Sunshine48
MEMBER
New Recruit
- Joined
- May 29, 2020
- Messages
- 47
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سر سنگیت میں سوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول کبت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پر چھایا چھتری ہوگی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماسہ ہے کوئی تولا ہے
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولا ہے
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھری باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا
احمد فراز
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سر سنگیت میں سوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول کبت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پر چھایا چھتری ہوگی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماسہ ہے کوئی تولا ہے
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولا ہے
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھری باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا
احمد فراز