سید ضمیر جعفری کا اصل نام سید ضمیر حسین تھا اور وہ یکم جنوری 1916ء کو چک عبدالخالق ضلع جہلم میں سید حیدر شاہ اور سردار بیگم کے ہاں پیدا ھوئے۔ انہوں نے جہلم ، اٹک اور اسلامیہ کالج لاھور سے تعلیم کے بعد صحافت کے شعبے سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں فوج میں شامل ہوئے اور میجر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ھوئے۔ 1948ء میں اخبار نکالا۔ 1950ء میں اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا۔ سی ڈی اے ، نیشنل سنٹر اور اکادمی ادبیات پاکستان سے متعلق رہے۔ پی ٹی وی سے پروگرام ”آپ کا ضمیر‘‘ کرتے رہے۔ دو بیٹے ہوئے، سید احتشام ضمیر اور سید امتنان ضمیر۔ سید احتشام ضمیر جرنیل ہوئے اور غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی شہرت پائی۔ کچھہ عرصہ کالم نگاری بھی کی۔
سید ضمیر جعفری اردو کے اھم مزاح گو شعرا میں شمار ھوتے ھیں ۔ مافی الضمیر، آگ، مسدس بدحالی، ولایتی زعفران (انگریزی سے ترجمے)، نشاط تماشا(کلیات) ،اکتارہ ، کارزار ، لہو ترنگ ، جزیروں کے گیت ، من کے تار ، قریۂ جاں ، ضمیر یات ان کے مجموعے ہیں۔
نثر کی کتابیں، کتابی چہرے، اڑاتے خاکے، کالے گورے سپاہی، جنگ کے رنگ، ہندوستان میں دو سال، آنریری خسرو، ضمیرحاضر ضمیر غائب،سوزِ وطن، شاہی حج، سفیر لکیر، کنگرو دیس میں، پہچان کا لمحہ، نشانِ منزل، مسافرِ شہرِ نو، جدائی کا موسم ، بھید بھرا شہر اور عالمی جنگ کی دُھند میں ان کے علاوہ ہیں ۔
سید ضمیر جعفری نے1943 سے1977 تک باقاعدگی سے ڈائری لکھی۔ بتاتے ہیں یہ شاید 1978 ء کی بات ہے کہ ممتاز شاعر عبدالعزیز خالد میرے ہاں تشریف لائے تو ڈائریوں کی قطار دیکھ کر پوچھا:
”اِن میں کیا ہے ؟‘‘
میں نے عرض کیا:
”راتیں ہیں ان میں بند ہمارے شباب کی‘‘
انہوں نے دریافت کیا:
”آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ‘‘
”دوا‘‘ بھی انہوں نے ہی تجویز کی۔
‘‘ اس ذخیرے کی چھانٹی کرو۔ منتخبات کو چھپواؤ۔ اس متاع کو ٹھکانے لگاؤ۔
کس کے گھر جائے گا یہ سیل بلا تیرے بعد‘‘
میں اگرچہ اندر سے متذبذب تھا کہ اس ملبے میں نہ تاریخ ہے نہ ادب ۔ ان لمحاتی جذبوں ، اضطراری حالتوں میں سرپٹ لکھی ہوئی تحریروں کی اشاعت کہیں میری عاقبت ہی نہ خراب کر دے مگر خالد صاحب کے تجربے اور دانش کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ سو میں نے ایک سابق فوجی ہونے کے ناتے سب سے پہلے اس کی نکاسی کے لیے ایک فوجی محاذ یعنی عسا کر پاکستان کے ہفتہ روزہ اخبار ” ہلال‘‘ کو منتخب کیا ۔ جس میں ”ضمیر حاضر، ضمیر غائب‘‘ کے عنوان کے تحت ان ڈائریوں کے اقتباسات کچھہ عرصہ شائع ہوتے رہے۔ اس کے محترم مدیر نے مجھے ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ ان کے قارئین اس سلسلے کو دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے. ڈائریوں کا انتخاب کتابی شکل میں"ضمیر کے ساتھ ساتھ" کے عنوان سے شائع ہوا.
حکومت پاکستان نے 1984ء میں سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔
سید ضمیر جعفری 12 مئی 1999ء کو نیویارک میں وفات پا گئے اور کھنیارہ شریف، بچہ مندرہ ضلع راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودہ خاک ھوئے۔
سید ضمیر جعفری کے کچھ شعر
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے
سال میں اک بار ہم یوم ِاقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت
نہ منشور اپنا، نہ دستور اپنا
قدم راہ چلنے سے معذور اپنا
مگر شور ہے دور سے دور اپنا
گلا کام کرتا ہے بھر پور اپنا
پاکستان کے مایہ ناز اداکار، صداکار، انگلش، اردو سٹیج ڈرامے کے نامور ڈائریکٹر مشہور زمانہ محترم ضیاء محی الدین۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ اکانوے برس کی عمر میں بھی صحت تندرستی کا راز صرف اپنے کام سے عقیدت اور محبت ہے۔
آج بھی وہ دفتری امور ایمانداری کے ساتھ نبھا رہے ہیں .آج بھی وہ تھیٹر کی کلاسز لیتے ہیں اور آجکل اسٹیج تھیٹر کی ریہرسل میں بھی مصروف ہیں۔ اللہ سبحان تعالٰی انہیں صحت تندرستی والی لمبی زندگی عطاء فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
.,.,
Death anniversary of Prof. Asghar Saudai
(A Forgotten National Asset)
نامور اردو شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر اصغر سودائی کا اصل نام محمد اصغر تھا اور وہ 17 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا اور 1945 میں مشہور نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اللہ‘‘ تخلیق کیا۔
پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔
1965ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔1966ء میں انہوں نے سیالکوٹ میں علامہ اقبال کالج قائم کیا اور اس کے پرنسپل بھی رہے تھے۔
1984ء سے 1986ء تک وہ ڈیرہ غازی خان کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔
پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہ دوسراؐ اور چلن صبا ک
کی طرح کے نام شامل ہیں۔
17 مئی 2008ء کو نامور اردو شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر اصغر سودائی سیالکوٹ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہیں
تحریر و تحقیق: عقیل عباس جعفری
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیری
، اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی،سرمائہ شبیری
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے