Sulman Badshah
STAFF
- Joined
- Feb 22, 2014
- Messages
- 4,282
- Reaction score
- 34
- Country
- Location
گوجال: جہاں سے پاکستان 'شروع' ہوتا ہے
سید مہدی بخاری
میں پاکستان کی سرحد پر کھڑا تھا۔ ارد گرد ویرانی تھی، دور تک خاموشی تھی، اور آسمان سے برف گر رہی تھی۔ نومبر کے دوسرے ہفتے کا آغاز تھا۔ ایسا سفید دن تھا کہ میری سرخ جیپ اور سرمئی رنگ کی جیکٹ کے علاوہ منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ جو رنگ تھے، ان کو برف ڈھانپ چکی تھی یا ڈھانپے جا رہی تھی۔ کوئی سرحدی فوجی چوکی تھی آس پاس، نہ ہی کسی بشر کا نشان۔ یہ دوست ملک چین کی سرحد تھی۔ درہ خنجراب پر کھڑے ہوئے میرا رُخ چین کی طرف تھا۔
شاہراہ قراقرم کا پاکستان کی حدود میں اختتام تھا اس سے آگے یہ شاہرہ کراکل جھیل کے نیلے پانیوں کے کناروں سے ہوتی، خانہ بدوشوں اور دو کوہان والے جنگلی پہاڑی اونٹوں کی ہمسفری میں کاشغر تک چلی جاتی ہے، اور وہیں سے یارقند کو راستے نکلتے ہیں تو ایک راہ تکلمکان صحرا کو مڑتی ہے، جو ریتیلے ٹیلوں کا دنیا کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔
اردگرد سرحد پر باڑ لگی تھی۔ اچانک سفید منظر میں چند بھیڑوں کا ایک ریوڑ آس پاس کہیں سے آ نکلا، اور سڑک پر چلتے میرے قریب سے گزرتا چین کی حدود میں داخل ہو کر کناروں پر خشک گھاس کی ڈھلوانوں پر پھیلنے لگا۔ گندمی مائل گھاس کے تنکوں پر برف کے گولے پھل کی طرح سجے تھے۔ بھیڑیں انہیں سونگھتیں، منمناتیں، اور پھر آگے بڑھ جاتیں۔ شمالی علاقوں کے معمول کے مطابق چرواہا غائب تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی کوئی سرحد نہیں تھی، مگر میری سرحد یہی تھی جہاں میں برف بھرے دن میں کھڑا تھا۔
لکھاری خنجراب پر — فوٹو سید مہدی بخاری
ہُو کا عالم تھا۔ آسمان کی جانب دیکھا تو روئی کے گالے میری پلکوں پر آ کر ٹھہرنے لگے۔ پھر ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور مجھے اٹھا کر عطا آباد جھیل کے کنارے پھینک آیا۔
قراقرم کے چٹیل، سنگلاخ، اور سیاہ پہاڑوں کے بیچ حادثاتی طور پر رونما ہونے والی عطا آباد جھیل میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ 22 کلومیٹر طویل، اور 220 فٹ گہری اس جھیل کا پانی قراقرم کی برفوں اور گلیشئیرز سے پگھل کر جنم لینے والے دریائے ہنزہ کے رک جانے کی وجہ سے ایک تنگ سے پہاڑی درے میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔ جھیل کے سبز رنگے پانی، تنگ درے میں بہتی تیز ہواؤں کے اشارے پر پانی کی سطح پر نہایت دلکش انداز میں لہریں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس جھیل کے وقوع پذیر ہونے سے قراقرم ہائی وے کا 18 کلومیٹر سے زائد حصہ پانی کی نذر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت ساکت ہو گئے ہیں۔ اب واحد طریقہ کشتی کے ذریعے اس جھیل کو پار کر کے حسینی گاؤں تک پہنچنا ہے، جہاں سے پھر قراقرم ہائی وے کا دوسرا سِرا مسافر سے آن ملتا ہے۔
جھیل کی ایک الگ ہی دہشت ہے۔ جہاں اس جھیل کے پانیوں نے کئی بستیوں اور انسانوں کو ڈبو دیا، وہیں برادر ملک چین سے تجارت بھی شدید متاثر ہوئی۔ اب جھیل میں کشتیاں چلتی ہیں جن کے ذریعے مال برداری سے لے کر انسانوں کی نقل و حمل عمل میں آ رہی ہے۔ جھیل کی بھی اپنی ہی ٹریفک ہے۔ کناروں پر رونق لگی ہوئی ہے۔ ملاحوں کے چہرے خوش باش ہیں اور جیبیں بھاری۔ ایک الگ ہی دنیا جھیل کے دونوں اطراف قائم ہو چکی ہے۔ کہیں سکھ ہیں تو کہیں دکھ۔
دریائے ہنزہ — فوٹو سید مہدی بخاری
عطاآباد جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری
کشتی بھر گئی تو ملاح نے لنگر اٹھا دیا۔ انجن کے شور میں کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے خیالوں میں گم چپ چاپ بیٹھے تھے۔ پانی کا سفر 45 منٹ پر محیط تھا۔ چلتے چلتے ایک تنگ سے موڑ سے کشتی نے موڑ کاٹا تو سامنے پَسو کونز نظر پڑیں۔ پَسو کے یہ پہاڑ ایسے نوکیلے پہاڑ ہیں، جیسے قدرت نے زمین میں کیل گاڑ رکھے ہوں۔
اس دن جھیل پر تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ کشتی بار بار ڈولتی تو دل بھی ڈولنے لگتا۔ ملاح میرے طرف دیکھ کر ہنس دیتا تو میں اس سے نظریں چرا کر پھر سے پَسو کونز کی طرف دیکھنے لگ جاتا۔ کشتی کنارے لگی تو سب لوگ اترنے لگے۔ انجن بند ہوا۔ ملاح میرے پاس آیا۔ کشتی چلانے والوں میں اکثریت پختونوں کی ہے، جو مختلف علاقوں سے عطا آباد جھیل تک روزی کے چکر میں پہنچے ہیں۔ ملاح قریب آ کر بولا "زمانہ گزرا کبھی ہم دریائے کابل میں کشتی چلاتا تھا۔ صبح کی پہلی کرنیں جب دریا پر پڑتیں تو ہم کام پر لگ جاتا۔ اوپر سے پرندوں کے غول اڑا کرتے تھے۔ کابل چھوٹا، زمانہ گزرا۔ اب یہ پہاڑ ہیں اور ان کی دہشت۔" باتیں کرتے کرتے کشتی خالی ہوگئی۔ حسینی گاؤں کی زمین پر قدم رکھا تو سامنے پَسو کی چوٹیاں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔
گلمت گاؤں اور پسو کونز — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
یہ سارا علاقہ بالائی ہنزہ یا گوجال کہلاتا ہے۔ وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 15,397 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے واخان سے لگتی ہیں۔ واخان کا علاقہ تقریبا 6 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔
گوجال میں قراقرم ہائی وے — فوٹو سید مہدی بخاری
سید مہدی بخاری
میں پاکستان کی سرحد پر کھڑا تھا۔ ارد گرد ویرانی تھی، دور تک خاموشی تھی، اور آسمان سے برف گر رہی تھی۔ نومبر کے دوسرے ہفتے کا آغاز تھا۔ ایسا سفید دن تھا کہ میری سرخ جیپ اور سرمئی رنگ کی جیکٹ کے علاوہ منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ جو رنگ تھے، ان کو برف ڈھانپ چکی تھی یا ڈھانپے جا رہی تھی۔ کوئی سرحدی فوجی چوکی تھی آس پاس، نہ ہی کسی بشر کا نشان۔ یہ دوست ملک چین کی سرحد تھی۔ درہ خنجراب پر کھڑے ہوئے میرا رُخ چین کی طرف تھا۔
شاہراہ قراقرم کا پاکستان کی حدود میں اختتام تھا اس سے آگے یہ شاہرہ کراکل جھیل کے نیلے پانیوں کے کناروں سے ہوتی، خانہ بدوشوں اور دو کوہان والے جنگلی پہاڑی اونٹوں کی ہمسفری میں کاشغر تک چلی جاتی ہے، اور وہیں سے یارقند کو راستے نکلتے ہیں تو ایک راہ تکلمکان صحرا کو مڑتی ہے، جو ریتیلے ٹیلوں کا دنیا کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔
اردگرد سرحد پر باڑ لگی تھی۔ اچانک سفید منظر میں چند بھیڑوں کا ایک ریوڑ آس پاس کہیں سے آ نکلا، اور سڑک پر چلتے میرے قریب سے گزرتا چین کی حدود میں داخل ہو کر کناروں پر خشک گھاس کی ڈھلوانوں پر پھیلنے لگا۔ گندمی مائل گھاس کے تنکوں پر برف کے گولے پھل کی طرح سجے تھے۔ بھیڑیں انہیں سونگھتیں، منمناتیں، اور پھر آگے بڑھ جاتیں۔ شمالی علاقوں کے معمول کے مطابق چرواہا غائب تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی کوئی سرحد نہیں تھی، مگر میری سرحد یہی تھی جہاں میں برف بھرے دن میں کھڑا تھا۔
لکھاری خنجراب پر — فوٹو سید مہدی بخاری
ہُو کا عالم تھا۔ آسمان کی جانب دیکھا تو روئی کے گالے میری پلکوں پر آ کر ٹھہرنے لگے۔ پھر ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور مجھے اٹھا کر عطا آباد جھیل کے کنارے پھینک آیا۔
قراقرم کے چٹیل، سنگلاخ، اور سیاہ پہاڑوں کے بیچ حادثاتی طور پر رونما ہونے والی عطا آباد جھیل میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ 22 کلومیٹر طویل، اور 220 فٹ گہری اس جھیل کا پانی قراقرم کی برفوں اور گلیشئیرز سے پگھل کر جنم لینے والے دریائے ہنزہ کے رک جانے کی وجہ سے ایک تنگ سے پہاڑی درے میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔ جھیل کے سبز رنگے پانی، تنگ درے میں بہتی تیز ہواؤں کے اشارے پر پانی کی سطح پر نہایت دلکش انداز میں لہریں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس جھیل کے وقوع پذیر ہونے سے قراقرم ہائی وے کا 18 کلومیٹر سے زائد حصہ پانی کی نذر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت ساکت ہو گئے ہیں۔ اب واحد طریقہ کشتی کے ذریعے اس جھیل کو پار کر کے حسینی گاؤں تک پہنچنا ہے، جہاں سے پھر قراقرم ہائی وے کا دوسرا سِرا مسافر سے آن ملتا ہے۔
جھیل کی ایک الگ ہی دہشت ہے۔ جہاں اس جھیل کے پانیوں نے کئی بستیوں اور انسانوں کو ڈبو دیا، وہیں برادر ملک چین سے تجارت بھی شدید متاثر ہوئی۔ اب جھیل میں کشتیاں چلتی ہیں جن کے ذریعے مال برداری سے لے کر انسانوں کی نقل و حمل عمل میں آ رہی ہے۔ جھیل کی بھی اپنی ہی ٹریفک ہے۔ کناروں پر رونق لگی ہوئی ہے۔ ملاحوں کے چہرے خوش باش ہیں اور جیبیں بھاری۔ ایک الگ ہی دنیا جھیل کے دونوں اطراف قائم ہو چکی ہے۔ کہیں سکھ ہیں تو کہیں دکھ۔
دریائے ہنزہ — فوٹو سید مہدی بخاری
عطاآباد جھیل — فوٹو سید مہدی بخاری
کشتی بھر گئی تو ملاح نے لنگر اٹھا دیا۔ انجن کے شور میں کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے خیالوں میں گم چپ چاپ بیٹھے تھے۔ پانی کا سفر 45 منٹ پر محیط تھا۔ چلتے چلتے ایک تنگ سے موڑ سے کشتی نے موڑ کاٹا تو سامنے پَسو کونز نظر پڑیں۔ پَسو کے یہ پہاڑ ایسے نوکیلے پہاڑ ہیں، جیسے قدرت نے زمین میں کیل گاڑ رکھے ہوں۔
اس دن جھیل پر تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ کشتی بار بار ڈولتی تو دل بھی ڈولنے لگتا۔ ملاح میرے طرف دیکھ کر ہنس دیتا تو میں اس سے نظریں چرا کر پھر سے پَسو کونز کی طرف دیکھنے لگ جاتا۔ کشتی کنارے لگی تو سب لوگ اترنے لگے۔ انجن بند ہوا۔ ملاح میرے پاس آیا۔ کشتی چلانے والوں میں اکثریت پختونوں کی ہے، جو مختلف علاقوں سے عطا آباد جھیل تک روزی کے چکر میں پہنچے ہیں۔ ملاح قریب آ کر بولا "زمانہ گزرا کبھی ہم دریائے کابل میں کشتی چلاتا تھا۔ صبح کی پہلی کرنیں جب دریا پر پڑتیں تو ہم کام پر لگ جاتا۔ اوپر سے پرندوں کے غول اڑا کرتے تھے۔ کابل چھوٹا، زمانہ گزرا۔ اب یہ پہاڑ ہیں اور ان کی دہشت۔" باتیں کرتے کرتے کشتی خالی ہوگئی۔ حسینی گاؤں کی زمین پر قدم رکھا تو سامنے پَسو کی چوٹیاں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔
گلمت گاؤں اور پسو کونز — فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
— فوٹو سید مہدی بخاری
یہ سارا علاقہ بالائی ہنزہ یا گوجال کہلاتا ہے۔ وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 15,397 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے واخان سے لگتی ہیں۔ واخان کا علاقہ تقریبا 6 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔
گوجال میں قراقرم ہائی وے — فوٹو سید مہدی بخاری