You are from murree right?
Ofcourse a PM is expected to be educated but i find most people from murree not even primary pass.
On a side note khaqan abbasi is not a good person.He is corrupt and got cases in NAB against him.
Yesterday, while i was getting bored so decided to quickly write few lines in which i did mention a bit about tourism and if you have time can read and advise:
درد دل۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا۔
پاکستان کی سیاست جو آنکھ مچولی کا کھیل ہے جسے دیکھ کر وسوسے ابھرتے ہیں اور خدشات جنم لیتے ہیں کے کیا ہم کبھی اپنی منزل پر پہنچ سکیں گے جسکا خواب ہمارے آباءو اجداد نے دیکھا تھا۔ حکومتی ارکان کی باتیں سن کر لگتا ہے جیس ملک میں من و سلو'ی اتر رہا ہے جبکہ اپوزیشن اپنی تمام توانائیاں حکومت وقت کو ناکام ثابت کرنے میں لگی ہے چاہے ملک کا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔
ملک عزیز کی میڈیا جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے اور بڑی حد تک لوگوں کو ذہنی مریض بنانےمیں کامیاب ہو چکی ہے۔ باوقار اور نظریاتی صحافت معاشی اور سیاسی مفادات کی نظر ہو چکی ہے۔ جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کےلئے جتنا پروپیگنڈا کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے تاکہ بہتر ریٹ مل سکے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑی بریکنگ نیوز بنایا جاتا ہے اور خوب جھوٹ اور سچ کا تڑکا لگا کر نان ایشوز کو ایشوز بنایاجاتا ھے ایسے میں میڈیا کے اندر موجود چند مخلص لوگ بے بسی کے عالم میں دل کے آنسو روتے ہیں۔ پراپرٹی اور بزنس ٹائکونز سے پلاٹ اور نقد تحائف وصول کرنے والوں کی لمبی لسٹیں موجود ہیں۔
افواج پاکستان یقیناُ ملک کی سلامتی اور دفاع کیلئے انتھک جدوجہد کے ساتھ انتہئ قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہیں لیکن ملک کے ناقابل تسخیر دفاع کے دعو'ی پر امریکی ڈرون حملوں کا تسلسل، ایبٹ آباد آپریشن، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ، کھلم کھلا انڈین، افغان اور امریکن دہشت گردی پر خاموشی، لا تعداد بم حملوں پر صرف اظہار مذمت پر سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں لوگ سوال کرتے ہیں کے فوج نے بھی دشمن کی صرف مذمت کرنی ہے تو ُانکی مرمت کون کرے گا۔ دفاعی اداروں پر سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات اور بڑی تعداد میں کمرشل زیلی اداروں کو بھی شک کی نگاسے دیکھا جاتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے دفاعی اداروں کی فیلڈ نہیں مثلا ہاءوسنگ سوسائٹیز، کھاد فیکٹریاں وغیرہ جو اپنے مقصد سے دوری کا باعث بن رہے ہیں۔ سیکورٹی جوانوں کی چیک پوسٹوں اور گاڑیوں میں پٹرولنگ کے دوران انتہائ غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کسی بھی مظلوم کی ساتھ حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔اسلحہ کا رخ ہر وقت عوام کی طرف ہوتا ہے جو کسی صورت قابل اجازت نہیں ۔ ملک بھر میں حالیہ افسوسناک ٹارگٹ کلنگ کو مس ہینڈل کرنا بھی ایک اچھا شگون نہیں جسمیں قیمتی جانوں کے نقصان کے ساتھ مورال کا گرنا بھی ایک بڑا نقصان ہے ۔ ریٹاءڈ آفیسرز کا اپنی پوذیشن لکھنا بھی کسی مہذب معاشرے میں نہیں دیکھا جا سکتا اسی طرح پرائیویٹ گاڑیوں پر اداروں کا نام لکھ کر قانون سے بالاتر ہونا بھی ناپسند کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی عدلیہ بھی باقی اداروں کی طرح اپنے ماضی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں زیرالتوا مقدمات اور دہائیوں پرانے کیسوں کے فیصلوں کے انتظار میں کتنی نسلیں انصاف کے انتظار میں جمع پونجھی صرف کر چکی ہیں لیکن انصاف ناپید لگ رہا ہے۔ماضی میں ارسلان چوہدری کے کیس میں اپنا امیج بری طرح خراب کر چکی ہے۔ حالیہ وزیراعظم نااہلی کیس کا فیصلہ ایک امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا سلیکٹڈ جسٹس ہو گا یا سب مجرم برابر نظر سے دیکھے جائیں گے۔
بیوروکریسی کو ریاست کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے لیکن چند لاکھ روپے تنخواہ لینے والے بیوروکریٹس کے اربوں روپے کے اثاثے انکی کرپشن کو ثابت کر رہے ہیں۔ ویزراعظم ہاوس میں موجود اہم افسر پر اربوں روپے کی پراپرٹی کے الزامات ہیں اسی طرح ایک اہم ادارے کے چئرمین کو بھی پاکستان کا امیر ترین بیوروکریٹ کہا جاتا ہے۔ بیوروکریٹس کی شان و شوکت اور پروٹوکول انہیں کسی اور دنیا کا شہری بتا رہا ہے انکے ذاتی اثاثے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہے ہیں جبکہ انکے محکمے دن بدن خستہ حالی کی طرف جا رہے ہیں۔ رشوت اور سفارش سے کام دنوں میں جبکہ میرٹ پر کام کو چکر پر چکر لگوا کر مشکل بنا دیا گیا ہے۔
پولیس کسی بھی ملک میں اہم ادارہ تصور کیا جاتا ہے جو ہر سیاسی وابستگی سے آزاد ہوتا ہے لیکن ملک عزیز میں یہ نام سنکر ایک بھیانک خیال ذہن میں ابھرتا ہے جسکی شناخت رشوت، زیادتی، جعلی مقابلوں، جرائم پیشہ افراد کا تحفظ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں شراکت کی وجہ سے عوام کے اعتماد سے دور ہے۔ میرٹ سے دوری، مال حرام اور پیٹ کا باہر ہونا ، لاکھوں روپے لگا کر مرضی کی پوسٹنگ۔ ایمانداری اور محب الوطنی کا فقدان ایک سوالیہ نشان ہے۔
ڈاکٹر حضرات ملک عزیز میں ایک کمیشن خور مافیا بن چکے ہیں جو صرف اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی لائنیں اور تحقیر آمیز رویہ نہائت افسوسناک اور اس عظیم پیشے کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹوں سے لاچار مریضوں کو لوٹا جاتا ہے۔
دکاندار ملاوٹ اور ذخیرہ اندوذی کو ایک کاروباری روٹین سمجھتے ہیں۔ دودھ میں ملاوٹ۔ پھلوں اور سبزیوں کی گند جگہوں پر فروخت۔ دیگر کھانے پینے ، قصائ وغیرہ حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداذ کر کے عوام کو مریض بنا رہے ہیں۔ ہر کوئ صفائ نصف ایمان کو بھول چکا ہے۔
پاکستان میں گاڑی چلانا کسی بھی مہذب ملک میں کسی سرکس میں گاڑی چلانے کے برابر ہے۔ یہاں کسی قسم کے ٹریفک قانون کا نہ پتہ ہے اور نہ پاسداری۔ نہ سگنل کی پابندی نہ اپنی لائن میں رہنے کی فکر۔ ڈرائیونگ لائسنس کی بندر بانٹ، بچوں کا موٹر سائکل چلانا، گاڑیوں کا روڈ ٹیسٹ نہ ہونا۔ اوور لوڈنگ، غیر کوالیفائڈ آلٹریشن حادثات
اور جانی نقصانات کی بڑی وجہ ہیں۔ جتنے لوگ دہشتگردی میں مرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ روزانہ حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔
دنیا کے کئ ممالک کا زریعہ آمدن صرف ٹورازم پر ہے ۔ پاکسان کو اللہ پاک نے نہایت خوبصورتی سے نوازہ لیکن ہم ٹورازم سے کسی قسم کا فائدہ نہں اٹھا سکے جسکی بڑی وجہ لاقانونیت۔ سہولتوں کی عدم دستیابی، اوور چارجنگ ہے جسے توجہ دیکر ھم بہت نوکریاں اور بزنس کے مواقع فراھم کر سکتی ہیں۔ پارکوں کی حالت خستہ اور کھیلوں کے گراؤنڈذ نا پید ہوتے جا رہے ہیں ایسی صورت میں کس طرح صحتمند معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
کسی نے خوب کہا علم بڑی دولت ہے لیکن یقین آیا جب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کے گھر، گاڑیاں اور بنک بیلنس کو دیکھا۔ باقی رہ سہی کسر ان اداروں کی کینٹینز، بکس، یونیفارمز، پک اینڈ ڈراپ سے پوری کی جاتی ہے۔
سیاستدانوں کسی تعریف کے محتاج نہیں ۔ میڈیا دن رات انکی تعریفیں اور عوام بد دعائیں کرتے نہں تھکتی لیکن وہ اپنےپیشے میں مگن دن رات اپنی اور اقربا کے بہتر مستقبل کےلے کوشاں رہتے ہیں۔ عوام کے لئے ہر الیکشن میں نیا وعدہ ۔ جمہوریت کے دعویداروں کو اپنی فیملی سے باھر کوئ قابل شخص نظر نہیں آتا۔ سیاستدان امیر تریں اور ملک و عوام مقروض ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ وہ مداری ہیں جو سپریم کورٹ سے نااھل ہو کر بھی پوچھتے ہیں کے پتہ نہیں کیوں نا اھل ہوئے ہیں۔ اپنی باریاں پکی کرنے کے چکروں میں ادارے دیوالیہ ہو رہے ہیں عوام کو کھوکھل نعروں اور دلفریب کہانیوں سے بہلایا جاتا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں بھت اچھی لانڈری بھی ثابت ہو رہی ہیں۔
عوام جو اس ٹیکنالوجی کے دور میں ظلم سہہ کر غلامی کو نھیں چھوڑ رہی۔ کبھی نااھل وزیراعظم کی گاڑی کو چومتے ہیں، کبھی قبروں کی پرستش کرتے ہیں کبھی جعلی حکیموں، جعلی پیروں پر اپنا ایمان ضائع کرتے ہیں لیکن مفاد کےلئےووٹ دیکر وہ اس ظلم میں شریک ہوتے ہیں۔ جب ایک بھائ، بیٹا، باپ، خاوند، عورت اپنی آمدن سے زیادہ گھر لے کر آتا ہےتو کوئ سے پوچھنے والا نہیں۔ کیا کسی نے ملاوٹ کرنے والے ، رشوت خور، کرپٹ رشتہ دار کا بائیکاٹ کیا؟
کیا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا؟ نہیں ھر گز نہیں۔ ایسے لوگ ملک عزیز میں موجود ہیں جو خوف خدا رکھتے ہیں۔ جنکا مقسد حیات ملک کی بھتری۔ جنکی آمدن حلال۔ جو ملک کے ہر شعبے میں بہتریکے لئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کے کوئ قانون سے بالاتر نھیں اور انشاۂ اللہ ملک پاکستان جلد بہتری کیطرف گامذن ہو گا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کو بدلنے کا
پاکستان زندہ باد
واسلام