Farah Sohail
SENIOR MEMBER
- Joined
- Mar 2, 2012
- Messages
- 7,228
- Reaction score
- 4
- Country
- Location
ارکان پارلیمان کو شفاف ہونا چاہیے
سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ دوہزار سترہ کی شق دوسو تین کے تحت پارٹی سربراہ بننے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت میں مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے؟ کیا جیل سے سیاسی جماعت چلائی جاسکتی ہے؟
پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہاکہ قانون تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا، پارلیمان قانون سازی میں بااختیار ہے۔ آئین میں کسی شخص کے سیاسی جماعت بناکر سربراہ بننے پر کوئی پابندی نہیں، سیاسی جماعت کے ارکان جسے چاہیں اپنی جماعت کا سربراہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم شاہد خاقان کا بیان میڈیا میں آیا کہ وہ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر چلتے ہیں اور ان کی جماعت کا سربراہ ہی ان کا وزیراعظم ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا جیل سے سیاسی جماعت چلائی جاسکتی ہے؟۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل سلمان اکرم نے جواب دیا کہ افریقا کے معروف سیاہ فام رہنما نیلسن منڈیلا نے ستائیس سال جیل میں گزارے اور اپنی جماعت کے سربراہ رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتاہے؟۔ اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا سیاسی جماعت کا سربراہ بن جائے، کسی کی ذات سے غرض نہیں پاکستان کے سیاسی رہنما اچھے ہیں، اگر یہ قانون کالعدم قرار دیا گیا تو سینٹ الیکشن میں امیدواروں کو دیے گئے ٹکٹ کا کیا ہوگا؟ سینٹ امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے دیا جا سکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ سینٹ ٹکٹ ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ نااہل شخص پارلیمان سے وہ کرائے گا جو خود نہیں کرسکتا۔ ارکان پارلیمان کو صاف شفاف ہونا چاہیے۔ پارٹی سربراہ گدلا ہوگا تو باقی کیسے صاف ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایک شخص عمرقید کاٹ رہاہو تو پارٹی سربراہ کیسے رہ سکتاہے؟۔ وکیل نے کہاکہ قانون سازی پارلیمان کی صوابدید ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمان کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قانون سازی کا اختیار نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کی شق دوسوتین آئین سے وفاداری نہیں لگتی۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل سلمان راجانے کہاکہ کہ اگر ایسا ہے تو پھر کارروائی کی ہدایت جاری کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم ارکان کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں؟۔ وکیل نے کہا کہ آرٹیکل چھ کی کارروائی کا اختیار صرف وفاقی حکومت کو ہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت اکیس فروری تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف دلائل دیں گے۔
سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ دوہزار سترہ کی شق دوسو تین کے تحت پارٹی سربراہ بننے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت میں مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے؟ کیا جیل سے سیاسی جماعت چلائی جاسکتی ہے؟
پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہاکہ قانون تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا، پارلیمان قانون سازی میں بااختیار ہے۔ آئین میں کسی شخص کے سیاسی جماعت بناکر سربراہ بننے پر کوئی پابندی نہیں، سیاسی جماعت کے ارکان جسے چاہیں اپنی جماعت کا سربراہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم شاہد خاقان کا بیان میڈیا میں آیا کہ وہ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر چلتے ہیں اور ان کی جماعت کا سربراہ ہی ان کا وزیراعظم ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا جیل سے سیاسی جماعت چلائی جاسکتی ہے؟۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل سلمان اکرم نے جواب دیا کہ افریقا کے معروف سیاہ فام رہنما نیلسن منڈیلا نے ستائیس سال جیل میں گزارے اور اپنی جماعت کے سربراہ رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتاہے؟۔ اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا سیاسی جماعت کا سربراہ بن جائے، کسی کی ذات سے غرض نہیں پاکستان کے سیاسی رہنما اچھے ہیں، اگر یہ قانون کالعدم قرار دیا گیا تو سینٹ الیکشن میں امیدواروں کو دیے گئے ٹکٹ کا کیا ہوگا؟ سینٹ امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے دیا جا سکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ سینٹ ٹکٹ ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ نااہل شخص پارلیمان سے وہ کرائے گا جو خود نہیں کرسکتا۔ ارکان پارلیمان کو صاف شفاف ہونا چاہیے۔ پارٹی سربراہ گدلا ہوگا تو باقی کیسے صاف ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایک شخص عمرقید کاٹ رہاہو تو پارٹی سربراہ کیسے رہ سکتاہے؟۔ وکیل نے کہاکہ قانون سازی پارلیمان کی صوابدید ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمان کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قانون سازی کا اختیار نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کی شق دوسوتین آئین سے وفاداری نہیں لگتی۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل سلمان راجانے کہاکہ کہ اگر ایسا ہے تو پھر کارروائی کی ہدایت جاری کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم ارکان کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں؟۔ وکیل نے کہا کہ آرٹیکل چھ کی کارروائی کا اختیار صرف وفاقی حکومت کو ہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت اکیس فروری تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف دلائل دیں گے۔