What's new

Urdu & Hindi Poetry

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

کیف بھوپالی



کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

دل ناداں نہ دھڑک اے دل ناداں نہ دھڑک
کوئی خط لے کے پڑوسی کے گھر آیا ہوگا

اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل
تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا

دل کی قسمت ہی میں لکھا تھا اندھیرا شاید
ورنہ مسجد کا دیا کس نے بجھایا ہوگا

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا

کھیلنے کے لیے بچے نکل آئے ہوں گے
چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہوگا

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا
 
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا
مرتضٰی برلاس​
 
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

Written by Naseer Turabi on fall of Dhaka! This ghazal recently resurfaced to fame after its use in Pakistani drama "Humsafar", sung by all beloved QB - Quratulain Baloch.
 
ameer-minai-1.jpg
 
' اردو کے مشہور و معروف شاعر امجد اسلام امجد کی اپنی والدہ کے انتقال پر لکھی ایک نظم ''

وہ جو اک دعائے سکون تھی مرے رخت میں ، وہی کھو گئی
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
مرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
مرے غم کو جڑ سے اُکھاڑتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، مرے نام پر
وہی سو گئی
وہ جو اک دعائے سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
ترے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاع ہے
تری دین ہے تیرا مال ہے
مجھے ہے تو اتنا ملال ہے
کہ جب اُسکی ساعتِ آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جائے پناہ تھی
میں وہاں نہ تھا
سرِ شامِ غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں نہ تھا
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا
کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
❤️

(آمین )


′′ A poem written by the famous Urdu poet Amjad Islam Amjad on the death of his mother ′′
 
′′ Faiz Ahmad Faiz ′′

Faiz Ahmad Faiz is one of the lucky poets of the twentieth century who got unlimited fame, popularity, greatness and love in his life. He tasted the taste of Dar and Rusan and enjoyed the colours of Kocha Yar. He was of Allama Iqbal. The teacher was a student of Maulvi Mir Hassan. He also got the honor of reading from Yousuf Saleem Chishti. But he could not become Iqbal. Iqbal known Islam as revolutionary religion and shouted Islam by Islam. While Faiz dreamed of revolution in the way of communism. See. The difference between the poet of both comes out very clear.

When Faiz took care of consciousness and started saying poetry, the wave of romanticism came at that time. The poets like Josh and Ehsan Danish were happy to build conceptual gardens under romanism. The literary tradition was shouldered by Jigar, Asghar, Hasrat and Dagh. In the guise of poem, Akhtar-ul-Imman, N-M-Rashid, and Miraji were playing their individuality.

When Faiz started his academic life, Sahibzada Mahmood Al-Zafar and his wife Rashida Jahan under the influence of Marxism in Amritsar Studied later when started the progressive movement, Faiz was one of its founding members. Faiz didn't resilience his ideology nor turned back despite enduring thousands of hardships and passing through the stages of distractions.

At the time when the doors of their homes were closed and the doors of the prisons were opened on the progressives, Faiz remained connected to the movement, it shows that Faiz Wafaari was convinced of Basharat Istwari. Faiz wanted to create such a revolution in the society. Those who completely changed the current exploitation system were convinced of the non-class system.

The Ghazal under the influence of the progressive movement suffered a lot of damage but Faiz also adopted a poem to express progressive ideology. And instead of writing political resistant poems, he thought it was political and resistant literature. The age is too little.

The place of Faiz is not in the way.
If someone comes out of a friend, then he is sleeping.




”فیض احمد فیض“


فیض احمدفیض بیسویں صدی کے اُن خوش قسمت شعرا ءمیں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پنا ہ شہرت و مقبولیت اور
عظمت و محبت ملی ۔ انہوں نے دار و رسن کا مزہ چکھا اور کوچہ یار کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوئے ۔ وہ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن ہی کے شاگرد تھے انہیں یوسف سلیم چشتی سے پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ لیکن وہ اقبال نہ بن سکے اقبال نے اسلام کو انقلابی مذہب جانا اور اسلام بذریعہ اسلام کا نعرہ لگایا۔ جبکہ فیض نے کمیونزم کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا۔ دونوں کی شاعر ی میں یہ فرق بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔
فیض نے جب شعور سنبھالا اور شعر کہنے شروع کئے تو اُس وقت رومانیت کی لہر آئی ہوئی تھی ۔ جوش اور احسان دانش جیسے شعراءرومانیت کے تحت تصوراتی جنتوں کی تعمیر میں مگن تھے۔ ادبی روایت کو جگر، اصغر ، حسرت اور داغ نے کندھا دے رکھا تھا۔ نظم نگاری کے بھیس میں اخترالایمان ، ن۔م۔راشد، اور میراجی اپنی انفرادیت کی مرلی بجا رہے تھے۔ فیض نے جب علمی زندگی کا آغاز کیا تو امرتسر میں صاحبزادہ محمود الظفر اور اُن کی اہلیہ رشیدہ جہاں کے زیر اثر مارکسزم کا مطالعہ کیا بعد ازاں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا تو فیض اُسکے بانی اراکین میں شامل تھے۔ فیض نے ہزاروں سختیوں کو سہنے اور دار و رسن کی منزلوں سے گزرنے کے باوجود نہ تو اپنے نظریات میں لچک پیدا کی اور نہ ہی روگردانی کی۔ اُس وقت جب ترقی پسندوں پر اُن کے گھروں کے دروازے بند اور جیلوں کے دروازے کھل گئے تھے، فیض اس تحریک سے وابستہ رہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ فیض وفاداری بشرط استواری کے قائل تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے جو موجودہ استحصالی نظام کو بالکل بدل کر رکھدے وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو بہت نقصان پہنچا لیکن فیض نے ترقی پسند نظریات کے اظہار کے لئے بھی غزل کا پیرایہ اختیار کیا۔ اور سیاسی مزاحمتی نظمیں لکھنے کے بجائے غزلیں تحریر کیں۔ کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ سیاسی اور مزاحمتی ادب کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔


مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
.


1624051532559.png
 
اب وقت نے سب نقش بگاڑے ہیں وگرنہ
یہ شہر میرے حسن سے مرعوب رھا ہے


1624111987738.png
 

Happy Birthday Zia Mohyeddin, A Living Legend



Zia Mohyeddin is a Pakistani actor, producer, director and television broadcaster who has appeared in both Pakistani cinema and television as well as in British cinema and television throughout his career.

Zia Mohyeddin is famous for his blockbuster Pakistan Television talk show named after him Zia Mohyeddin Show (1969 – 1973). He is also known for originating the role for Dr. Aziz in A Passage to India.

Zia Mohyeddin was born in Faisalabad, in a family originally from Haryana. His father, Khadim Mohyeddin, was associated with theatre as a playwright and occasional lyricist.

Zia spent his early life in Kasur and Lahore. He was trained at the Royal Academy of Dramatic Art in London from 1953 to 1956. After stage roles in Long Day’s Journey into Night and Julius Caesar, he made his West End debut in A Passage to India in 1960. He made his film debut in Lawrence of Arabia (1962), playing the role of Tafas. He then made numerous TV and film appearances. As an actor, he worked for nearly 47 years in the United Kingdom.



1624279902328.png
 
"The maestro who wore many hats". Remembering Obaidullah Baig on his death anniversary.

Obaidullah Baig, a maestro of balancing his professional life with his love of history, literature and his personal life, had unmatchable intellect which inspired many. A carefree soul of all the worldly worries, he is also known as the most well-read and well-spoken personalities in Pakistan. Such amalgamation of legendary ideas and creativity made him a personality that will be praised ever after.

Obaidullah Baig belonged to a respectable family from Rampur, India. His decision of moving to Pakistan after partition proved to be a blessing for yet-to-be-established Pakistani television and media industry. Obaidullah was a reputed scholar, journalist, environmentalist, film, documentary maker and a novelist as well as one of the most precious minds Pakistan Television (PTV) ever produced.

He had uncountable accomplishments in a diverse field of ideas. As a host, people at that time raved his hosting in a program namely Kasauti, a sophisticated quiz show that remained in the limelight for many years and had been referred to by people from all walks of life including iconic personality Zia Mohiudeen to political entities including Khushbakht Shujaat.

Obaidullah Baig teamed up with renowned poet Iftikhar Arif and then with journalist Ghazi Salahuddin; thus the show was known due him and its host star Quraishpur.

He had produced 300 documentaries along with a long list of remarkable novels including Tughral Turkman for history, Jim Junior for bravura hunting adventures.

As a journalist, he had notable achievements during his early start of the very field. As soon as he keenly observed the field of journalism, he started writing for a monthly magazine called Ashuja and then at Hurriyat, a daily newspaper.

A bulk of his work was done in PTV through documentaries, his valuable services in Radio Pakistan and strong footsteps in the advertising field as Director, Copywriter at Asiatic. One of his best and remembered documentaries was ‘Sailani kay Sath’.
Baig’s personal life was as happening as he was known in his professional life, never sitting still or resting in his glory; he was married to a lady with strong and positive character, Salma Baig, who also remained a prominent personality and a famous TV host.

When asked to his daughter about her dad’s personality, she wittily answered: “He wore many hats, I suppose he had a name for all of them.”

A man who was many things to many people had affectionate feelings full of gratitude for his daughters; the same feelings he had for his wife when they met each other during the golden days of PTV; fell in love and raised a family of three daughters who were as progressive as their father.

During his last days when he got to know that he had been suffering from cancer, he decided to stay at home and love his beloved ones instead of going for chemotherapy and medical treatment. He breathed last on June 22, 2012.



1624303618134.png
 
I cannot Forget Kasuti with those 3 figures My favorite program when TV used to be Black and White. There were remakes but can't beat the Original . All Rest in Piece and one Day we shall all Rise and meet each other. All these renowed Artists and experts in their fields makes us Proud Pakistani.
 

Razia Butt One of the top novelists of the Pakistan.


Razia Butt was a Urdu novelist and playwright from Pakistan. Her novels typically have strong female protagonists, and have been dramatised in movies and television plays.

Razia Butt was born in Rawalpindi in 1924; she spent most of her childhood in Peshawar.
Her name first appeared in a literary journal around 1940 when she was in her teens. She later developed her first published story into a novel‚ Naila.

Married in 1946‚ Razia Butt resumed writing in 1950s after a break of some years. She was later hailed as one of the prolific writers of her time‚ with some 50 novels and 350 short stories to her credit. She also wrote many radio plays.

Being a contemporary of many famous names in Urdu fiction writing‚ Razia Butt carved a niche and a market for herself by perfecting a particular brand of storytelling.

Not surprisingly‚ many of her novels‚ such as Saiqa and Naila‚ were adapted for the big screen.

She was also a favourite of television producers looking to turn a novel into a TV drama serial.

Popular with many generations of readers‚ Razia Butt came up with an autobiography “Bichhray Lamhe”.

Her famouse Novels include Aadhi Kahani , Aag, Aaina , Aneela, Bano, Beena, Chahat, Darling, Faslay , Mein kon hon, Naila, Najia, Nasoor, Noreena, Reeta, Roop, Sabeen, Saiqa, Sawaneh, Zindgi.


Photo Courtesy : Farina Naeem



May be an image of 1 person and standing

 

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom