What's new

Urdu vs English: Are we ashamed of our language?

Why most of the parents want their children to get educated from english medium schools

Answer is quite simple...

because we're convinced that by getting our children educated in English medium would do more good in their career & never gave thought to strengthen our own local language(URDU) & take necessary steps to revive its rich heritage
 
پیر 10 شعبان 1432هـ - 11 جولائی 2011م

جاپان میں پاکستان

جاپان کی طلسم ہوش ربا، باب درباب پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ مجھے یہاں آنے سے قبل اس جادونگری کے پھیلاؤ اورگھیراؤ کا اندازہ ہوتا تو بہت سے دن لے کر آتا۔ مجھے جاپان کے طول و عرض میں پھیلی بے کراں محبتوں کا بھی اندازہ نہ تھا جو امڈی چلی آ رہی ہیں۔ سفر تمام ہونے کو ہے اور بے شمار باتوں کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ لگتا ہے پاکستان پہنچنے کے بعد بھی جاپان کم از کم کچھ دن میرے ساتھ رہے گا۔

پروفیسر عامر خان کا تعلق کراچی سے ہے جو ان دنوں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ نہ جانے کب یونیورسٹی کے نام کو اردو کے قالب میں ڈھالا گیا جو” جامعہ ٹوکیو برائے مطالعات خارجی“ کہلاتی ہے۔ جاپان آتے ہی پروفیسر صاحب کو خبر ہوگئی۔ انہوں نے اپنے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ہیروشی ہاگیتا کی طرف سے یونیورسٹی کے دورے کی دعوت دی۔ پروفیسر ہیروشی ہاگیتا کمال کی شخصیت ہیں۔ دو سال اورنٹیل کالج لاہور میں اردو پڑھتے رہے۔ اب وہ اردو ہی نہیں، پنجابی بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ انہیں جاپانی بچوں کو اردو پڑھاتے تیس سال ہوگئے۔ تین اور جاپانی اساتذہ بھی ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو قائم ہوئے ایک سو تین سال ہوچکے ہیں۔ 2008ء میں اس کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ روایت کے مطابق پاکستان سے بھی ایک استاد کو بلایا جاتا ہے۔ ان دنوں محمد عامر خان یہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جواں سال پاکستانی کے ذوق شعر و ادب کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔

پروفیسر ہاگیتا نے بتایا کہ یونیورسٹی میں کم و بیش چھبیس اہم عالمی زبانوں کی تدریس ہوتی ہے۔ آج کل جاپانی نوجوانوں کا سب سے زیادہ رجحان انگریزی کی طرف ہے اردو کے علاوہ ہندی، عربی، فارسی اور ترکی کے شعبہ جات بھی قائم ہیں۔ اردو کے چار سالہ کورس کی تکمیل گریجویشن کے لئے لازم ہے اور ماسٹرز کے لئے مزید دو سال۔ طلبہ کی تعداد ہر کلاس میں پندرہ سولہ کے لگ بھگ رہتی ہے۔ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کامن روم میں طلبہ و طالبات سے دلچسپ گپ شپ ہوئی۔ جاپانیوں کی اردو میں ان کے مزاج کے ٹھہراؤ اور نرم گوئی نے بڑی شیرینیاں بھر دی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے بارے میں کئی سوال کئے۔ بڑے شوق سے تصویریں بنوائیں۔ چوتھے سال کی طالبہ میابی نے چائے تیار کی۔ کوئی سوا سو سال کی تاریخ رکھنے والی اس عظیم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں یوں لگا جیسے یہ چھوٹا سا پاکستان ہو۔ اساتذہ اور طلبہ ہمیں دور تک چھوڑنے آئے۔

نماز جمعہ ترکی مسجد پڑھنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ جاپان کی سب سے بڑی اور نہایت ہی خوبصورت مسجد ہے۔ دبیز سرخ قالینوں سے آراستہ مسجد کے منقش چوبی دروازے، کوئی دس زینوں والا منبر، خوبصورت خطاطی کی شاہکار قرآنی آیات سے سجی دیواریں، جا بجا دلآویز رنگوں کے نقش و نگار، بڑے مرکزی گنبد کے نیچے انتہائی خوبصورت مینا کاری، کھڑکیوں کے شیشوں پر کی گئی ریزہ کاری اور لمبے نوکیلے میناروں کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ترک ہنر کاروں کا معجزہ فن ہے ۔بیسویں صدی کے اوائل میں کازن ترکوں کے کچھ قبائل روسیوں سے بچنے کے لئے نقل مکانی کرکے یہاں آ بسے۔ ان کے دو بڑوں عبدالحئی قربان علی اور عبدالرشید ابراہیم نے ٹوکیو میں ”محلہ اسلامیہ“ کی بنیاد ڈالی۔ ایک مسجد تعمیر کی جس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ مسجد ویران ہو کر بالکل اجڑ گئی۔ کوئی بیس سال پہلے اس کی تعمیر نو کی تحریک اٹھی جس میں سب سے نمایاں کردار پاکستانیوں نے ادا کیا۔ ترک حکومت نے اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ دیگر اسلامی ممالک نے بھی مدد کی۔ جاپان کے مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں نے گراں قدر عطیات دیئے۔ 30/جون 2000ء کو اس عظیم الشان مسجد کا افتتاح ہوا۔
جواں سال ترک امام کے سر پہ ترکی طرز کا عمامہ تھا۔ انہوں نے سفید براق قمیض اور سیاہ رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی تراشیدہ کالروں میں خوبصورت ٹائی تھی اور اس سب کچھ کے اوپر سنہری رنگ کی ایک عبا۔ انہوں نے پہلے جاپانی زبان میں تقریر کی۔ پھر انگریزی میں اسے دہرایا۔

تقریر کا موضوع شب برات کی اہمیت تھا۔ اس کے بعد انتہائی مختصر عربی خطبہ دیا۔ کچھ پاکستانیوں نے امام صاحب سے میرا تعارف کرایا تو وہ میرا ہاتھ تھامے نچلی منزل میں واقع اپنے دفتر لے گئے۔ گرم خوشبودار قہوے سے تواضع کی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے دو تین مسائل کی نشاندہی کی۔ ایک یہ کہ مسلم بچوں کے لئے اسلامی خطوط پر تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ ان کے نزدیک حلال خوراک دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں جاپانی ترجمے والے قرآن مجید کی شدید ضرورت ہے۔ تعلیم اور حلال خوراک جیسے مسائل تو میرے بس میں نہ تھے لیکن میں نے انہیں دارالسلام اور برادر عزیز عبدالمالک مجاہد کے بارے میں بتایا اور وعدہ کیا کہ میں ان کے تعاون سے آپ تک جاپانی تراجم والے قرآن کریم بھجوانے کی کوشش کروں گا۔

مجھے یہاں برسوں سے مقیم پاکستانی سکالر، جناب عبدالرحمٰن صدیقی نے بتایا کہ جاپان بھر میں کوئی ستر کے قریب مساجد ہیں جن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کاوش میں پاکستانیوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ پاکستان ہی کی طرح جاپان میں بنائی جانے والی مساجد بھی کسی نہ کسی مسلک سے جڑی ہیں۔ یہاں بھی قبضے ہوتے، لڑائیوں کے میدان سجتے اور بعض اوقات معاملہ تھانے کچہری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ایسے مظاہر نہ ہوں تو یقیناً صوفی منش جاپانیوں میں اسلام بہت تیزی سے پھیلے۔

میرے لئے جاپان کی ایک کشش، اپنے آپ، یعنی عرفان صدیقی سے ملاقات تھی۔ عرفان برسوں سے ٹوکیو میں مقیم ہے۔ آئی ٹی کے بزنس سے وابستہ ہونے کے علاوہ وہ جنگ گروپ کا بیورو چیف ہے اور ایسا بیورو چیف جو اپنے کام کی بے پناہ لگن رکھتا اور اسے خاصا وقت دیتا ہے۔ ایک ہی گروپ سے وابستہ ہونے کے باعث، ہم دونوں کی ہم نامی بیشتر قارئین کے لئے اشتباہ پیدا کرتی ہے۔ اس کی کئی رپورٹوں کا خراج تحسین میرے حصے میں آجاتا ہے اور میرے کئی کالموں کا قہر اس پر ٹوٹتا رہتا ہے۔ میرے جاپان پہنچتے ہی عرفان نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے رابطہ کیا اور براہ راست تعارف نہ ہوتے ہوئے بھی ایسی محبت کا مظاہرہ کیا جس میں ہم پیشہ اور ہم نام ہونے کے علاوہ بے کراں خلوص کی تپش بھی شامل تھی۔ جاپان انٹرنیشنل پریس کلب کے صدر شاہد چوہدری تو ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہنے تشریف لے آئے تھے۔ مقامی تاجر اور نہایت ہی سادہ وپرکشش شخصیت کے مالک شیخ ذوالفقار نے صحافیوں سے بھرپور ملاقات کیلئے ایک استقبالئے کا اہتمام کرڈالا۔ پہلی بار عرفان صدیقی (طوکیو)سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں عرفان اور شاہد چوہدری میرے ساتھ ساتھ ہی رہے۔

نماز جمعہ کے بعد جاپان میں پاکستانی سفیر جناب نور محمد جادمانی سے ملاقات طے تھی۔ پاکستانی سفارت خانے کے بارے میں یہاں ایک افسوس ناک کہانی گردش کررہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف دور میں شوکت عزیز وزیر اعظم تھے تو یہاں نہایت ہی مہنگے کاروباری علاقے میں پاکستانی سفارتخانے کی عمارت واقع تھی۔ مبینہ طور پر اس وقت کے کرتوں دھرتوں نے جانے کس کس کی ملی بھگت سے یہ سفارتخانہ ایک ارب پتی بزنس مین کو بیچ کر کروڑوں ڈالر کا کمیشن کمایا۔ اب سفارتخانہ کہیں زیادہ سستے علاقے میں ہے۔ عمارت اچھی ہے سادہ پرکشش شخصیت کے حامل سفیر جناب نور محمد جادمانی سے مل کر خوشی ہوئی۔

انہوں نے بڑے افتخار سے بتایا کہ مارچ 2011ء کے زلزلے اور سونامی کے فوراً بعد پاکستانی کمیونٹی نے کس عزم و ایثارکے ساتھ جاپانی مصیبت زدگان کی مدد کی۔ یہ لوگ اشیائے خورد و نوش اور ضروری چیزوں سے بھرے ٹرک لے کر سب سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔ تب حکومتی اہلکار بھی وہاں تک نہ آئے تھے۔ ان کے اس عزم و ایثار نے جاپان میں مقیم پاکستانیوں کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ ایسی ہی کہانیاں مجھے پاکستانی احباب نے بھی سنائیں۔ ایک دوست نے کہا… ”ہمارے لئے حیران کن بات یہ تھی کہ اس حال میں بھی جاپانیوں کا نظم و ضبط مثالی تھا۔ وہ قطاروں میں کھڑے تھے۔ کوئی شخص اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں لے رہا تھا۔ کوئی حکومت کی شکایت نہیں کررہا تھا۔ کوئی نعرے نہیں لگا رہا تھا۔ کوئی دھکم پیل تھی نہ چھینا جھپٹی۔ میں نے ایک بھوکے پیاسے بچے کو ایک سینڈوچ دیا۔ شاید وہ دو دن سے بھوکا تھا۔ فوراً کھا گیا۔ میں نے اسے ایک اور سینڈوچ دیا تو اس نے پیچھے بیٹھے بچے کی طرف اشارہ کرکے کہا… ”اسے دو“ جاپانی ایک ہی بات کہتے تھے۔ ”ہم یہ سب کچھ دوبارہ بنائیں گے۔“

جادمانی صاحب سے اچھی نشست رہی۔ وہ پاکستانیوں کیلئے مشینی پاسپورٹ اور سکول جیسے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں اپنی ترجیحات میں خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی آموں کی درآمد کیلئے خاصا ابتدائی کام کرچکے ہیں۔ اور بہت جلد پاکستانی اپنے وہاں کے شیریں اور خوشبودار آموں سے لطف اندوز ہونے لگیں گے۔ اس وقت یہاں میکسیکو، فلپائن، برازیل اور تھائی لینڈ سے آم درآمد ہو رہے ہیں۔ سب سے اچھا آم میازاکی ہے جو مقامی ہے۔ یہاں ایک آم کتنے کا ملتا ہے؟ اس لرزہ خیرانکشاف کیلئے ایک آدھ دن انتظار کیجئے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ


جاپان میں پاکستان
 
No, we dont, not like india, we definitely dont consider other languages are more superior than chinese.
Most chinese go to American university is for learning advanced technology, not English.
But for studying in US school, they must learn English first. So, english is just a tool for
learning knowledge to chinese, not some superior things.

lol who said indians consider english as superior??
every Indian knows that english is language filled with innumerable flaws...we study it because it is important for many jobs..
 
In India, there is no language which is superior.

It is true that we all can speak and use English to a greater advantage than many.

But that is not because we consider English as superior.

It is just that our education system equips us to be so as also be proficient in our mother tongue as also in our Official Language - Hindi.

Most of us know a minimum of three languages and we are proficient in all!
 
No, we dont, not like india, we definitely dont consider other languages are more superior than chinese.
Most chinese go to American university is for learning advanced technology, not English.
But for studying in US school, they must learn English first. So, english is just a tool for
learning knowledge to chinese, not some superior things.

You have to realize there are 1,652 languages in India out of which there are 12 official languages. While Hindi may be our primary official language it is not our national language. English has not been considered superior but as a tool of communication between Indian's having different native tongues. English helps maintain a commonality and also allows us to communicate better with the rest of the world.
 
I have never come across a Pakistani who is ashamed of Urdu.

Never come across a Sindhis who is ashamed of speaking Sindhi.

Never came across a Balochi who is ashamed to speak Balochi.

Never came across a Pakistani Pashtun who is ashamed to speak Pashto.

Though I come across alot of Pakistani Punjabis who are ashamed to speak their Punjabi language, and see Punjabi as a lower class and inferior language.


Exactly, what I have observed is that most of the Punjabi men talk to each other in Punjabi (they mostly use it just for gupbazi) but switch to Urdu immediately when they talk to their children or female family members or when they like to come over as the educated people. I bet the majority of those on this board who are worried about the future of "their" Urdu are Punjabi.
 
regarding urdu very little people speak it as native languagbe so it is an imposed language ,,it is not spoken by any majority as mother language in any province,,,,,more over english is the language of the day,, every field is encompassed by it,,so we should rather promote english ,, and tryu to limit urdu to the pooint to replace it witrh english at national and international level and with local languages at provincial level,,,as we have very rich lingual diversity ,,sindhi,punjabi,balochi,pashto,kasmiri,sariaki,potohari,brohi,,, etc,, this will help in saving our mother tongues from dyingg and also help level the education standard,,
 
How is Urdu not a mother tongue of some in Pakistan?

If it were not so, it surely could not have been the national language.

Isn't it the language of the Mohajirs who came from UP and Bihar?
 
Urdu is one of the most beautiful languages in the world.

Urdu poetry is considered one of the best. Allama Iqbals Poetry can literally make you cry due to its immense beauty.


He might be a CIA/RAW agent, so be on the look out. ;)
 
Last edited by a moderator:
What is wrong with learning and speaking English?

I think Pakistanis are at an advantage with the upper and middle class being familiar with English as that is what will help them most if they go abroad, and also Pakistan's understanding of English would also make it easier for foreigners to invest in Pakistan.

I do think it's important for Urdu poetry to be preserved.

I've never been to school in Pakistan so I don't know this for sure, but I'm assuming that in schools classes like science and math would have to be in English because Urdu does not have a direct translation for the words that would be present in those subjects.
 
Back
Top Bottom