اکیلے رات بھر تڑپتا رہا مریض شام غم غالب
نہ تم آئے ، نہ نیند آئی، نہ چین آیا ، نہ موت آئی
.
An incarnation of Faiz Ahmed Faiz’s poetry in the voice of Atif Aslam with Aaye Kuch Abr. Speaking of solitude and finding personal solace in life’s little pleasures, the ghazal provides a space for one to find the common humanity in one's own experiences.
اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیارِ ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ،ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پر تو دکھائی دیتا ہے۔تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اس کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں۔ احسان دانش ؒ ایک دبستانِ علم و ادب کا نام ہے وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں-
احسان دانش کو اردو ادب میں ایک انتہائی معتبر بزرگ انشا پردازی اور شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی انشا پردازی کے بڑے دل کش نمونے ملتے ہیں وہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کے استعمال میں بھی الفاظ کے انتخاب میں بے مثال قرینہ رکھتے تھے۔ان کی نثر میں بھی شعریت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک مزدور شاعرکے طور پر جانے جاتے ہیں ۔وہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے تھے۔’’جہان دانش‘‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے جو محض ایک سوانح ہی نہیں بل کہ اس پورے عہد کی دل چسپ اور حقیقت سے لبریز ہے جو ہمیں ایک تاریخی کتاب سے بڑھ کر ناول لگی ہے ۔احسان دانش کی آپ بیتی ’’جہان دانش‘‘ ۱۹۷۳ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔احسان دانش جب اپنے سمت ماضی کا دریچہ کھولتے ہیں تو ان کے سامنے حادثات کے سینکڑوں آئینے وا ہوتے نظر آتے ہیںْ ’’جہان دانش‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں-
’’ ہر چند کہ آپ بیتی لکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے تندرست تصور ،جیالہ حافظہ اور تازہ دم قوتِ تخلیق درکار ہے ۔جو ہر شخص کا حصہ نہیں ،آپ بیتی لکھنے والا انسان ،ناول نویس یا افسانہ نگار کی طرح ادب تخلیق نہیں کرتا بل کہ ان کے جادۂ فکر سے ہٹ کر گزری ہوئی صداقتوں کو عصر حاضر میں اس طرح رفو کرتا ہے کہ سیون دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
His poems reflect his revolutionary ideas and his love is always unrequited. Nihilism, loneliness, a deep grief of separation and self-destruction are the central themes of his poetry and each line will tug your aching heart.
اُجیاں لمیاں لال کھجوراں تہ پتر جنہاں دے ساویں
ننگے پنڈے مینوں چمکن مارے، میرے روندے نیں نین نمانے
جنیاں تن میرے تے لگیاں ، تینوں اک لگے تے توں جانے
غلام فریدا دل اُوتھے دیئیے جتھے اگلا قدر وی جانے
His poetry is known for the unique use of everyday, commonplace phrases and wording that is instantly relatable for masses in the region. Numerous of his Punjabi lines and phrases have actually become a figure of speech in everyday conversations. The most prominent feature of his expression is the poignancy buried deep under the humor making his poetry one of its kind. The nuance of tragedy in his poems is a reflection of social injustice, discriminations and personal misfortunes of his characters. This is why he, himself commented: “Real laughter is one that sheds tears when squeezed”.
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی مہک نے
گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری
روٹی سے ہمیں رغبت دیرینہ ہے انورؔ
یہ نان کمٹمنٹ پرانی ہے ہماری