علامہ اقبال کی جنگ طرابلس پر مشہور نظم
شاعر مشرق نے ’فاطمہ بنت عبداللہ‘ میں کسے خراج عقیدت پیش کیا؟
فاطمہ بنت عبداللہ
عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ ميں
غازيوں کو پانی پلاتی ہوئی شہيد ہوئی
1912ء
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تيری مشت خاک کا معصوم ہے
يہ سعادت ، حور صحرائی! تری قسمت ميں تھی
غازيان ديں کی سقائی تری قسمت ميں تھی
يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
ہے جسارت آفريں شوق شہادت کس قدر
يہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر ميں تھی
ايسی چنگاری بھی يارب، اپنی خاکستر ميں تھی
اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم ميں ہے
رقص تيری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تيری تربت خاموش ميں
پل رہی ہے ايک قوم تازہ اس آغوش ميں
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے ميں
آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں
تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور
جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايام سے
جن کی ضو ناآشنا ہے قيد صبح و شام سے
جن کی تابانی ميں انداز کہن بھی، نو بھی ہے
اور تيرے کوکب تقدير کا پرتو بھی ہے
علامہ محمد اقبال کی اس نظم میں فاطمہ بنتِ عبداللہ کا تذکرہ اس عقیدت کے ساتھ کیا گیا ہے جس کا اظہار عام طور پر مذہبی شخصیات کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔
ان کے مجموعے ’بانگ درا‘ میں شائع ہونے والی اس نظم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جنگِ طرابلس میں بہادری اور شجاعت کی مثال بننے والی ایک 14 سال کی لڑکی کے بارے میں ہے۔
اگرچہ آج کے دور میں اس جنگ کو پہلی عالمی جنگ کے آس پاس ہونے والی دیگر لڑائیوں کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے تاہم مسلم دنیا کے لیے یہ ایک انتہائی اہم معرکہ تھا کیونکہ اس سے قبل طرابلس اور سیرے نائیک شمالی افریقہ کے ایسے علاقے تھے جو یورپی ممالک کے تسلط سے آزاد تھے اور وہاں سلطنت عثمانیہ کا پرچم لہراتا تھا۔
یہ 28 ستمبر 1911 کا دن تھا جب اٹلی نے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی غرض سے سلطنت عثمانیہ کو الٹی میٹم دیا اور 30 ستمبر کو طرابلس پر قبضہ کر لیا۔
کہا جاتا ہے کہ اٹلی کی فوجوں نے طرابلس کے مسلمانوں پر ظلم و ستم اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تاہم طرابلس کے باسیوں نے بے شمار قربانیاں دے کر اطالوی فوجوں کو ساحل کی طرف دھکیل دیا۔
جنگ کے لگ بھگ ایک برس بعد 13 نومبر 1912 کو مولانا ابوالکلام آزاد کی ادارت میں شائع ہونے والے مشہور جریدے ’الہلال‘ نے اس جنگ کے بارے میں ایک خصوصی مضمون شائع کیا۔
اس مضمون میں لکھا تھا کہ اس جنگ نے ’صدیوں کے بعد اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور کے غزوات اور مجاہدات کے واقعات زندہ کر دیے اور مدتوں بعد عرب دنیا کو موقع ملا کہ ان کے اصلی جوہر نمایاں ہوں۔‘
مضمون کے مطابق ’بدر اور احد کے واقعات میں ہم پڑھتے تھے کہ ایسی عورتیں تھیں جو اپنے آٹھ آٹھ لڑکوں کو اللہ کی راہ میں زخمی کرواتیں اور خود بھی زخمی ہو جاتی تھیں۔ وہ اللہ کے رسولؐ کی محبت میں ایسی محو تھیں کہ تیروں پر تیر کھاتی تھیں مگر اپنے جسم کو ان کے سامنے ڈھال کی طرح رکھتی تھیں۔ یہ ہم پڑھتے تھے مگر خاک طرابلس نے تمام واقعات دہرا دیے۔‘
الہلال میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’عربی جنگ کی پہلی خصوصیت عورتوں کی شرکت‘ تھی۔ جنگ طرابلس کے لیے جب اطراف و جوانب اور اندرون صحرا سے قبائل جمع ہونے لگے تو ہر قبیلے کے سردار کے ہمراہ اس کا پورا خاندان تھا۔
ان میں ہر طرح کی عورتیں ہوتی تھیں، وہ نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جن کے ابھی کھیل کود کے دن تھے، بوڑھی عورتیں بھی ہوتی تھیں جن کے جسم کے قویٰ جواب دے چکے تھے۔ بہت سی عورتیں ایسی بھی تھیں کہ ان کی گود میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ ان کو الگ نہیں کر سکتی تھیں۔
مضمون کے مطابق ادارتی ٹیم نے ’وہ تصویریں بھی دیکھی ہیں جن میں کسی عورت نے ایک طرف تو گود میں بچہ اٹھا لیا ہے اور دوسری جانب پانی کی مشک ہے، ایسی حالت میں (وہ) زخمیوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔‘
شیخ عبداللہ اور فاطمہ کا خاندان
جنگ طرابلس میں جن قبائل نے سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا ان میں ایک مشہور قبیلہ البراعصہ تھا جو افرادی قوت اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے اندرون طرابلس کا سب سے بڑا قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام شیخ عبداللہ تھا۔
روایات کے مطابق شیخ عبداللہ نے جنگ کے آغاز سے اختتام تک انتہائی جرأت مندانہ کردار ادا کیا اور انھوں نے نہ صرف اپنے قبیلے کو جنگ کے لیے تیار کیا بلکہ اردگرد کے دوسرے قبائل کو بھی اس پر آمادہ کیا۔
جنگ میں حصہ لینے والے تمام ترک افسر اس بارے میں متفق ہیں کہ اگر شیخ عبداللہ شروع سے ہی اس جنگ میں ان کا ساتھ نہ دیتے تو بعد کی کامیابیاں ہرگز حاصل نہ ہو سکتی تھیں۔ عبداللہ نے اپنا تمام مال و متاع ترک افسروں کے سپرد کر دیا اور اپنے قبیلے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے تمام افراد کو دشمن کے سامنے کھڑا کر دیا اور خود ان کی قیادت کا فریضہ سنبھال لیا۔
شیخ عبداللہ کا تمام خاندان مصروف جہاد تھا۔ ان کی صرف ایک بیٹی تھیں جن کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ 1898 میں پیدا ہوئی تھیں اور اس جنگ کے وقت ان کی عمر 13 یا 14 برس تھی۔ ان کی خدمات کو دیکھ کر تمام ترک افسر اور سپاہی حیران ہو جاتے تھے۔
فاطمہ کا جنگ اور زخمیوں سے ’انس‘
فاطمہ کی واحد تصویر ڈاکٹر اسماعیل تبانی بک نے کھینچی جو لکھتے ہیں: ’سب سے پہلے میں نے اس معصوم انسان کو اس وقت دیکھا جب میں پہلی مرتبہ اپنی جماعت لے کر عزیزیہ سے زوارہ آیا۔ عورتوں اور لڑکیوں کے لشکر میں کمی نہ تھی کیوں کہ ہر عرب اپنے پورے خاندان کے شریک جہاد ہوا تھا لیکن چند مخصوص باتیں فاطمہ میں ایسی نظر آتی تھیں جن کی وجہ سے وہ ہزارہا مردوں اور عورتوں میں بھی پہچان لی جاتی تھیں۔‘
’اول تو اس کی عمر بہت چھوٹی تھی۔۔۔ دوسرے اس کو جنگ اور جنگ کے زخمیوں سے ایسا انس ہو گیا تھا کہ سخت سے سخت معرکوں میں بھی اس کی مسابقت اور پیش قدمی کو ہر سپاہی محسوس کرتا تھا۔ جنگ خواہ حملے کی ہو، خواہ مدافعت کی، ساحلی بیڑے سے توپوں کی بارش ہو رہی ہو یا تلواروں اور سنگینوں کے سامنے صفیں ہوں مگر زخمی مسلمان کی آہ اس کے لیے ایک ایسی کشش تھی جس کو سن لینے کے بعد محال ہو جاتا تھا کہ اس کی چھوٹی سی مشک اپنے فرض کو بھول جائے۔‘
ڈاکٹر اسماعیل کے مطابق فاطمہ کم سن تھیں لیکن ان کے اندر ’ایک کہن سال عشق‘ موجود تھا۔
’یہ عشق لہو و لعب اور یا تمتعات حیات کا نہ تھا بلکہ خون، زخم اور کٹی ہوئی انسانی رگوں کا، جہاں کہیں یہ چیزیں موجود ہوتیں، وہ ایک باد رفتار ہرنی مستعدی مگر فرشتہ عشق کے پروں پر اڑتی ہوئی پہنچ جاتی تھی۔‘
ڈاکٹر اسماعیل تبانی مزید لکھتے ہیں: ’میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ بارود کے دھوئیں سے تمام فضا تاریک ہو رہی ہے۔ کانوں کے پردے توپوں کی سامعہ شکن فضائوں سے پھٹ رہے ہیں، گولوں کے پھٹنے سے ایک عارضی روشنی نمودار ہو جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی انسانی چیخیں گولوں کی گرج کے ساتھ مل کر ایک عجیب وحشت انگیز ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں۔‘
’ایسے جگر پاش اور زہرہ گداز عالم میں وہ معصوم ہرنی اس طرح دوڑ رہی ہے کہ معلوم ہوتا تھا کہ مظلوم و محتاج زخمیوں کی خبر گیری کے لیے کوئی فرشتہ ربانی آسمان سے اتر آیا ہے اور اللہ نے ہوا اور زمین کو اس کے تابع کر دیا ہے۔ انسانی لاشیں ایک پر ایک گر رہی تھیں مگر ہر نئی لاش کے گرنے کی آواز خوف کی جگہ اس میں قوت کی نئی رو پیدا کر دیتی تھی۔‘
ان کے مطابق یہ حالت دیکھ کر وہ بے اختیار ہو گئے۔ ’کچھ بعید نہیں کہ ایسے خطرناک اور یکسر موت و ہلاکت کے عالم میں یہ چہرہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے چھپ جائے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اب کے مرتبہ اگر وہ نمودار ہوئی تو کسی نہ کسی طرح اسے پکڑ لوں گا اور سمجھاؤں گا کہ موت کی اس درجہ آرزو مند کیوں ہو گئی ہے۔‘
پھر ڈاکٹر اسماعیل نے بچی پر ترس کھا کر اسے اپنی جان بچانے کا کہا بھی تو اس نے ایک نہ سنی۔ ’تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک چھوٹا سا سایہ قریب سے گزرا، میں نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کیا تجھے نہیں معلوم کہ تو اپنے باپ کی ایک ہی بیٹی ہے۔‘
جواب آیا: ’چھوڑ دو، کیا تم بھول گئے کہ اسلام اور وطن کے کتنے فرزند یہاں پیاسے دم توڑ رہے ہیں؟‘ یہ کہہ کر فاطمہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
مشکیزہ اور تلوار
سنہ 1912 کا ایک گرم دن تھا اور ظہر کا وقت تھا۔ اطالوی توپیں آگ برسا رہی تھیں اور فاطمہ کے والد شیخ عبداللہ جنگ میں شریک تھے۔ ان کی بیوی اور بیٹی فاطمہ بھی زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔
عصر کے وقت عرب مجاہدین کا ایک دستہ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑا اور ایک ترک افسر احمد نوری بھی اپنے تیس سپاہیوں کو لے کر آگے بڑھے۔ فاطمہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔
اطالوی فوجیوں نے ترک دستے کو گھیر لیا مگر ترکوں نے شجاعت سے کام لیتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنا لیا تاہم اس کوشش میں ان کے چار سپاہی زخمی ہوگئے۔
فاطمہ نے دوڑ کر اپنا مشکیزہ ایک زخمی سپاہی کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ چاہتی تھی کہ مشکیزے کا منھ زخمی کے ہونٹوں سے لگا دے مگر اسی لمحے ایک اطالوی سپاہی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔
فاطمہ نے بجلی کی سی تیزی سے زخمی ترک سپاہی کی تلوار اٹھائی اور اس زور سے اطالوی سپاہی پر وار کیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کا پنجہ کٹ کر لٹک گیا۔
فاطمہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی تاہم اطالوی سپاہی نے پیچھے ہٹ کر بائیں ہاتھ سے بندوق اٹھائی اور پے درپے تین گولیاں فاطمہ کو دے ماریں۔
یاد رہے کہ اس معرکے میں تین ہزار عربوں اور ترکوں نے تقریباً 12 ہزار اطالوی فوجیوں کو شکست دی تھی۔ جنگ کے بعد لوگ اپنے زخمی اور ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی تلاش میں نکلے تو چار بہادر ترک بے ہوش پڑے تھے اور ان کے پاس ہی فاطمہ کی لاش تھی۔
پانی کا مشکیزہ ترک سپاہی کے سینے پر پڑا تھا لیکن مشکیزے کا منھ زخمی کے لبوں پر نہ تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ فاطمہ ترک سپاہی کو پانی پلانے سے پہلے ہی شہید ہو گئی تھی۔
تحریر و تحقیق:
عقیل عباس جعفری