تہران کے ایک اسپتال میں کرونا وائرس نے ایک نرس سے درخواست کی کان قریب لائے ایک راز کی بات پوچھنی ہے ۔
نرس پہلے تو بہت گھبرائی کہ یہ کمینہ مجھے بھی بیمار کرنے کے چکر میں ہے ۔
کرونے نے سارس وائرس کی قسم کھا کر وعدہ کیا کہ بس ایک بات پوچھنی ہے اگر بتادی تو یہاں سے بھی چلا جاؤں گا ۔
نرس نے ادھر ادھر دیکھا ، سارس وائرس کی قٓسم کرونا فیملی میں بہت بڑی قسم تصور کی جاتی ہے ۔
نرس نے ہمت کر کے کان کرونے کے قریب کیا تو کرونے نے دبی بی سرگوشی میں پُوچھا " یہ پاکستان میں ماروی ، خلیل والا کیا قصہ ہے ؟؟ میرے بارے میں کوئی خبر کیوں نہیں "
نرس نے کرونے کو بتایا کہ تم نے اب تک پوری دُنیا میں ٹوٹل تین ہزار بندے مارے ہیں ۔ اتنے بندے تو پاکستان والے چندے میں وار آن ٹیرر کے دوران " کو ایلیشن اسپورٹ فنڈ " کے لیے ایک دن میں صدقہ کر دیتے تھے ۔
تُو بہت ڈراؤنا ہے لیکن اب تک تجھے کوئی پاکستانی نہیں ہوا ۔ وہاں ٹیچر تیرے چکر میں پکنک منا رہے ہیں اور بچے تجھے ہیرو سمجھ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر تیرے نام پر چھرے تیز کیے بیٹھے ہیں اور دواساز ، عامل ، پیر و مرشد ، حجامے والے ، پنامے والے سب تیرا انتظار ۔ ۔ ۔
نرس کی بات ادھوری ہی رہ گئی !
کرونا بے ہوش ہو چکا تھا ۔
۔۔۔۔
عابی مکھنوی