What's new

Urdu & Hindi Poetry

Ghalib, born Mirza Asadullah Baig Khan, on 27 December 1797 – died 15 February 1869, was a prominent Urdu and Persian-language poet during the last years of the Mughal Empire. He used his pen-names of Ghalib and Asad.

Born: December 27, 1797, Agra, India
Died: February 15, 1869, Delhi, India
Full name: Mirza Asadullah Beg Khan
Buried: Mazar-e-Ghalib

aah ko chāhiye ik umr asar hote tak

kaun jiitā hai tirī zulf ke sar hote tak

Aah



bāzīcha-e-atfāl hai duniyā mire aage

hotā hai shab-o-roz tamāshā mire aage

Duniya



bas-ki dushvār hai har kaam kā āsāñ honā

aadmī ko bhī mayassar nahīñ insāñ honā

Insaan

.....
dard minnat-kash-e-davā na huā

maiñ na achchhā huā burā na huā

...

haiñ aur bhī duniyā meñ suḳhan-var bahut achchhe


kahte haiñ ki 'ġhālib' kā hai andāz-e-bayāñ aur
 

کاشانہءِ غالب، محلہ بَلّی ماراں
سید ذیشان احمد

پچھلے دنوں جب میں دلی (یا دہلی) میں تھا تو میں نے ایک عجیب سی بات محسوس کی۔ وہ یہ کہ میں جب جب گلی قاسم جان (جو کہ بَلّی ماراں سے نکلتی ہے) میں ایک حویلی کے سامنے سے گزرتا تھا تو منہ پر یہ شعر خود بخود، باترنم آجایا کرتا:



ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے،

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

اس شعر کی طرز، جس میں، میں پڑھا کرتا، وہی تھی جو ونود سہگل کی آواز میں شہرہءِ آفاق ڈراما سیریز مرزا غالب میں تھی۔ شاید یہ غالب سے عقیدت، محبت یا یہ کہہ لیجیے کہ ایک قسم کی انسیت تھی جس نے اس عادت کو جنم دیا۔ میرا یہ غالب کی حویلی کے پاس سے گزرنا کوئی نئی بات نہ تھی، اور اس بار تو روز کا معمول بن گیا تھا، لیکن آخر ایسا تھا ہی کیوں؟ سمجھ لیجیے دلی سے نہ صرف میرا بلکہ میرے خاندان کا بھی تعلق ہے، لیکن یہ قصہ پھر کبھی۔

58086f5a57378.jpg

بَلّی ماران یہاں سے شروع ہوتا ہے — تصویر ذیشان احمد


5808702f49f99.jpg

گلی قاسم جان — تصویر ذیشان احمد


58087081bfcb9.jpg

یادگارِ غالب یا غالب کی حویلی — تصویر ذیشان احمد


5808760b808c4.jpg

غالب کی حویلی — تصویر ذیشان احمد


میرا جب بھی دلی جانا ہوتا ہے تو رہائش گلی قاسم جان میں موجود ایک مکان میں ہوتی ہے جو ہمارے پر دادا کے زمانے سے وہاں ہے۔ حالانکہ اب اس مکان کی بناوٹ وغیرہ بالکل بدل چکی ہے لیکن مقام وہی ہے۔ گھر سے دو قدم کی دوری پر وہ حویلی موجود ہے جہاں مرزا اسد اللہ خان غالب عرف مرزا نوشہ نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے۔

ویسے تو مرزا نے اپنی زندگی میں، جب سے وہ آگرہ سے دلی آئے، کئی مکان بدلے لیکن شاید ہی کوئی ایسا مکان ہوگا جو گلی قاسم جان یا اس کے اطراف سے باہر ہو۔

اس حویلی کی کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ حویلی کافی بڑی ہوا کرتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ اس کے کئی حصے بٹ گئے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حویلی میں ایک کوئلے کی ٹال قائم ہوگئی۔

580870d3900e4.jpg

غالب کی حویلی — تصویر ذیشان احمد


58086ec679657.jpg

غالب کی حویلی کا ایک اندرونی منظر — تصویر ذیشان احمد


58086ec60fed2.jpg

غالب کی حویلی کا ایک حصہ — تصویر ذیشان احمد


580872eacc677.jpg

غالب کی حویلی — تصویر ذیشان احمد


لیکن ایک لمبی جدوجہد کے بعد آخر کار 90ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت اس حویلی کو ایک ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا، جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد حویلی کی بحالی کا ایک سلسلہ چلا جس نے حویلی کو ایک یادگار میں تبدیل کردیا۔

میں اس حویلی کو بہت کم عمری سے دیکھ رہا ہوں، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور آج اس سے ایک ایسا رشتہ جڑ گیا ہے جس کو بیان کرنا آسان نہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، غالباً آپ کے ساتھ بھی ہوا ہوگا، ایک کوئی ایسی جگہ جہاں سے آپ سالوں سے گزر رہے ہوں لیکن آپ کو اس کی حیثیت کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ لیکن پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک آپ کا اس سے رشتہ جڑ جاتا ہے۔

58086ec6db979.jpg

غالب کی حویلی کا ایک اندرونی منظر — تصویر ذیشان احمد


58086ee6cf123.jpg

حویلی میں موجود غالب کا لباس — تصویر ذیشان احمد


580872ea4abe7.jpg

دیوانِ غالب — تصویر ذیشان احمد


آج مرزا کی حویلی کا جو حصہ میموریل بنا دیا گیا ہے وہ ایک چھوٹا حصہ ہے۔ اندر مغلیہ دور کا سا منظر دکھے گا۔ محرابیں، سرخ اینٹیں، راہداریاں اور بڑے دروازے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح سے اس جگہ کو بحال کیا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مرزا نے اس حویلی میں 9 سال گزارے۔ مرزا کے شاگرد اور اُن کے ساتھ طویل وقت گزارنے والے الطاف حسین حالی پانی پتی نے مرزا کی زندگی اور ان کی اردو فارسی تخلیقات پر ایک شاندار کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’یادگارِ غالب‘۔ اس کتاب میں حالی لکھتے ہیں کہ مرزا نے کئی مکان بدلے اور کچھ عرصہ کالے خان صاحب، جو کہ غالب کے اچھے دوست تھے، ان کے یہاں بھی رہائش پذیر رہے۔

حالی بتاتے ہیں کہ ان کا آخری مکان ایک مسجد کے ساتھ تھا۔ اس بات پر مرزا نے ایک شعر بھی کہا ہے:



مسجد کے زیرِ سایہ ایک گھر بنا لیا ہے

یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے

580874045892e.jpg

غالب حویلی کا ایک اندرونی منظر — تصویر ذیشان احمد


580872eb0b0bf.jpg

غالب حویلی کے اندر محراب اور مغلیہ دور کی طرزِ تعمیر دیکھنے کو ملتی ہے — تصویر ذیشان احمد


580874d1b9da5.jpg

غالب کی شریک حیات امراؤ بیگم کا لباس — تصویر ذیشان احمد
ا
 
مرزا کے آخری چند سال بڑی تکلیف میں گزرے اور بیشتر اوقات اپنی موت کی آرزو کیا کرتے تھے۔ حالی نے ہی لکھا ہے کہ آخری برسوں میں غالب پلنگ پر ہی رہتے تھے۔ پوری زندگی مرزا نے ہر قسم کی تکلیف کو سہا۔ سر پر ماں باپ کا سایہ نہیں، پھر جو جو شفقت کا مرکز بنے وہ بھی چل بسے، اولادوں کی اموات، بھائی کی موت، پھر قانونی مسائل، اوپر سے تنگی، لوگوں کا تعصب اور ان سب کے بعد 1857ء کے وہ کچھ مہینے جس نے سب کچھ بدل دیا۔

آج حویلی میں پہنچ کر ان گنت خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے اور کیا رونقیں ہوا کرتی ہوں گی اور پھر کیسی کیسی آفتیں آئیں۔ اس وقت کو یاد رکھنے کی ایک کوشش حویلی کی دیواروں سے جھلکتی ہے۔ حویلی میں اس دور کی تصاویر، مرزا کی زندگی کے حوالے سے کچھ دستاویزات اور اس نوعیت کی اور بھی چیزیں ہیں۔

ایک بڑی تصویر، جس میں مرزا حقہ پی رہے ہیں، بھی نصب ہے، جس کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے مداح تصویریں کھنچواتے ہیں یا سیلفیاں لیتے ہیں۔ 2 مجمسے بھی ہیں۔ ایک شیشے کے پیچھے ہے، برآمدے میں، جس میں مرزا تشریف فرما ہیں اور دوسرا حویلی میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر کمرے میں ہے۔

580871c001d1d.jpg

مرزا غالب کی نصب ایک بڑی تصویر — تصویر ذیشان احمد


580871c8d1497.jpg

گلزار صاحب کی جانب سے پیش کردہ غالب کا مجمسہ — تصویر ذیشان احمد


580871c897e13.jpg

مجسمہ غالب — تصویر ذیشان احمد


یہ مجسمہ مشہور شاعر، لکھاری اور گیت نگار گلزار صاحب کا عطا کردہ ہے، جن کی غالب شناسائی کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر آپ نے گلزار صاحب کی تحریر کردہ سیریز مرزا غالب دیکھی ہو تو اس میں جو مرزا کی حویلی دکھائی گئی ہے، وہ اسی حویلی کو سامنے رکھ کر بنائی گئی تھی۔

مرزا آخری سالوں میں بیمار ضرور رہے تھے، قوتِ سماع بھی قریباً جاچکی تھی لیکن خط و کتابت کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔ اس کا بیان نہ صرف حالی نے کیا ہے بلکہ محمد حسین آزاد نے اپنی تصنیف آبِ حیات میں بھی کیا ہے کہ مرزا خطوط کے جوابات خود تحریر نہیں کرپاتے تو کسی سے لکھوا لیتے، لیکن سلسلہ کبھی ٹوٹا نہیں۔

58086edddb2d9.jpg

غالب حویلی میں نصب تصاویر — تصویر ذیشان احمد


5808760b808c4.jpg

غالب پر تحریر کی گئی کتابیں — تصویر ذیشان احمد


58086f5a7f417.jpg

اس حویلی کا راستہ جہاں کہتے ہیں کہ غالب کی امراؤ بیگم کے ساتھ شادی ہوئی تھی جو اب بوسیدہ حالت میں موجود ہے— تصویر ذیشان احمد


مرزا کا انتقال 1869ء میں اسی حویلی میں ہوا لیکن وہ اس سے پہلے ہی امر ہوچکے تھے۔ آج بھی شاعری اور شاعروں یا تاریخ سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ حویلی صرف ایک یادگار ہی نہیں بلکہ ماضی میں قدم رکھنے اور ایک بیتے ہوئے کل کو آج سے ملانے کا ایک مقام ہے۔

اور جہاں تک شامی کباب، اولڈ ٹام اور آم پسند کرنے والے، عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ، مرزا غالب کی بات ہے تو:



ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

557ab30809d01.jpg

ذیشان احمد
 
ab ke ham bichha.De to shaayad kabhii Khvaabo.n me.n mile.n
Ahmed Faraz


ab ke ham bichha.De to shaayad kabhii Khvaabo.n me.n mile.n
jis tarah suukhe hue phuul kitaabo.n me.n mile.n

Dhuu.NDh uja.De hue logo.n me.n vafaa ke motii
ye Khazaane tujhe mumkin hai Kharaabo.n me.n mile.n

[uja.De=desolated, ruined; Kharaab=bad]

tuu Khudaa hai na meraa ishq farishto.n jaisaa
dono.n insaa.N hai.n to kyo.n itane hijaabo.n me.n mile.n

[hijaab - veil, here it means barrier]

Gam-e-duniyaa bhii Gam-e-yaar me.n shaamil kar lo
nashaa ba.Dataa hai sharabe.n jo sharaabo.n me.n mile.n

aaj ham daar pe khe.nche gaye jin baato.n par
kyaa ajab kal vo zamaane ko nisaabo.n me.n mile.n

ab na vo mai.n huu.N na tu hai na vo maazii hai `Faraaz',
jaise do shaKhs tamannaa ke saraabo.n me.m mile.n

[maazii=past; saraab - illusion, mirage]

---------- Post added at 03:39 AM ---------- Previous post was at 03:38 AM ----------

ab ke rut badalii to Khushbuu kaa safar dekhegaa kaun
Ahmed Faraz


ab ke rut badalii to Khushbuu kaa safar dekhegaa kaun
zaKhm phuulo.n kii tarah mahake.nge par dekhegaa kaun

dekhanaa sab raqs-e-bismal me.n magan ho jaaye.nge
jis taraf se tiir aayegaa udhar dekhegaa kaun

vo havas ho yaa vafaa ho baat maharuumii kii hai
log to phal-phuul dekhe.nge shajar dekhegaa kaun

[maharuum=deprived; shajar=tree]

ham chiraaG-e-shab hii jab Thahare to phir kyaa sochanaa
raat thii kis kaa muqaddar aur sahar dekhegaa kaun

[chiraaG-e-shab=night lamp]

aa fasiil-e-shahar se dekhe.n Ganiim-e-shahar ko
shahar jalataa ho to tujh ko baam par dekhegaa kaun

[fasiil-e-shahar=city wall/boundary; Ganiim-e-shahar=city's enemy]
Its beautiful so beautiful
 
February 22; Death anniversary of Josh Malihabadi
Courtesy : Rashid Ashraf

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

28166252_1637808752966238_2579861577270485990_n.jpg
 
Ishq

Poet: faiz Ahmad Faiz


Ishq Minat Kaash E Qarar Nahe
Husan Majboor E Intizaar Nahe

Teri Ranjish Ki Intiha Maloom
Hasrtoo Ka Meri Shumaar Nahe

Zer E Lab Hy Abi Tabasum E Dost
Muntashir Jalwa E Bahaar Nahe

Apni Takmeel Kar Rha Ho Mein
Warna Tujh Sy To Mujh Ko Pyaar Nahe

Faiz Zinda Rahen Wo Hain To Sahe
Kiya Hua Gar Wafa Sha'aar Nahe
 
do chaar gam rah ko hamwar dekhna

NIDA FAZLI



do chaar gaam raah ko hamvār dekhnā

phir har qadam pe ik na.ī dīvār dekhnā

āñkhoñ kī raushnī se hai har sañg ā.īna

har aa.ine meñ ḳhud ko gunahgār dekhnā

har aadmī meñ hote haiñ das biis aadmī

jis ko bhī dekhnā ho ka.ī baar dekhnā

maidāñ kī haar jiit to qismat kī baat hai

TuuTī hai kis ke haath meñ talvār dekhnā

dariyā ke is kināre sitāre bhī phuul bhī

dariyā chaḌhā huā ho to us paar dekhnā

achchhī nahīñ hai shahr ke rastoñ se dostī

āñgan meñ phail jaa.e na bāzār dekhnā
 
Allama Iqbal in London with Lord and lady Simon, amongst others, during the round table conferences in the early 1930's. The gentleman in the turban is Syed Amjad Ali.
Courtesy : Munib Iqbal

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گويا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں ميں

 
Pathanay Khan – A Legend

18 years have passed but yet the legend of the great Pathanay Khan still remains, whose lilting sweet yet pain filled Saraiki songs are absorbed by lovers of folk music. Pathanay Khan or Ghulam Mohammad, was born in 1926 in the village Basti Tambu Wali, situated in the heart of the Thal Desert, several miles from Kot Addu, Punjab. When he was only a few years old, his father, Khameesa Khan, brought home a third wife after which his own mother decided to leave her husband. She took Ghulam Muhammad along and went to Kot Addu to stay with her father. When the boy fell seriously ill, his mother took him to the house of a spiritual doctor who advised her to change his name because it seemed ‘too heavy for him’ as the doctor is known to have said. Meanwhile, folk stories say that the doctor’s daughter commented that he looked like a Pathana. In the region of South Punjab, the name Pathana symbolises love and valour, so from that day onwards he was known as Pathanay.

Pathanay was close to his mother but much as she tried to send him to school, his nature kicked in and soon he started to stray away from school and began to start wandering, contemplating and singing. It is quoted by people who knew him then that this was his own father’s characteristic too. By the time he was in his seventh class, he began to sing kafis by Khwaja Ghulam Farid.

His first teacher was Baba Mir Khan, who taught him everything he knew. Singing alone did not earn him enough, so the young Pathanay Khan started collecting firewood for his mother, who used to make bread for the villagers. This enabled the family to earn a very modest living. It is said that at an older age, when Pathanay Khan talked about his childhood, remembering those days brought tears in his eyes and he believed that it was his love for God, music, and Khwaja Farid that gave him the strength to bear this burden.

Pathanay adopted singing as a profession in earnest after his mother’s death. With his voice heavy with expressions, his singing had the capacity to attract and entrance his listeners, and he himself could in turn sing for hours. Khan’s reverence for Khawaja Ghulam Farid was absolute. Khawaja Farid was everything for him and he derived all his spiritual strength from him. One rarely sees a singer who can understand and render poetry as good as Pathanay Khan rendered Khawaja’s poetry for the audience. His reading style was so clear and popularly punctuated that even a non-Saraiki speaker could follow the text and meanings of most words. It remains the best-kept secret that Pathanay khan sung much better when he was unaccompanied by tabla, because it was in raw form.

Depending on his mood, Pathanay would sing the same kafi in different ragas. However, unlike other famous singers, he would never brag or mention that he was changing the raga for a particular kafi. It naturally flew from his heart and he remained oblivious to the technicalities. Pathanay Khan learned music from Amir Khan, a local musician who was a descendant of Ustad Ashiq Ali Khan. He was not trained as a classical musician and learned musical techniques during his singing at mela gatherings. His singing absorbed the essence of masses, their aspirations and miseries. Nonetheless, Pathanay had a great desire to sing a classical raga and tried to convince Ustad Chote Ghalam Ali Khan to teach him. Pathanay Khan gave his own deeper meaning to Khawaja Sahib’s poetry in his typical style and sprit of singing.
Pathanay Khan is known to have elevated the form of Kafi to a much higher level than his predecessors. Khan’s famous musical pieces include meda ishq vi tun, ghoom charakhda ghoom, mai vi jana jhok, mera ranjhan hun and kia haal sunawan. Pathanay was given the pride of performance award by the president of Pakistan. He embodied his own unique style in singing. He died in March 2000, after protracted illness. But among those desert flowers of Thal, and everywhere else in Pakistan, the scent of his presence prevails gently, never diffusing from the minds of people.

میڈا عشق وی تُوں، میڈا یار وی تُوں
میڈا دین وی تُوں، ایمان وی تُوں۔ ۔ ۔



نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
فیض احمد فیض

 
Abdul Hameed Adam with his 5 sons. He was popular poet from Gujranwala, Pakistan. He was known for his nazam “Yeh Jo Halka Halka Suroor” which was later sung by Nusrat Fateh Ali Khan and "Woh Baatein Teri Woh Fasane Tere " sung by Tahira Syed and "hans ke bola karo bulaya karo".

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو
جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو
تاکہ دنیا کی دل کشی نہ گھٹے
نت نئے پیرہن میں آیا کرو
کتنے سادہ مزاج ہو تم عدمؔ
اس گلی میں بہت نہ جایا کرو

 
Habib Jalib recites his work to a live audience 1988

بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ دے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا


He is remembered as “Shayir-e-Awam” (people’s poet) and “Shayir-e-Inqilab” (poet of revolution) due to the rebellious nature of his poetry. Jalib used to captivate the audiences with his unique style of poetry reciting.



A great political and social activist of his time, some of his famous literary works include “Zulmat Ko Zia”, “Watan ko Kuch Nahi Khatra”, “Main Ne Uss Se Yeh Kaha” and “Aisay Dastoor Ko”.

“Dastoor” was written against ex-field martial General Ayub Khan in the 60s while he criticised former army chief General Ziaul Haq in his poem “Zulmat ko Zia” in the late 70s. He passed away on 12 March 1993.
 
Last edited:

Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lagta hai...
Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lagta hai

Naye parindo ko udne mein, waqt to lagta hai...
Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lagta hai

Jism ki baat nahi thi, unn ke dil tak jaana dhaa
Jism ki baat nahi thi, unn ke dil tak jaana dhaa
Lambee doori, tay karne mein, waqt to lagta hai..
Lambee doori, tay karne mein, waqt to lagta hai..
Pyar ka pehla khat likhne mein, waqt to lagta hai

Gaat agar lag jaye to phir, rishte ho ya doree
Gaat agar lag jaye to phir, rishte ho ya doree

Laakh kare koshish, khulne me, waqt to lagta hai..
Laakh kare koshish, khulne me, waqt to lagta hai..
Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lagta hai

Humne ilaaj-e, zakhme dil to, dhoond liya lekin
Humne ilaaj-e, zakhme dil to, dhoond liya lekin..
Gahray, zakhmo, ko bharne mein, waqt to lagta hai..
Gahray zakhmo ko bharne mein, waqt to lagta hai..
Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lagta hai
Naye.. parindo ko udne mein, waqt to lagta hai...
Pyar ka pehla, khat likhne mein, waqt to lag...ta hai
 
غزل لوگ کب پوچھتے ہیں

Poet: Zahid Abbas Zaidi


غَم سِہنا تو اَزل سے لِکھا تھا میرے
اِس حال میں کب پوچھتے ہیں لوگ

برباد اس طرح کیا اُس نے میرے دِل کو
رُکتے نہیں آنسو جب پوچھتے ہیں لوگ

اُس کی خواہش تھی کہ میں مر جاؤں
مگر مرنے کا سبب پوچھتے ہیں لوگ

کون راول تھا جو تڑپتا رہا صحرا میں زاہد
مرنے کے بعد سب پوچھتے ہیں لوگ
 
Back
Top Bottom