نائن الیون۔ کیا ہم کوئی دوسرا فیصلہ کرسکتے تھے؟
جنرل(ر
پرویز مشرف
پاکستان کا امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا افغانستان میں طالبان کیخلاف حملے میں ساتھ دینا ایک بحث طلب معاملہ ہے۔یہ فیصلہ ہم نے جیو سٹرٹیجک حقائق کومکمل طورپر مدنظر رکھتے ہوئے کیا لیکن اس فیصلے پر تعریف اور تنقید دونوں کی جارہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کا نائن الیون کے حملوں کے بعد کا ردعمل زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام کو تمام ضروری معلومات سے آگاہ کروں تاکہ وہ صورتحال کا بہتر طورپر ادراک کرسکیں۔ میری حکومت کا امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ درحقیقت میرے ماٹو ”سب سے پہلے پاکستان“ پر مبنی تھا۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں امریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان کاساتھ دیناچاہئے کیا یہ کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں تھا؟ یقینی طورپر نہیں۔ اگر القاعدہ اور طالبان کو اس جنگ میں فتح ہوبھی جاتی تو بھی یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا کہ وہ طالبانائزیشن کو اختیارکرتا۔ طالبانائزیشن اختیار کرنے کا مطلب ہوتا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں خواتین کو کوئی حقوق حاصل نہیں، ا قلیتیں خوف کی حالت میں رہیں نیم پڑھے لکھے عالم انصاف کے رکھوالے بن جائیں ۔ میں اس قسم کی صورتحال کو پاکستان کیلئے کبھی بھی پسند نہ کرتا۔
فوجی نقطہ نظر سے یہ با ت واضح تھی کہ طالبان کو اس جنگ میں یقینی طورپر شکست ہوناہے اور پاکستان کیلئے یہ بہت نقصان دہ ہوتا کہ وہ ایک شکست خوردہ فریق کا ساتھ دیتا۔دنیا کی تنہا عالمی طاقت امریکہ نائن الیون کے حملے کے بعد زخمی اور شرمندہ ہوچکا تھا۔ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کیخلاف شدید ردعمل ناگزیر ہوچکا تھا۔ مجھے امریکہ کی طرف سے سخت لہجے میں پیغام دیا گیا کہ پاکستان کو یا تو ہمارا ساتھ دینا پڑے گا یا ہماری مخالفت کرنا پڑے گی۔ مجھے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اگر پاکستان نے امریکہ کی مخالفت کی تو اسے بمباری کے ذریعے پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا۔
یہ وہ صورتحال تھی جس میں ہمیں پاکستان کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ کرنا تھا۔میری پوری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ ایک ایسا فیصلہ کیاجائے جس سے پاکستان کو طویل المدتی فائدہ ہو اور وہ ہر قسم کے منفی اثرات سے بچارہے۔
امریکہ کے پاس افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے کیا آپشن تھے؟ وہ شمال کی طرف سے ایسا نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہاں روس اور وسطی ایشیا کی ریاستیں موجود تھیں۔ وہ مغرب کی طرف سے ایران کے راستے سے بھی ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ صرف پاکستان کے ذریعے افغانستان پر حملہ کر سکتا تھا۔ اگر ہم راضی نہ ہوتے تو بھارت ایسا کرنے کیلئے تیار تھا۔ امریکہ اور بھارت کا اتحاد پاکستان کو روند کر افغانستان تک پہنچتا۔ ہماری فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کی جاتی۔ کیاہم اپنی فوج کے ذریعے امریکہ اور بھارت کی مشترکہ قوت کا مقابلہ کرتے؟ بھارت ہماری طرف سے ایسے ردعمل پر بہت خوش ہوتا۔ یہ ایک مکمل طورپر بے وقوفانہ اور غیر عقلمندانہ ردعمل ہوتا۔ ہمیں اپنے سٹرٹیجک مفادات…. اپنی ایٹمی قوت اور کشمیر کے حوالے سے نقصان اٹھانا پڑتا۔ ہماری علاقائی خود مختاری بھی داﺅ پر لگ سکتی تھی۔
امریکہ اور مغرب سے ٹکراﺅ کے نتیجے میں اقتصادی صورتحال پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی اہم برآمدات کا ذریعہ امریکہ اور یورپی یونین ہیں اور ہمارے ملک میں زیادہ سرمایہ کاری بھی وہیں سے ہوتی ہے۔ ہماری ٹیکسٹائل جو کہ ہماری برآمدات کا 60فیصد ہے وہ بھی یورپ کو برآمد کی جاتی ہیں۔ اس پرکسی بھی قسم کی پابندی سے ہماری صنعت کا گلا گھونٹا جاسکتا تھا۔ مزدوروں کی ملازمتیں کھو جاتیں۔ پاکستان کے غریب عوام کو اسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا۔
ہمارے اہم ترین دوست چین کو بھی القاعدہ اور طالبان کیخلاف شدید تحفظات ہیں۔ چین میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کی وجہ بھی افغانستان اور ہمارے قبائلی علاقوں کے واقعات ہیں۔ اگر ہم القاعدہ اور طالبان کا ساتھ دیتے تو چین بھی ہم سے خوش نہ ہوتا۔مسلم اُمہ بھی طالبان حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتی تھی ترکی اور ایران طالبان کے سخت خلاف تھے۔ پاکستان کے علاوہ صرف متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن وہ بھی طالبان سے اس قدر مایوس ہوئے تھے کہ انہوں نے کابل میں اپنے سفارتی مشن بند کردئیے تھے۔
یہاں میں یہ بات بھی واضح کرناچاہوں گا کہ ہم نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ تمام مطالبات تسلیم کرلئے تھے۔ 13ستمبر2001 کو پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین میرے پاس سات مطالبات لیکر آئیں یہ مطالبات امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ہمارے فارن آفس کو بھی بھجوائے گئے تھے۔ جو مندرجہ ذیل تھے۔
1۔ اپنی سرحدوں پر القاعدہ کے کارکنوں کی سرگرمیاں روکی جائیں پاکستان کے راستے ہتھیاروںکی سپلائی کو روکاجائے اور بن لادن کیلئے ہرقسم کی لاجسٹک سپورٹ کا خاتمہ کیاجائے۔
2۔ امریکہ کو تمام ضروری فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کیلئے پروازوں اور لینڈنگ کے حقوق فراہم کئے جائیں۔
3۔ امریکہ اور اتحادی فوجی انٹیلی جنس کو ضرورت کے مطابق اور دیگر فوجیوں کو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کیخلاف تمام ضروری آپریشنز کرنے کیلئے زمینی رسائی فراہم کی جائے جس میں پاکستان کی نیول پورٹس، ائیر بیسز اور سرحدوں پر سٹرٹیجک لوکیشنز بھی شامل ہوں۔
4۔ امریکہ کو فوری طورپر ایسی تمام انٹیلی جنس امیگریشن انفارمیشن اور ڈیٹا بیسز اور داخلی سلامتی کے بارے میں اطلاعات فراہم کی جائیں جن سے امریکہ اس کے دوستوں اور اتحادیوں کیخلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے اور ان کا جواب دینے میں مدد مل سکے۔
5۔11ستمبر کے دہشت گرد اقدامات اور امریکہ ،اسکے دوستوں اور اتحادیوں کیخلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی کھلے طور پر مذمت کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور امریکہ ،اس کے دوستوں یا اسکے اتحادیوں کیخلاف دہشت گردی کی حمائت میں ہر قسم کے اظہار رائے کو روکاجائے۔
6۔ طالبان کو ایندھن اور دیگر اشیاءو ریکروٹس بشمول براستہ افغانستان ایسے رضا کاروں کی ترسیل کا سلسلہ منقطع کیاجائے جو فوجی حملے یا دہشت گردی میں مددگار کے طورپر استعمال کئے جاسکتے ہوں۔
7۔ اگر افغانستان میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ نیٹ ورک کے سرگرم ہونے اور افغانستان کے طالبان کی جانب سے ان کی مدد کرنے کی ٹھوس شہادت ملے تو پاکستان طالبان حکومت سے سفارتی تعلقات توڑے گا اور طالبان کی حمائت ختم کردے گا اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ نیٹ ورک کو بیان کردہ طریقوں کے مطابق تباہ کرنے میں امریکہ کی مدد کرے گا۔
ان میں بعض مطالبات مضحکہ خیز تھے جیسا کہ ایسے تمام داخلی اظہار رائے کا سدباب کیاجائے جس سے امریکہ اسکے دوستوں اور اتحادیوں کیخلاف دہشت گردی کی حمائت کا تاثر ملتا ہو بھلا میری حکومت عوامی اظہار رائے کو کیسے دبا سکتی تھی جبکہ میں اظہار رائے کی حوصلہ افزائی کیلئے کوشش کررہا تھا؟ میں نے یہ بھی سوچا کہ ہم سے یہ کہنا کہ افغانستان سے سفارتی تعلقات توڑ دئیے جائیں اگر وہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی حمائت جاری رکھیں حقیقت پسندانہ نہیں کیونکہ افغانستان تک رسائی کیلئے نہ صرف امریکہ کو ہماری مدد کی ضرورت ہوگی کم سے کم طالبان حکومت کے خاتمہ تک۔ لیکن ایسے فیصلے کسی ملک کا داخلی معاملہ ہے اور کسی کی جانب سے اسے ڈکٹیٹ نہیں کیاجاسکتا تاہم دہشت گردی کو اس کی ہر شکل میں ختم کرنا ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا ہم امریکہ کے اس کا شکار ہونے سے پہلے ہی ایسا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
ہم دوسرا اور تیسرا مطالبہ تسلیم نہیں کرسکتے تھے ۔ہم امریکہ کو اپنی فضائی حدود میں کھلی پروازوں اور لینڈنگ کے حقوق اپنے سٹرٹیجک اثاثوں کو خطرے میں ڈا ل کر بھلا کیسے دے سکتے تھے؟ میں نے ایک کو ریڈور فراہم کرنے کی پیشکش کی جو ہمارے حساس علاقوں سے خاصے فاصلے پر تھا ہم امریکہ کو اپنی سرحدوں پر نیول پورٹس، ائیر بیسز اور سٹرٹیجک مقامات کے اعتدال کی اجازت بھی نہیں دے سکتے تھے ہم نے نیول پورٹس اور فائٹر طیارو ں کے اڈے دینے سے انکار کردیا ہم نے امریکہ کو بلوچستان میں شمسی اور سندھ میں جیک آباد کے دواڈوں کے صرف لاجسٹکس اور ائیر کرافٹ ریکوری کے استعمال کی اجازت دی ان اڈوں سے کوئی حملہ نہیں کیاجاسکتا تھا ہم نے کسی بھی مقصد کیلئے ” بلینکٹ پرمیشن“ نہیں دی۔
ہم باقی مطالبات پورے کرسکتے تھے اور مجھے خوشی ہے کہ امریکہ نے کسی اعتراض کے بغیر ہماری جوابی تجویز قبول کرلی۔ میں اپنے اوپر لگائے جانے والے اس الزام پر حیران ہوں کہ میں نے کولن پاول کی ایک فون کال پر امریکہ کی تمام شرائط مان لیں جبکہ انہوں نے مجھے کوئی شرائط پیش ہی نہیں کیں۔ یہ شرائط تیسرے روز امریکی سفیر لائی تھیں۔
میں نے اپنا فیصلہ کرنے کے بعد اسے کابینہ کے سامنے پیش کیا پھر میں نے سوسائٹی کے مختلف طبقوں سے ملاقاتیں شروع کیں18ستمبر اور3 اکتوبر کے درمیان میں نے دانشوروں ، ممتاز ایڈیٹروں ،کالم نگاروں، ماہرین تعلیم، قبائلی سرداروں، طلباءاور لیبر یونین کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں۔18اکتوبر کو میں نے چینی وفد سے بھی ملاقات کی اور فیصلے پر تبادلہ خیال کیا اس کے بعد میں ملک بھر کی فوجی چھاﺅنیوں میں گیا اور فوجیوں سے بات چیت کی اس طرح میں نے اپنے فیصلے پر وسیع اتفاق رائے پیدا کیا۔
یہ ان تمام ممکنہ نقصانات کا تجزیہ تھا جو ہمیں امریکہ کے خلاف فیصلہ کرنے کی صورت میں اٹھانے پڑتے اس طرح میں نے ان سماجی اقتصادی اور فوجی فوائد کا تجزیہ کیا جو مغرب سے اتحادی کے باعث ہمیں حاصل ہوسکتے تھے میں نے دانشمندی پر مبنی اپنے فیصلے کی تمام تفصیلات بیان کردی ہیں اور اب مجھے اپنے اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے پاکستان کے وسیع مفاد میں یہ درست فیصلہ تھا مجھے یقین ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس سے اتفاق کرے گی۔