because he was general
ظالم ٹو
جاوید چودھری
پہلی اشاعت: 01 دسمبر ,2013: 12:00 AM GST آخری اپ ڈیٹ: 01 دسمبر ,2013: 01:36 PM GST
ایڈمرل منصور الحق پاکستان نیوی کے سربراہ تھے‘ یہ 10 نومبر1994ء سے یکم مئی 1997ء تک نیول چیف رہے‘ منصور الحق پراربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگا‘ میاں نواز شریف نے یکم مئی 1997ء کو انھیں نوکری سے برخاست کر دیا اور ان کے خلاف تحقیقات شروع کرا دیں‘ منصور الحق 1998ء میں ملک سے فرار ہو گئے‘ یہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزین ہو گئے‘ ملک میں ان کے خلاف مقدمات چلتے رہے‘ جنرل پرویز مشرف نے ’’نیب‘‘ بنائی تو یہ مقدمات نیب میں منتقل ہو گئے‘ امریکا میں اس دوران اینٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے‘ ان قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی سیاستدان‘ کوئی بیورو کریٹ یا کوئی تاجر کرپشن کے بعد فرار ہو کر امریکا آئے گا تو اسے پناہ ملے گی اور نہ ہی رہائشی سہولتیں‘ یہ کرپٹ شخص امریکا میں گرفتار بھی ہو گا اور امریکی حکومت اس کے خلاف مقدمہ بھی چلائے گی‘ نیب نے اس قانون کی روشنی میں امریکی حکومت کوخط لکھ دیا‘ امریکا نے 17 اپریل 2001ء کو منصور الحق کو آسٹن سے گرفتار کیا‘ انھیں جیل میں بند کیا اور ان کے خلاف مقدمہ شروع کر دیا۔
منصور الحق کو جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا‘ انھیں قیدیوں کا لباس پہنایا گیا‘ قیدیوں کے لیے مخصوص سلیپر دیے گئے‘ عام چھوٹی سی بیرک میں رکھا گیا‘ عام مجرموں جیسا کھانا دیا گیا اور انھیں ہتھکڑی پہنا کر عدالت لایا جاتا‘یہ سلوک منصور الحق برداشت نہ کر سکے چنانچہ انھوں نے امریکی حکومت کو لکھ کر دے دیا ’’مجھے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے‘ میں اپنے ملک میں مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘ امریکی جج نے یہ درخواست منظور کر لی یوں منصور الحق کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا‘ سفر کے دوران ان کے ہاتھ سیٹ سے بندھے ہوئے تھے مگر یہ جہاز جوں ہی پاکستانی حدود میں داخل ہوا‘ منصور الحق کے ہاتھ کھول دیے گئے‘ انھیں وی آئی پی لائونج کے ذریعے ائیر پورٹ سے باہر لایا گیا‘ نیوی کی شاندار گاڑی میں بٹھایا گیا‘ پولیس‘ ایف آئی اے اور نیب کے افسروں نے انھیں سیلوٹ کیا‘ یہ سہالہ لائے گئے‘ سہالہ کے ریسٹ ہائوس کو سب جیل قرار دیا گیا اور منصور الحق کو اس ’’جیل‘‘ میں ’’قید‘‘ کر دیا گیا‘ منصور الحق کی ’’جیل‘‘ میں اے سی کی سہولت بھی تھی‘ انھیں خانساماں بھی دیا گیا۔
بیگم صاحبہ اور دوسرے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی تھی اورمنصور الحق لان میں چہل قدمی بھی کر سکتے تھے‘ یہ نیب اور ایف آئی اے کے دفتر نہیں جاتے تھے‘ تفتیشی ٹیم ان سے تفتیش کے لیے ریسٹ ہائوس آتی تھی‘ یہ عدالت بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے‘ عدالت چل کر ان کے ریسٹ ہائوس آتی تھی اور ان کے وکیل کی صفائی سنتی تھی‘ منصور الحق نے کرپشن کی دولت کا 25فیصد سرکار کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا‘ صدر مشرف نے ان کی ’’پلی بارگیننگ‘‘ منظور کر لی اور یوں منصور الحق کو75 فیصد کرپشن کے ساتھ رہا کر دیا گیا‘ ان اثاثوں میں 14 انتہائی مہنگے پلاٹس بھی شامل تھے‘ ایڈمرل منصور الحق اس کے بعد اپنے گھر شفٹ ہو گئے اور یہ آج تک مزے سے زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ گالف بھی کھیلتے ہیں‘ برج بھی‘ شادیوں اور بیاہوں کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں اور انھیں سابق نیول چیف کا پروٹوکول بھی ملتا ہے‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ ہمارا مجرم جب امریکا میں تھا تو یہ وہاں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہا تھا لیکن یہ جوں ہی انصاف کی سرزمین پر اترا اس کے لیے زندگی آسان ہو گئی‘ یہ جیل‘ تفتیشی ٹیم اور جج تک اپنی مرضی سے تعینات کرانے لگا اور یہ آج آزاد گھوم رہا ہے اور زندگی کی تمام سہولتوں سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہے‘ کیا منصور الحق کو یہ سہولتیں‘ یہ پروٹوکول کسی دوسرے ملک میں مل سکتا تھا؟ نہیں‘ ہرگز نہیں اور یہ وہ سہولت ہے جو منصور الحق جیسے لوگوں کو یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کی جنتوں سے مسائل کی سرزمین پاکستان پر واپس لے آتی ہے‘ یہ لوگ دنیا کے کسی خطے میں یہ سہولتیں حاصل نہیں کر سکتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر بھی کرپشن کے انتہائی سنگین الزامات لگے‘ سوئس عدالتیں مقدمات کو منطقی فیصلوں تک لے گئیں‘ سرے محل ثابت ہو گیا‘ سوئس اکائونٹس میں پڑے 60 ملین ڈالر بھی آصف زرداری کی ملکیت ثابت ہو گئے‘ محترمہ اور زرداری صاحب دونوں جانتے تھے اگر سوئس عدالتوں نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا تو یہ زندگی بھر یورپ اور امریکا میں داخل نہیں ہو سکیں گے چنانچہ یہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بیٹھے‘ این آر او کیا اور پاکستان کے دروازے ان کے لیے کھل گئے‘ محترمہ 18 اکتوبر 2007ء کو پاکستان تشریف لے آئیں‘ پاکستان میں انھیں سابق وزیراعظم کا پروٹوکول بھی ملا اور سیکیورٹی بھی‘ حکومت نے انھیں رینجرز‘ کمانڈوز‘ پولیس اور جیمرز بھی فراہم کیے‘ محترمہ دبئی‘ لندن اور نیویارک میں بسوں‘ ٹیکسیوں اور ٹرینوں میں سفر کیا کرتی تھیں‘ دنیا کی کسی حکومت نے انھیں وزیراعظم کا اسٹیٹس نہیں دیا‘ یہ گروسری تک خود اسٹورز سے خریدتی تھیں مگر ملک میں انھیں مکمل پروٹوکول ملتا رہا‘ آصف علی زرداری محترمہ کی شہادت کے بعد پاکستان آئے‘ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے کو چیئرپرسن بنے اور صدارت کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال تک اس ایک خط کے خلاف لڑتی رہی جو اگر وقت پر سوئس کورٹس میں پہنچ جاتا تو آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھل جاتے اور ممکن تھا کہ یہ سزاپا جاتے لیکن حکومت نے اپنا وزیراعظم قربان کر دیا مگر صدرپر آنچ نہ آنے دی‘ زرداری صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو میاں نواز شریف نے ان مقدمات کے خلاف چپ سادھ لی‘ کیا محترمہ بے نظیر اور صدر آصف علی زرداری کو یہ سہولیات دنیا کے کسی دوسرے خطے میں مل سکتی تھیں؟ آپ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی مثال بھی لیجیے‘ جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو 12 اکتوبر1999ء کو معزول کر دیا‘ ان پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ بھی بنا اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی کھل گئے مگر پھر صرف ایک شخص یعنی جنرل پرویز مشرف کی اجازت سے شریف خاندان کو جیلوں سے نکال کر سعودی عرب بھجوا دیا گیا‘ یہ 2005ء تک سعودی عرب میں شاہی مہمان رہے‘ یہ اس کے بعد لندن گئے تو یہ وہاں بھی آرام کی زندگی گزارتے رہے‘ صرف ایک شخص کے ایک حکم پر ان کے خلاف قائم تمام مقدمات سرد خانے میں چلے گئے اور سپریم کورٹ سمیت پورا عدالتی نظام چپ سادھنے پر مجبور ہوگیا۔
یہ 25نومبر2007ء کو واپس آئے تو انھیں بھی ملک میں سابق وزیراعظم کا پروٹوکول ملا‘ یہ بھی بلٹ پروف گاڑیوں‘ کمانڈوز‘ رینجرز‘ جیمرز اور سرکاری مہمان خانوں کی سہولیات سے لطف اٹھاتے رہے‘ کیا انھیں بھی یہ تمام سہولتیں دوسرے ممالک میں مل سکتی تھیں؟ جنرل پرویز مشرف بھی لندن میں بے یار و مددگار پھرتے تھے‘ یہ دبئی میں بھی اکیلے ہوتے تھے لیکن پاکستان آتے ہی انھیں دنیا کی شاندار ترین سیکیورٹی مل گئی‘ چک شہزاد میں ان کے فارم ہائوس پر پانچ سو کمانڈوز‘رینجرزاور پولیس اہلکارتعینات ہیں اور انھیں بلٹ پروف جیکٹ پہنا کر پلٹ پروف گاڑی میں بٹھا کر عدالت لایا جاتا ہے‘ انھیں اگر جیل بھی ہوتی ہے تو ان کے گھر کو جیل قرار دے دیا جاتا ہے اور ریاست اس’’سب جیل ‘‘ کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے‘ کیا انھیں بھی یہ سہولت دنیا کے کسی دوسرے ملک میں حاصل ہو سکتی تھی؟ آپ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی مثال بھی لے لیں‘سپریم کورٹ ان کے خلاف واضح احکامات جاری کر چکی ہے۔
یوسف رضاگیلانی مجرم ڈکلیئر ہو کر وزارت عظمی سے فارغ ہو چکے ہیں‘ ملک کے تین بڑے سیاسی خاندان این آئی سی ایل کیس اور ایفی ڈرین کے مقدمات میں مجرم ثابت ہو چکے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم ہو چکا ہے اور شوکت عزیز‘چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی صدر پرویز مشرف کے زیادہ تر جرائم میں شریک کار رہے ہیں مگر حالات کی گرم ہوائیں آج تک ان میں سے کسی شخص کے پائوں تک نہیں پہنچیں‘ یہ کروڑوں روپے کی کرپشن اور آئین شکنی جیسے جرائم کے باوجود آزاد بھی پھر رہے ہیں اور ریاست انھیں عزت‘ سیکیورٹی‘ پروٹوکول اور اختیارات بھی دے رہی ہے‘ یہ آج بھی سرکاری گاڑیوں میں پھرتے ہیں اور ٹیلی فونوں پر احکامات جاری کرتے ہیں اور اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ ان کے خلاف سوموٹو نوٹس لے لے تو ریاست ان کی سیکیورٹی اور پروٹوکول میں اضافہ کر دیتی ہے‘ یہ برے وقتوں میں ایک دوسرے کے سپورٹر بن جاتے ہیں اور یہ ہمارے نظام کی وہ خامی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک کیچڑکی ڈھلوان بن گیاہے‘ ہم اس ڈھلوان پر ایک قدم اوپر کی طرف اٹھاتے ہیں اور یہ ڈھلوان ہمیں تین قدم نیچے لے آتی ہے۔
یہ لوگ ظالموں کا سفاک گینگ ہیں‘ یہ کبھی اس نظام کو ٹھیک اور مضبوط نہیں ہونے دینگے کیونکہ یہ نظام اگر ٹھیک ہو گیا تو پھر آصف علی زرداری‘میاںنوازشریف‘جنرل پرویز مشرف ‘چوہدری شجاعت حسین‘جنرل اسلم بیگ اور ایڈمرل منصور الحق کو پروٹوکول کون دے گا؟ ان کے برے وقتوں میں ان کے گھروں کو سب جیل کون قرار دیگا؟ یہ حاجیوں اور ملائوں کا ملک ہے جس میں اپوزیشن کے ملا حزب اقتدار کو حاجی صاحب کہتے ہیں اور حاجی صاحب اپوزیشن کی ملائیت کی حفاظت کرتے ہیں‘ یہ انتہائی ظالم لوگ ہیں‘ یہ کبھی اس ملک کو آزاد نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس ملک کی آزادی ان کی قید ثابت ہوگی اور ہمارا کوئی طاقتورشخص قید نہیں ہونا چاہتا‘ یہ آزاد لوگ ہیں‘ یہ مرنے کے بعد بھی حساب سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس