What's new

کشمیر مین رونگھٹے کھڑی کرنے والے ظلم وستم کی داستان

Neutron

PDF THINK TANK: ANALYST
Joined
Jan 17, 2015
Messages
1,352
Reaction score
43
Country
Pakistan
Location
Pakistan
کشمیر مین رونگھٹے کھڑی کرنے والے ظلم وستم کی داستان دہلی مین مقیم کشمیری صحافی سید افتخار گیلانی کی زبانی ضرور پڑھین -

""کشمیر اور بھارتی فوج

افتخار گیلانی

پچھلے دنوں دارلحکومت دہلی میں بھارتی فوج کی ایک تھینک ٹینک نے کشمیر میں رواں مخدو ش صورت حال کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ چیتھم ہاؤس رولز کے تحت ہوئے اس مذاکرہ میں کئی سابق فوجی سربراہان کے علاوہ متعدد سرونگ اور ریٹائیرڈ آرمی افسران نے شرکت کی۔ دہلی کنٹونمنٹ کے جنرل مانک شاہ آڈیٹوریم پہنچ کر معلوم ہوا کہ راقم کے علاوہ سویلین مقریرین میں صرف مصنف ڈیوڈ دیوداس اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور قانون دان اشوک بھان مدعو ہیں۔ کانفرنس میں عمومی اتفاق رائے پایا گیا، کہ موجودہ شورش سیاسی عمل کی ناکامی کی دین ہے اور بھارتی فوج کشمیر میں جو کچھ کرسکتی تھی، کر چکی ہے اور اب اسکی زنبیل میں ایسا کچھ نہیں بچا ہے جس سے عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کیا جاسکے ۔ ضلع کپواڑہ میں تعینات ایک افسر نے بتایا، کہ کس طرح سات سے بارہ سال تک کے نہتے بچے بلا کسی ڈر و خوف کے آرمی کی کانوائے روک دیتے ہیں اور کیمپوں کے پاس آکر فوجیوں کو ۔۔’’اکساتے‘‘ ہیں۔ایک معمر جنرل صاحب نے شکوہ کیا، کہ شورش کو کچلنے کیلئے آخر بھارتی سکیورٹی دستے اسرائیلی حکمت عملی کیوں نہیں اپناتے ہیں؟ حال ہی میں سبکدوش ہونے والے ایک جنرل نے افسوس ظاہر کیا، کہ انسانی ڈھال کے طور پر بندھے ہوئے ایک کشمیری نوجوان کی وائرل ہوئی تصویر سے فوج کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ میں نے معمر جنرل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا ، کہ آیا وہ کونسی اسرائیلی حکمت عملی ہے، جو بھارتی دستوں نے کشمیر میں استعمال نہیں کی ہو؟ بھارتی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں شامل کئی اسرائیلی فوجی افسران نے راقم کو بتایا ہے، کہ جس طرح کشمیر کے دیہاتوں میں سویلین آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ اسکے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ میں نے ہال میں موجود افسران سے پوچھا، کہ ایماندار ی سے وہ یہ بتائیں، کہ سوشل میڈیا نے جیپ سے بندھے ہوئے جوان کی تصاویر تو دنیا تک پہنچا دی، مگر کیا کشمیر میں ایسا پہلی بار ہوا ہے؟
جموں وکشمیر کے طول وعرض میں ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں ، جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اورقلم تک خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ 1990سے 2003تک شمالی کشمیر میں کس طرح رات کے تین بجے ہر گاؤں سے چار سے آٹھ افراد پر مشتمل مختلف قافلے ہاتھوں میں لالٹین لے کر سڑک پر اپنے اپنے گاؤں کے مقررہ مقام پر جمع ہوجاتے تھے۔ اس قافلے کا انتخاب بدنصیب گاؤں والے یوں کیا کرتے تھے کہ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو بار ی باری حاضر ہوناپڑتاتھا۔ اس سارے آپریشن کا نام ’’کانوائے ڈیوٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق صبح کے تین بجے چاہے یخ بستہ سردیا ں ہوں یا گرمیاں مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔ جوں ہی فوجی پارٹیاں آ تی تھیں ، تو ان کو آگے چلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ،باریک بینی سے اس بات کا کھوج لگانا پڑتا تھاکہ کہیں کسی نے بارودی سرنگ تو نہیں بچھا رکھی ہے۔ ایسا شاید دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہوتا ہو گا کہ وردی پوش جس کا کام ہرحال میں شہریوں کی حفاظت کرناہوتاہے ، اپنی حفاظت کے لئے اْلٹا بدنصیب شہریوں کو ہی اپنے آگے انسانی ڈھال کے طور استعمال کرے۔ اس کے بعد اگر متعلقہ ذمہ دارفوجی افسر کا موڈ ٹھیک ٹھاک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لئے لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لئے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی ، اس کے بعد متعلقہ منتقلی کیمپ میں جاکر اپنے اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔ وہاں کوئی حوالدار ’صاحب‘ لوگوں کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے ڈیپوٹ کرتا۔اس دوران اگرکہیں بھی ، چاہئے وہ علاقہ میلوں دور کیوں نہ ہو، آرمی کانوائے کے اوپر کوئی حملہ ہوجاتا ، تو نزلہ ان دیہاتیوں پر گرا دیا جاتا تھا۔اس طرح رہائشی مکانات کی جو بھی کھڑکیاں سڑک کی طرف کھلتیں تھیں ،انہیں کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔
لنگیٹ قصبہ سے ملحق ایک گاوٗ ں ہانگہ کے ایک ذی عزت استاد ماسٹر عبدالخالق گنائی جب اپنی باری پوری کرنے کے لئے بیگار پر تھے ، تو فوجیوں کو اس کے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرنے والے سڑک کے کنارے توت کے درخت کی گنجان ٹہنیوں سے خوف محسوس ہونے لگا اور ماسٹر صاحب کو حکم دیا کہ وہ کلہاڑی لے کر یہ ٹہنیاں کاٹ دے۔ ماسٹر صاحب کا کام بچوں کو پڑھانا تھا اور درخت پر چڑھنے کا انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ، نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہیں حکم کی تعمیل کرنے سے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ بدنصیب استاد کلہاڑی لے کر جیسے ہی جوں توں کرکے درخت پر چڑھا تو اچانک اپنا توازن کھوبیٹھا اور سیدھا نیچے گر کر دَم توڑ دیا۔ معاوضہ تو درکنار، بتا یا گیا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروانا ’’قوم دشمنی‘‘ گر دانا جائیگا۔ اسی طرح سنزی پورہ گاؤں کافیروز احمد پیر نامی طالب علم جب بھاری برف باری کے بیچ کانوائے ڈیوٹی ‘ انجام دے رہا تھا توسڑک کے نیچے ایک تنگ Culvert کے اندر اس نے یہ کہہ کر گھسنے سے انکار کیا کہ پوری نالی پیشاب سے بھری ہوئی ہے۔بس پھر کیا تھا، اس بدنصیب نوجوان کو اپنا پاجامہ ،جوتا اور موزے باہر اتار کر چار کلومیٹر تک کانوائے کے آگے آگے چلنے پر مجبور کیا گیا۔ گھر پہنچنے کی دیر تھی کہ فیروز پورے دومہینے کے لئے بیمار ہوکر بستر پر پڑگیا۔
جموں و کشمیر کی اسمبلی میں لنگیٹ علاقہ کے ایم ایل اے انجینئر عبدالرشید، جو سیاست میں آنے سے قبل خود بھی ایک سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس طرح کی ڈیوٹیاں دے چکے ہیں کا کہنا ہے، کہ ان کے علاقہ میں تعینات میجرجگروپ کی ہدایت تھی ، کہ جہاں بھی کسی فوجی جوان یا آفیسر سے آمناسامنا ہو ، تو سلام کے بجائے بلند آواز میں فوراً ’’جے ہند‘‘ کہنا ہو تا تھا۔بدقسمتی سے علاقہ کی ایک ذی عزت شخصیت محمد یٰسین جو ایک دن دوکان پربیٹھے تھے سلام کرنے میں تاخیر کربیٹھے، میجرصاحب نے انہیں ننگے پاؤں دوکان کے باہر نکل کر کوئی 20فٹ دور دیوار کے ساتھ ہاتھ کھڑا کرکے کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ اتنے میں گاؤں کی مسجد ،جو کہ جائے واردات سے 100فٹ کی دوری پر واقع ہے ، میں موجود نمازیوں کو باہرنکلنے کا حکم دیا گیا۔ انہیں میجر صاحب نے محمد یٰسین کی گستاخی (جے ہند نہ کہنے)کے بارے میں بتایا اور محمدیٰسین پیر کو حکم دیا کہ وہ معافی مانگے۔ بدنصیب نمازیوں کو اْمید تھی کہ معافی کے عوض محمدیٰسین پیر کو چھوڑ دیاجائے گالیکن ابھی یٰسین صاحب کی زبان سے معافی کے پورے الفاظ ادا بھی نہیں ہوئے تھے کہ میجر نے فلمی انداز میں اس کے سینے میں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور یہ کہہ کر کہ ’’دیکھو میں نے ا سے معاف کردیا‘‘ وہاں سے نکل دیا اور بے بس دیہاتی اپنے علاقے کے خوددار ،جیالے اور مایہ ناز سپوت کی لاش کو کئی گھنٹوں تک اْٹھانے کی ہمت نہیں کرپائے۔ اسی طرح جماعت اسلامی سے وابستہ کارکنوں کے لئے بھی تذلیل ،حقارت اور کردار کشی پر مبنی آپریشن ہرروز ’کانوائے ڈیوٹی‘ کے مستقل پروگرام کے ایک حصے کے طور انجام دیا جاتا تھا۔ ماسٹر عبدالغفار خان مرحوم، پورے علاقے میں انتہائی عزت اوراحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کا صرف یہ قصور تھاکہ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ ان کا گھرقلم آباد میں واقع فوجی کیمپ کے ساتھ ہی واقع تھا۔ میجر اشوک نیئر نامی آفیسر کو انہیں ستانے اور ان کی تذلیل کرنے میں جیسے ذہنی سکون ساآتا تھا۔کئی بار جب ہم اپنی کانوائے ڈیوٹی دینے کے لئے کیمپ کے سامنے حاضر ہوجاتے تھے تو ہمارے استاد محترم کی بے بسی اور بے کسی دیکھ کر ہمیں اپنی بزدلی اور بے غیرتی پر افسوس ہوتا تھا۔ ماسٹر عبدالغفار خان صاحب کے لئے میجر صاحب نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ جیسے ہی کانوائے ڈیوٹی والے ان کے نزدیک پہنچ جائیں تو وہ زور سے ’’سور کا گوشت کھاؤں گا ‘‘ کا نعرہ تین بار بلندکیا کریں۔ اس کے لئے انہیں چند منٹوں کے لئے کیمپ کے باہر حاضری دینی پڑتی تھی۔
رات بھر کا شبانہ گشت بھی گاؤں کے لوگوں کے لئے قیامت سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس گشت کے دوران فوجیوں کو کہیں سے کسی گاؤں کے متعلق یہ خبر ملتی کہ انہوں نے ذرہ بھر بھی لاپرواہی سے کام لیا تو اگلے دن پورے گاؤں کی شامت آجاتی۔ خود وردی پوش رات کو کیمپ سے باہر نہیں نکلتے تھے لیکن گاؤں والوں کے لئے رات بھر گشت کرنا لازمی تھا۔ ایک دن آڈورہ نامی گاؤں کے متعلق فورسز نے یہ بہانہ پیش کیا کہ رات کے دوران جن لوگوں کو اس رات گشت پر مامور ہونا تھا انہوں نے لاپروائی برتی ہے اور گشت کے بجائے کسی جگہ چند لمحوں کے لئے سو گئے تھے، اگلے دن صبح تڑکے پورے گاؤں کے مردوں کوقلم آباد آڈورہ روڈ پر واقع پل کے ساتھ ساتھ بند تعمیرکرنے کا حکم دیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک صوبیدار جو بیگار لینے میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے اور آپریشن سدبھاؤنا (یعنی عوام کو راحت پہنچانے) کے نام پر بیگار کے ذریعے پل وغیرہ بنانے میں مہارت رکھتے تھے ۔ ان کو لوگ ’’پل کا سردار‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔انہوں نے آڈورہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ جب تک بند تعمیر نہیں ہوتا تب تک وہ گھر واپس نہیں جاسکتے۔ یہ شب قدرتھی اور بے چارے دیہاتیوں نے کوئی رات کے ایک بجے تک بند کو پورا کر کے اپنی جان چھڑائی۔ غرض ان مظلوموں کے لئے شب قدر کی یہ مقدس رات اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے رب ذوالجلال کی خدمت میں آہ و زاری میں گزارنے کے بجائے فورسزکے حکم کی تعمیل میں صرف ہوئی۔میں جب یہ واقعات بیان کر رہا تھا، تو ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔ میں نے کہاکہ کشمیر میں رونما ہورہے واقعات اسی کھیتی کی پیداوار ہیں، جو وہاں آپ حضرات نے بوئی ہے۔ کشمیری عوام پر صدیوں سے جبر اور خوف کے ذریعے حکومت کی گئی ہے۔ خوف اب ان کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ جبر اًبھی بھی باقی ہے۔ اس سے قبل کہ صورت حال مزید مخدوش ہو، اور اس میں کئی اور خارجی عناصر شامل ہوکر پورے خطہ کیلئے پریشانی اور مصیبتوں کا باعث بنیں۔ بہتر یہی ہے، کہ مسئلہ کے سیاسی تصفیہ کی طرف سنجیدگی کے ساتھ پیش قدمی کی جائے۔
 
.
Hi @Neutron

I converted it into more readable font since this urdu (webs default) is not as readable as nastaleeq. So that more people can read it :)

1.jpg
2.jpg
3.jpg
4.jpg
5.jpg
 
Last edited:
. .
Thanks @war&peace someone plz translate into English
Oh translating them into English needs a lot of time and effort but if some friends can divide it. Since I tried with translators but they really mess up and it needs even more cleaning and correction than translating manually. However I can upload the pdf if someone needs that.

@PakSword @Verve @Farah Sohail @Neutron and me, if we divide the job between us since there are five pages, each one of us will need to translate only one and thus it will be uploaded here .... :azn:

Any volunteers..please help it is a great cause guys :)
 
.
Oh translating them into English needs a lot of time and effort but if some friends can divide it. Since I tried with translators but they really mess up and it needs even more cleaning and correction than translating manually. However I can upload the pdf if someone needs that.

@PakSword @Verve @Farah Sohail @Neutron and me, if we divide the job between us since there are five pages, each one of us will need to translate only one and thus it will be uploaded here .... :azn:

Any volunteers..please help it is a great cause guys :)

First Para:

Recently, an Indian Army think tank held a discussion regarding the current situation in Kashmir. This discussion, which was conducted under the rules of Chatham House, was attended by several serving and retired Army officers in addition to former military leaders. Upon reaching General Manik Shah Auditorium in Dehli Cantonment, it was a surprise that only author David Devdas and a well-known lawyer of Supreme Court, Ashok Bhan were invited other than me from civilian side. There was a general consensus in the conference that the current turmoil is the result of political failure, as Indian troops in Kashmir have done whatever they could, and have nothing left in their basket that could have cooled down the public sentiments. An officer of Kupwara division told that even seven to twelve years old children stop the convoys of Indian Army and incite soldiers in camps without fear. An old retired general complained why Indian Army doesn’t employ Israel’s strategy to crush the insurgents. A recently retired general expressed regret that a viral image of a Kashmiri youth tied to the vehicle as a defense shield has undermined the credibility of Indian Army. I asked pointing to the old general that which strategy of Israel’s Army, Indian troops haven’t used? Several Israeli troops engaged in joint military drills with Indian troops have told me (the author) that they can’t even think how the civilian population in Kashmiri villages is used as a shield. I asked the officers in the hall to tell us honestly, that the picture of the Kashmiri youth tied in front of the jeep was released by social media, but has it happened for the first time?


Rest.. others may contribute.. :-)
 
.
Thanks @PakSword

by me @war&peace (para 2 and 3)

Numerous such extremely tragic incidents have happened across IoJ&K that are too horrible to grasp and describe.

From 1990 to 2003, I remember that 4-8 villagers in northern Kashmir used to gather at 03:00 AM in the night at fixed locations in their villages with lanterns in their hands to constitute convoys. One individual from each household of the unfortunate village had to participate in the convoy. This convoy was called “Duty Convoy”.
Regardless of the chilly winter or warm summer, approx. 200 people would gather at the roads, with a long stick in one hand and a lantern in the other, and wait for a platoon of the army as per schedule i.e. 03:00 am.
As soon as, the platoon of the terrorist Hindu army would arrive, the convoy of villagers would be ordered to advance and search meticulously and minutely for the landmines and IEDs in each and every nook and cranny; whether those were the sewers or crops in the farms, forests or cemeteries. Nowhere else in the world, a uniformed soldier, whose duty is to protect the civilian population under all circumstances, uses the unfortunate civilians as a human shield for his own protection. And after all this toil, if the soldiers were in good mood and no incident happened, the unfortunate villagers would be allowed to go home for breakfast and only 30-mins were given to them. Then they had to submit their IDs at a nearby transfer camp. And there a sergeant would divide them into groups and depute them for different tasks. During this, if the mujahideen attacked any military installation or convoy, the unfortunate villagers would be held responsible and punished brutally even if it happened miles away.
People were not allowed to even open the roadside windows in their homes.

In Hanga, a village next to the town Langait, Abdul Khaliq Gunai, a respectable teacher who was doing this forced labor was ordered by the terrorist Hindu army soldiers, who got scared by the thick mulberry trees and pissed in their pants, to cut their branches. The teacher who was not trained for this unthinkable job, climbed the tree without thinking about the consequences to obey the orders as the unfortunate teacher had no choice. The unimaginable happened as he lost the balance while cutting the tree branches, fell down and died on the spot.
Not to speak of compensation, even a police report was not filed as it is considered anti-state activity.
In a similar incident, Feroz Ahmad Pir, a student from a village named Sanzi-Pura was performing his duties under heavy snow, declined to enter a culvert saying that it was full of urine. He was made to walk 4 km in front of the whole convoy without trousers, socks and even shoes. As soon as he reached home, got sick and remained bed-ridden for two months.

-----------

by @Morse_Code para 4 (Thank you so much especially considering the fact that she has no privilleges to post in this section)

An MLA hailing from Langait, in J&K assembly, Engr. Abdul Rasheed who had performed such duties despite being a government officer, narrated that Major Jagroop who was deployed in his area had given the orders that wherever a soldier or an officer of Indian Army is seen, he should be rather greeted with the words of "Jay Hind". Unfortunately, an honorable member of the community who was sitting in a shop nearby, Muhammad Yaseen failed to immediately greet the Major.Therefore he was made to stand bare-footed outside the shop, beside a wall 20 feet away. Meanwhile the prayerers from the mosque located at a distance of 100 feet from the site were forced to come out and were told about the presumptuous attitude of Yaseen (his failing to hail India) and M. Yaseen was commanded to apologize for this grave sin. Poor people thought that Yaseen would be spared after his apology, but before he could barely speak, Major shot him blatantly in his chest and shamelessly said "See, I forgave him". The major then left the place but the poor villagers couldn't even muster up the courage to take the body of this valiant son to his house. In a similar incident for the humiliation of Jamaat-e-Islaami workers this "convoy duty" better be called an operation for defaming them, was carried out. Master Abdul Ghaffaar Khan was regarded as an honorable and righteous man in the community. His only crime was that he had affiliations with Jamaat-e-Islami. His house was situated near the army camp in Qalmabad. An officer named Major Ashok Nayyar felt mental satisfaction in bullying and dishonoring him. Quite often, when we happened to gather in front of the camp for our convoy duties, we felt coward and shameless to see our educator in such a pitiful condition. Major Nayyar had ordered Master Khan to raise the slogan ,"I'll eat pork" three times in a row, whenever the convoy reaches near him. For this task he had to show up outside the camp for a few minutes.

Can anyone of you guys and girl (@Verve, @Farah Sohail and @Arsalan @The Eagle or @django) translate the remaining paragraphs.
 
Last edited:
.
@war&peace

These nightly patrolling duties were nothing less than hell for the villagers... If during such duties, indian army would come to know abt even slight carelessness, on the part of villagers, it would have severe repurcussions for the whole village.. Indian army officers themselves would not even come out from their camps at night...nonetheless they would expect villagers to perform this duty the entire night... One day, Indian army alleged tht people of Adora village had not performed convoy duty efficiently and had slept during the night..next day..ppl of tht village were ordered to construct a protective wall for the bridge... I vividly remember one subedar, had the distinction of getting labor deployed forcefully for the contruction of protective walls for the bridges, through operation " Sudh bhao na" (relief for the ppl )He was known as "Sardar of bridges" ... He ordered ppl of Adora village, tht they cant go home, unless this protective wall was constructed.. It was shab e qadr..and still people of tht village had to carry on and complete construction till 1:00 am ... Poor villagers could not spend tht special night, asking forgiveness from Allah, rather in obedience of the orders from the army.. As I was narrating these incidents..there was complete silence.in the hall... I told them, you are reaping what you sowed.. Since centuries, kashmirs have been governed thtough violence, oppression.. But now, they have become fearless.. It is better to apply a political solution now..before situation gets worsened and external factors augment in increasing problems for the whole region
 
.
Hi @Neutron can you also try to translate a few paragraphs from the remaining text?
 
. .
Nothing left for translation into English. I think it is the last paragraph translated by Farah Sohail
 
. . . .
That is why it is important that we help our Kashmiri brothers militarily and do it openly, regardless of the consequences even if the risk of escalation is high. Indian army shouldn't be allowed to kill innocent Muslims in the valley like this.
 
Last edited:
.
Army ops in Kashmir pitting taxi drivers against militants

The spate of recent killings by unidentified gunmen in north Kashmir has left taxi drivers in Baramulla district running scared.

The reason: each night they are required to send one vehicle to the 29 Rashtriya Rifles camp for use by the Army. The drivers fear that their vehicles are being used for counter-insurgency operations, making them suspects in the eyes of militants. The drivers get their vehicles back only the next evening. They say the Army does not pay them.

“It is nothing but begar [forced labour]. They give us only one litre of fuel for every 10 km they travel. We don’t want to give our vehicles but we have no choice,” Mohammad Shahid (name changed), a 43-year-old driver at the Kreeri Taxi Stand told The Hindu. “We don’t know what happens in our vehicles as they don’t want the driver with the vehicle

Reporter warned

Soon after the Army was contacted for comment, a senior officer from the Wattergam camp urged this reporter to refrain from reporting on the practice and said while the army used vehicles from taxi stands, they also paid the drivers – a claim denied by the drivers.

“I cannot, however, tell you how much money we pay them or why we use their cars, as this is not an interview. I would suggest you don’t write this story,” the officer said.

http://www.thehindu.com/news/nation...-drivers-against-militants/article7313527.ece
 
.
Back
Top Bottom