Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
great news is sindh started it
سندھ: بدین میں چودہ مدرسے بند
علی حسن حیدر آباد
صوبہ سندھ کے ساحلی علاقے ضلع بدین میں پولیس نے غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ پولیس نے ضلع بدین میں 14 مدرسوں کو سر بمہر کر دیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان مدارس میں کسی نے بھی سرکاری محکمہ سے اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرایا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ضلع کے دیگر مدارس محکمہ سوشل ویلفیئر کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔
پولیس کے اعلی حکام نے علاقے کے تھانیداروں کو پابند کیا ہے کہ ضابطے کی کارروائی کے بغیر ان مدارس کو نہ کھولا جائے۔ جن مدارس کو سر بمہر کیا گیا ہے وہ ضلع کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔
ضلع بدین میں مدارس کے کوآرڈینیٹر مفتی عبدالغنی گو پانگ کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں موجود مکاتب کو سر بمہر کیا گیا ہے جہاں بچے دوپہر کے بعد قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شام کو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
ضلع بدین کے پندرہ ہزار کی آبادی والے ایک قصبے کڑیو گھنور میں ایک مدرسے کے مہتمم حافظ عبدالواحد کھٹی کا کہنا ہے کہ ان کے مدرسے میں ستر اسی بچے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پولیس کارروائی سے قبل ہی مسجد میں قائم مکتب بند کردیا تھا ۔
پولیس حکام مدارس کے منتظمین سے ان کے ذرائع آمدنی بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔
مفتی غنی نے بتایا کہ پیر کے روز پولیس حکام کے ساتھ ملاقات کا وقت لیاگیا ہے تاکہ پولیس حکام کو مکتب اور مدرسے کے درمیاں فرق سے آگاہ کیا جائے۔ ان کہنا تھا کہ ضلع میں موجود مدرسوں کی اکثریت حکومت کے قانون کے مطابق سرکاری محکمے سے رجسٹر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر مکتب مساجد میں کام کرتے ہیں۔ نماز ظہر سے نماز عصر کے درمیان بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
پولیس حکام کے علم میں نہیں کہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد کیا ہے اور ان میں سے کتنے بچے ان مدارس میں رہائش رکھتے تھے۔ مکاتب اور مدارس چلانے والے مہتتم حضرات کے پاس بھی طلباءکی تعداد کی شماریات موجود نہیں ہیں۔
اندروں سندھ اکثر مدارس میں بچے قیام کرتے ہیں جہاں تعلیم کے علاوہ ان کے طعام کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں تقریبا تمام مساجد میں دوپہر کے بعد محلے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جس کا اکثر جگہوں پر کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ہے۔
گزشتہ بدھ کے روز ہی حیدرآباد ریجن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ثنا اللہ عباسی نے حیدرآباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انھیں ضلع بدین میں فرقہ وارانہ اشتعال کی چنگاری سلگتی نظر آ رہی ہے۔
ضلع بدین پولیس کے حیدرآباد ریجن کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدین کہیں مستقبل کا خیر پور نہ بن جائے۔ خیر پور میں فرقہ واریت میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ کسی مصدقہ شماریات کی غیر موجودگی میں بھی انھیں اندازہ ہے کہ ریجن میں موجود مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ریجن میں نو اضلاع شامل ہیں۔
بدین پولیس کی مدارس کے خلاف کاروائی کے علاوہ گیارہ ایسے مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں مساجد میں نصب لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال شامل ہے۔ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ضلعی پولیس نے نجی اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر اشتعال انگیز مذہبی منافرت کے نعرے تحریر کرنے کا الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔
سندھ: بدین میں چودہ مدرسے بند
علی حسن حیدر آباد
- ایک گھنٹہ پہلے
صوبہ سندھ کے ساحلی علاقے ضلع بدین میں پولیس نے غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ پولیس نے ضلع بدین میں 14 مدرسوں کو سر بمہر کر دیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان مدارس میں کسی نے بھی سرکاری محکمہ سے اپنے آپ کو رجسٹر نہیں کرایا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ضلع کے دیگر مدارس محکمہ سوشل ویلفیئر کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔
پولیس کے اعلی حکام نے علاقے کے تھانیداروں کو پابند کیا ہے کہ ضابطے کی کارروائی کے بغیر ان مدارس کو نہ کھولا جائے۔ جن مدارس کو سر بمہر کیا گیا ہے وہ ضلع کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔
ضلع بدین میں مدارس کے کوآرڈینیٹر مفتی عبدالغنی گو پانگ کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں موجود مکاتب کو سر بمہر کیا گیا ہے جہاں بچے دوپہر کے بعد قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شام کو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
ضلع بدین کے پندرہ ہزار کی آبادی والے ایک قصبے کڑیو گھنور میں ایک مدرسے کے مہتمم حافظ عبدالواحد کھٹی کا کہنا ہے کہ ان کے مدرسے میں ستر اسی بچے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پولیس کارروائی سے قبل ہی مسجد میں قائم مکتب بند کردیا تھا ۔
پولیس حکام مدارس کے منتظمین سے ان کے ذرائع آمدنی بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔
مفتی غنی نے بتایا کہ پیر کے روز پولیس حکام کے ساتھ ملاقات کا وقت لیاگیا ہے تاکہ پولیس حکام کو مکتب اور مدرسے کے درمیاں فرق سے آگاہ کیا جائے۔ ان کہنا تھا کہ ضلع میں موجود مدرسوں کی اکثریت حکومت کے قانون کے مطابق سرکاری محکمے سے رجسٹر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر مکتب مساجد میں کام کرتے ہیں۔ نماز ظہر سے نماز عصر کے درمیان بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
پولیس حکام کے علم میں نہیں کہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد کیا ہے اور ان میں سے کتنے بچے ان مدارس میں رہائش رکھتے تھے۔ مکاتب اور مدارس چلانے والے مہتتم حضرات کے پاس بھی طلباءکی تعداد کی شماریات موجود نہیں ہیں۔
اندروں سندھ اکثر مدارس میں بچے قیام کرتے ہیں جہاں تعلیم کے علاوہ ان کے طعام کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں تقریبا تمام مساجد میں دوپہر کے بعد محلے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے جس کا اکثر جگہوں پر کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ہے۔
گزشتہ بدھ کے روز ہی حیدرآباد ریجن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ثنا اللہ عباسی نے حیدرآباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انھیں ضلع بدین میں فرقہ وارانہ اشتعال کی چنگاری سلگتی نظر آ رہی ہے۔
ضلع بدین پولیس کے حیدرآباد ریجن کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدین کہیں مستقبل کا خیر پور نہ بن جائے۔ خیر پور میں فرقہ واریت میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ کسی مصدقہ شماریات کی غیر موجودگی میں بھی انھیں اندازہ ہے کہ ریجن میں موجود مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ریجن میں نو اضلاع شامل ہیں۔
بدین پولیس کی مدارس کے خلاف کاروائی کے علاوہ گیارہ ایسے مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں مساجد میں نصب لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال شامل ہے۔ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ضلعی پولیس نے نجی اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر اشتعال انگیز مذہبی منافرت کے نعرے تحریر کرنے کا الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔