fitpOsitive
ELITE MEMBER
- Joined
- May 27, 2015
- Messages
- 12,933
- Reaction score
- 19
- Country
- Location
یونیورسٹی میں ہمارے ایک اُستاد تھے آرتھر لونگ سٹون (Arthur Livingston) جن کی ترقی پذیر ممالک کے بارے میں 1969ء میں چھپنے والی کتاب "Social Policy in Developing Countries" ، ’’ترقی پذیر ممالک میں سماجی پالیسی‘‘، آج بھی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ایک نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے مغربی دنیا میں پہلی دفعہ پسماندہ ممالک کی معاشی نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی اہمیت پر زور دیا گیا اور دولت کی ازسرنو اور منصّفانہ تقسیم (Redistributive Justice) کا تصور اُبھرا۔ ہمارے یہ اُستاد، حکومت یا ریاست سے محبت اور وفاداری کا ایک شاندار فلسفہ بیان کیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ریاست یا حکومت سے محبت اور وفاداری ایک ہی چیز ہے اور یہ اسی وقت وجود میں آتی ہے جب حکومت کم از کم عوام کے چند اہم مسائل حل کرتی نظر آئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص بے روزگار ہے اور اس کے پاس زندگی گزارنے کے لئے سرمایہ میسر نہیں اور ایسے میں حکومت اس کی کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں کرتی، بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے کوئی وظیفہ مقرر نہیں کرتی تو پھر اس شخص کا تمام تر انحصار صدیوں سے قائم شدہ انسانی ادارے، خاندان پر ہو جائے گا۔ یہی خاندان اسے بھوک میں کھانا اور آرام کے لئے چھت فراہم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہے اور اس کے گھر والے اس کا علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے تو پھر اوّل وہ کوئی قیمتی چیز بیچ کر اس کا علاج کروائیں گے یا وہ کسی ہسپتال کے دروازے پر تڑپتا ہوا مر جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی زمین پر کسی نے قبضہ کر لیا ہو، کوئی اس سے آ کر بھتہ وصول کرے یا کوئی مسلسل اس کی جان کے در پے ہو اور وہ ایسے میں مدد کے لئے حکومتی اداروں میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرے، مگر حکومت کا اس کی مدد کو نہ آئے اور بالآخر اس کا خاندان، برادری یا قبیلہ اپنے قوتِ بازو سے اس دُکھ سے نجات دلائے یا پھر وہ نجی گارڈ رکھ کر اپنی حفاظت کرے۔ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو پھر ایسے حالات میں ایک انسان کی محبتوں، چاہتوں، وفاداریوں اور عقیدتوں کا مرکز و محور ریاست یا حکومت کی بجائے خاندان، برادری یا قبیلہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ حکومت کا اس سے محبت اور وفاداری کا رشتہ متزلزل ہو جاتا ہے تو پھر وہ سٹریٹ لائٹ کا بلب چوری کرے، مین ہول کا ڈھکن اُٹھائے یا دفتر کی سٹیشنری غائب کرے، سب کچھ گھر میں ہی لے کر آئے گا، کیونکہ اس کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کا واحد سہارا اور آسرا خاندان ہی ہے۔ اسی مثال کو آپ بڑے سے بڑے معاملے تک وسعت دے کر دیکھ سکتے ہیں۔ رشوت ستانی اور کرپشن کا ناسور اسی سے جنم لیتا ہے اور ملکی اور ریاستی مفاد کے خلاف دشمنوں سے پیسے لے کر کام کرنا اسی تصور کی پیداوار ہے۔ ریاست یا حکومت اپنے آپ سے محبت کرنے کے لئے زمین، مادرِ وطن اور دھرتی ماتا جیسے نعروں کا سہارا لیتی ہے۔ لیکن یہ نعرہ اس وقت تک کھوکھلا رہتا ہے جب تک یہ زمین انسان کے لئے فائدہ مند نہیں ہو جاتی اور تاریخ اس تصور پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ انسانی تاریخ کی بڑی سے بڑی ہجرتیں اسی وجہ سے ہوئیں۔ جس دن اس دھرتی ماتا اور مادرِ وطن کے سوتے خشک ہوئے اور اس نے انسانوں کے لئے پینے کا پانی اور جانوروں کے لئے گھاس اُگانا چھوڑ دی تو اس ماں کے بیٹوں نے سامان باندھا اور کسی ایسی ’’ماں‘‘ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جہاں رہنے کے لئے سہولیات میسر تھیں۔ آریائی اقوام ایشائے کوچک میں صدیوں سے آباد تھیں ان کی سرزمینِ وطن صحراء میں تبدیل ہونے لگی تو دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ جہاں سبزہ اور پانی دیکھا اسی زمین کو اپنی ماں بنا لیا۔ غربت و افلاس، بھوک، بیماری اور جہالت میں لتھڑے ہوئے پاکستان نے گذشتہ پینسٹھ سال میں صرف ایک بات کا ’’نقارہ‘‘ بجایا جاتا رہا ہے ’’ریاستی رِٹ‘‘۔ اسے کچھ لوگ بعیدالقیاس (Absurd) یا تجریدی (Abstract) نظریے کے طور پر ’’حکومت کی رِٹ‘‘ کو ’’ریاست کی رِٹ‘‘ کہہ کر اسے مقدس اور طاقتور بنانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ حالانکہ علمِ سیاسیات کی تمام کتب میں ریاست کی جو تعریف ہے اس کے مطابق ’’حکومت‘‘ ہی ریاست کا واحد اساسی ادارہ (Organ of State) ہوتا ہے۔ تمام عسکری، نیم عسکری، عدالتی اور نیم عدالتی ادارے سب حکومت کا ہی جزو ہوتے ہیں۔ حکومت ہی دراصل ریاست ہوتی ہے، کیونکہ علمِ سیاسیات کی تاریخ کے مطابق ریاست کے باقی تین اجزاء علاقہ، عوام اور اقتدارِ اعلیٰ ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’’ریاست‘‘ اور ’’حکومت‘‘ دراصل دو جڑواں بہنیں ہیں، جیسے اسلام آباد اور راولپنڈی کے دو جڑواں شہر۔ ایسا دنیا کے کسی بھی جمہوری، غیر جمہوری، نیم جمہوری یا آمرانہ ملک میں بھی نہیں ہوتا۔ دراصل آج سے پینسٹھ سال قبل جب 1958ء میں جنرل ایوب خان نے راولپنڈی سے نکل کر ایک ہزار میل دُور مرکزِ اقتدار کراچی پر قبضہ کیا اور پھر اس قبضے کو جسٹس منیر نے عدالتی استحکام دیا تو اس نے اس تصور کو مضبوط کیا کہ ملک کے استحکام کے لئے ’’ریاستی رِٹ‘‘ کو قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ یعنی حکومت کی رِٹ کچھ اور ہے اور ریاست کی رِٹ کچھ اور۔ حالانکہ ایوب خان خود اسی رِٹ کو قائم کرنے کے لئے حکومت پر ہی قابض ہوا تھا اور اس نے حکومتی اداروں کے ذریعے ہی اپنی اس ’’ریاستی‘‘ رِٹ کو قائم کیا تھا۔ ایوب خان سے لے کر شہباز شریف تک اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کو اس خوفناک مغالطے کا شکار کیا جاتا رہا ہے کہ ریاست کوئی ماورائی چیز ہے اور وہ کبھی غدّار نہیں ہو سکتی، جبکہ حکومت غدّار ہو سکتی ہے، بائیس کروڑ عوام غّدار ہو سکتے ہیں اور ان کے نمائندے غدّار ہو سکتے ہیں۔ اب پیچھے رہ گئے زمین اور اقتدارِ اعلیٰ۔ اقتدارِ اعلیٰ تو ہمارے آئین کے مطابق اللہ سبحان و تعالیٰ کے پاس ہے اور زمین بے زبان ہوتی ہے۔ جو دو اجزاء باقی رہ گئے وہ تھے حکومت اور دوسرے عوام۔ ان دونوں کے درمیان کشمکش ازل سے چلی آ رہی ہے۔ منصف مزاج اور ظالم بادشاہوں کی مقبولیت کا فیصلہ بھی عوام ہی کرتے تھے اور جمہوری معاشروں میں بھی اہل اور نااہل کے درمیان فیصلہ بھی عوام کرتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا’’جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے اوپر حکمران مقرر کئے جائیں گے‘‘ (مشکواۃ: امارت و قضا)۔ یہ طے ہے کہ لوگوں پر حکمران اللہ تبارک و تعالیٰ ہی مقرر کرتا ہے ’’کہو! اے اللہ! ملک کے مالک! تو جسے چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے‘‘ (آلِ عمران: 26)۔ یعنی ریاست نام کی چڑیا ایک کھوکھلا اور تجریدی وجود ہے اور اصل جھگڑا عوام اور حکومت کا ہی ہے۔ حکومت عوام کا عکس ہوتی ہے اور جو حکومت عوام کا عکس نہ ہو وہ اپنا اقتدار صرف ایک ’’بڑھک نما‘‘ تصور پر بزورِ قوت قائم کرنا چاہتی ہے ’’حکومت کی رِٹ‘‘ اور جب عوام یہ رِٹ تار تار کرتے ہیں تو طالع آزما قوتیں ’’ریاست کی رِٹ‘‘ کا نعرہ لگا کر اسی حکومت پر ہی قبضہ کرتی ہیں اور اسی حکومت کی ہی رِٹ کو قائم کر کے کہتی ہیں ہم نے ریاست کی رِٹ قائم کر دی، ریاست بچا لی۔