What's new

Iqtibasat

مرد عورت سے ہمہ وقت محبت نہیں کرسکتا۔ وقفے وقفے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی فرصت کے مطابق ۔۔۔۔۔۔ اپنی دہاڑی کے تحت وہ عورت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ لیکن عورت سارا وقت توجہ چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر وقت محبت چاہتی ہے۔ یہ بیل پریم جل کے بغیر سوکھنے لگتی ہے اور سنولا کر رہ جاتی ہے۔

(اشفاق احمد۔ ’’من چلے کا سودا‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
تعلق تو چھتری ہے۔ ہر جسمانی، ذہنی، جذباتی غم کے آگے اندھا شیشہ بن کر ڈھال کا کام دیتی ہے۔ بے روزگاری، بیماری، غریبی، تنہائی سارے غموں پر تعلق کا ہی پھاہا رکھا جاتا ہے۔ دوستی، رشتہ داری، بہن بھائی، نانا دادا ۔۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ ہر دکھ کی گھڑی میں کندھے پر رکھا ہوا ہمدرد ہاتھ، آنکھ میں جھلملاتی شفقت، ایک میٹھا بول، مسکراتا چہرہ بلڈ ٹرانسفیوشن، اسپرو کی گولی بن سکتے ہیں۔ اسی لئے محبت اندوہ رہا کہلاتی ہے۔ انسان اسی لئے کبھی خدا نہیں بن سکتا کہ اس کی ضرورت دوئی ہے حتی کہ اگر اسے دوسرا نہ ملے تو وہ خدا کو اپنی دوئی کا حصہ بنالیتا ہے۔ انسان کی تنہائی قیامت خیز ہے۔ جونہی اس خلا کو بھرنے والا کوئی آجاتا ہے، انسان اپنی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور اپنے آپ کو مکمل سمجھنے لگتا ہے۔ ساتھ نہ ہو تو زندگی آزاد دوزخ ہے۔

(بانو قدسیہ کے ناول ’’حاصل گھاٹ‘‘ سے اقتباس)
 
بندے کو اپنے کسی عمل پر پھولنا نہیں چاہئیے۔ اس لیئے کے وہ اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے۔توفیق بھی وہ ہی دیتا ہے۔ قوتِ عمل بھی اس کی دی ہوئی ہے۔ راستہ بھی وہ ہی بناتا ہے۔ اور بندے کے اندر عمل کی تلقین بھی وہ ہی ڈالتا ہے۔ بندے کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اچھا عمل کر کے خود پر فخر کر لیا تو سب کچھ تباہ کر لیا۔دوسری بات یہ کے اللہ کے لئے کرو تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ جتنی بھاری قیمت ادا کرو گے عمل اُتنا ہی مقبول ہو گا۔ مگر قیمت ادا کرنے کے بعد کے آداب بھی ہیں۔ قیمت ادا کر کے پچھتائے، افسوس کیا، غم کیا تو سب کچھ ختم،جتنی بڑی قیمت ادا کرو اُتنی ہی خندہ پیشانی سے رہو۔ اللہ کے عام بندوں میں اور خاص بندوں میں یہ ہی فرق ہے۔۔۔۔!!!

(علیم الحق حقی کی کتاب ’’عشق کا شین‘‘ سے اقتباس)
 
جب روز قیامت اللہ زمین آسمان کو بلائے گا ۔۔۔۔ تو ہر چیز کھنچی چلی آئے گی ۔۔۔ طوعاً یا کرہاً۔۔۔۔۔ خوشی سے یا ناخوشی سے ۔۔۔۔۔۔ جب ہم اللہ کے بلانے پر نماز اور قرآن کی طرف نہیں آتے تو اللہ ہمارے لئے ایسے حالات بنادیتا ہے، یہ دنیا اتنی تنگ کردیتا ہے کہ ہمیں زبردستی، سخت ناخوشی کے عالم میں آنا پڑتا ہے اور پھر ہم کرہاً بھی بھاگ کر آتے ہیں اور اس کے علاوہ ہمیں کہیں پناہ نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی طرف طوعاً آجاؤ محمل۔۔۔۔۔۔۔! ورنہ تمہیں کرہاً آنا پڑے گا۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’مصحف‘‘ سے اقتباس)

4.jpg
 
آدم شناس
بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں۔ اس کے برعکس کچھ ڈھیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے۔ کھینچنے سے کھنچتے ہیں، چھوڑے سے جاتے ہیں سکڑ، آپ انہیں حقارت سے تھوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں کہ چھٹائے سے نہیں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو لیتے تھے۔ یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پر آدم شناس ہیں۔ یہ کامیاب و کامران کامگار لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے انسانوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پایا تو خود بھی کھوٹے ہوگئے۔ وقت کی اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سر پر رکھا اور ساعت گزران نے اپنے تختِ رواں پہ بٹھایا۔

اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں۔ ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دوعالم کا نظارہ کرلو، اور یکایک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا نہ در، کہ نہ تڑخے۔ یکبارگی ایسے ریزہ ریزہ ہوئے کہ ناعارف رہا، نہ دوعالم کی جلوہ گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گیا۔ نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جو رہی سو بے خبری رہی۔

اور ایک انا ہے کہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابر سلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمان کا عصا جس کی ٹیک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ لیکن ان کا قالب بے جان ایک مدت تک اسی طرح استادہ رہا اور کسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ وہ اسی طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اور رعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھیرے دھیرے گھن اندر سے کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گیا اور حضرت سلیمان کا جسدِ خاکی فرشِ زمین پر آرہا۔ اس وقت ان کی امت اور رعیت پر کھلا کہ وہ دنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ کے مضمون ’’حویلی‘‘ سے اقتباس)
 
جیل

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست کو غلطی سے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یاد رہے یہ غلطی میرے دوست کی نہیں پولیس کی تھی، لہٰذا اسے فوراً تین دن بعد چھوڑ دیا گیا۔ مجھے اس کی خوش قسمتی پر رشک آرہا تھا جسے بلاوجہ جیل میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی ورنہ یہاں جانے کے لئے تو بڑے بڑے لوگوں کو بھی گھنٹوں تقریریں، توڑ پھوڑ، مارکٹائی اور نہ جانے کیا کیا ناپسندیدہ فعل کرنے پڑتے ہیں، پھر کہیں جاکر انہیں جیل جانے کا موقع ملتا ہے۔

لیکن مجھے حیرانی ہوئی کہ لوگ اسے رہا ہونے کی مبارک باد دے رہے ہیں حالانکہ مبارک باد تو اسے اس بات کی دینی چاہئے تھی کہ اب وہ عام آدمی نہیں رہا کیونکہ جیل جانے والا انسانوں کے جم غفیر سے یکدم الگ ہوکر اپنی انفرادیت کا احساس دلاتا ہے۔ جیل جاتے ہی وہ اس قدر اہم ہوجاتا ہے کہ اس کی ملاقات کے لئے کئی کئی سفارشی رقعے لانا پڑتے ہیں، گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، تب کہیں وہ جھروکوں سے جھلک دکھاتا ہے۔ جسے کبھی کسی نے آنکھ بھر کر نہیں دیکھا ہوتا اسے دیکھتے ہی آنکھیں بھر آتی ہیں۔

جیل جانا دراصل شریف ہونا ہے کہ شریف وہ ہوتا ہے جو جرم نہ کرے اور جرم ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو جیل سے باہر ہوتے ہیں بلکہ جیل دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سب سے کم چوریاں، ڈاکے اور قتل ہوتے ہیں۔

یوں بھی اب ہمارے ہاں جیلوں میں اتنی جگہ نہیں، جتنے اس کے مستحق افراد۔ سو اب یہی حل ہے جو چند شریف شہری ہیں انہیں جیلوں میں بند کردیا جائے۔

(ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ’’شیطانیاں‘‘ سے اقتباس)
 
تدبیر بھی تقدیر کے آگے سرنگوں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مشیتِ ایزدی کے سامنے لبیک کہنا ہی بندگی کا اصل مفہوم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے تمہارے چاہنے، سوچنے یا کرنے سے ہی اگر تمام مسئلے حل ہوسکتے تو پھر خدا کہاں ہے؟ ہم منزل کی سمت قدم بڑھا کر سفر تو شروع کرسکتے ہیں لیکن منزل پالینا ضروری نہیں ٹھہرتا۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا ہی منزل کا مفہوم ہے۔
(’’کاجل کوٹھا‘‘ از محمد یحییٰ خان سے اقتباس)
 
توبہ​

ہم زمانہ جہالیت سے دورِ اسلام میں آکر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں۔ ساری عمر پھر عمل صالح توکرتے رہتے ہیں مگر بار بار کی توبہ بھول جاتے ہیں۔ ہم ایک کھائی سے بچ کر سمجھتے ہیں کہ زندگی میں پھر کوئی کھائی نہیں آئے گی اور اگر آئی بھی تو ہم بچ کر نکل جائیں گے۔ ہم ہمیشہ نیکیوں کو اپنا انعام سمجھتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہوں کی سزا۔ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بھی امتحان ہوتا ہے۔ نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ ’’حطتہ‘‘ کا نکلنا چاہئے مگر ہم وہاں بھی گندم مانگنے لگتے ہیں۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’مصحف‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
جب کسی لکھاری کا مسودہ رد کیا جاتا ہے، کسی شاعر کا کلام ناقابل اشاعت قرار دیا جاتا ہے، کسی مصور کی تصویر ریجیکٹ کی جاتی ہے، تب بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تب بھی اتنا دکھ محسوس نہیں ہوتا جتنا اپنی ذات، اپنے وجود کی ریجیکشن پر ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں انسان کی ’’تخلیق‘‘ کو رد کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری صورت میں ’’انسان‘‘ کو دھتکارا جاتا ہے۔

(نمرہ احمد کے ناول ’’سانس ساکن تھی‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
احساسات
وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کرکے دوسرے ذہن پر منتقل کرسکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کررہا ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جارہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ذہنی عذاب ہے جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آسکتی۔
(سعادت حسن منٹو کے افسانے ’’انقلاب پسند‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
یقین کامل
مشکلیں حل ہوجایا کرتی ہیں، راستے بھی نکل آتے ہیں، بس انسان کا یقین مضبوط ہونا چاہئے۔انسان کو یہ اعتماد اور بھروسہ ضرور ہونا چاہئے کہ اللہ ہے اور اس کے ساتھ ہے، مشکلیں وہی حل کرے گا، راستے وہی بنائے گا۔ وہاں جہاں انسان اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتا وہاں کوئی اور ہے جو اس کے لئے سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں صرف اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ جو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ کبھی آپ کو نہیں بھولتا۔ وہ آپ کے ساتھ رہتا ہے، ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ وہ دیتا ہے۔ دیتا ہے بے شمار، بے حساب! آپ کے ناشکرے پن کے باوجود بھی دیتا رہتا ہے۔ وہ گنتا نہیں ہے، احسان نہیں جتاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پر آزماتا ضرور ہے اور اس کی بھیجی ہوئی آزمائشوں میں کھرا اترانا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر یقین مضبوط ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا۔
(سحرش بانو کے ناول ’’ساتھ دل کے چلے‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 
عشق
عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا ہے، زمین پر رہنے نہیں دیتا اور عشق لاحاصل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا ہے جب عشق لاحاصل رہتا ہے۔ جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔

ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا،

گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے۔ مگر میری سمت الٹی ہوگئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا۔ مجازی کو نہ پاکر حقیقی تک نہیں گئی تھی۔ حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھررہی تھی۔

(عمیرہ احمد کے ناول ’’دربارِ دل‘‘ سے اقتباس)
3.jpg
 
اللہ کی رضا
جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا۔ ’’چھلنی بن جاؤ، اس جھکڑ کو گزر جانے دو، اندر رکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا، غصہ کھانے کی نہیں، پینے کی چیز ہے۔‘‘

جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی۔ ’’ضد نہ کرو، اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔‘‘

جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا۔ ’’نہ، ہار جاؤ، ہار جاؤ، ہار جانے میں ہی جیت ہے۔‘‘

جب بھی میں تھکا ہوتا، کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا۔ ’’دے دو دوا، شاید اللہ کو تمہاری یہی ادا پسند آجائے۔‘‘

(ممتاز مفتی کی کتاب ’’الکھ نگری‘‘ سے اقتباس)

4.jpg
 
محبت

محبت وہ شخص کرسکتا ہے جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگالیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجالیا ۔۔۔۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو روح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی جان کی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا، اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
(اشفاق احمد کے ناول ’’من چلے کا سودا‘‘ سے اقتباس)

3.jpg
 

Pakistan Affairs Latest Posts

Back
Top Bottom