Reichsmarschall
ELITE MEMBER
- Joined
- Feb 16, 2016
- Messages
- 12,109
- Reaction score
- 3
- Country
- Location
نوازشریف کے خلاف سازش کرنے والا ایک گھناؤنا کردار تو بے نقاب ہوگیا۔ آئیں میں آپکواس کے بارے میں تھوڑا سابتاتے ھیں ۔۔۔
60 کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلا گیا اور وہاں جاکر اپنی مزید تعلیم جاری رکھی۔ پھر وہاں سے فنانشل سیکٹر کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد چہرے مبارک پر داڑھی سجائی اور اپنے والد کے کہنے پر اس کے ساتھ سعودی عرب رہنا شروع کردیا۔ وہاں اس نے سعودی عرب میں ایک امریکی بنک میں نوکری شروع کی اور اپنے والد اور اس کے قریبی رشتے داروں کو پرکشش منافع پر انویسٹمنٹ کرنے کا جھانسہ دیا اور ان کی ساری رقم ہتھیا لی۔
اگر رقم صرف والد کی ہوتی تو وہ بے چارہ صبر کرلیتا، لیکن چونکہ آدھے خاندان کا مال لٹ چکا تھا، اس لئے والد نے اپنے بے ایمان بیٹے سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کی جو کہ اس نے پورا کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً اس کے باپ نے 1980 میں سعودی عرب میں اپنے بیٹے پر فراڈ اور جعل سازی کا مقدمہ درج کروا دیا اور اس کے بیٹے کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ چونکہ برطانوی پاسپورٹ کا حامل تھا، اس نے حوالات میں بیٹھ کر برطانوی سفارتخانے سے مدد کی اپیل کی، یہ ممالک پاکستانی ریاست کی طرح اپنے شہریوں کو مرنے کیلئے نہیں چھوڑ دیتے، چنانچہ برطانوی سفارتخانے نے وکیل کا بندوبست کیا اور سعودی پولیس کے زریعے اس کے باپ کو سیٹلمنٹ پر مجبور کیا۔ اس سیٹلمنٹ کے زریعے 50 فیصد تک کی رقم کیش کی صورت میں ادا کرکے وہ جیل سے رہا ہوگیا اور پھر سعودی عرب چھوڑ کر غالباً بحرین چلا گیا۔
اس شخص کا سفر یونہی جاری رہا یہاں تک کے 90 کی دہائی میں اسحاق ڈار نواز شریف کا مالی مشیر بن کر منظرعام پر آگیا۔ اسحاق ڈار، اس کا گورنمنٹ کالج کا کلاس فیلو تھا اور جب اسے پتہ چلا کہ اسحاق ڈار اتنا ” کرشماتی ” ہے تو اس نے اسحاق ڈار سے رابطہ کرکے اپنی خدمات پیش کرنے کی آفر کی جو بصد احترام قبول کرلی گئی۔
90 کی دہائی میں اس شخص کے اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوتے رہے اور 14، 15 کروڑ روپے کی بنک ٹرانزیکشنز کئی مرتبہ اس کے اکاؤنٹ کے زریعے ہوئیں۔ 2000 میں نوازشریف اور اسحاق ڈار جلا وطن ہوکر سعودی عرب چلے گئے اور یہ شخص ان کے ساتھ وہاں جا کر ملا۔ ان تینوں کا گینگ گورنمنٹ کالج کے بعد ایک مرتبہ پھر اکٹھا ہوگیا اور نئے سرے سے کرپشن کے منصوبے بننا شروع ہوئے۔ 2002، 2003، 2005 اور 2007 میں اس شخص کے بنک اکاؤنٹس سے مجموعی طور ڈیڑھ ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں جو کہ براہ راست نوازشریف کی آفشور کمپنیوں کیلئے ہوئی تھیں۔ 2013 میں نوازشریف وزیراعظم بنا تو پہلی دس سرکاری تقرریوں میں اس شخص کی تقرری بھی شامل تھی۔
اس کا نام سعید احمد ہے جسے نوازشریف نے 2013 میں سٹیٹ بنک جیسے حساس اور اہم ترین فنانشل انسٹیٹیوٹ کا ڈپٹی گورنر بنا دیا۔ جی ہاں، وہ شخص جو 1980 میں اپنے سگے باپ سے مالی فراڈ کرکے جیل کی ہوا کھا چکا تھا، اسے 2013 میں نوازشریف نے پوری قوم کے خزانے کی کنجی سونپ دی۔ 2013 سے لے کر 2017 کے اوائل تک سعید احمد سٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر رہا اور شریف فیملی کی مالی کرپشن کو بڑھاوا دیتا رہا۔ پھر اس سال کے اوائل میں نوازشریف نے اسے سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر کے عہدے سے اٹھا کر سیدھا نیشنل بنک کی صدارت سونپ دی۔ یہ وہی نیشنل بنک ہے جو اثاثوں کے اعتبار سے ایشیا کا غالباً 7 واں بڑا بنک ہے۔ یہ وہی نیشنل بنک ہے جس سے پاکستان کے سیاستدان بشمول شریف فیملی پچھلے 50 برسوں میں ساڑھے 6 کھرب کے قرضے لے کر ہڑپ کرگئے اور وہ قرضے آج بھی ‘ پینڈنگ ‘ لسٹ میں موجود ہیں۔
اگر نوازشریف سعید احمد جیسے شخص کو سٹیٹ بنک اور بعد میں نیشنل بنک کی صدارت دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں سعید احمد کی شکل شاہ رخ خان سے ملتی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کی نیت میں ایک جیسا فتور اور حرکتیں ایک جیسی شیطانی ہیں۔ جب اس سعید احمد کو جون کے دوسرے ہفتے میں جے آئی ٹی نے طلب کیا تو اس سے پہلا سوال واجد ضیا نے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ کو کبھی سعودی عرب میں جیل ہوئی؟ اگر ہوئی تو کس جرم میں؟ سعید احمد کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی تھی اور اسے پتہ چل چکا تھا کہ جے آئی ٹی والے اپنا ہوم ورک مکمل کرکے آئے ہیں۔ چارو ناچار اسے اپنے جرم کا اقرار کرنا پڑا۔ اگلا سوال جے آئی ٹی نے یہ پوچھا کہ آپ کے بنک اکاؤنٹس میں جو 15 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز ہوا کرتی تھیں، ان کا سورس کیا تھا اور وہ کس مقصد کیلئے ہوا کرتی تھیں؟
اب کی بار سعید احمد کے سر پر آسمان بھی گر پڑا۔ جواب تو اس کے پاس کوئی نہ تھا، بس یہی کہہ کر جان چھڑائی کہ اس نے اپنی چیک بکس سائن کرکے اپنے دوستوں کو دی ہوتی تھیں، وہ خود ہی اس کے بنک میں پیسے جمع کروا کر نکلوا لیا کرتے تھے۔ سیعد احمد جب جے آئی ٹی کی تفتیش سے فارغ ہو کر باہر آیا تو سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا کہ جے آئی ٹی والوں نے اسے ” ہراساں ” کرنے کی کوشش کی۔ میاں نوازشریف، تم ایک انتہا درجے کے کرپٹ اور ذلیل شخص ہو اور یہی وجہ ہے کہ تم نے اسحاق ڈار اور سعید احمد جیسے سکہ بند چوروں کو ملک کے خزانے کی رکھوالی پر بٹھا رکھا ہے۔ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے خلاف سازش کس نے کی تو جان لو کہ یہ سازش کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ تم خود ہو۔ نہ تو قومی خزانہ لوٹتے، نہ اسحاق ڈار اور سعید احمد جیسوں کے زریعے منی لانڈرنگ کرتے اور نہ آج ذلیل و رسوا ہوتے۔
یہ ایک سازش ہی تھی جو نوازشریف نے اپنے خلاف خود کی .
60 کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلا گیا اور وہاں جاکر اپنی مزید تعلیم جاری رکھی۔ پھر وہاں سے فنانشل سیکٹر کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد چہرے مبارک پر داڑھی سجائی اور اپنے والد کے کہنے پر اس کے ساتھ سعودی عرب رہنا شروع کردیا۔ وہاں اس نے سعودی عرب میں ایک امریکی بنک میں نوکری شروع کی اور اپنے والد اور اس کے قریبی رشتے داروں کو پرکشش منافع پر انویسٹمنٹ کرنے کا جھانسہ دیا اور ان کی ساری رقم ہتھیا لی۔
اگر رقم صرف والد کی ہوتی تو وہ بے چارہ صبر کرلیتا، لیکن چونکہ آدھے خاندان کا مال لٹ چکا تھا، اس لئے والد نے اپنے بے ایمان بیٹے سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کی جو کہ اس نے پورا کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً اس کے باپ نے 1980 میں سعودی عرب میں اپنے بیٹے پر فراڈ اور جعل سازی کا مقدمہ درج کروا دیا اور اس کے بیٹے کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ چونکہ برطانوی پاسپورٹ کا حامل تھا، اس نے حوالات میں بیٹھ کر برطانوی سفارتخانے سے مدد کی اپیل کی، یہ ممالک پاکستانی ریاست کی طرح اپنے شہریوں کو مرنے کیلئے نہیں چھوڑ دیتے، چنانچہ برطانوی سفارتخانے نے وکیل کا بندوبست کیا اور سعودی پولیس کے زریعے اس کے باپ کو سیٹلمنٹ پر مجبور کیا۔ اس سیٹلمنٹ کے زریعے 50 فیصد تک کی رقم کیش کی صورت میں ادا کرکے وہ جیل سے رہا ہوگیا اور پھر سعودی عرب چھوڑ کر غالباً بحرین چلا گیا۔
اس شخص کا سفر یونہی جاری رہا یہاں تک کے 90 کی دہائی میں اسحاق ڈار نواز شریف کا مالی مشیر بن کر منظرعام پر آگیا۔ اسحاق ڈار، اس کا گورنمنٹ کالج کا کلاس فیلو تھا اور جب اسے پتہ چلا کہ اسحاق ڈار اتنا ” کرشماتی ” ہے تو اس نے اسحاق ڈار سے رابطہ کرکے اپنی خدمات پیش کرنے کی آفر کی جو بصد احترام قبول کرلی گئی۔
90 کی دہائی میں اس شخص کے اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوتے رہے اور 14، 15 کروڑ روپے کی بنک ٹرانزیکشنز کئی مرتبہ اس کے اکاؤنٹ کے زریعے ہوئیں۔ 2000 میں نوازشریف اور اسحاق ڈار جلا وطن ہوکر سعودی عرب چلے گئے اور یہ شخص ان کے ساتھ وہاں جا کر ملا۔ ان تینوں کا گینگ گورنمنٹ کالج کے بعد ایک مرتبہ پھر اکٹھا ہوگیا اور نئے سرے سے کرپشن کے منصوبے بننا شروع ہوئے۔ 2002، 2003، 2005 اور 2007 میں اس شخص کے بنک اکاؤنٹس سے مجموعی طور ڈیڑھ ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں جو کہ براہ راست نوازشریف کی آفشور کمپنیوں کیلئے ہوئی تھیں۔ 2013 میں نوازشریف وزیراعظم بنا تو پہلی دس سرکاری تقرریوں میں اس شخص کی تقرری بھی شامل تھی۔
اس کا نام سعید احمد ہے جسے نوازشریف نے 2013 میں سٹیٹ بنک جیسے حساس اور اہم ترین فنانشل انسٹیٹیوٹ کا ڈپٹی گورنر بنا دیا۔ جی ہاں، وہ شخص جو 1980 میں اپنے سگے باپ سے مالی فراڈ کرکے جیل کی ہوا کھا چکا تھا، اسے 2013 میں نوازشریف نے پوری قوم کے خزانے کی کنجی سونپ دی۔ 2013 سے لے کر 2017 کے اوائل تک سعید احمد سٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر رہا اور شریف فیملی کی مالی کرپشن کو بڑھاوا دیتا رہا۔ پھر اس سال کے اوائل میں نوازشریف نے اسے سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر کے عہدے سے اٹھا کر سیدھا نیشنل بنک کی صدارت سونپ دی۔ یہ وہی نیشنل بنک ہے جو اثاثوں کے اعتبار سے ایشیا کا غالباً 7 واں بڑا بنک ہے۔ یہ وہی نیشنل بنک ہے جس سے پاکستان کے سیاستدان بشمول شریف فیملی پچھلے 50 برسوں میں ساڑھے 6 کھرب کے قرضے لے کر ہڑپ کرگئے اور وہ قرضے آج بھی ‘ پینڈنگ ‘ لسٹ میں موجود ہیں۔
اگر نوازشریف سعید احمد جیسے شخص کو سٹیٹ بنک اور بعد میں نیشنل بنک کی صدارت دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں سعید احمد کی شکل شاہ رخ خان سے ملتی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کی نیت میں ایک جیسا فتور اور حرکتیں ایک جیسی شیطانی ہیں۔ جب اس سعید احمد کو جون کے دوسرے ہفتے میں جے آئی ٹی نے طلب کیا تو اس سے پہلا سوال واجد ضیا نے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ کو کبھی سعودی عرب میں جیل ہوئی؟ اگر ہوئی تو کس جرم میں؟ سعید احمد کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی تھی اور اسے پتہ چل چکا تھا کہ جے آئی ٹی والے اپنا ہوم ورک مکمل کرکے آئے ہیں۔ چارو ناچار اسے اپنے جرم کا اقرار کرنا پڑا۔ اگلا سوال جے آئی ٹی نے یہ پوچھا کہ آپ کے بنک اکاؤنٹس میں جو 15 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز ہوا کرتی تھیں، ان کا سورس کیا تھا اور وہ کس مقصد کیلئے ہوا کرتی تھیں؟
اب کی بار سعید احمد کے سر پر آسمان بھی گر پڑا۔ جواب تو اس کے پاس کوئی نہ تھا، بس یہی کہہ کر جان چھڑائی کہ اس نے اپنی چیک بکس سائن کرکے اپنے دوستوں کو دی ہوتی تھیں، وہ خود ہی اس کے بنک میں پیسے جمع کروا کر نکلوا لیا کرتے تھے۔ سیعد احمد جب جے آئی ٹی کی تفتیش سے فارغ ہو کر باہر آیا تو سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا کہ جے آئی ٹی والوں نے اسے ” ہراساں ” کرنے کی کوشش کی۔ میاں نوازشریف، تم ایک انتہا درجے کے کرپٹ اور ذلیل شخص ہو اور یہی وجہ ہے کہ تم نے اسحاق ڈار اور سعید احمد جیسے سکہ بند چوروں کو ملک کے خزانے کی رکھوالی پر بٹھا رکھا ہے۔ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے خلاف سازش کس نے کی تو جان لو کہ یہ سازش کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ تم خود ہو۔ نہ تو قومی خزانہ لوٹتے، نہ اسحاق ڈار اور سعید احمد جیسوں کے زریعے منی لانڈرنگ کرتے اور نہ آج ذلیل و رسوا ہوتے۔
یہ ایک سازش ہی تھی جو نوازشریف نے اپنے خلاف خود کی .