ahsanshaheen
FULL MEMBER
New Recruit
- Joined
- Dec 16, 2007
- Messages
- 79
- Reaction score
- 0
یہ 18 ستمبر 2002ءکی بات ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا اور شاہ فہد بن عبدالعزیز کے بھائی شاہ سعود بن عبدالعزیز کے پوتے شہزادہ فہد نے اپنے ایک دوست منذر بن سلیمان کو دیکھا جو اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ گتھم گتھا تھا۔ شہزادہ فہد یہ دیکھ کر سخت طیش میں آیا۔ وہ کمرے میں گیا، کلاشنکوف اُٹھالایا اور 15 سالہ منذر پر فائرنگ کردی۔ منذر کو تین گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ شہزادہ فہد کو فوری طور پر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ مقدمہ کم وبیش 19 ماہ تک چلتا رہا۔ سعودی وزارت ِ عدل کے مطابق قتل کے ہر کیس کو 13 قاضی دیکھتے ہیں چنانچہ اس مقدمے کا فیصلہ 14 جولائی 2003ءکو صادر کردیا گیا۔ فیصلے کے مطابق: اگر مقتول کے ورثا قاتل کو معاف نہیں کرتے تو اس کی گردن تلوار سے اُڑادی جائے۔ شاہی خاندان اس فیصلے کے لیے پہلے سے ذہنی طور پر تیار تھا لہٰذا شہزادہ فہد کی والدہ نے مقدمے کے دوران ہی چھ مرتبہ منذر کی ماں سے رابطہ کیا اور انہیں معافی پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر منذر کی والدہ قاتل کو معاف کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوئی۔ اب جب سزا میں ایک دن رہ گیا تو 30 اپریل کو شاہی خاندان کی معزز شہزادی اور شہزادہ فہد کی والدہ مقتول کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی لیکن جب دیکھا کہ مقتول کے ورثا معافی کے لیے کسی صورت تیار نہیں تو دیت کی درخواست کردی۔ شاہی خاندان نے دیت کے لیے جس رقم کی پیشکش کی، یہ سعودی تاریخ میں ریکارڈ رقم تھی لیکن مقتول کے والد نے 70 ملین ریال کی خطیر رقم بھی ٹھکرادی۔ معافی کی درخواستوں اور دیت میں اضافے کا سلسلہ جاری تھا کہ یکم مئی 2004ءکا سورج طلوع ہوگیا اور فیصلے کی گھڑی آپہنچی۔ صبح سویرے ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دفتر میں مقتول منذر کے والد سلیمان اور اس کے رشتہ داروں کو آخری ملاقات کے لیے بلالیا۔ انہیں بتایا گیا کہ آج قاتل سے قصاص لیا جارہا ہے۔ گورنر نے کہا: میں آپ لوگوں کے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا نہ ہی شاہی خاندان نے اس سلسلے میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہاں! البتہ میں آپ کو اسلام میں معاف کرنے کی اہمیت سے ضرور آگاہ کروں گا۔ اگر آپ معاف کردیں تو یہ آپ کا اعلیٰ کردار ہوگا اور اگر آپ قصاص لیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ دوسری طرف گردن زدنی کا وقت جتنا قریب آتا جارہا تھا، شہزادہ فہد کی والدہ کی طبیعت غیر ہوتی جارہی تھی۔ صورتِ حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے شہزادہ فہد کے والد نایف بن سعود کہتے ہیں: جس دن عدالتی حکم کا نفاذ ہونا تھا، اس روز صبح سویرے ایک عدالتی اہلکار نے فون پر بتایا کہ وہ عدالت پہنچ جائیں۔ یہ سن کر ہماری تمام اُمیدیں دم توڑگئیں۔ شہزادہ فہد کی ماں تو شدت ِ غم سے گری اور بے ہوش ہوگئیں جنہیں فوراً ہسپتال پہنچادیا گیا۔ میں نے اپنی ہمت مجتمع کی! لیکن ایک ایسے باپ کی دِلی کیفیت کا اندازہ کون کرسکتا ہے جس کو چند گھنٹے بعد اپنے نوجوان بیٹے کا تڑپتا جسم اور کٹتی گردن دیکھنا تھی۔ یکم مئی 2004ءکے سورج کی گرمی جتنی بڑھتی جارہی تھی اسی رفتار سے صلح اور معافی کی تمام تر اُمیدیں دم توڑ رہی تھیں۔ صبح سے بے شمار لوگ قصرالحکم کے پہلو میں میدانِ قصاص میں جمع تھے۔ کچھ لمحے بعد لوگوں نے دیکھا شہزادہ فہد کو ایک گاڑی سے اُتارا گیا۔ اس کے پیروں میں بیڑیاں لگی ہوئی ہیں قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا ہوا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کا بازو تھاما ہوا ہے۔ میدانِ قصاص میں لاکر عدالت کے اہلکاروں نے اپنی آخری کارروائی مکمل کرتے ہوئے مقتول کے والد سلیمان سے پوچھا: کیا آپ قاتل کو پہچان رہے ہیں؟ اس نی، اس کے چچازاد بھائیوں اور قبیلے کے افراد نے گواہی دی: ہاں! یہی وہ قاتل ہے۔ ادھر جلاد نے تلوار میان سے نکال لی۔ اس دوران شہزادہ فہد نے آخری بار پکارا: اے سلیمان! اللہ کی رضا کی خاطر مجھے معاف کردیں۔ مقتول کے والد سلیمان نے بتایا: میں نے گزشتہ تمام وقت صرف اور صرف قصاص ہی پر زور دیا تھا۔ میرے چچازاد بھائی عبدالرحمن نے مجھے ایک بار پھر کہا: پانچ منٹ تک مزید غور کرلو۔ میں سوچتا رہا۔ پانچ منٹ بعد پولیس کے چیف نے مجھ سے پوچھا: تمہارا کیا فیصلہ ہی؟ میں نے جواب دیا: قصاص اور صرف قصاص۔ چنانچہ اس نے جلاد کو اشارہ کردیا.... جلاد نے تلوار نیام سے پہلے ہی نکالی ہوئی تھی، اب وہ بالکل تیار تھا.... لیکن اس دوران میرے قبیلے کے بعض افراد نے مشورہ دیا کہ میں ایک بار پھر استخارہ کروں اور اپنے رب سے مشورہ طلب کرلوں۔ میں اس سے پہلے دو مرتبہ استخارہ کرچکا تھا اور اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ ہر حالت میں قصاص چاہیے۔ میں نے ایک بار پھر استخارے کا فیصلہ کیا۔ قتل گاہ سے چند میٹر دور اپنا رُخ قبلے کی طرف کیا۔ آدھا گھنٹہ میں نماز ادا کرتا رہا اور مسلسل گڑگڑاکر اپنے رب سے مشورہ کرتا رہا۔ نماز کے بعد میں نے اپنے بیٹے تمیم سے کہا: موبائل پر اپنی والدہ سے بات کراﺅ۔ فون پر اہلیہ سے بات ہوئی، میں نے پوچھا: تمہارا کیا فیصلہ ہی؟ اس نے کہا: تم جو بھی فیصلہ کروگی، مجھے منظور ہے۔ اب چند لمحات کی بات تھی۔ شہزادہ فہد سر جھکائے ہوئے تھا۔ جلاد تلوار سونتے اشارے کا منتظر تھا اور ہزاروں لوگوں کی نظریں مقتول کے والد سلیمان پر جمی تھیں۔ سلیمان نے اپنے بیٹے تمیم اور بھائی عبدالرحمن کو آخری مشورے کے لیے بلایا اور پھر یکدم قاتل کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا: جاﺅ! میں نے اللہ کی رضا کے لیے تمہیں معاف کردیا لیکن یاد رکھو! مجھے کسی نے مجبور کیا ہے نہ ہی مجھے کوئی مالی لالچ ہے۔ ہاں! لیکن تمہیں قرآن حفظ کرنا چاہیے اور بقیہ زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزارنی چاہیے۔ یہ اعلان سننا تھا کہ میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ آج عفو ودرگزر اور عدل کا یہ نظام دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ سلیمان آگے بڑھا، شہزادہ فہد کو گلے لگایا۔ شہزادہ فہد نے سلیمان کے سر کے بوسے لیی! اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ یہ تصوراتی کہانی یا صدیوں پہلے کی کوئی رومانی روداد نہیں بلکہ یہ اسی صدی کا ایک سچا واقعہ ہے۔ یہ وہی اسلامی نظام عدل ہے جس کے سامنے شاہی خاندان بھی اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے۔ جی ہاں! اسلام کا نظامِ عدل جس کے سامنے شاہ سعود بن عبدالعزیز کا پوتا بھی سرجھکائے کھڑا نظر آتا ہے۔ آج طویل عرصے بعد سوات میں نظام عدل نافذ ہوا ہے تو اپنوں اور غیروں.... سب نے تضحیک وتحقیر کے تیر برسانا شروع کردیے ہیں۔ کسی نے چار دن سے کھانا نہیں کھایا تو کسی کو رات بھر قوم کے غم میں نیند نہیں آرہی۔ کوئی اسے مسلک کی بنیاد پر متنازع بنانے پر تُلا ہوا ہے تو کوئی اسے آئین پاکستان سے متصادم قرار دے رہا ہے۔ نظامِ عدل نہیں بلکہ ایک کانٹا ہے جو آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ صبح سے رات تک ہر وقت، ہر چینل پر بس ایک ہی موضوع گرم ہے۔ وہ وہ فلسفے بیان کیے جارہے ہیں کہ سقراط بقراط بھی پانی بھرتے نظر آئیں۔ مہم دیکھ کر یہ لگتا ہے گویا اس نظام کو ناکام بنانا اور اہلِ سوات کو آتش وآہن میں تڑپتے دیکھنا ہی واحد تمنا بن چکی ہے۔ کوئی قوم کے غم میں گھلنے والے ان حضرات سے پوچھے کہ ڈیڑھ سال تک سوات جلتا رہا 2 ہزار سے زیادہ بے گناہ موت کے گھاٹ اُتارے گئی ہزاروں مکانات گولوں اور مارٹروں سے تباہ کیے گئی چار عیدیں اور دو رمضان لوگوں نے سوگ کی حالت میں گزارے۔ ہزاروں زخمی ہوئی، لاکھوں نے گھر بار چھوڑکر کسمپرسی کی زندگی گزاری.... لیکن اس وقت کسی کو فکر دامن گیر ہوئی نہ ہی کسی نے ان لاچاروں کے حق میں ہمدردی کے دو لفظ بولے۔ آج جب وہاں امن لوٹ آیا ہے تو بے سروپا سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہی: آئین اور سپریم کورٹ کے ہوتے ہوئے ایک ملک میں دوسرا قانون اور عدالتیں کیسے چل سکتی ہیں؟