عید کے دن میں اور حفیظ قندھاری صبح لوہاری میں مل گئے۔ہم یونہی قیصرِ سرائے میں جا رہے تھے تو ساغؔر وہاں مل گیا۔لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کے ساغر اپنی مخصوص کوٹھری کے باہر بیٹھا اپنی لٹوں سے جوئیں چُن رہا تھا۔اس نے ہمیں برآمدوں سے دیکھا تو حسبِ عادت اٹھ کر بولا۔"کمال ہی ہو گیا مجھے تو یاد ہیں نہیں تھا کہ آج عید ہے۔لنڈے بازار میں میری آنکھ کھُلی دُھلے دُھلائے لوگوں کو دیکھا تو یقین آ گیا کہ آج واقعی عید ہے اور میں یہاں سیدھا آ گیا۔تم سناؤ! واہ واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا کہ آپ لوگ بھی آ گئے۔میں نے رات کے چاند پر نظم لکھی ہےـ
ہم ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے۔چارپائی پر آلاتِ مدہوشی پڑے تھے۔ساغؔر نے انکو سمیٹا اور اپنی جوگیوں والی زنبیل میں رکھ کر چائے لانے کیلئے جانے لگا تو میں نے کہا ۔" ٹھرو ساغؔر میں چائے کیلئے کہہ آتا ہوں" ساغر نے ادھر ادھر سر ہلا کر کہا "نہ بابا! تم فقیر کے ڈھیرے پر آئے ہو اتنا تو اخلاق برتنے دو" ۔چائے آئے تو میدان سے دو شخص اور اآٹھ کر آ گئے۔ ساغؔر نے انہیں کہا" تُم بھی بیٹھو اور چائے پیو"۔ پھر ہمیں مخاطب کر کے "بولا پردیسی ہیں گھروں سے دور ہیں میرا تو دل چاہتا ہے سوئیاں تیار کروں پر کون اس الجھن میں پڑے"
دونوں پردیسی اسے حیرت سے تک رہے تھے جو مہربان ماؤں کیطرح انہیں پیالوں میں چائے ڈال کر دے رہا تھا میں ساغؔر سے اسکی تازہ نظم سننا چاہتا تھا لیکن ساغر نے خود ہی زنبیل سے ایک کاغذ نکالا اور بیٹھ کر نظم سنانے لگا ۔ وہ تحت الفظ میں نظم پڑھ رہا تھا عید کا چاند ہے خوشیوں کا سوالی اے دوست
اور خوشی بھیک میں مانگے سے کہاں ملتی ہے
دست سائل میں اگر کاسئہ غم چیخ اٹھے
تب کہیں جا کے ستاروں سے گراں ملتی ہے
عید کے چاند ! مجھے محرم عشرت نہ بنا
میری صورت کو تماشائے الم رہنے دے
مجھ پہ حیراں یہ اہل کرم رہنے دے
دہر میں مجھ کو شناسائے الم رہنے دے
یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں !
کل وہی رنج کے، آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا اتنے دن تو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام ----------------------------------------
جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کے گُزار دی ہم نے
کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے
کہ پت جھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے
خیال یار کی رنگینیوں مین گُم ہو کر
جمال یار کی عظمت نکھار دی ہم نے
اسے نہ جیت سکے گا غم زمانہ اب
جو کائنات تیرے در پہ ہار دی ہم نے
وہ زندگی کہ جسے زندگی سے نسبت تھی
تمھاری زلف پریشاں پہ وار دی ہم نے
کچھ ایسا سرد ہوا جذبہ وفا ساغر
خود اپنی ذات کو ہنس ہنس کے خار دی ہم نے
آج مشہور و معروف پنجابی کے شاعر شو کمار بٹالوی کا یومِ پیدائش ہے۔ شیوکمار بٹالوی 23 جولائی 1936ء کو شکر گڑھ ضلع نارووال کے ایک گاؤں"بڑا پنڈ لوٹیاں" میں پیدا ہوۓ۔ تقسیم ہند کے بعد جب ان کی عمر 11 سال تھی وہ بھارت کے شہر بٹیالہ گرداس پور ہجرت کر گۓ ان کے والد پٹواری تھے۔ شیو کمار بٹالوی کو محبتوں کا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ شیو کمار اب تک کے سب سے چھوٹی عمر مین 1967ء ساہیتا ایوارڈ لینے والے بھارتی بھی ہیں۔ شیو کمار بچپن سے ہی اپنے خیالات میں کھوۓ رہتے تھے سارا دن غائب رہنے کے بعد انہیں اکثر ندی کے کنارے کسی درخت کے نیچے یا کسی مندر کے قریب خاموشی سے لیٹا ہوا پایا جاتا تھا۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے کا ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا۔اپنی شادی کے بعد وہ 1968ء میں چندی گڑھ چلے گۓ جہاں انہوں نے اسٹیٹ بنک آف انڈیا کو بطور پی۔آر۔او جوائن کر لیا۔ کثرت بادہ نوشی کی وجہ سے انہیں جگر کا کینسر ہو گیا اور یہی ان کی موت کا سبب بنا۔وہ 06 مئی 1973ء کو عین جوانی میں وفات پا گۓ تھے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------- میرے گیت وی لوک سنیندے نیں
نالے کافر آکھ سدیندے نیں
میں درد نوں کعبہ کہہ بیٹھا
رب ناں رکھ بیٹھا پیڑاں دا
میں دانشوراں سنیندیاں سنگ
کئی واری اُچی بول پیا
کجھ مان سی سانوں عشقے دا
کجھ دعوا وی سی پیڑاں دا
توں خود نوں عاقل کہنداہیں
میں خود نوں عاشق دسدا ہاں
ایہ لوکاں تے چھڈ دیئے
کہنوں مان نیں دیندے , پیراں دا
"شو کمار بٹالوی"
---------------------------------
راھ آسان ہو گئی ہوگی
جان پہچان ھو گئی ہوگی
موت سے تیری درد مندوں کی
مشکل آسان ھوگئی ہوگی،
پھر پلٹ کر نگاھ نہی آئی
تجھ پہ قربان ھوگئی ہوگی
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پریشان ھوگئی ہوگی،
اُن سے بھی چھین لوگے یاد اپنی
جن کا ایمان ھوگئی ہوگی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں میری جان ھوگئی ہوگی،
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ھوگئی ہوگی۔۔
-----------------------------------
نہ کرو شِو دی اُداسی دا علاج
رون دی مرضی ہے اج بے ایمان دی
جاچ مینوں آ گئی غم کھان دی
ہولی ہولی رو کے جی پرچان دی
-----------------------------------
ہن تاں میرے دو ہی ساتھی
اک ہوکا اک ہنجو کھارا
[شو کمار بٹالوی]
-----------------------------------
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
Qateel Shifai, Majrooh Sultanpuri & Naushad Ali in 80's Bombay (Mumbai)..
گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
Ameer e Shariyat Syed Attaullah Shah Bukhari, September 23, 1892 - August 21, 1961, was a Muslim Hanafi Scholar, religious and senior political leader from the Indian subcontinent. He started his religious and political career in 1916. His speeches were entertaining, eloquent, lucid and full of witty anecdots and stories from Arabic, Persian, Urdu, Punjabi, and Multani. He graphically portrayed the sorrows and sufferings of the poor, and would promise his audience that the end of their sufferings would come about with the end of British rule. He was an exceptional leader who travelled across the length and breadth of the country yet never made any statements to the press.
khudaya banazar zihaal e miskeen par
ki hijr pe bahaal likhte ishq ka sura sura
-- me
Abhi Unhein hasil karne abhi aur muqam baaki hain
Abhi unke intqaam aur baaki hain.
Na puchho sazao ka sabab
Abhi lagne wale ilzaam aur baaki hain -- me