What's new

Prime suspect in Zainab murder case arrested, police sources say

Hey Are You Guys Watching Dr Shahid Masood Right Now??????He Claims This Man Has More Than 30 Bank Accounts And Is Part Of An International Racket That Has Links To Eastern Europe:o::o::o::o:

Not Only That He Has Backing Of At Least One Government Minister
Hmm i dont trust shahid masood fully , iwould like to see other sources reporting his too.
 
Last edited:
.
Hey Are You Guys Watching Dr Shahid Masood Right Now??????He Claims This Man Has More Than 30 Bank Accounts And Is Part Of An International Racket That Has Links To Eastern Europe:o::o::o::o:

Not Only That He Has Backing Of At Least One Government Minister

And he is also son in law of Shabaz Sharif. :lol:
 
.
Hmm i dont trust shahid masood fullu , iwould like to see other sources reporting his too.


He Also Said He Has Evidence And That Chief Justice Should Take Notice Before This ****** Gets Killed.I Am Not Saying Trust SM But At Least There Should Be Independent Investigation On This
 
.
He Also Said He Has Evidence And That Chief Justice Should Take Notice Before This ****** Gets Killed.I Am Not Saying Trust SM But At Least There Should Be Independent Investigation On This
Only on one condition.. If Dr Qayamat Masood is proved wrong, he should agree he would be subjected to public chhittars and would not show his face ever on TV.
 
.
He Also Said He Has Evidence And That Chief Justice Should Take Notice Before This ****** Gets Killed.I Am Not Saying Trust SM But At Least There Should Be Independent Investigation On This

لائیو براڈکاسٹنگ اور لاکھوں ڈالرز کی کمائی! قصور میں معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیے جانے کے پیچھے چھپا اصل مقصد سامنے آ گیا
زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔



خبر رساں ادارہ تسنیم: معاملہ سیریل کلنگ کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑےحقائق پر پردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔

نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اعضائے مخصوصہ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کاحصول۔

پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔

دنیا میں انٹرنیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل تک سرچ نہیں کرسکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعدان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑسکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔

ورلڈ وائیڈ ویب یعنی انٹرنیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔

جنوری 2007ء سے دسمبر 2017ء تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔

2009ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیاتھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا توتفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔

پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔ قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سےایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔ اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔ 2015ء میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کردیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بدنام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔

ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بناکر نوٹ چھاپے گئے، لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہوجائیں، ایک ہوجائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہوگیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ ارباب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔


https://www.tasnimnews.com/ur/news/2018/01/24/1636985/لائیو-براڈکاسٹنگ-اور-لاکھوں-ڈالرز-کی-کمائی-قصور-میں-معصوم-بچوں-کو-زیادتی-کے-بعد-قتل-کیے-جانے-کے-پیچھے-چھپا-اصل-مقصد-سامنے-آ-گیا/amp?__twitter_impression=true
 
.

لائیو براڈکاسٹنگ اور لاکھوں ڈالرز کی کمائی! قصور میں معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیے جانے کے پیچھے چھپا اصل مقصد سامنے آ گیا
زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔



خبر رساں ادارہ تسنیم: معاملہ سیریل کلنگ کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑےحقائق پر پردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔

نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اعضائے مخصوصہ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کاحصول۔

پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔

دنیا میں انٹرنیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل تک سرچ نہیں کرسکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعدان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑسکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔

ورلڈ وائیڈ ویب یعنی انٹرنیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔

جنوری 2007ء سے دسمبر 2017ء تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔

2009ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیاتھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا توتفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔

پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔ قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سےایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔ اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔ 2015ء میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کردیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بدنام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔

ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بناکر نوٹ چھاپے گئے، لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہوجائیں، ایک ہوجائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہوگیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ ارباب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔


https://www.tasnimnews.com/ur/news/2018/01/24/1636985/لائیو-براڈکاسٹنگ-اور-لاکھوں-ڈالرز-کی-کمائی-قصور-میں-معصوم-بچوں-کو-زیادتی-کے-بعد-قتل-کیے-جانے-کے-پیچھے-چھپا-اصل-مقصد-سامنے-آ-گیا/amp?__twitter_impression=true
Really an eye opener if true [emoji852]
 
.
Not falling for it unless the government goes public with every detail about this man. Not suggesting that he isn't the culprit, but there are many questions that need to be addressed, especially when there are numerous accounts & conflicting reports circulating in the media. All that said, it's without a doubt that this man wasn't operating all alone, he may have got some sort of backing/accomplices, about which the government doesn't seem very keen on looking into.
 
.
Interestingly Shahid Masood also mentioned a child p_orn site that has been broadcasting live cruel acts on demand from international pedo viewers. What if there is a link between the abused children on those videos and the kidnapped children in Kasur and other places??? Of course we should investigate it!
 
Last edited:
.
Really an eye opener if true [emoji852]
Yea its true it happens dont know if zainabs case was one of those too or not but apart from that these gangs exist and these activities happen.
 
.

لائیو براڈکاسٹنگ اور لاکھوں ڈالرز کی کمائی! قصور میں معصوم بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیے جانے کے پیچھے چھپا اصل مقصد سامنے آ گیا
زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، لیکن اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔



خبر رساں ادارہ تسنیم: معاملہ سیریل کلنگ کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑےحقائق پر پردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔

نامور کالم نگار جمیل فاروقی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اعضائے مخصوصہ کو تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کاحصول۔

پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔

دنیا میں انٹرنیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل تک سرچ نہیں کرسکتا۔ یہ کمیونٹی دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعدان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑسکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔

ورلڈ وائیڈ ویب یعنی انٹرنیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔

جنوری 2007ء سے دسمبر 2017ء تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔

2009ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کو سیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیاتھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا توتفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹرنیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔

پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔ قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سےایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیا پولیس واقعی اتنی نااہل ہے یا کیس اتنا ہی سادہ ہے؟ اصل میں معاملہ یہ نہیں بلکہ معاملہ مبینہ طور پر مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور اس دھندے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو بچانے کا ہے۔ اس دھندے سے وابستہ بزنس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔ 2015ء میں قصور شہر ہی میں ڈھائی سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ریپ اور بعد ازاں ویڈیوز بنانے کا جو معاملہ میڈیا نے اٹھایا تھا، اس کے پیچھے بھی بہت بڑے مافیا کا ہاتھ تھا۔ مقامی حکومتی عہدیداروں، ایم این اے اور ایم پی اے کے کہنے پر پولیس نے مبینہ طور پر اس کیس کی فائل کو بند کردیا تھا کیونکہ اس کیس کے تانے بانے بین الاقوامی طور پر بدنام زمانہ چائلڈ پورنوگرافی اور وائلنٹ پورن سے ملتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ جرم میں ملوث افراد اتنے بااثر ہیں کہ عام آدمی انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ زینب اور زینب سمیت دیگر بچیوں اور بچوں کا قتل رادھا قتل کیس سے بہت مشابہت رکھتا ہے، لیکن پولیس غلط خاکہ تیار کرنے سے لے کر تحقیقات غلط زاویے پر چلانے تک ملزمان کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کر رہی ہے۔

ذرا سوچیے کہ زینب یا دیگر بارہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، مبینہ طور پر لائیو براڈ کاسٹ یا ویڈیو بناکر نوٹ چھاپے گئے، لاوارث سمجھ کر لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا لیکن پولیس اسے محض ایک جنسی زیادتی کا کیس بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس قتل کا ڈارک ویب سے جڑے ہونے کا واضح ثبوت کٹی ہوئی کلائیاں اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے قتل میں ملوث بڑے بڑے ناموں کو بچانے کی کوشش کی گئی تو آپ اور ہم میں سے کسی کی بھی بہن یا بیٹی ڈارک ویب سے جڑے اس گورکھ دھندے کی بھینٹ کبھی بھی چڑھ سکتی ہے، اس لیے اپنی سوچوں کے زاویوں کو مثبت ڈگر پر چلاتے ہوئے اس مافیا کے خلاف یک زبان ہوجائیں، ایک ہوجائیں اور اس دھندے میں ملوث چہروں کو بے نقاب کریں۔ ایک ۔۔ صرف ایک زینب کا کیس درست سمت میں تحقیقات سے حل ہوگیا تو آیندہ کسی بدمعاش مافیا کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیسوں کی خاطر درندوں والا سلوک کرے۔ اس لیے ڈارک ویب سے نمٹنے کے لیے برائٹ سوسائٹی کا کردار ادا کیجیے اور صرف برائٹ سوسائٹی ہی اس مافیا سے نمٹ سکتی ہے ورنہ ارباب اختیار سے وابستہ اس دھندے کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔


https://www.tasnimnews.com/ur/news/2018/01/24/1636985/لائیو-براڈکاسٹنگ-اور-لاکھوں-ڈالرز-کی-کمائی-قصور-میں-معصوم-بچوں-کو-زیادتی-کے-بعد-قتل-کیے-جانے-کے-پیچھے-چھپا-اصل-مقصد-سامنے-آ-گیا/amp?__twitter_impression=true

I don't believe this.. This guy was caught by a man in the act earlier as well in a under construction house in 2015... there were no cameras, nothing.. The guy who caught him and himself had a big fight.. but he was successful in running away..

So I don't think it has any international links..
 
.
Interestingly Shahid Masood also mentioned a child p_orn site that has been broadcasting live cruel acts on demand from international pedo viewers. What if there is a link between the abused children on those videos and the kidnapped children in Kasur and other places??? Of course we should investigate it!
That's mostly likely what has been happening, such sites are found on Deep web/Dark net and are inhabited by sick perverts of all kinds. People over there do things which are beyond a normal persons imagination. Worst part is even governments like that of Pakistan cant have access to that content easily. For Pakistan best bet is to involve Interpol, but that is only possible if indeed the GoP is committed enough to go after the worst of beings.
 
.
I don't believe this.. This guy was caught by a man in the act earlier as well in a under construction house in 2015... there were no cameras, nothing.. The guy who caught him and himself had a big fight.. but he was successful in running away..

So I don't think it has any international links..
This incident kahan parha ap nay? Any link about him being caught?

I have heard he was harassing a young girl and her mother found out and reported him some time back.

Btw i shared the news report to give a general clue about what happens in many child cases, it wasnt necessarily about Zainab.
 
.
Why dont chief justice call shahid m.and ask him if he has any proof of such 37 bank accounts of killer imran ali.other wise shut his trap for airing such lunacy on television
 
.
This incident kahan parha ap nay? Any link about him being caught?

I have heard he was harassing a young girl and her mother found out and reported him some time back.

Btw i shared the news report to give a general clue about what happens in many child cases, it wasnt necessarily about Zainab.

I read somewhere a week back or so.. I will find the news item for you..
 
.
I read somewhere a week back or so.. I will find the news item for you..
Week back kaisay kal hee tau us banday ka pata chala hai us say pehlay tau koi news nahi thi uski.

Why dont chief justice call shahid m.and ask him if he has any proof of such 37 bank accounts of killer imran ali.other wise shut his trap for airing such lunacy on television
Lmao totally agree , har dafa hi aisa kuch hota hai. He has lost total credibility
 
Last edited:
.
Back
Top Bottom