دنیا کا واحد برفانی صحرا: پاکستان کا شگرپاکستان کے علاقے شگر، جو کہ گلگت بلتستانمیں واقع ہے، ایک منفرد قدرتی منظر پیش کرتا ہے جسے "برفانی صحرا" کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جہاں برف کے ٹیلے صحرا کی طرح موجود ہیں، جو اسے ایک خاص حیثیت عطا کرتے ہیں۔
خصوصیات
قطبہ صحرا: یہ برفانی صحرا "قطبہ صحرا" کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کے برف کے ٹیلے دن کے وقت سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں، جیسے ہیرے۔
درجہ حرارت: سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت منفی 20 ڈگری سیلسیس تک گر جاتا ہے، جو اس جگہ کو مزید پراسرار بناتا ہے۔
مناظر: شگر کا یہ برفانی صحرا بلند ترین پہاڑوں اور گلیشیئرز کے قریب واقع ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک منفرد سیاحتی مقام بن گیا ہے۔
دلچسپ حقیقت
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آپ کو ایک ساتھ بلند ترین پہاڑ، گلیشیئر، اور برفانی صحرا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ قدرت کی ایک انمول تخلیق ہے جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
سوچیے
کیا آپ اس منفرد مقام کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا منظر خوابوں جیسا ہے؟ اپنی رائے کمنٹ میں دیں اور پاکستان کی اس حیرت انگیز جگہ کو دنیا کے سامنے لانے میں ہمارا ساتھ دیں!"شگر کا برفانی صحرا - قدرت کی ایک انمول تخلیق!"
The Biafo Glacier is a 67 km (42 mi) long glacier in the Karakorum Mountains of Gilgit Baltistan, Pakistan which meets the 49 km (30 mi) long Hispar Glacier at an altitude of 5,128 m (16,824 ft) at Hispar La (Pass) to create the world's longest glacial system outside the polar regions.This highway of ice connects two ancient mountain kingdoms, Nagar (immediately south of Hunza) in the west with Baltistan in the east. The traverse uses 51 of the Biafo Glacier's 67 km and all of the Hispar Glacier to form a 100 km (62 mi) glacial route.
The Biafo Glacier presents a trekker with several days of very strenuous, often hectic boulder hopping, with spectacular views throughout and Snow Lake near the high point. Snow Lake, consisting of parts of the upper Biafo Glacier and its tributary glacier Sim Gang, is one of the world's largest basins of snow or ice in the world outside of the polar regions, up to 1,600 m (0.99 mi) in depth.
The Bublimotin, Bubli Motin, Bublimating or Ladyfinger Peak, is a distinctive
rock spire in the Batura Muztagh, the westernmost subrange of the Karakoram
range in Pakistan. It lies on the southwest ridge of the Ultar Sar massif, the most...
جنت کا منظر: کالام کی برفیلی وادی
یہ تصویر سوات کی دلکش وادی کالام میں مہوڈنڈ جھیل کی ہے، جہاں قدرتی حسن اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑ، نیلا آسمان اور برف پر بنے خیمے یہاں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ مقام نہ صرف سردیوں کی تعطیلات کے لیے بہترین ہے بلکہ یہ سکون، فطرت سے محبت اور adventure کے شوقین افراد کے لیے جنت سے کم نہیں۔ اگر آپ نے یہاں کا سفر نہیں کیا تو آپ نے قدرت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ابھی تک نہیں دیکھا۔اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ اس خوبصورت مقام کا دورہ کریں، اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوں۔
ملتان سے 194 کلو میٹر دور پاکستان کا ایک اور ناران مزری غر جہاں کا درجہ حرارت آج کل منفی 11/12 چل رہا ہے
مزری غر کی بلندی 10207 فٹ ہے
یہاں بھی ناران کی طرح کئ کئ فٹ برف پڑتی ہے
خوشاب وادی سون دامن مہاڑ کے علاقے سلمن شریف میں موجود یہ قدیم بیٹھک اٹھارویں صدی میں پورس پتھر کو تراش کر بنائی گئی تھی ، یہ کام بہت مشکل ہے پورس پتھر کو ایک شکل میں بنانا اور تراشنا نہایت عمدہ کار یگری ہے اس سے پہلے یہ کام ہندو شاہی کے تمام مندروں میں ملتا ہے جس میں امب شریف کے مندر ، سسی دا کالرہ ، بلوٹ مندر ، میلوٹ مندر ، کافر کوٹ کے مندر ، ہجیرہ اور بھی ایسی کئ قدیم تعمیرات میں پورس پتھر کا استعمال ہوا ہے اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ سیم کلر کو چوس لیتا ہے اور دیواروں عمارت کے آندر نمی نہیں آنے دیتا اور گچ چونا گیری نمک اور دال ماش روڑ کا مصالہ اسے کم از کم 1000 سال تک محفوظ رکھتا ہے ، بیٹھک کے اطراف کافی تعداد میں قدیم قبریں بھی موجود ہیں پہاڑوں کے درمیان میں ایک بہت خوبصورت اور پرسکون روحانی مقام ہے ۔
خوشاب وادی سون دامن مہاڑ کے علاقے سلمن شریف میں موجود یہ قدیم بیٹھک اٹھارویں صدی میں پورس پتھر کو تراش کر بنائی گئی تھی ، یہ کام بہت مشکل ہے پورس پتھر کو ایک شکل میں بنانا اور تراشنا نہایت عمدہ کار...
بلیجہ ویلی" ہزارہ ڈویژن کا سب سے بڑا میدان اس ویلی میں واقع ہے وادی بلیجہ: جنت نظیر سرزمین
پاکستان کے شمالی علاقے اپنی فطری خوبصورتی اور دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ناران، کاغان، گلگت، بلتستان، چترال اور کمراٹ جیسے علاقے اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ مگر ان دلکش مقامات کے ساتھ ایک اور جنت نظیر وادی، بلیجہ ویلی، بھی اپنی قدرتی حسن اور دلفریب مناظر کی بدولت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ وادی بھی دنیا کے نقشے پر اپنی جگہ بنا لے اور اس کا نام پوری دنیا میں پہچانا جائے۔
وادی بلیجہ: مقام اور رسائی
بلیجہ ویلی ضلع مانسہرہ اور ضلع بٹگرام کے درمیان واقع ہے، جو وادی سرن اور وادی کونش کے سنگم پر موجود ہے۔ اس جادوئی وادی تک پہنچنے کے لیے آپ کو اسلام آباد سے مانسہرہ، شنکیاری اور وہاں سے جبوڑی تک کا سفر طے کرنا ہوگا۔ جبوڑی سے میل بٹ تک ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد تقریباً چار گھنٹے کی پیدل چڑھائی آپ کو بلیجہ ویلی کے دلفریب میدانوں میں لے آتی ہے، وادی سرن میں جیسے ہی اپ انٹر ہوں گے تھوڑا اگے جا کے سرن کے انتہائی خوبصورت منظر لطف اندوز ہو جائیں گے اور یہی سرن ویلی کا جو راستہ ہے ضلع مانسہرہ کی سب سے بڑی دو چوٹیوں کی طرف بھی جاتا ہے موسٰی کا مصلیٰ پہاڑ اور چرکو، پہاڑ یہ سرن ویلی کے دو اونچے پہاڑ ہیں سمٹ کے لیے یہ بھی اسی روٹ میں آتے ہیں مگر میں آج اپ کو بلیجہ ویلی کی سیر کرواتا ہو،
قدرتی حسن اور جنگلات
بلیجہ تک کا سفر ایک گھنے جنگل سے ہو کر گزرتا ہے، جہاں آپ کو دیاڑ، بیاڑ، فراور، اور سپروز جیسے درخت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ جنگل اپنی قدرتی شان و شوکت کے لیے مشہور ہیں۔ ہائیکنگ کے دوران آپ کو چھوٹے چھوٹے میڈوز اور خوبصورت چشمے نظر آئیں گے جو سفر کو یادگار بناتے ہیں
سرسبز میدان اور برفانی مناظر
تقریباً دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ وادی فارسٹ لائن کے بعد سنو لائن کا آغاز کرتی ہے، جہاں سال کے بیشتر مہینے برف کی چادر تنی رہتی ہے۔ جب برف پگھلتی ہے، تو یہ میدان سرسبز قالین کی مانند نظر آتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں جب بارشوں کے بعد جنگلی پھول کھلتے ہیں، تو یہ جگہ جنت کا منظر پیش کرتی ہے۔
اہم مقامات
وادی بلیجہ میں کئی خوبصورت میڈوز موجود ہیں، جن میں ٹپری ٹاپ، ٹپر ٹاپ، چھپڑی میڈوز، بٹل میڈوز، اور بلیجیاں ٹاپ شامل ہیں۔ ان میں سے بلیجیاں ٹاپ میری پسندیدہ جگہ ہے۔ اس کے علاوہ ڈوگا میڈوز بھی ایک منفرد مقام ہے، جہاں کا راستہ انتہائی حسین ہے۔
رہائش اور سہولیات
بلیجہ کے میدانوں میں رہائش کا کوئی انتظام موجود نہیں، اس لیے یہاں آنے والے سیاحوں کو کیمپ اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لانا پڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی دکان موجود ہے جہاں سے معمولی سامان جیسے آلو، گھی، اور نمک وغیرہ خریدا جا سکتا ہے۔
ہائیکنگ کا تجربہ
بلیجہ ویلی کی ہائیکنگ تھوڑی مشکل ضرور ہے، لیکن جب آپ ان میدانوں میں پہنچتے ہیں، تو تمام تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔ اس وادی کے حسین نظارے اور سرسبز میدان دیکھ کر روح کو سکون ملتا ہے۔
موسم اور سیاحتی وقت
مئی کے مہینے سے سیاح یہاں آنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن جولائی میں اس جگہ کا حسن اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اکتوبر کے بعد برف باری کا آغاز ہوتا ہے، اور تقریباً 15 فٹ برف پڑتی ہے، جس کی وجہ سے مقامی چرواہے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ نیچے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
پیغام
بلیجہ ویلی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، جسے ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ میری دعا اور امید ہے کہ یہ وادی جلد ہی دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہو جائے گی۔ تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس وادی کی سیر کریں اور اس کے حسین مناظر کا لطف اٹھائیں۔ یقین کریں، یہ جگہ آپ کی توقعات سے بڑھ کر ہوگی۔
بلیجہ ویلی کی خوبصورتی کو مزید مشہور کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انشاءاللہ، محنت رنگ لائے گی، اور دنیا اس جنت نظیر وادی کو جاننے لگے گی۔ اس ویلی کی مزید خوبصورتی دیکھنے کے لیے مجھے فیسبک پہ ضرور فالو کیجئے گا تاکہ میری مزید پوسٹیں آپ تک پہنچ سکیں بہت بہت شکریہ جزاک اللّٰه
تحریر :ظہیر شاہ زاری.
قلعہ موج گڑھ صحرائے چولستان میں فورٹ عباس اور یزمان کے درمیان واقع ہے۔ یہ قلعہ بہاول پور سے 120 کلومیٹر یزمان 70کلومیٹر فورٹ عباس90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مٹی اور اینٹوں سے بنا ہوا یہ قلعہ معروف خان کہرانی نے 1743ء میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ انڈیا، پاکستان کے سرحد کے بالکل قریب ہے۔ قلعہ موج گڑھ بہاول پور کے عباسی دور میں بنائے گئے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے۔ یہ قلعہ بھی اپنی تباہی کی آخری منزلوں پر ہے اور حکومتی اداروں کی توجہ کا طلب گار ہے۔ یہ قلعہ پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا، اس کی فصیل بہت بلند ہے۔ قلعہ کی خوب صورت مسجد اور معروف خان کا مقبرہ دیکھنے کے قابل ہے۔ قلعہ کے مشرق میں تالاب سوکھا پڑا ہے۔ یہ قلعہ قلعہ مروٹ سے سے 33 کلومیٹر، قلعہ جام گڑھ سے 43 کلومیٹر‘ قلعہ میر گڑھ سے 50 کلومیٹر اور قلعہ دراوڑ سے 83 کلومیٹر دور واقع ہے
سکردو قلعہ (کھرپوچو قلعہ)
(بلتی: کھرفچو؛ اردو: قلعہ سکردو) جس کا مطلب ہے "قلعوں کا بادشاہ"، پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے میں سکردو شہر کا ایک تاریخی قلعہ ہے۔ اس قلعے کی تعمیر بادشاہ علی شیر خان آنچن نے سولہویں صدی کے آخر میں کی تھی۔ یہ قلعہ ایک اہم اسٹریٹجک مقام پر واقع ہے، جو دریائے سندھ اور اسکردو کی چٹان کے اوپر سے پورے علاقے پر نظر رکھتا ہے۔
تاریخی پس منظر
کھرپوچو قلعہ اپنی شاندار تعمیر اور منفرد مقام کی وجہ سے بلتستان کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آسٹریلوی کوہ پیما اور فلم ساز گریگ چائلڈ کے مطابق، یہ قلعہ "دریاؤں کے سنگم کے اوپر واقع" ہے اور ایک محفوظ پہاڑی علاقے میں قائم ہے۔
1840 میں، ڈوگرہ جنرل زوراور سنگھ نے اس قلعے پر حملہ کیا اور اسے زمین بوس کر دیا۔ یہ حملہ بلتستان کو جموں و کشمیر کی ریاست سے ملانے کی ڈوگرہ مہمات کا حصہ تھا۔ بعد میں، 1857 میں رنبیر سنگھ کی قیادت میں اس قلعے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔
اہمیت
یہ قلعہ اسکردو کے لوگوں کے لیے نہ صرف ایک تاریخی ورثہ ہے بلکہ سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے بھی اس قلعے پر قبضے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ قلعے کے مقام اور اس کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے یہ مختلف ادوار میں حکمرانوں کی توجہ کا مرکز رہا۔
قلعے کا سفر
کھرپوچو قلعے تک پہنچنے کے لیے تقریباً 30 منٹ کا ایک پہاڑی راستہ طے کرنا پڑتا ہے، جو موڑ اور خطرناک راستوں سے بھرا ہوا ہے۔ راستے کے ایک طرف دریائے سندھ بہتا ہے، اور دوسری طرف بلند و بالا پہاڑوں کی قطار ہے۔ قلعے کے سب سے اوپر کھڑے ہو کر پورے اسکردو شہر اور دریائے سندھ کا دلکش منظر دیکھا جا سکتا ہے، جو اس سفر کو یادگار بناتا ہے۔
منفرد خصوصیات
قلعے کا داخلی دروازہ ایک چھوٹی سی کھڑکی کی شکل میں ہے، جو صرف ایک فرد کے گزرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کا یہ منفرد ڈیزائن دشمنوں کے حملے سے حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔ قلعے کی چوٹی سے پورے شہر کا منظر پرندوں کی نظر سے دیکھنے جیسا ہے۔
موجودہ حیثیت
آج کھرپوچو قلعہ اپنی تاریخی اہمیت اور شاندار تعمیر کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف بلتستان کی ثقافت کا حصہ ہے بلکہ اس کے شاندار ماضی کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔کھر پوچو فورٹ سکردو
کھر پوچو قلعہ یعنی قلعوں کا بادشاہ کنگ آف فورٹس۔ سکردو سٹی میں پہاڑ کی اونچائی پہ واقع ہے۔
اس قلعے تک پونچھنے کے لیئے پہاڑ کے اوپر چھڑنا پڑتا ہے۔ پہاڑ کے بیچ میں ہی یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اور وہاں سے سارا سکردو کا نظارہ ہوتا ہے اس قلعے کے ایک طرف دریاؤں کا سنگم نظر آتا ہے۔
اس قلعے کے ساتھ ایک خوبصورت مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔
یہ قلعہ اصل میں اونچائی پے بنائے کا مقصد بھی یہی ہوگا کہ یہاں سے سکردو کے تمام علاقوں کی نگرانی کی جا سکے۔
يا اسلئے شاید اتنے اونچے قلعے میں دشمن پونچھنے سے پہلے ہی ٹھکانے لگایا جا سکے۔
لیکن پھر بھی اس قلعے میں بہت سے معرکے ہوئے۔
یہ قلعہ شاہ علی شیر خان آنچن نے سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کروایا تھا۔
ڈوگرہ راجپوت قبیلے کے جنرل زوراور سنگھ جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے ماتحت کام کرتاتھا اس قلعے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے یہاں پر حملہ آور ہوا اور اس نے اس قلعے پر قبضہ کیا تھا۔
مغل بادشاہ اورنگ زیب نے بھی اس قلعے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جو بیکار ہوچکی۔
1947میں پہلی جنگ کشمیر کے دوران جنرل تھاپا اور اس کے سپاہی قلعہ میں تعینات تھے۔
جی بی سکاوٹس اور گلگت بلتستان کے رضاکاروں نے اس قلعے کا فروری 1948 میں محاصرہ کیا اور 6 گھنٹے کی طویل لڑائی کے بعد کشمیری فوج کو پسپا کر دیا اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد گلگت بلتستان کے ہیروز نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ الحقاق کیا جائیگا۔
اُن کی مشاورت کے بعد پاکستان کے ساتھ ملنے کا اعلان کیا گیا۔
گلگت بلتستان کو ایک نام دیا گیا۔
نوٹ: اگر مزید معلومات کسی کے پاس ہیں تو کمنٹ کر کے ضرور بتا سکتا ہے.شکریہ
تحریر ظہیر شاہ زاری
اگرچہ پاکستان ایک گرم مرطوب ملک تصور ہوتا ہے مگر پھر بھی حیرت انگیز طور پر دنیا میں انٹارکٹیکا کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز پاکستان میں ہیں، تقریباً 7 ہزار 253۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا میں 7 ہزار میٹرز سے بلند چوٹیاں صرف جنوبی ایشیا میں ہیں، اور ان میں 112 چوٹیاں صرف اکیلے پاکستان میں ہیں۔ ان میں 5 چوٹیاں 8 ہزار میٹرز سے بلند ہیں۔ پاکستان بے شک ایک گرم ملک ہے مگر یہاں کم سے کم درجہ حرارت منفی 75 ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ جانتے ہیں کہاں؟
پاکستان میں تقریباً 700, گلیشیئرز ہیں، جو زیادہ تر کشمیر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گلیشیئرز غیر قطبی علاقوں میں دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں شامل ہیں اور ملک کے آبی وسائل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
1. گلیشیئرز کی تعداد: پاکستان میں تقریباً 7,000 گلیشیئرز پائے جاتے ہیں، جو کہ دنیا کے کسی بھی غیر قطبی خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہ بنیادی طور پر قراقرم، ہمالیہ، اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہیں، لیکن "7,253" کی مخصوص تعداد ممکنہ طور پر مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے، کیونکہ درست اعداد و شمار بدلتے رہتے ہیں۔
2. بلند چوٹیاں: دنیا میں 7,000 میٹر سے بلند تمام چوٹیاں جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، نیپال، اور چین) میں واقع ہیں۔ پاکستان میں 100 سے زیادہ 7,000 میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں، اور ان میں سے 5 چوٹیاں 8,000 میٹر سے بلند ہیں:
کے ٹو (8,611 میٹر)
نانگا پربت (8,126 میٹر)
گاشر برم I (8,080 میٹر)
براڈ پیک (8,051 میٹر)
گاشر برم II (8,035 میٹر)
3. انتہائی درجہ حرارت: پاکستان میں ریکارڈ شدہ کم ترین درجہ حرارت اسکردو کے قریب یا سیاحتی مقام سیاچن گلیشیئر پر ہوتا ہے، جہاں درجہ حرارت سردیوں میں -50 °C سے بھی نیچے جا سکتا ہے۔
یہ تفصیلات پاکستان کے قدرتی تنوع اور جغرافیائی اہمیت کو نمایاں کرتی ہیں، اور واضح کرتی ہیں کہ پاکستان نہ صرف گرم مرطوب خطوں پر مشتمل ہے بلکہ دنیا کے بلند اور برفانی علاقوں کا بھی حامل ہے۔
لیپہ ویلی: قدرت کا حسین شاہکار،
لیپہ ویلی آزاد کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے، جو سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ مظفرآباد سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ وادی سرسبز پہاڑوں، سرخ چاولوں کے کھیتوں، ٹھنڈے چشموں، اور مہمان نواز لوگوں کے لیے مشہور ہے۔ اگر آپ اسلام آباد سے سفر کا آغاز کریں، تو مظفرآباد مری ایکسپریس وے کا انتخاب کریں۔ کوہالہ کے راستے مظفرآباد پہنچنے کے بعد، نیلی پل کے ذریعے شاہراہ سری نگر اختیار کریں۔
سفر کا آغاز اور راستے کی دلکشی
مظفرآباد سے لیپہ ویلی کا سفر تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ راستے میں گڑی دوپٹہ، ہٹیاں بالا، اور ریشیاں جیسے خوبصورت علاقے آپ کے سفر کو یادگار بناتے ہیں۔ نیلی پل سے ریشیاں تک کا سفر دلکش نظاروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں دو راستے لیپہ ویلی کے لیے نکلتے ہیں۔
داوکھن روٹ: یہ روڈ مکمل پختہ اور آرام دہ ہے، جو لبگراں تک آسانی سے لے جاتا ہے۔
برتھواڑ گلی روٹ: یہ راستہ وادی کے منڈل گاؤں تک جاتا ہے اور بے حد حسین مقامات کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
وادی کی خوبصورتی اور اہم مقامات
لیپہ ویلی میں داخل ہوتے ہی قدرتی حسن کا ایک نیا منظر پیش ہوتا ہے۔ قیصر کوٹ گاؤں کے دلکش نظارے، نوکوٹ کے سرخ چاولوں کے کھیت، اور چننیاں کا خوبصورت نالہ قاضی ناگ دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے۔
مشہور مقامات:
داوکھن اور شیر پاس: بلند و بالا پہاڑوں سے گزرتا یہ راستہ قدرت کی شاندار صناعی کا نمونہ ہے۔
نوکوٹ: سرخ چاولوں کے کھیت اور سیدھا سادہ دیہاتی ماحول۔
چننیاں پارک اور قاضی ناگ کا نالہ: گھنے جنگلات اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے۔
منڈل گلی: کیمپنگ کے لیے مثالی مقام۔
تریڈا شریف: حضرت سائیں مٹھا بابا سرکار کا دربار، جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔
سیاحوں کے لیے معلومات
لیپہ ویلی کی سیر کا بہترین وقت مئی سے اکتوبر تک ہے، کیونکہ سردیوں میں برفباری کے باعث راستے بند ہو جاتے ہیں۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز اور مددگار ہیں۔ ہوٹل اور کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ بھی مناسب ہیں۔ وادی کے مختلف گاؤں، جیسے بجلدار، لبگراں، اور سیدپورہ، اپنی انفرادیت کے لیے مشہور ہیں۔
تاریخی پس منظر
لیپہ ویلی کا قدیم نام "کرناہ" تھا، جو برصغیر کی تقسیم سے قبل مظفرآباد کی ایک تحصیل تھی۔ مقامی راجہ مہاراجہ پیپہ سنگھ کے نام پر اس وادی کو "وادی پیپہ" کہا جاتا تھا، جو وقت کے ساتھ لیپہ کہلائی۔
سفر کی تفصیلات
اسلام آباد سے راستہ: مری ایکسپریس وے، کوہالہ، گڑی دوپٹہ، ہٹیاں، نیلی پل، اور ریشیاں کے راستے لیپہ ویلی پہنچیں۔
دیکھنے کی جگہیں: ساون واٹر فال، چناری واٹر فال، اور جسکول واٹر فال۔
ٹرانسپورٹ: ذاتی گاڑی، موٹر سائیکل، یا لوکل ٹرانسپورٹ بہترین انتخاب ہیں۔
حفاظتی ہدایات
لیپہ ویلی لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، اس لیے آرمی کی چیک پوسٹوں پر شناختی کارڈ ضرور ساتھ رکھیں اور وہاں کی SOP's پر عمل کریں۔
اختتامیہ
لیپہ ویلی نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کا ماحول، صاف پانی، گھنے جنگلات، اور مہمان نواز لوگ سیاحوں کو بار بار آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر آپ سکون اور خوبصورتی کی تلاش میں ہیں، تو لیپہ ویلی کا سفر زندگی کا یادگار تجربہ ثابت ہوگا۔
تحریر: ظہیر شاہ زاری