What's new

Iqtibasat

وسوسے
محبت وسوسوں کا آئینہ ہوتی ہے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ، کچھ الگ ہی خدشہ سر اٹھاتا ہے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا محبوب بھی موڑ مڑتے ہوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں کی دنیا اتھل پتھل ہونے لگتی ہے کہ جانے کیا ہوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا، کوئی بات بری تو نہیں لگ گئی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور پھر اگلی ملاقات تک سارا چین و سکون غارت ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم کی لاچاری پر بے حد غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم کو ہماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطا کی گئی، ایسا ہوتا تو میں اڑ کر اس بے پروا کے در جا پہنچتا کہ اس تغافل کی وجہ تو بتادے۔

(ہاشم ندیم کے ناول ’’عبداللہ‘‘ کے باب ’’من کی دیوار‘‘ سے اقتباس)

3.jpg

 
محبت اور نفرت
محبت کا جذبہ نہایت مضبوط ہے لیکن نفرت کا جذبہ کہیں گہرا اور دیرپا ہے۔ محبت میں روح کے محض چند حصے مصروف ہوتے ہیں مگر نفرت میں روح اور جسم دونوں۔ نفرت دل میں کچھ اس طرح سما جاتی ہے اور خیالات میں یوں رچ جاتی ہے کہ ان کا اہم جزو بن کر رہ جاتی ہے۔
(شفیق الرحمٰن کی کتاب ’’مدوجزر‘‘ سے اقتباس)
3.jpg
 
ناامیدی​

رونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نم آنکھیں نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہئے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیج نہیں بویا جاسکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہوجائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی ہے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوطی سے جمادیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا۔ بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا ہے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔
(فاطمہ عنبرین کے ناول ’’رستہ بھول نہ جانا‘‘ سے اقتباس)

3.jpg

ناامیدی​

رونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ نم آنکھیں نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہئے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیج نہیں بویا جاسکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہوجائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی ہے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوطی سے جمادیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا۔ بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہئے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا ہے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔
(فاطمہ عنبرین کے ناول ’’رستہ بھول نہ جانا‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
زینے

کسی بھی مشکل سے مت گھبراؤ۔ یہ کٹھن اور دشوار گزار موڑ جو سفر حیات میں آتے ہیں دراصل ہمیں ہماری منزلوں تک پہنچانے والے زینے ہوتے ہیں۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’میرے خواب میرے جگنو‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
اشفاق احمد کا سچ
اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا۔ ’’تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟‘‘

میں نے تڑپ کر کہا۔ ’’میں سچ لکھوں گا اماں، اور سچ کا پرچار کروں گا۔ لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں۔ میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘

میری ماں فکرمند سی ہوگئی۔ اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تونے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا، دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا۔ ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘

(اشفاق احمد بابا جی کی کتاب ’’صبحانے فسانے‘‘ کا ایک اقتباس)

4.jpg
 
خواہش
جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے، اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جسے وہ دنیا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
(اقتباس از عمیرہ احمد)

3.jpg
 
مجھے جب غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روکوگے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ۔۔۔۔۔۔۔ ضد نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اسے ٹالنے کی سوچتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اللہ کو تمہاری یہی ادا پسند آجائے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ’’الکھ نگری‘‘ سے اقتباس)

iqtibas%2B27-10-14.jpg
 
انسان بعض دفعہ اپنی ذات کے بہت سے پہلوؤں سے اس وقت آگاہ ہوتا ہے جب دوسرے اسے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کا اس سے واسطہ پڑجاتا ہے، وہ اس پر بات کرنے لگتے ہیں اور تب انسان جیسے شاک کے عالم میں اپنی ذات کے اس پہلو کو دیکھتا ہے۔ حیران ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے کرسکتا ہوں؟ میں ایسا کس طرح کرسکتا ہوں؟ لیکن سارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سوال بہت سارے ہوتے ہیں، جواب نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب بس ایک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(عمیرہ احمد کے ناول ’’عکس‘‘ سے اقتباس)
Iqtibas%2B28-10-14.jpg
 
محبت

محبت چہروں اور آوازوں سے تھوڑی کی جاتی ہے۔ محبت تو روح سے کی جاتی ہے، دل سے کی جاتی ہے، انسان سے کی جاتی ہے، اس کی خوبیوں سے کی جاتی ہے۔ محبت انسان کی غیر مرئی خصوصیات سے کی جاتی ہے۔ محبت ظاہری چیزوں سے نہیں کی جاتی ہے کیونکہ یہ سدا رہنے والی چیزیں نہیں ہوتیں، یہ تو کبھی بھی کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔

(عنیزہ سید کے ناول ’’جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم‘‘ سے اقتباس)

Iqtibas%2B06-11-14.jpg
 
محبت
محبت دنیا کا خوبصورت جذبہ ہے۔ سونا جس طرح تپ کر کندن بن جاتا ہے، اسی طرح محبت جب اپنی خالص ترین شکل میں ڈھلتی ہے تو ’’ممتا‘‘ بن جاتی ہے اور ممتا وہ جذبہ ہے جو کائنات کو متحد رکھنے میں، جوڑنے میں اور اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ کام آتی ہے۔

(تنزیلہ ریاض کے ناول ’’عہد الست‘‘ سے اقتباس)

Iqtibas%2B08-11-14.jpg
 
رشتے، چاہتیں اور محبتیں

زندگی پھر مجھے موقع دے۔ میں فرض کرلوں کہ مجھے دوسری زندگی ملے۔ فیصلے کا اختیار پھر میرے ہاتھ میں دیا جائے۔ ایک رشتہ یا بہت سے رشتے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چاہت یا بہت سی چاہتیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک محبت یا بہت سی محبتیں؟ تو میرا انتخاب ہر بار رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور محبتیں ہوگا۔‘‘​
(فرحت اشتیاق کے ناول ’’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘‘ سے اقتباس)

Iqtibas%2B10-11-14.jpg
 
مٹی کا رشتہ
آدم کی تخلیق میں تراب، یعنی مٹی کا عنصر پانی، ہوا اور کچھ دیگر لوازمات سے زیادہ رہا ہے۔ اس کو اتارا بھی اسی مٹی پہ، اس کی بیشتر معیشت، کاروبار، حیات، ذرائع و وسائل، جینا مرنا اسی مٹی اور زمین کی مرہون منت ٹھہرائے گئے۔ اس کی گِل اسی مٹی سے تیار ہوئی۔ اس کی فطرت و فہامت اس مٹی کی تاثیر اور مزاج کے مطابق ڈھالی گئی۔ مگر جب اس مٹی سے بیگانگی روا رکھ کر یہ مٹی کا پُتلا ملٹی اسٹوری فلیٹوں میں جابسا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی ایسی نہ سمجھ میں آنے والی بیماریاں، دماغی عارضے، نفسیاتی الجھنیں اور روحانی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں کہ جن کا شافی علاج لمحہ موجود تک میڈیکل سائنس کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ سارا شاخسانہ زمین مٹی سے ناتہ توڑنے کا ہے۔ مٹی کے قریب رہنا، محسوس کرنا ۔۔۔۔۔ اس پر چلنا پھرنا، دیکھنا، سونگھنا۔۔۔۔ اس پر ٹہلنا، لیٹنا، سونا، اس کی کاشت، نہلائی، گوڈائی، سینچائی وغیرہ بذات خود ہزار بیماریوں کا علاج ہیں۔

(محمد یحییٰ خان کے ناول ’’کاجل کوٹھا‘‘ سے اقتباس)
 
انسان کا جڑنا
مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔ اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑ ا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔
(’’زاویہ ۲‘‘ از اشفاق احمد سے اقتباس)
 

Latest posts

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom