What's new

Pakistan Tourism: Information Desk

The Habib Bank Plaza, located on I. I. Chundrigar Road in Karachi, Pakistan, was constructed starting in 1963 and completed in 1972. It was envisioned to become South Asia's tallest structure until 1992 and held the title of Pakistan's tallest building until the early 2000s.

Key Facts:​

  • Height: The building stands at an elevation of 311 feet (approximately 95.5 meters) and consists of 22 floors.
  • Historical Significance: Upon its completion, it was the tallest building in South Asia until it was surpassed by the Express Towers in India in 1972. It remained the tallest building in Pakistan for four decades until the construction of the MCB Tower.
  • Inauguration: The plaza was inaugurated to commemorate the 25th anniversary of Habib Bank Limited and began operations on September 4, 1971.
  • Usage: Besides serving as the head office for Habib Bank Limited, it has been a venue for the Ruet-e-Hilal Committee meetings, which are responsible for moon sighting in Pakistan.
The Habib Bank Plaza is not only an architectural landmark but also a symbol of Karachi's urban development during the late 20th century.

1733725521077.jpeg
 
.
صبح بخیر
نظر والوں سے مت پوچھو حد امکاں کہاں تک ہے
کہیں سورج نکلتا ہے کہیں منظر نکلتا ہے
(فصیح اکمل)
ارنگ کیل – وادی نیلم
پاکستان خوبصورت

1733727435353.jpeg
 
.
حُسینی پُل | Hussaini Bridge...
🏃
💥
🏄

ازقلم #مسافرِشَب` — گوجال ہنزہ
چند برس قبل جولائی میں عبدالاحسن یعنی میرے دوست عبدل، سونیا بھابی اور سالئ عبدل نوشین کے ہمراہ ہنزہ ٹرِپ کے دوران خنجراب جاتے ہوئے خدشہ تھا کہ حُسینی پُل بھی آ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ آ گیا۔ نہ آتا تو ہم بھٹک کر کوئٹہ کی جانب جا رہے ہوتے۔
حُسینی پُل دنیا کے خطرناک ترین جُھولتے پُلوں (Suspension) میں سے ایک ہے۔
ایک بار مَیں نے تفصیل دی تھی:- ”گلگت بلتستان میں.. اپرہنزہ کے علاقہ گوجال میں.. پاسو کونز (کیتھڈرل پِیکس) کے سامنے شاہراہِ قراقرم پر.. پاسُو کا قصبہ ہے.. اور پاسُو سے چند کلومیٹر پیچھے ایک اور چھوٹا سا قصبہ واقع ہے جسے حُسینی کہتے ہیں.. وہاں پہاڑ پر "ویلکم ٹُو حُسینی" بھی درج ہے.. شاہراہ سے ہٹ کر 300 میٹرز کے راستے پر.. نیچے دریا کی جانب.. ایک خاص پُل ہے جسے حُسینی سسپینشن برج کہتے ہیں.. مقامیوں کے مطابق اس پُل کی تعمیر کو 70 برس ہو چکے ہیں البتہ مشہور اب ہو رہا ہے، ہمیں ہر چیز میں دیر کرنے کی عادت ہے.. حالیہ طور پر دنیا کا دوسرا طویل ترین پیڈسٹل سسپینشن برِج ہے.. پہلا غالباً کینیڈا میں ہے۔ حُسینی پُل کے تختوں کو یوں ترتیب دیا گیا ہے کہ ان پر قدم دھرتے ہوئے دریائے ہنزہ نیچے بہتا نظر آتا ہے اور دل دہل کر رہ جاتا ہے.. شمالی جانب پاسُو کونز فلک بوس نظر آتی ہیں...... جس نے دیکھنا ہو، جا کر دیکھ آئے..“
اِس حالیہ وزٹ پر چند باتیں مزید بھی ہو گئیں۔ شاہراہِ قراقرم سے حُسینی پُل تک جاتے راستے میں چند کھیت موجود تھے۔ وہاں ہم نے اتنے اتنے بڑے کدو دیکھے کہ بس جی کچھ سیاسی شخصیات کے سروں کا گمان ہوا۔ یقین کیجیے کہ ایک ہی کدو پوری فیملی کا سر کھانے کے لیے کافی تھا۔
راستے میں ایک کھوکھا آیا جس میں ایک لڑکے نے ہماری گناہ گار آنکھوں کے سامنے خوبانی اور آلوبخارا کا تازہ جوس نکالا۔ قیمت 100 روپے تھی۔ ہم نے بہت احتجاج کیا کہ اِس مقام پر اتنے قیمتی جوس کی قیمت 100 روپے بہت کم ہے۔ وہ نہ مانا۔ لہذا عبدل نے ہر آتے جاتے ہنستے کھیلتے محبت کرتے سیاح کو جوس کی مارکیٹِنگ کی۔ ہمارے سامنے لڑکے کا پورا جوس ختم ہو گیا اور وہ تھک سا گیا۔ ویسے کبھی نوٹ کیجیے گا کہ ہنزہ کے تمام لڑکے ارطغرل کے کردار لگتے ہیں، وہی خوبصورتی، واہ۔
اسی کھوکھے کے قریب ایک اور کھوکھا تھا جس کی لکڑ دیوار پر کم از کم دس ہزار سیاحوں نے آٹوگراف دیے ہوئے تھے۔ ویسے وہ کھوکھا بند تھا۔ جانے کس کا تھا۔ مَیں تب سے سوچی پڑا ہوا ہوں۔
مَیں وہاں سیب کے درخت کے نیچے کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگ گیا کہ کب سیب گرے اور مَیں کششِ ثقل کا نیا فارمولا دریافت کر لوں۔ خود ہی توڑنا پڑا۔ سیب ہر کسی کے سر پر نہیں گرتے۔ ایک بار ایک خاص شخص کے سر پر گرا تھا، تب سے ہم بھگت رہے ہیں۔ شکر کریں کہ خدا نے میرے سر پر نہیں گرایا ورنہ انسانیت صدیوں تک مجھے بددعائیں دیتی کیونکہ مجھے ضرورت سے زیادہ مرچ مصالحے ڈالنے کی عادت ہے۔
حُسینی پُل سے نیچے مٹیالا دریائے ہنزہ اپنی پوری شدت سے بہہ رہا تھا اور پس منظر میں بلندوبالا پاسو کونز دھوپ کی شدت میں بار بی کیو ہو رہی تھیں۔ آج گرمی ذرا زیادہ تھی۔ عبدل کافی پنوتی ہے، جہاں بھی جاتا ہے، خشک گرمیاں اور دھوپ طاری کروا دیتا ہے۔ خنجراب پاس پر بھی راولپنڈی کی سی گرمی تھی۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ سیلاب کے دنوں میں عبدل کے ٹرِپس سپانسر کرے، قوم سیلاب سے بچ جائے گی۔
پُل پر ہی ایک گوری بھی موجود تھی جسے کالا کروانے کے لیے اُس کا دیسی ہسبینڈ ہمراہ لایا تھا۔
اصل البم میں اچھی والی تصویریں میرے اوپو کی ہیں۔ ذرا بے رنگ سی تصاویر عبدل کے مہنگے والے فون کی ہیں۔ یہاں صرف ایک ہی تصویر پیسٹی ہے اپنے کسی سرد موسم کے ٹرپ کی۔
ملتے ہیں کسی اور کہانی میں۔
شب بخیر، مسافرِشَب`
ٹِک ٹاکرز کو پیار
1733735097101.jpeg
1733735108852.jpeg
1733735119812.jpeg

1733735114329.jpeg
1733735103080.jpeg
 
.
وادی تھوئی یاسین
مشہور فصلیں:
تھوئی اپنے گندم کی پیداوار کیلئے تو مشہور ہے ہی مگر یہاں جو، مکئی، باقلہ، باجرہ، دال مسور، مٹر (گھرک) اور دال لوبیہ، وغیرہ کی فصلیں ہوتی ہیں، ان کی پیداوار دوسری وادیوں سے زیادہ ہے۔
پھلوں میں خوبانی،سیب، آڑو، ناشپاتی، بادام، آلوبخارہ،اخروٹ ، گلاس(چیری) توت،شہتوت، بیر،خربوزہ، تربوزہ،وغیرہ کثرت سے پیدا ہوتے ہے ، آج کل سٹرابھری بھی کاشت کی جاتی ہے
سبزیاں : سبزیوں میں یہاں گوبھی،گاجر شلجم ، کدو، پالک، سلاد پتہ جو کہ انتہائی لذیز ہوتا ہے، مٹر،آلو، لوبیہ ( جب کچہ ہوتا ہے چھلکے کے ساتھ سبزی کے طور پکایا جاتاہے) اسکے علاوہ مقامی سبزی حزگار،سوانچل ، بارجو ہوئی، اشکرکا ،ہونیمینازیکی، فلیچی، بلغار، اشپتنگ، شفتل، شوٹا، لیکن سردیوں کیلئے سبزی کو خشک کر کے رکھی جاتی ہے۔
شکار :
شکار میں مارخور، ہڑیال، چیتا،چکور، رام چکور ، مرغابیاں اور موسمی فاختوں کا شکار کیا جاتا تھا لیکن اب بہت کم ہے۔ اسکے علاوہ مچھلی کا شکار بڑے شوق سے کیا جاتاہے۔ یہاں بھی ٹراوٹ مچھلی مشہور ہے چونکہ اس مچھلی کا گوشت لذیز ہونے کے علاوہ اس میں دوسرے مچھلیوں کی طرح کانٹے نہیں ہوتے ہیں۔اس مچھلی کی نسل کو انگریزوں نے کشمیر سے لاکر پھنڈر میں اس کی افزائش نسل کیا تھا جو اب پھیل کر پورے ضلع غذر کے دریاؤں میں ملتی ہے۔
تھوئی میں بسنے والی قومیں::
خوشو قتے، بیگلے، شکربیگے، آتمیں ، مورکلے، چوناکوچ، نونے، صوبہ کوچ، نوچے، یہ سارے بیگل نسل ہیں ، معشوقے، یا غزنے، خیبرے،ختو تے، بر گہے، ماشے، بسپائے، (بسپائے کے داد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص گھوڑے سے تیز دوڑسکتا تھا) قرغزے،داشمنے،فتے، بونوکے، اور نونوکوچ، رشید بیگے، کلے
تھوئی کے گاوں :
تھوئی کا پہلا گاوں غینگسیل، اشکائبر، کریم آباد، دلکوئی، داپس، درچ، مغجی رت ، حرپو، کونو، چھیر یٹے، چیکے داس (رحیم آباد) ، شوٹ، دراسکن، اشقمداس، نلتی، تھلتی، خنجرآباد، اشقم غورو اورقدم آباد ۔ اس طر ح یہ ۲۱ گاوں بنتے ہیں۔
درے یا پاس:
تھوئی سے ایک درہ نالہ دسپر سے درکوت جا نکلتا ہے۔دوسرا درہ ،نالہ موشی بر سے یارخون چترال نکلتا ہے ایک اور درہ نالہ خایمت سے چترال کی طرف جاتا ہے، جس کو پھرانی دو کٹم حاغوست کہا جاتاہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں چترال سے کوئی بندہ خایمت میںآ کر گرمیوں میں جو کی کاشت کرتا تھا ۔ ایک سال اس نے واپس جانے میں تاخیر کی اور ایک روز موسم خراب ہو گیا اور اچانک برف باری شروع ہو گئی اور وہ شخص جلدی میں تھا کہ کسی بھی طریقے سے وہ درہ پار کر کے اپنے علاقے میں چلا جائے۔ اور اس نے ایک پھرانی جو کہ درختوں کی ٹہنیوں سے ایک بہت بڑا ٹوکرہ بنایا جاتا ہے جس میں بھوسہ ٹونے کا کام لیا جاتا ہے تو اس چترالی نے پھرانی میں بھوسہ اور کچھ اپنی ذاتی سامان ڈالا اور چل پڑا اور اور اس تنگ گاٹھی میں جا کر پھنس گیا اور برف باری اتنی زبردست تھی کہ وہ بہت جلد برف میں دپ گیا اور مر گیا اور یہ گاٹھی گلیشر میں تبدیل ہوگیا اور اس درے کا نام پھرانی دوکھٹم یعنی ٹو کرا پھنسا ہو ا درہ پڑگیا۔

1733745555054.jpeg
1733745561485.jpeg
1733745568502.jpeg
1733745575287.jpeg
 
.
سوات کالام موسم سرما کے دوران برفباری کے لیے بہت مشہور ہے۔ برفباری سے ڈھکی یہ وادی قدرتی حسن کا شاہکار بن جاتی ہے، جبکہ مہوڈنڈ جھیل، اوشو فارسٹ، اور اتروڑ جیسے مقامات سردیوں میں مزید دلکش نظر آتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے ہوٹل اور ریزورٹس گرم ماحول اور مقامی کھانوں کے ساتھ بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں، جو اسے سردیوں کی سیاحت کے لیے ایک مثالی مقام بناتے ہیں۔

1733750737329.jpeg
1733750744651.jpeg
1733750751546.jpeg
1733750758874.jpeg
1733750765688.jpeg
 
.
دبئی سے خوبصورت علاقہ گوادر، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ایک اسٹریٹجک اور تجارتی لحاظ سے اہم ساحلی شہر ہے، جو اپنی گہرے پانی کی بندرگاہ اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا حصہ ہونے کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ خلیج فارس کے قریب واقع یہ شہر عالمی تجارت کے لیے ایک اہم مقام فراہم کرتا ہے، جبکہ گوادر پورٹ مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، اور افریقہ کے تجارتی راستوں کو جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ گوادر اپنی خوبصورت ساحلی پٹی، جیسے ہمارا بیچ اور گولڈن بیچ، کے علاوہ مارین ڈرائیو اور پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی وجہ سے سیاحتی کشش بھی رکھتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں، جیسے گوادر ایئرپورٹ اور فری زون، سے یہ شہر مستقبل میں پاکستان کے لیے ایک معاشی حب بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

1733832233293.jpeg
1733832244748.jpeg
 
.
*تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی بستیوں پر ایک نظر:*
تحریر و تحقیق :محمد آصف خان.
ملک پاکستان کی ترقی میں متاثرین تربیلہ ڈیم کی قربانیوں کو سنہری حروف میں لکھا جائے تو بھی کم ہے، اپنے آباؤ اجداد کی قبروں تک قربانی دینی پڑی اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر در بدر ہوئے مگر ملک کو روشن اور سر سبز بنایا۔
خیر، تربیلہ ڈیم کی تعمیر کی سکیم پر 1960 کی دہائی میں آغاز ہوا. تربیلہ ڈیم (مٹی سے بنائے گے بند) کی تعمیرات کے آغاز سے پہلے کچھ رہائشیں اور دفاتر بنانے ضروری تھے۔ عین تربیلہ بند سے جڑی بستیاں، دریا کے رائیٹ بنک (مغربی کنارہ) اور لیفٹ بنک (مشرقی کنارہ) کو انخلاء کروایا گیا اور ان کی متبادل رہائش کے لیے ٹاؤن شپ تیار کئے گئے. لیفٹ بنک پر غازی ہملٹ جس میں موضع صوبڑہ، ڈل اور موہٹ کے لیے تین سیکٹر اور رائیٹ بنک پر گلہ ہملٹ نزد ٹوپی برائے موضع کیہارہ، باڑہ، پیہور اور سمبل کے لیے بنائے گئے.
17 نومبر 1967 کو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت سیکشن 4 کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو زرعی و سکنی جائیداد کے انتقالات اور خرید و فروخت بند ہو گئے اور زمینوں کے ریٹ اس سے پچھلے پانچ سالہ اوسط کے مطابق لگائے گئے جبکہ زیادہ تر ایوارڈز 71-1970 میں ہوئے اور جولائی 1974 میں جھیل میں پانی بھر گیا تھا تمام لوگوں کو با امر مجبوری انخلاء کرنا حالانکہ متبادل آباد کاری ہونی باقی تھی مگر کیا کرتے پانی چڑھ دوڑا تھا۔
سب سے پہلے تربیلہ ڈیم سکیم کے تحت 1968 میں صوبڑہ گاؤں متاثر ہوا اور اس کے باسیوں کو انخلاء نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ککڑ چوہاء، گڑھی میرا اور پہرواسہ کے گاؤں جزوی متاثر ہوئے البتہ ان کی آبادیاں بچ گئی تھیں.
صوبڑہ گاؤں (لیفٹ بنک) کو سب سے پہلے خالی کر کے تربیلہ ڈیم انتظامیہ کے لیے دفاتر، رہائشی کالونیاں، بنک، سیکورٹی، تھانہ، اسپتال، گیسٹ ہاوسز،، گالف گراؤنڈ، کرکٹ سٹیڈیم، آرمی پبلک سکول، سکولز، مساجد اور چرچ وغیرہ تعمیر ہوئے. اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن اور ریل گاڑی کا سپیشل ریلوے ٹریک بچھایا گیا. اسی طرح موضع ڈل اور رائیٹ بنک پر پیہور کو بھی انخلا کرنا پڑا تھا جہاں ڈیم کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔
اسی سال، 1968 میں تربیلہ ڈیم کے بند کی تعمیر کے لیے گدون: گندف سے مٹی اور بیسک سے مخصوص قسم کی ریت حاصل کرنے کے لیے زمین حاصل کی گئی. جو کنویئر بیلٹ کے ذریعے لائی جانی شروع ہوئیں. اس مخصوص ریت سے کنکریٹ کی جاتی اور مٹی سے بند کی بھرائی کی جاتی.
تربیلہ ڈیم کا بند موضع پیہور (رائیٹ بنک) اور موضع ڈل (لیفت بنک) پر تیار کیا گیا. پاور ہاؤس پیہور کے مقام پر بنایا گیا. ڈل گاؤں کا کچھ قبرستان اور کسی بزرگ اللہ کے ولی رحمت اللہ کا مزار اب بھی تربیلہ بند کے درمیانی قدرتی پہاڑی پر آج بھی موجود ہے.
آج کے آرٹیکل میں تربیلہ ڈیم کی متاثرہ بستیوں کا ذکر ہو گا.
اس آرٹیکل میں متاثرہ بستیوں کا ذکر تربیلہ ڈیم سے شروع کر کے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ شمال کو سفر کرتے ہوئے کریں گے اور پھر دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مغرب سے مشرق اور پھر شمال کو سفر کریں گے. اسی طرح دریائے دوڑ کے ساتھ ساتھ مشرق سے مغرب اور جنوب میں سفر کریں گے. ان بستیوں کو دریاؤں کے آمنے سامنے (آر-پار) کلسٹرز وائز، پہلے رائیٹ بنک پھر لیفٹ بنک کا ذکر کیا جائے گا. (رائیٹ بنک دریا کے بہاؤ کی طرف منہ کر کے دیکھا جاتا ہے ظاہر ہے رائیٹ بنک دائیں اور لیفٹ بنک پانی کے بہاؤ کے بائیں ہاتھ پر واقع ہوتا ہے).
تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی متاثرہ بستیاں، دریائے سندھ کے رائیٹ بنک:
1 پیہور، 2 باڑہ، 3 کیہارہ (یہ تین بستیاں ٹوپی صوابی کی متاثر ہوئیں). 4 سمبل، 5 پھنیاں، 6 بُرج پھنیاں، 7 نوچھی، 8 شگئی، 9 گِدر بانڈی، 10 کھبل زریں، 11 کھبل بالا 12 کیاء زریں. 13 کیاء بالا، 14 گلی سیداں، 15 کالی شیرا، 16 منڈی سیداں، 17 گڑھی ستھانہ. (علاقہ اتمان بالا ہری پور ہزارہ کا اختتام ہوا اور اب ہم سابقہ امب سٹیٹ کے علاقہ میں داخل ہونے جا رہے ہیں)
18 ڈب ڈھیری، 19 رڑ، 20 عشراہ، 21 کنیرڑی 22 لگڑاہ، 23 امب زریں، 24 امب بالا، 25 بیسگ، 26. سنگا (رائیٹ بنک امب سٹیٹ کا اختتام ہوا اور علاقہ کالا ڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جار ہے). 27 کیاں سیداں، 28 لکوال، 29 مہابڑا زریں، 30 مہابڑا بالا.31 برنجل (زمین متاثر ہوئی)، 32 بھوکاڑا (زمین متاثر ہوئی) 33 گٹہ (زمین متاثر ہوئی)۔ 34 نادرے (زمین متاثر ہوئی)۔ 35 مریڑ، 36 گھڑی (زمین متاثر ہوئی)۔ 37 نیو کلے (زمین متاثر ہوئی)۔ 38 پلوسہ, 39 کرنا (جزوی آبادی متاثر ہوئی).
(رائیٹ بنک کالا ڈھاکہ کا اختتام ہوا اور ضلع شانگلا سوات کا متاثرہ علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے)۔ 40 ڈب کلے دیدل، 41 والی سوات قلعہ دیدل، 42 دیدل, 43 کماچ، 44 بھڑ کماچ، 45 بانڈہ کماچ، 46 بیاڑ کماچ, 47 کابل گرام شانگلہ(زمین متاثر ہوئی)۔ دریا سندھ رائیٹ بنک آباد متاثرہ بستیوں اور جھیل کا اختتام ہوا۔
آئیے، اب دوبارہ تربیلہ ڈیم سے دریا سندھ کے لیفٹ بنک سے بطرف شمال دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں:
48 سوبڑا، 49 بھرواسہ (جزوی)، 50 گڑھی میرا (جزوی) ، 51 ککڑ چوآ (جزوی)، 52 ڈل، 53 موہٹ، 54 تُرپکھی، 55 جھاڑ پھر تربیلہ جو کہ ایک ٹاؤن تھا جس میں: (56 جٹو، 57 گوجرہ، 58 لقمانیہ، 59 گِدر بانڈی، 60 ٹاہلی) شامل تھے.61. بانڈہ ملاح ڈھیری، 62 ڈھیری، 63 موزاء بنگ، 64 بنگ، 65 خانپور، 66 توی، 67 باندہ ملاح زریں، 68 باندہ ملاح بالا (انھیں بانڈہ بسنت بھی کہا جاتا ہے)، 69 نواں گراں، 70 کھرکوٹ، 71. انورہ، 72. لالوگلی، 73 پلابنڑیں، 74 دیرہ، 75 کرپلیاں، 76 میرا خیرو، 77 میرا سیداں.
(لیفٹ بنک, سابقہ امب سٹیٹ کا علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے) 78 ابی بینڑں، 79 دکانی زریں، 80 دربند، 81 فرید آباد، 82 گمٹی، 83 ہوتر، 84 میرا اور 85 تیربٹ. 86 چھپر اور 87 بروٹی جزوی متاثر ہوئے.
(اب لیفٹ بنک پر علاقہ کالاڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جا رہا ہے). 88 میاں بیلہ، 89 ڈبرئی، 90 کنڈر، 91 طوارہ، 92 کوٹکے، 93 کنہار شریف, 94 غازی کوٹ، 95 ڈاڈم (زمین متاثر ہوئی)، 96 بکرئی(زمین متاثر ہوئی)۔ 97 مچھرا (زمین متاثر ہوئی)، 98 بیمبل (زمین متاثر ہوئی) 99 بلیانی زریں، 100 بلیانی بالا، 101 سورمل (زمین متاثر ہوئی) 102 کوٹلئی، (زمین متاثر ہوئی)۔ 103 جدباء،(زمین متاثر ہوئی)۔ 104 شگئی (زمین متاثر ہوئی)۔ یہاں تربیلہ جھیل کی آخری حد ہے.
(تربیلہ ڈیم سے شگئی کالا ڈھاکہ جھیل کی لمبائی 97 کلومیٹر ہے اور شگئی سے تھاکوٹ بٹگرام 30 کلومیٹر ہے).
دریائے سندھ کے بعد اب معاون دریا، دریائے سرن جو تربیلہ گاؤں میں دریائے سندھ میں مشرق سے مغرب بہتا ہوا، دریائے سندھ جو شمالاً جنوباً بہتا تھا میں شامل ہوتا تھا اور سنگم (T کی شکل) بناتا تھا اور اس مقام کو سِر مُنہ کہا جاتا تھا یہ جگہ تربیلہ اور کھبل کے درمیان کشتیوں کا مرکزی گَدر تھا. اب معاون دریا، دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مشرق کو چلتے ہیں. رائیٹ بنک پر ڈھیری کی بستی واقع تھی جو پہلے شمار ہو چکی ہے، 105 ترناوا، 106 میرا، 107 کنڈ، 108 مورتی، 109 ڈب، 110 سانجی کسی، 111 کندریالہ، 112 جھنگ، 113 گھوڑا، 114 نوازگاہ، 115 لنگر، 116 مرادپور اور 117 سیدپور (جم)
اور، اب واپس دریا سرن کے لیفٹ بنک سے دوبارہ چلیں گے، تربیلہ (جٹو، گوجرہ، لقمانیہ، گِدربانڈی اور ٹاہلی کا شمار پہلے دریاۂے سندھ کے ساتھ بھی ہو چکا ہے لہزا ان کو دوبارہ نمبر شمار نہیں دیا گیا)، 118 تندولہ، 119 گرہان (جزوی متاثرہ) 120 ہروڑہ، 121 تھپلہ، 122 نڈی بستی، 123 کوٹ، 124 بانڈہ ککڑچوآ، 125 کرہیڑیاں، 126 اچہ بیلہ، 127 پنڈ خانخیل، 128 چریاں، 129 کچھی، 130 سوہا اور 131بیڑی اور 132 بیڑ (جزوی متاثرہ). یہ ہوا دریائے سرن کا علاقہ۔
اب چلتے ہیں دریائے دوڑ کے علاقہ کی متاثرہ بستیوں کی طرف.
دریائے دوڑ جو تھپلہ پل کے پاس دریائے سرن میں شامل ہو کر سنگم (Y کی شکل) بناتا تھا. اس کے رائیٹ بنک کی متاثرہ بستیاں: 133 پکا پنیالہ، 134 پہارُو، 135 پھولدہار، 136 درگڑی، 137 جوڑاپنڈ، 138 دروازہ (جزوی متاثرہ گاؤں بچ گیا زمین زیر آب آئی)، 139 کاگ (جزوی متاثرہ زمین اور گاؤں متاثر ہوا کچھ اراضی بچ گئی جس پر دوبارہ آبادی کی گئی)، 140 جبہ، 141 بصیرہ، 142 جامعہ اُتمان (جزوی متاثر گاؤں اور کچھ زمین جھیل سے باہر بچ گئی) اور اب دریائے دوڑ کے لیفٹ بنک چلتے ہیں. 143 داڑی، 144 ناڑہ (ناڑہ کی اراضی متاثر ہوئی جبکہ گاؤں بچ گیا) 145 بِڑیاں، 146 ممائیہ، 147 باہدو، 148 ڈانڑاں، 149 کھیوہ، 150 جاگل (اس گاؤں کی داخلیاں دھمکار کالونی، بھورا بانڈہ اور بسومیرا غیر متاثرہ رقبے ہیں) 151 کھلابٹ، 152 کانڈل، 153 پڈھانہ (پڈہانہ کچھ رقبہ پانی سے باہر بچ گیا تھا جہاں یہ گاؤں دوبارہ آباد ہوا) 154 ڈھینڈہ، 155 پنیاں اور 156 بھیرہ کا جزوی رقبہ متاثر ہوا جبکہ گاؤں محفوظ ہیں.
اس کے علاوہ کھلابٹ ٹاؤن شپ متاثرین کی آباد کاری سکیم کے تحت 157 قاضیاں، 158 چک سکندرپور، 159 ملکیار، 160 چھوہر شریف اور 161 کالس کا رقبہ متاثر ہوا.
کانگرہ کالونی کے لیے 162 کانگرہ گاؤں کا رقبہ متاثر ہوا.
غازی ہملٹ کے لیے 163 پپلیالہ اور 164 گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا. 165 موضع غازی کا رقبہ تربیلہ ڈیم کی تربیلہ ریسٹلمنٹ آرگنائزیشن کے دفاتر کے لیے حاصل کیا گیا جہاں کلکٹرز حصول اراضی کے دفاٹر بنائے گئے. آج کل ان میں تحصیل غازی کے دفاتر اور عدالتیں وغیرہ ہیں اور مختلف محکمے موجود ہیں۔
گلہ ہملٹ کے لیے 166 گلہ (ٹوپی) کا رقبہ متاثر ہوا. اور، نیو دربند ٹاون کے لیے 167 چوئیاں گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا نیز 168 گندف اور 169 بیسگ (گدون) کا جزوی رقبہ بسلسلہ تعمیر تربیلہ ڈیم اور حصول میٹیریل متاثر ہوا تھا۔
زہے نصیب، تربیلہ جھیل کی 90 فیصد بستیاں جو جھیل کی نذر ہوئیں وہ بستیاں وادیوں، زرخیز زمینوں اور باغات پر مشتمل تھیں۔زمینیں اور آبادیاں ڈوب گیئں مگر ان آبادیوں کی ملکیتی قیمتی پہاڑ، وسائل اور معدنیات بلا معاوضہ ویسے ہی جھیل کے کنارے بے کار اور بے یار و مدد گار پڑے رہ گئے ہیں۔
آبادیاں اور زمینیں جھیل کی نذر ہو گئیں اور ہزاروں ایکڑ انتہائی قیمتی ملکیتی پہاڑ خواہ مخواہ ناقابل استعمال اور غرق ہو گئے۔
آرٹیکل کا اختتام اختر انصاری کے اشعار پر کیا جاتا ہے:یہ آذر بائیجان نہیں نہ ہی کوئی دور پار کا کوئی سیاحتی مقام ہے۔ یہ خوبصورت جگہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں واقع ہے اور آپ ہری پور سٹی سے صرف اور صرف آدھے گھنٹے میں یہاں با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ تربیلا کا جو نظارہ آپ کو یہاں سے ملتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور سے ملتا ہوں۔
پانی کے ساتھ ہی ایک گھنا جنگل ہے جو یہاں کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے اس کے ساتھ ہی یہاں آپ کو سینکڑوں قسم کے پرندے آس پاس اڑتے ہوئے اور شور کرتے ہوئے سنائی دینگے۔ پانی کے بیچ میں ایک چھوٹے اور خوبصورت جزیرے کا نظارہ بھی آپ کو مسحور کردے گا۔
ہری پور مین بازار سے آپ نے پنیاں چوک پہ آنا ہوگا وہاں سے غازی والی سڑک پر تقریباً چار کلو میٹر چل کر آگے ریاض مسجد آئے گی۔ اس مسجد کے بالکل سامنے ایک سڑک نکہ گاؤں کو جاتی ہے۔ اسی سڑک پر تقریباً 15 منٹ کے بعد آپ کو پانی بالکل سامنے نظر آئے گا۔ وہاں سے آپ کسی سے بھی راہنمائی لے سکتے ہیں اور آپ ہری پور کی سب سے خوبصورت مقام پر پہنچ جائیں گے۔
تحریر :پہاڑوں کا سفر

1733919849666.jpeg
1733919855854.jpeg
1733919862825.jpeg
 
.
The documentary on "The Killer Fairies of Nanga Parbat" delves into the eerie legends and chilling tales surrounding one of the world’s most perilous peaks, Nanga Parbat. Known as the "Killer Mountain," Nanga Parbat has a notorious reputation due to the numerous climbers who have lost their lives attempting to reach its summit. This documentary explores the blend of folklore and mystery that envelops this majestic mountain.

Key Themes Explored in the Documentary​

  1. Folklore and Legends: The documentary highlights local legends about supernatural beings, often referred to as "Killer Fairies," said to guard the icy slopes of Nanga Parbat. These tales have been passed down through generations, adding a layer of mystique to the mountain's already treacherous reputation.
  2. Mountaineering Tragedies: Nanga Parbat's history is marked by tragedies, with over 31 climbers reported to have died while attempting its ascent before it was first summited in 1953 by Hermann Buhl. The documentary recounts some of these tragic stories, illustrating the dangers faced by mountaineers in this unforgiving environment.
  3. The Mountain's Perilous Nature: The film examines the physical challenges posed by Nanga Parbat, including extreme weather conditions, avalanches, and difficult climbing routes. It raises questions about whether the mountain's deadly reputation is solely due to its natural hazards or if there are indeed supernatural elements at play.
  4. Cultural Impact: The documentary also touches on how these legends affect local culture and tourism. The enchanting yet dangerous allure of Nanga Parbat attracts adventurers and tourists alike, who are drawn not only by its beauty but also by the stories that surround it.
  5. Visual Storytelling: Through stunning cinematography, viewers are taken on a visual journey that captures both the breathtaking landscapes of Nanga Parbat and the haunting tales that echo through its valleys and peaks.

Conclusion​

"The Killer Fairies of Nanga Parbat" offers a thrilling exploration of the myths, mountaineering tragedies, and cultural significance surrounding this Himalayan enigma. By intertwining folklore with real-life accounts of climbers, the documentary invites viewers to ponder the mysteries that lie within one of nature's most formidable creations. Whether seen as a challenge for mountaineers or a realm of supernatural beings, Nanga Parbat continues to captivate imaginations and inspire awe.

 
.
شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
ہم چار دوستوں نے کچھ دن قبل خنجراب پاس سے حسن ابدال تک اس شاہراہ کے پاکستانی 810 کلومیٹر والے حصے پر سفر کا شرف حاصل کیا جو کہ ہماری زندگی کا بہترین سفر تھا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔
بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

1734000239717.jpeg
 
.
پہلی تصویر Window XP کی آفیشل تصویر ہے جو امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے خوبصورت مقام سونوما کی ہے اس پہاڑی کو Bliss hill یعنی رحمت والی پہاڑی کہا جاتا ہے اہم بات یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے انٹرنیٹ کی ابتدا بھی امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہوئی تھی
دوسری تصویر خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے سیاحتی مقام موڑو چراگاہ کی ہے۔ جو خوبصورتی میں کسی بھی طرح کیلفورنیا کی پہاڑی سے کم نہیں۔
یہاں جو سب سے واضح فرق ہے وہ سیاحت کے فروغ کا ہے ورنہ خوبصورتی بانٹنے میں رب کائنات کی تقسیم یکساں ہے۔
ہماری یہ پوسٹ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں سیاحت کے فروغ کی کوشش کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔

1734072711285.jpeg
1734072727200.jpeg
 
.
NHA announced 4 companies qualified for Feasibility study of 235 Km 4 lanes Naran Chillas Expressway.
Mansehra Naran Jalkhad Chilas Expressway which will reduced 7 hours travelling time into 2 hours only. It will be a great change in Tourism for Northern areas and Pak China Border trade.
1) M/s Zeeruk International (Pvt.) Ltd
2) M/s Associated Consulting Engineers.
3) M/s NESPAK (Pvt.) Ltd. in JV
4) M/s Prime Engineering JV

1734091284920.jpeg
 
.
دیوسائی میں ایک دن۔۔۔۔۔پہاڑوں کے عالمی دن پر ہمارا سفرنامہ
کہتے ہیں کہ دیوسائی پر کسی دیو کی حکومت ہے۔ اس کی مرضی ہے وہ اپنی راجدھانی میں کسی کو اذن باریابی دے یا نہیں۔ اسی لیے وہاں بے موسم برساتیں اور برف باری عام ہے تاکہ آنے والوں کا راستہ کھوٹا ہوتا رہے اور ہر کس و ناکس وہاں منہ اٹھا کر گھومتا نہ پھرے۔
تصور کیجیے! آپ ایک روشن اور چمکیلی صبح میں اسکردو کے کسی ہوٹل کے کمرے میں سامان باندھ رہے ہوں۔ تصور میں دیوسائی کے برفیلے پہاڑ اور خوش رنگ پھولوں بھرے میدان آپ کے لبوں پر مسکان بکھیر رہے ہوں۔ منزل بس دو گھنٹوں کی مار ہو کہ اچانک کمرے پر دستک ہوتی ہے اور اطلاع ملتی ہے کہ دیوسائی پر شدید برف باری شروع ہوچکی ہے، راستے بند ہوگئے ہیں اور جانا مشکل ہے۔ راستے کب کھلیں گے کچھ نہیں پتا! اور پھر آپ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
لیکن ہم اپنے سفر کے آغاز سے ہی خوش نصیب ٹھہرے۔ پہلی خوش نصیبی، اسلام آباد سے اسکردو کی فلائٹ اپنے وقت پر روانہ ہوئی۔ دوسری خوش نصیبی یہ ٹھہری کہ موسم اتنا صاف تھا کہ دست قدرت کے تراشے ہوئے ان مظاہر کو جی بھر کر دیکھنے کا موقع ملا جنہیں دیکھنے کی تمنا میں نہ جانے کتنے لوگ نگری نگری خاک چھانتے ان وادیوں میں پہنچتے ہیں اور جانے کتنی آنکھیں انہیں دیکھنے کی حسرت میں ان برفیلے قبرستانوں میں ابدی نیند سوجاتی ہیں۔ ان بلند و بالا پہاڑوں کے قدموں میں ان کے کتنے چاہنے والے دفن ہیں، ان کی تعداد کوئی نہیں جانتا۔ جہاز بالکل ان پہاڑوں پر معلق تھا اور اوپر سے ان پہاڑوں کی ایک ایک تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی فنکار ہاتھ نے ہر شے ناپ تول کر چاک سے اتاری ہے۔ ہم جیسے عمر کے پیاسوں کے سامنے شمال کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔ عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا... جھوم کر ہم جہاں بیٹھے وہیں مے خانہ بنا۔
عجیب اتاؤلی سی کیفیت تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس مے خانہ شمال کے جام سے کون سا گھونٹ پینا ہے اور کتنا پینا ہے۔ کس منظر کو نظر میں رکھنا ہے اور کسے دل میں اتارنا ہے۔ جیسے کائنات کی خوبصورت کتاب کا ایک انوکھا صفحہ کسی نے کھول کر سامنے رکھ دیا کہ لو دیکھو، جی بھر کے دیکھو۔ نیچے قراقرم کے برف پوش پہاڑوں میں، کاغان کی وادی میں سبز نگینے کی طرح جڑی جھیل سیف الملوک بھی صاف دکھائی دے رہی تھی، تو برفیلا معبد راکاپوشی بھی لشکارے مار رہا تھا۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت دھڑکنوں کو بے قابو کررہا تھا تو دوسری جانب دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا تاج سر پر سجائے قراقرم سلسلہ ہائے کوہ سانس روک رہا تھا۔ نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ ان پہاڑوں کی بناوٹ بے عیب اور مکمل تھی۔ خوش نصیبی سی خوش نصیبی۔ پہاڑوں کے عاشق اس دل مضطر کو اور کیا چاہیے تھا۔ دیکھا اور دل بھر کر دیکھا اور کیمرے میں بھی یہ انوکھا نظارہ قید کیا۔
اگرچہ یہ اعتراف بھی کرنے دیں کہ ہم نے غاصبانہ طور پر طیارے کی کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کیا تھا۔ 2015 میں جب اسکردو گئے تھے تو موسم نے چکمہ دے دیا تھا۔ موسم کی خرابی کے باعث تین دن سے جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی۔ موسم ہنوز خراب تھا اور قطار میں تین جہازوں کے مسافر منتظر تھے، دور دور تک ہمارا کوئی چانس نہیں تھا، سو زمینی راستہ اختیار کیا تھا۔ اس بار موسم بے حد صاف تھا، لہٰذا جیسے ہی یہ خوش خبری ملی کہ جہاز وقت پر اڑے گا تو خوشی کے مارے کھڑکی والی سیٹ لینا بھول گئے۔ لیکن جیسے جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، ایسے ہی شمال کے سفر میں کھڑکی کی سیٹ پر بیٹھنا اپنا حق سمجھا اور بیٹھ گئے۔ بیٹی سیدہ ماہ پارہ نے برابر میں بیٹھنے پر اکتفا کیا۔ کھڑکی والی سیٹ کی ہرگز ضد نہیں کی۔ حالانکہ وہ تو کار میں بھی کنارے پر بیٹھنے کےلیے بہن اور بھائی سے لڑتی ہے۔ لیکن یہاں اسے معلوم تھا کہ اماں ہرگز کوئی مروت نہیں کریں گی۔ واپسی پر اس نے شکوہ کیا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ اور آپ کا کیمرا سارا وقت کھڑکی کے سامنے رہا۔ جن صاحب کی وہ سیٹ تھی، انہوں نے دو خواتین کو دیکھ کر صبر کا گھونٹ بھرا اور کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے بیٹھ گئے ( کبھی کبھی وومن کارڈ بغیر کھیلے بھی کام کر جاتا ہے) بس انہوں نے اتنا کیا کہ اپنا موبائل ہمیں پکڑا دیا کہ کچھ تصاویر بنادیں، سو ہم نے بنادیں۔
ہمارا جذبہ صادق تھا۔ دیو صاحب کو ہمارے دیوسائی آنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، سو وقت مقررہ پر ہماری پراڈو منزل کی جانب چلی۔ ہم اسکردو شہر سے ایک بار پھر سدپارہ جھیل کی جانب چلے۔ اس جھیل کو ہم تیسری بار دیکھ رہے تھے۔ کسی بھی جھیل کو آپ جب بھی دیکھیں گے تو اس میں کچھ نیا ضرور پائیں گے۔ اور یہ تو سد پارہ تھی۔ قراقرم کا نگینہ۔ پہاڑوں کے بیچ یہ جھیل ایسے ہی ہے جیسے انگوٹھی میں جڑا کوئی سچا نگینہ۔ آپ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے پانی کا رنگ کیسا ہے۔ پہلے دن جب اس جھیل کو دیکھا تو اس جھیل کے پانی نے بلامبالغہ ہمارے سامنے ایک دن میں کئی رنگ بدلے تھے۔ صبح سبز زمرد، سہ پہر میں چمکیلا سنہری اور شام ڈھلے نیلگوں نیلم۔ عجب فسوں خیز منظر تھا۔ کائنات کی انوکھی تصویر، ایک فریم میں اتنے رنگ۔ دور ہمالیہ کے پہاڑوں پر شام ڈھل چکی تھی اور وہ سرمئی دھند میں بھرگئے تھے، جبکہ دوسری طرف قراقرم پہاڑوں پر ابھی دھوپ ڈھل رہی تھی اور یہ ڈھلتی دھوپ وادی کو سونا کررہی تھی اور ان کے درمیان پیالہ نما جھیل ایک بڑے نیلم کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ سچا نیلم جس کی یہ حسین تراش خراش دست قدرت ہی کو روا تھی۔
سدپارہ گائوں کے مقامی بزرگ یہ بھی بیان کرتے ہیں جھیل کے نیچے ایک سونے کی کان موجود ہے۔ اس لیے دن میں اس کا پانی سنہری اور چمکیلا ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ اس جھیل کے اندر ایک جزیرہ ہے جس میں وہ خفیہ راستہ موجود ہے جو سونے کی کان تک پہنچتا ہے۔ اب جب کہ یہاں سدپارہ ڈیم بن چکا ہے اور انسانی مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامی لوگ اب خود ان کہانیوں پر یقین نہیں کرتے، البتہ کچھ بزرگ اس پر اب بھی مصر ہیں۔
سدپارہ جھیل سے اوپر کی طرف ایک راستہ اٹھتا ہے اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کو آپ کے خوابوں کی جنت یعنی دنیا کے سب سے اونچے میدان دیوسائی تک پہنچا دیتا ہے۔ اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ 2015 میں ہم مئی کے اوائل میں آئے تھے، تب یہ راستہ بند تھا۔ برف نہیں پگھلی تھی۔ دل مسوس کر رہ گئے تھے۔ بڑی حسرت سے اس راستے کو دیکھا تھا جو دیوسائی جارہا تھا۔ لیکن اس بار یہ راستہ کسی کشادہ دل کی مانند کھلا تھا۔ سفر کا آغاز ہوا۔ گاڑی خطرناک اور موڑ در موڑ پرپیچ راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ راستے کی خطرناکی دل دہلا رہی تھی۔ نیچے گہرائی میں دیکھتے تو دل گویا بند سا ہوجاتا، مگر مناظر ایسے تھے کہ دیکھے بنا چارہ بھی نہ تھا۔
نیچے بہت نیچے، جگہ جگہ گلیشیئرز سے پگھل کر آنے والے پانی نالوں کی شکل میں بہہ رہے تھے۔ چاندی کے مانند چمک رہے تھے۔ کہیں پہاڑوں میں سے آبشار گر رہے تھے، جن کا شفاف پانی ہلکی دھوپ میں چمک رہا تھا۔ کہیں دودھیا پانی کے چشمے ابل رہے تھے۔
لفظ ''نالے'' کی بھی عجب کہانی ہے۔ ہم جب پچھلی بار سیرینا ہوٹل شگر میں ٹھہرے تھے تو ہوٹل کے قریب ایک صاف شفاف شور مچاتے پانی کی ندی بہہ رہی تھی، جسے سب لوگ شگر نالہ کہہ رہے تھے۔ اور یہ ''نالہ'' لفظ ہمارے گلے سے نہیں اتر رہا تھا۔ کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں کہ ''نالہ'' کیا ہوتا ہے۔ سیاہ بدبو دار سیوریج کے پانی کے چینل کو ہم نالہ کہتے ہیں اور کہاں یہ پہاڑی علاقوں کے ''نالے'' اللہ اکبر۔ دودھیا، جھاگ اڑاتے، اتنے شفاف کہ تہہ میں پڑے پتھر اور ان کے رنگ دیکھ لیجیے۔ بہت سے نالوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ ایک دو دن تو اس لفظ ''نالہ'' پر احتجاج کرتے رہے، پھر بالآخر روم میں رومی بن گئے اور خود بھی نالہ کہنے لگے۔ دیو سائی کے راستے میں بہت سے نالے نظر آتے رہے۔
سدپارہ گاؤں سے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے سدپارہ چیک پوسٹ سے گزرے جہاں اپنا نام اور شناختی کارڈ کا اندراج کروایا۔ شتونگ نالے کے پاس پہلی باقاعدہ چیک پوسٹ تھی۔ انتہائی سرد بلکہ برفیلے ماحول میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے اسٹاف خصوصاً رشید عباس گیم وارڈن نے بڑے خلوص سے ہمارا خیر مقدم کیا اور گرماگرم چائے بھی پلائی، جو اس ٹھٹھرتی فضا میں بہت راحت بخش محسوس ہوئی۔ یہیں ہم نے حقیقی زندگی میں پہلی بار ''اِگلو'' بھی دیکھا۔ سردی سے محفوظ رکھنے والا یہ خیمہ اس جگہ کی حقیقی ضرورت ہے۔
یہ ستمبر کا آخری ہفتہ تھا۔ پہاڑوں میں خزاں چھا رہی تھی۔ اور یہ وہ خزاں تھی جس کےلیے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی مصنف، ناول نگار اور فلاسفر البرٹ کیمس نے کہا تھا کہ خزاں دراصل دوسری بہار ہوتی ہے، جب ہر پتا پھول بن جاتا ہے۔ '' Autumn is a second spring when every leaf is a flower ''۔
یہ بات صد فیصد سچ تھی۔ دیوسائی کے راستے میں پہاڑوں پر موجود درخت، پودے، جھاڑ جھنکاڑ سب خزاں کی زد میں تھے، لیکن خزاں کے یہ وہ رنگ تھے جس پر ہزاروں بہاریں قربان۔ درخت اور پودوں نے اپنے سبز پتے چھوڑ کر انوکھے لبادے پہن لیے تھے۔ زرد، نارنجی، قرمزی، بنفشی، عنابی، مونگیا، بادامی، پیازی، سلیٹی، سرخ، گلابی، زعفرانی، غرض کون سا رنگ تھا جو یہاں نہیں تھا۔ کہیں تو ایسا نارنجی رنگ تھا کہ دور سے لگتا کہ آگ لگی ہوئی ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلوانیں ان رنگین جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں، لیکن اس کے باوجود بے شمار پہاڑ درختوں سے محروم تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان پہاڑوں میں بے دریغ جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے اور بلا روک ٹوک ان سیکڑوں سال پرانے درختوں پر کلہاڑا چلادیا گیا ہے۔ یہ وہ جنگلات تھے جن کی آبیاری خود فطرت نے کی تھی اور یہ اس ماحولیاتی نظام کےلیے جزو لازم تھے۔ جانے کتنے پرندوں اور دیگر جانداروں کے گھر کلہاڑی کے ایک وار نے ختم کردیے۔
تم پرندے کا دکھ نہیں سمجھے
پیڑ پر گھونسلا نہیں گھر تھا
یہ درخت اس حساس ماحولیاتی نظام میں پہاڑوں کی مٹی کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ جب درخت نہیں رہتے تو یہ مٹی اور پتھر آزاد ہوجاتے ہیں اور بارشوں میں سیلاب کی سنگینی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قراقرم کے پہاڑوں میں کیچڑ کے سیلاب جیسی آفات بہت بڑھ گئی ہیں۔ بارشوں کے دوران بجلی کسی پہاڑی ندی نالے پر گرتی ہے۔ یہ نالہ پھٹ جاتا ہے۔ اس پانی کے ساتھ مٹی اور پتھر بھی شامل ہوجاتے ہیں، جو کیچڑ کے سیلاب (Debbri Flow) کی صورت راستے میں آنے والے ہر گاؤں کو غرق کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کیچڑ میں غرق ایک گاؤں کوتھم پائن ہم نے شگر کے قریب دیکھا تھا۔
دوسری چیک پوسٹ کے ساتھ ہی سمجھیے کہ دیوسائی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کے دل دہلا دینے والے سفر کے بعد قدرت انعام کے طور پر آپ کو جو منظر عطا کرتی ہے وہ بلاشبہ سانسیں روکنے والا تھا۔ اتنی بلندی پر اتنا وسیع میدان تقریباً 3000 مربع کلومیٹر میدان۔ دنیا کی دوسری بڑی سطح مرتفع، دنیا کی چھت۔ چاروں طرف کھلا میدان، خزاں میں دیوسائی پر پھول تو نہیں تھے لیکن گھاس نے جادوئی بھورے، بادامی، کہیں کہیں نارنجی اور زرد رنگ اوڑھ لیے تھے۔ کہیں گھاس بلند تھی اور ہوا سے سرسرا رہی تھی۔ شدید ٹھنڈ نے ہمیں کپکپانے پر مجبور کردیا۔ ہمارے مقامی ساتھی عباس نے بتایا کہ جب وہ چند سال پہلے یہاں آتے تھے تو یہ گھاس قد آدم جتنی بلند ہوتی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے شاید اس گھاس کی بڑھوتری پر بھی اثر ڈالا ہے۔ راستے میں بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ بھی نظر آئے۔ یہ چرواہے اب موسم سرما کے آغاز پر اپنے جانور واپس لے جارہے تھے۔ پارہ نے ایک بکری کے بچے کو پکڑ کر پیار کیا اور اس کے ساتھ تصویر بنوائی۔
دیوسائی کے رنگین کھلے میدان، اس میں بہتے شفاف دودھیا پانی کے نالے، کہیں کہیں ان پانیوں میں اچھلتی کودتی مچھلیاں، سنہری ٹراؤٹ، گھروں کو لوٹتے چرواہے، ان کے جانور، چمکیلے نیلے آسمان پر اٹکھیلیاں کرتے اور مختلف شکلیں بناتے بادل، دور نانگا پربت کی برفیلی بلندیاں، اس کے گرد گھومتا سفید غبار۔ ایک مکمل تصویر، ایسی تصویر جس کے رنگ اَن چھوئے ہوں اور مصور نے گویا ابھی تصویر سے ہمارے لیے پردہ ہٹایا ہو۔ یہ مقام کسی دیو سے زیادہ پریوں کا لگتا تھا۔ دور پہاڑوں میں برفیلی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ عباس نے بتایا کہ وہاں برف باری شروع ہوچکی ہے۔
دیوسائی کو 1993 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ بلتستان میں بولی جانے والی زبان شینا میں لفظ دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے، جبکہ بلتی زبان میں اس کا مطلب پھولوں کی سرزمین ہے۔ دیوسائی پر دونوں معنی درست بیٹھتے ہیں۔ دیوسائی کو دنیا کے نایاب ترین جان دار بھورے ریچھ کا مسکن ہونے کے باعث نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا، تاکہ اس نایاب جان دار کی نسل پروان چڑھ سکے۔ 1993 میں جب دیوسائی کو نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تب ان بھورے ریچھوں کی تعداد 16 تھی جو بڑھ کر اب 76 ہوچکی ہے۔ اس کامیابی پر محکمہ وائلڈ لائف اور مقامی آبادی دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ بھورے ریچھ کی اوسط عمر 30 سال ہوتی ہے۔
نیشنل پارک ہونے کے ناتے اس علاقے میں شکار پر مکمل پابندی ہے۔ یہاں پر بھورے ریچھ کے علاوہ ہمالیان آئی بیکس، اڑیال، برفانی چیتے کے علاوہ مارموٹ، لال لومڑی، تبتی بھیڑیے کے علاوہ سنہری اور داڑھی والے عقاب بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سو اقسام کے پودے پائے جاتے ہیں، جن میں سو سے زائد طبی اہمیت کے حامل پودے ہیں۔
ابھی ہم دوسری چیک پوسٹ کے قریب تھے کہ دور پتھر پر ایک گول مٹول سی شے نظر آئی۔ عباس نے بتایا کہ وہ مارموٹ ہے۔ یہ گولو مولو سا مارموٹ بہت انسان دوست تھا۔ اسے قریب سے دیکھنے کےلیے ہم اس کے بہت پاس چلے گئے لیکن وہ ڈرا نہیں۔ یہ انسانوں کی طرح دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ انسانوں ہی کی طرح سیٹی بھی بجاتا ہے۔ البتہ اس وقت اس کا موڈ نہیں تھا تو اس نے ہمیں دیکھ کر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دوسری چیک پوسٹ رفیق راجپوت کے نام سے منسوب ہے۔ یہ محکمہ جنگلی حیات کے ایک نیک نام اور فرض شناس افسر تھے۔ دیوسائی کے بھورے ریچھوں اور دیگر جنگلی حیات پر ملک گیر تحقیق کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ وائے افسوس کہ صرف 40 سال کی عمر میں ان کا سفر حیات ختم ہوگیا۔ ان کی موت سانپ کاٹنے سے ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ وہ سانپوں کے حوالے سے بھی ماہرین میں شامل تھے۔ لیکن اس بار ان سے پہچاننے میں غلطی ہوئی اور جس سانپ کو وہ بے ضرر سمجھ بیٹھے وہ انتہائی زہریلا نکلا۔ یہی زہر ان کی موت کا باعث بنا۔ دیوسائی پر ایک چیک پوسٹ ان کے نام سے منسوب ہے۔
اسی چیک پوسٹ پر ہماری اسکردو کے بہترین فوٹوگرافر اور وائلڈ لائف دیوسائی نیشنل پارک کے آر ایف او عباس مہدی سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں، بلاشبہ وہ ایک مشاق وائلڈ لائف فوٹوگرافر ہیں۔ ہم اس چوکی پر زیادہ نہیں بیٹھ سکے۔ سردی اتنی تھی کہ سانس رک رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ آج تو نمونیہ ہوکر رہے گا، جلداز جلد کسی ٹینٹ میں پہنچنا چاہتے تھے۔
بڑا پانی کے پاس اپنے خیموں کے پاس پہنچے تو حیران رہ گئے۔ اتنا رش۔ خیموں کا پورا ایک شہر آباد تھا۔ سیکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ظاہر ہے ہزاروں کی تعداد میں سیاح ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
مختلف لوگوں سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے یہاں ہماری ملاقات ایک غیر ملکی جوڑے سے بھی ہوئی۔ سوئس ڈاکٹر کیرولینا، ان کے جرمن شوہر اور دو پیارے سے جڑواں بچے، بیٹی اور بیٹا۔ یہ خاندان جرمنی سے اپنی گاڑی میں پاکستان پہنچا تھا۔ یہ خاندان مارچ میں جرمنی سے نکلا تھا، پھر پورا یورپ، وسط ایشیائی ریاستیں، چین اور اب گلگت بلتستان گھوم رہا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ایک ٹرک نما گاڑی کو اپنے گھر میں تبدیل کرلیا تھا۔ یہ اسی میں سفر کرتے، جہاں رات ہوتی، کہیں گاڑی کھڑی کرکے سو جاتے۔ ہم نے گاڑی اندر سے دیکھی، بیڈروم، سٹنگ ایریا، کچن واش روم سبھی کچھ تھا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ کیرولینا سیاحت کی دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریسرچر اور بلاگر بھی ہیں۔ کافی لمبی بات چیت رہی، انہوں نے کئی ممالک کے لوگوں اور رویوں پر تبصرہ کیا، پھر انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان اب صحیح ٹریک پر آچکا ہے اور لکھ لو آج سے 5 سال بعد پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ہوگی۔ انہوں نے پاکستانی ثقافت خصوصاً خواتین کے لباس شلوار قمیص اور دوپٹے کی تعریف کی۔ وہ خود بھی اسی لباس میں تھیں۔ دوپٹہ بھی لیا ہوا تھا۔ ہم نے انہیں پاکستان کا گڈ وِل ایمبیسڈر قرار دیا۔ ان کی بہادری کی تعریف بھی کی وہ ان خطرناک راستوں پر گاڑی چلارہی ہیں۔
دیوسائی پر ہماری موجودگی میں بارش شروع ہوچکی تھی۔ سردی اپنا وہ رنگ جما رہی تھی جس سے ہم جیسے کراچی والے ناآشنا تھے۔ دوسرے دن صبح نو بجے اسکردو سے اسلام آباد واپسی کی فلائٹ بھی تھی، سو اس سے پہلے کہ موسم خراب ہوتا ہم نے دیوسائی سے رخت سفر باندھ لیا۔ ہمارا دیوسائی کا سفر تمام ہوا لیکن کچھ سوالات ابھی تک جواب کی تلاش میں دیوسائی کی فضاؤں میں بھٹک رہے ہیں۔
کیا کسی نیشنل پارک میں اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا جانا خلاف قانون نہیں؟ کیا اس سے نیشنل پارک کے وسائل خصوصاً جانور ڈسٹرب نہیں ہوں گے؟
سیکڑوں (شاید ہزاروں) گاڑیوں کا نیشنل پارک میں داخلہ، گاڑیوں سے نکلتا دھواں اور ہارن، فضائی اور شور کی آلودگی کی وجہ نہیں بنیں گے؟
کیا ہزاروں لوگوں کےلیے وہاں پکنے والا کھانا فضائی آلودگی اور جنگلات کٹنے کا باعث نہیں بنے گا؟ فضلہ کہاں جائے گا؟ اتنے شور میں جانور اور پرندے خوف زدہ نہیں ہوں گے؟
یاد رہے کہ نیشل پارکس یا محفوظ علاقہ کسی بھی ملک کی شناخت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ علاقے دراصل وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں فطرت اپنے ارتقائی مدارج قدرتی انداز میں آزادی سے طے کرتی ہے۔ اس عمل میں خلل اندازی کسی بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
تحریر پہاڑوں کا سفر "

1734096357778.jpeg
1734096363812.jpeg
1734096370842.jpeg
1734096388929.jpeg


1734096379358.jpeg
 
.
یہ کھنڈرات قصبہ پنڈ دادنخان، ضلع جہلم میں دسویں صدی کے مشہور سائنسدان "ابو ریحان البیرونی" کی لیبارٹری ہے جس میں انہوں نے ان پہاڑی چوٹیوں کو استعمال کرتے ہوئے زمین کے کل سائز کو درست طریقے سے ناپ لیا۔
حساب کے مطابق یہ 3847.80 ہے، یعنی صرف 81 کلومیٹر کا فاصلہ۔
البیرونی نے ڈھائی سو سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کا تعلق محمود غزنوی کے دربار سے تھا,
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی مسلم دنیا کے ایک فلسفی، مفکر، ماہر طبیعات ،ماہر معدنیات ماہر بشریات اور سائنسدان تھے لیکن آپ کی اصل پہچان ریاضی جیومیٹری اور فلکیات یعنی ایسٹرونومی ہے
1974 میں سوویت یونین نے ابو ریحان محمد بن البیرونی کے بارے میں ایک فلم بنائی جس کا نام ابو ریحان البیرونی تھا۔
البیرونی کا انتقال 1050 میں افغانستان کے شہر غزنی میں ہوا اور وہیں دفن ہیں۔

1734335497475.jpeg
 
.
سفر ”سو بہار جیون“ میں پہلی منزل ہی چُنداہ ویلی تھی۔ کئی دن موسم کی مار سہتے سہتے جب سکردو پہنچا تو اگلے دن ہی چنداہ کی بلندیاں چڑھ گیا۔ وادی میں پہنچ کر علم ہوا کہ ابھی تو بہار کے پھول کھل رہے ہیں۔ جوبن کچھ دن بعد ہو گا۔ لہٰذا چنداہ ویلی کو سرسری سا ایکسپلور کیا اور ایک آدھ ٹائم لیپس بنا کر اس نیت سے سکردو لوٹ گیا کہ کچھ دن بعد دوبارہ آؤں گا۔
اگلے دن خپلو کی طرف چل دیا اور ہفتہ بھر پاکستان کے آخری گاؤں فرانو، گوما اور ہوشے، اور مچلو اور وادی کندوس اور دنیا کا بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن اور سنٹرل قراقرم نیشنل پارک وغیرہ کے ایڈونچر کرتا اور بہاروں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔
ہفتے بعد جب سکردو لوٹا تو اگلے دن پھر چنداہ ویلی پہنچ گیا۔ وادی چنداہ واقعی چندہ لگ رہی تھی۔ بہار کے پھول اپنے عروج پر تھے۔ اپریکاٹ اور چیری بلاسم ”چھم چھم برس“ رہا تھا۔ اور پھر وادی میں برسی بارش۔ بادل چھاتے ہی سفید پھولوں کی چمک ماند پڑ گئی۔ وادی کے ایک قدرے بلند ویو پوائنٹ پر کھڑا بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھ رہا تھا۔ آخر میں کچھ مایوس سا ہو کر واپس لوٹنے لگا تو بارش رُکی، رنگ نکھرے اور دوبارہ فوٹوگرافی کا سازوسامان کھول کر شام کا انتظار کرنے لگا۔
نیچے وادی میں آذانیں گونجیں اور اک ٹھٹھرتی شام اتری۔ گھروں میں روشنیاں جلیں تو چاند بھی روشن ہو گیا۔ بہترین وقت پر خوبصورت کلک کی گھڑی آن پہنچی۔ جہاں میں بیٹھا اس وقت کا انتظار کر رہا تھا، اس سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ہٹ نما ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں سے آواز آئی ”ارے بھائی! شام ہو گئی، سب جا چکے، اب تو ہم بھی ریسٹورنٹ بند کر کے جانے لگے ہیں۔ آپ ادھر پتھروں میں آخر کر کیا رہے ہو؟“
میں:- ایک تصویر بنا رہا ہوں۔
وہ:- کل دن کے وقت پھر آ جانا۔ اس وقت اندھیرے میں تصویر نہیں بنے گی۔
اب اسے کیسے سمجھاتا کہ بے شک میں حس و خاشاک ہوں۔ لیکن طوفانوں سے اپنے حصے کے پھول چنتا ہوں، غموں میں خوشیوں کے راستے ڈھونڈتا اور اندھیروں سے روشنیاں کشید کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس یہی میری کل کہانی ہے۔
خیر مطلوبہ تصویر بنا کر ریسٹورنٹ کی طرف گیا کہ جہاں میرا بمبوکاٹ کھڑا تھا۔ مقامی کے اصرار پر اسے یہ والی تصویر دیکھائی تو وہ بولا کہ ہماری وادی کی دھوم اک زمانے میں ہے۔ اس کی بڑی لاجواب تصویریں بنتے دیکھی ہیں، لیکن ایسی تصویر پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
تحریر : ایم بلال ایم
اگر آپ اس ساری کاروائی کی عملی صورت اور چاند جیسی چمکتی وادی کے خوبصورت نظارے دیکھنا چاہتے ہیں تو ویڈیو چینل پر اپلوڈ ہو چکی ہے۔

1734351024921.jpeg
1734351032425.jpeg
1734351042484.jpeg
1734351055485.jpeg
 
.
K2, standing at 8,611 meters (28,251 feet), is recognized as the second highest mountain on Earth, following Mount Everest, which reaches 8,849 meters (29,032 feet). Located in the Karakoram range, K2 straddles the border between Pakistan and China, specifically in the Gilgit-Baltistan region of Pakistan-administered Kashmir and the Trans-Karakoram Tract in Xinjiang, China.

Key Features of K2​

  1. Nickname: K2 is often referred to as the "Savage Mountain," a term popularized by climber George Bell after a near-fatal expedition in 1953. This nickname reflects the mountain's notorious reputation for being one of the most challenging and dangerous peaks to climb.
  2. Climbing History: The first successful ascent of K2 occurred on July 31, 1954, by an Italian expedition led by Ardito Desio, with climbers Achille Compagnoni and Lino Lacedelli reaching the summit. Since then, K2 has become infamous for its high fatality rate; historically, approximately one person has died for every four who have successfully summited.
  3. Climbing Challenges: K2 is known for its steep and technical climbing routes, making it more difficult than Everest despite its slightly lower elevation. The mountain features harsh weather conditions and significant vertical relief, dropping steeply from its summit in almost all directions.
  4. Recent Climbing Statistics: As of August 2023, around 800 climbers have reached the summit of K2, but the mountain has claimed approximately 96 lives during ascent attempts. The death rate remains one of the highest among the world's 8,000-meter peaks.
  5. Geological Significance: K2 is notable not only for its height but also for its dramatic topography and significant local relief. It rises over 3,200 meters (10,500 feet) from the base to the summit in a relatively short horizontal distance.
  6. Cultural References: The name "K2" originated from the notation used during the Great Trigonometrical Survey of British India in the 19th century, where it was simply designated as the second peak measured in that range.

Conclusion​

K2 stands as a formidable challenge for mountaineers worldwide, embodying both beauty and peril. Its imposing height and treacherous conditions continue to attract climbers seeking to test their limits against one of nature's most daunting obstacles. As interest in high-altitude climbing persists, K2 remains a symbol of adventure and risk in the world of mountaineering.

 
.

Pakistan Defence Latest Posts

Country Latest Posts

Back
Top Bottom