز تھا، جہاں سے ہمایوں، ادبی دنیا، ادبِ لطیف، عالمگیر اور نیرنگِ خیال جیسے معیاری ادبی رسائل باقاعدگی سے شا ئع ہو رہے تھے۔ میرزا ادیب سے باقاعدہ تعارف کے بعد ان کا ’ادبِ لطیف‘ کے دفتر میں باقاعدہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ وہاں ان کی فیض، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، باری علیگ، اوپندر ناتھ اشک، سعادت حسن منٹو، دیوندر ستیارتھی، ساحر لدھیانوی اور یوسف ظفر وغیرہ سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ کالج میں ڈرامیٹک کلب کے سیکرٹری اور علمی و ادبی مجلّے کے مدیر بھی رہے۔کرکٹ، باکسنگ، پیراکی میں کلرز حاصل کیے۔ مصوری، فوٹو گرافی اور کارٹون بنانے کے کے مشاغل بھی چلتے رہے۔ورزش، کھیل اور سیر و سیاحت کا ہمیشہ شوق رہا۔


1942 ان کی تعلیم کی تکمیل اور عملی زندگی کے آغاز کا سال ہے۔ اسی سال انڈین آرمی میں بطور لیفٹیننٹ کمشن حاصل کیا، اور افسانوں کا پہلا مجموعہ ’کرنیں‘ بھی شائع ہوا۔ اس کے بعد شگوفے اور لہریں (۱۹۴۳ئ) مدوجزر (۱۹۴۴ئ) پرواز (۱۹۴۵ئ) پچھتاوے (۱۹۴۶ئ) حماقتیں (۱۹۴۷ئ) مزید حماقتیں (۱۹۵۴ئ) انسانی تماشا (جنگِ عظیم دوم کے پس منظر میں آرمینیا کے تارک الوطن امریکی ادیب ولیم سروین کی لکھی رقت انگیز ’ہیومین کامیڈی‘ کا باکمال اُردو ترجمہ،۱۹۵۶ئ) دجلہ (۱۹۸۰ئ) اور دریچے (۱۹۸۹ئ) آتے چلے گئے۔ شادی کچھ تاخیر سے یعنی ۱۹۵۷ء میں آرمی کے معروف سرجن ڈاکٹر شوکت حسن کی بہن امینہ بیگم سے ہوئی۔ جنرل ایوب خاں اور جنرل برکی ان کے باراتیوں میں شامل تھے۔

بیگم راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن کالج میں انگریزی کی استاد، صدرِ شعبہ اور بعد ازاں پرنسپل رہیں۔ فوج کی نوکری اور مزاح کی افسری عمر بھر چلتی رہی۔ اولاد میں قدرت نے تین ذہین بیٹوں (عتیق الرحمن: ۱۹۵۹ئ، خلیق الرحمن: ۱۹۶۱ئ، امین الرحمن: ۱۹۶۳ئ)سے نوازا لیکن نہ جانے اس ہنستے بستے گھرانے کو کس کی نظر لگ گئی کہ چھوٹے دونوں بیٹے ناگہانی موت سے دوچار ہوئے۔ ستر کی دہائی میں ہلالِ امتیاز کے تمغے سے نوازے گئے، اور ستمبر ۱۹۷۹ء کو پاک بحریہ سے سرجن ریئر ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۸۰ء سے ۹ دسمبر ۱۹۸۶ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے چیئر مین رہے۔ 19 مارچ 2000 کو اناسی سال، آٹھ ماہ اور دس دن کی عمر میں ہمارا یہ مزاح نگار راہیِ ملکِ عدم ہوا۔
اس عظیم مزاح نگار کو انھی کی تحریروں سے ہدیۂ لطافت:
٭ مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان ایک خوشنما تل پر عاشق ہو کر سالم لڑکی سے شادی کر بیٹھتے ہیں۔
٭ اونٹ کی گردن اس لیے لمبی ہے کہ اس کا سر اس کے جسم سے خاصا دور ہے۔ اونٹ کی طبیعت میں انکسار پایا جاتا ہے، وہ مغرور بالکل نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ اس کے پاس مغرور ہونے کو کوئی چیز ہی نہیں۔
٭ آج ریلوے کے بڑے بڑے افسروں کی ایک کانفرنس ہوئی، جس میں یہ طے ہوا کہ ریل کے آخری ڈبے میں چونکہ بہت جھٹکے لگتے ہیں، اس لیے آیندہ ریل میں آخری ڈبہ نہ لگایا جائے۔
٭ اس نے علی بابا کو بتایا کہ اس کے دو بھائی ہیں ، ایک ادیب ہے اور دوسرا بھی بے کار ہے۔


٭ برادرِ مُشفق! میری شکل تم سے اتنی نہیں ملتی جتنی تمھاری شکل مجھ سے ملتی ہے، یہاں تک کہ مَیں صبح صبح آئینے کی جگہ تمھاری تصویر رکھ کر شیوکیا کرتا ہوں۔
٭ یہ تھے میرے زندگی کے حالات! اگر ان میں سے کچھ ایسے ہوں جو تمھیں پسند نہ آئے ہوں تو مَیں انھیں دوبارہ بسر کرنے کو تیار ہوں۔ جناب سرفراز شاہد سچ فرماتے ہیں: حرف لکھے ہیں یا شگوفے ہیں ایک سے ایک کھل اُٹھا پڑھ کر صاحبو! ہم نے تو لڑکپن میں عقل سیکھی ’حماقتیں‘ پڑھ کر
تحریر و تحقیق:

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک


..................
 
.
___________
بیت گیا ہنگامِ قیامت ، زورِ قیامت آج بھی ہے
ترکِ تعلق کام نہ آیا، ان سے محبت آج بھی ہے

“شکیل بدایونی”
___________________
 
.
"""
عرض کیا ہے۰۰۰۰۰

نہ اِدھر کے رہے
نہ اُدھر کے رہے
بیچ میں لٹکے رہے

نہ پاکستان کو بھول سکے
نہ پردیس کو اپنا سکے
اوورسیز بن کر کام چلاتے رہے

نہ اردو کو چھوڑ سکے
نہ انگریزی کو پکڑ سکے
دیسی ایکسنٹ میں گوروں کو کنفیوژ کرتے رہے

نہ کرسمس ٹری بنا سکے
نہ بچوں کو سمجھا سکے
عید پر سانٹا بن کر تحفے بانٹتے رہے

نہ نیکر پہن سکے
نہ شلوار قمیض چھوڑ سکے
جینز (jeans) پر کرتا پہن کر اِتراتے رہے

نہ گرمی کو بھول سکے
نہ برف کو اپنا سکے
کھڑکی سے سورج کو beautiful day کہتے رہے

اب آئی باری کراچی، لاہور اور پنڈی جانے کی تو
ہاتھ میں mineral water کی بوتل لیکر چلتے رہے

لیکن وہاں پر ....

نہ گول گپے کھا سکے
نہ لسّی پی سکے
پیٹ کے درد سے تڑپتے رہے
اموڈیم (imodium) سے کام چلاتے رہے

نہ مچّھر سے بھاگ سکے
نہ کھجلی کو روک سکے
کریم سے درد کو چھپاتے رہے

نہ اِدھر کے رہے
نہ اُدھر کے رہے
کمبخت کہیں کے نہ رہے
"
"""""'​
 
.

Latest posts

Back
Top Bottom