برائے مہربانی کنٹرول پلس کیز استعمال کرکے ڈسپلے کا سائز زیادہ کرلیں
PLEASE USE CTRL+ KEYS TO INCREASE THE DISPLAY SIZE
For a PDF Nastaleeque Version please email to: justujumedia@gmail.com
Tags: Fort Hood, US in Afghanistan, US in Iraq, Military psychology
جستجو / حالاتِ حاضرہ
حکمت اور دانش سے لبریز تحریریں
امریکی قلعہ میں افسوسناک ڈرامہ : اس میں ہمارے لیے بھی اسباق پنہاں ہیں
محمد بن قاسم
justujumedia@gmail.com
پیارے قارئین آپ سب کو سلام۔
ہم آ پ سے بات چیت کے لیے کئی موضوعات پر غور و فکر کررہے تھے کہ اچانک امریکی میجر ندال ملک حسن نے امریکی جنوبی ریاست ٹیکساس کے ایک فوجی شہر" فورٹ ہوڈ" میں قتل و غارت گری کر ڈالی۔ اور اس طرح ہماری توجہ بھی اہم قومی موضوعات سے بٹ گئی۔ چنانچہ ہم نے آپ سے اس ضمن میں بات کرنے کا فیصلہ کرلیا، کیونکہ اس کے بعض سنجیدہ اثرات ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ واقعہ جس علاقہ میں پیش آیا ہے، وہ امریکی شہروں ہیوسٹن، آسٹن،ا ور ڈلاس سے قریب ہے۔ ان علاقوں میں مسلمانوں، اور پاکستانی امریکنوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے [ ایک اندازہ کے مطابق 10 لاکھ]۔ چنانچہ، ایسے کسی بھی واقعہ کے ردّعمل اور منفی سماجی روّیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاہم، ہم نے یہ سطور لکھتے ہوئے ان سے تبادلہءخیال کیا،اور یہ محسوس ہوا کہ وہاں عرصہ سے رہنے والے پاکستانی امریکی فی الحال اس واقعہ سے خوف زدہ نہیں، انہیں امریکی معاشرہ کی عمومی انصاف پسندی اور لچک پر خاصہ اعتماد ہے۔
حسن ندال 39 برس کا ایک غیر شادی شدہ امریکی نوجوان ہے جو شمال مشرقی ریاست ورجینیا میں پیدا ہوا، اور وہیں پلا بڑھا۔ اس کے 2 بھائی اور ہیں، اور اس کے اردنی ،فلسطینی امریکی والدین چند برس پہلے وفات پاچکے ہیں۔ امریکی فوج میں میجر رینک کا عہدہ دار حسن ندال ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہے، جو ماردھاڑ کی امریکی مہموں سے واپس ہونے والے امریکی "غازیوں"، مگر ذہنی طور پر مجروح اور مفلوج ہوجانے والے فوجیوں کی نفسیاتی تھراپی کیا کرتا تھا۔ عراق اور افغانستان سے واپس آنے والے ان امریکی فوجیوں کی کہانیاں اس قدر ہولناک اور درد ناک ہوتیں کہ ندال حسن انہیں سن کر لرز اٹھتا، اور وہ خود بھی آہستہ آہستہ ذہنی دباﺅ میں آنے لگا۔ اپنی خواہش اور ولولہِ سے اپنے پیدائشی وطن کی خدمت کرنے کے لیے فوج میں بھرتی ہونے والا میجر حسن ندال اب اس کام سے اکتا چکا تھا، اور اپنے ساتھیوں کے اخلاق سے گرے ہوئے روّیوں پر شاکی تھا۔ ندال کو مذہبی، اور نسلی تعصب کا اس قدر سامنا کرنا پڑتا کہ اس نے تنگ آکر ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں، جو اسے فوج سے چھٹکارا دلانے میں مدد کررہا تھا۔ چونکہ اس کی تعلیم کے اخراجات امریکی فوج نے اٹھائے تھے، ان کی ادائیگی کے بغیر وہ فوج چھوڑنے سے قاصر تھا، اور اس طرح وہ اپنے ضمیر اور ذہن کا قیدی بن کر رہ گیا ۔
تاہم اسی جدوجہد کے دوران اسے اس دھماکہ خیز خبر کا سامنا کرنا پڑا کہ اسے غیرممالک میں مہمات پر بھیجا جارہا ہے۔ اس کے خیال میں اسے عراق جانے کا حکم ملنے والا تھا۔ مگر بعد میں یہ پتہ چلا کہ اصل میں اسے افغانستان میں نفسیاتی مسیحا کی خدمات انجام دینی تھیں, جہاں امریکیوں کا 300 ملین ڈالر شخص نئی مدت صدارت کا حلف اٹھانے کو ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ افغان انتخابات پر اتنا ہی خرچہ آچکا ہے۔ میجر حسن، جو ایک تنہائی کا شکار ایک امریکی فوجی تھا، اس خبر کو پا کر اپنے آپ میں نہ رہا۔ اس کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اس کی زندگی اسی خوف میں گزررہی تھی کہ کہیں اسے دور دراز مار دھاڑ کے محاذوں پر نہ بھیج دیا جائے، ورنہ دیگر معاملات میں وہ ایک مکمل عام امریکی شہری تھا جو اپنی زندگی امن و چین سے گزاررہا تھا۔ چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فورٹ ہوڈ میں ان امریکیوں کے درمیان رہتے ہوئے جو اگلے محاذوں پر جانے کی آخری تیاریوں میں مصروف تھے، اس کا دماغ چل نکلا، اور اس نے دو عدد پستولوں کی مدد سے فائرنگ کر ڈالی جس سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اس ہل چل اور افرا تفری میں دیگر افراد نے بھی گھبراکر فائرنگ شروع کردی، اور فی الوقت یہ تعین نہیں ہوسکا ہے کہ کتنے افراد حسن کے ہاتھوں اور کتنے دوستانہ فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں،۔ یہ ہلاک شدگان اور زخمی افراد کے زخموں کی جانچ کے بعد ہی پتہ چل سکے گا۔ کیونکہ عام طور پر امریکی فوجی استعمال میں پستولوں میں ایک میگزین میں 14 گولیاں ہوتی ہیں، اس طرح ندال کے لیے بیک وقت 28سے زائد فائر کرنا دشوار تھا، جب کہ کم از کم 41افراد گھائل ہوئے ۔ان سطور کے تحریر کرنے تک 13 افراد ہلاک ہوچکے، اور28 زخمی تھے۔
اس واقعہ کے بعد امریکہ میں ایک نئے غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، اور مختلف اخبارات میں قارئین نے اپنے اپنے اسلام مخالف جذبات کا اظہار شروع کردیا۔ ایک بڑی تعداد کے خیال میں ندال حسن ایک جہادی شخص ثابت ہوا، اور ان کے مطابق اسلام ایک ایسا دین ہے جو کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ختم کردینے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگرچہ امریکہ میں یہ کوئی پہلا اس قسم کا واقعہ نہیں جہاں کسی شخص نے ذہنی عدم توازن ، شدت پسندی کی وجہ سے متعدد لوگوں کو قتل کردیا ہو۔ مگر اس مرتبہ ایسے واقعہ کا ایک محفوظ فوجی اڈّے میں وقوع پذیر ہونا امریکی عوام اور حکام سے ہضم نہیں ہورہا۔ فورٹ ہوڈ 1942ءمیں قائم ہونے والا امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے، اور یہاں بیک وقت 70 ہزار افراد رہ سکتے ہیں۔ کئی سو مربع کلو میٹر پر محیط اس اڈے میں ٹریننگ، قیام، اور تفریح وغیرہ کی تمام تر سہولیات موجود ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش کا ذاتی فارم بھی قریب ہی واقع ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کی علامتی حیثیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ پر رنجیدہ افراد اپنا غصہ صدر اوباما پر بھی نکال رہے ہیں، اور یہ الزام لگارہے ہیں کہ اوباما کی جڑیں چونکہ اسلام میں پیوستہ ہیں [ کیونکہ ان کے والد مسلم تھے، حالانکہ اوباما عیسائی ہیں] چنانچہ ان کا روّیہ اسلام کے ساتھ ہمدردانہ ہے، اور حالیہ واقعہ اسی نرمی کا نتیجہ ہے۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ابھی جب کہ امریکی میڈیا اس خطرناک واقعہ کے بارے میں پروگرام پر پروگرام اور تفصیلات بیان کررہا تھا، جمعہ کے روز ایک اور جنوبی ریاست فلوریڈا کے مشہور شہر اورلانڈو میں ایک عیسائی گورے امریکی نے اپنی کمپنی کے خلاف غصہ نکالتے ہوئے فائرنگ کرڈالی، اور اس میں بھی دو افراد کی ہلاکت اور پانچ اشخاص کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چنانچہ، ندال پر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تنقید کرنے والوں پر اب ایسے "عیسائی " جنون کے دیگر پہلو بھی آشکارا ہورہے ہیں۔ در اصل اس قسم کی شدت پسندی اور رد عمل ایک انسانی صفت ہے نہ کہ ایک دینی صفت ۔۔۔
ہیومن ریسورسز منیجمنٹ کے حوالہ سے حقیقت یہ ہے کہ حسن ندال جیسے افراد، جو متحرک اور خطرناک فوجی ڈیوٹی دینے سے انکار کردیتے ہیں، انہیں مہمات پر روانہ کرنا درست نہیں۔ وہ مشن کے دوران نیم دلی سے کام کرنے پر مجبور ہوں گے، اور اس طرح اپنے ساتھیوں کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں گے۔ تاہم یہ ایک حیران کن امر ہے کہ امریکی فوج دوسری جنگ عظیم، ویت نام، کوریا، جنوبی امریکہ، ایران میں خصوصی آپریشنز، پھر عراق میں دو مرتبہ فوج کشی، اور افغانستان پر قبضہ کے باوجود نفسیاتی تشخیص اور علاج کے معاملوں میں ابھی تک طفل مکتب ہی نظر آتے ہیں۔ 1990سے عراق جنگ میں شمولیت سے اب تک امریکی فوجیوں میں خودکشیوں کا رجحان ایک خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ایک فوجی کا بھی خودکشی کرنا دیگر ایک بڑی تعداد کے مورال پر بہت بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی قسم کے واقعات ہندوستانی افواج میں بھی پیش آتے رہے ہیں، خاص طور پر ان فوجیوں میں جو کشمیر میں مظالم کرنے پر ماءمور ہیں۔
جنگ ایک بہت بُری شے ہے۔ خوبصورت وردیوں، شان دار ٹینکوں ، ہوائی جہازوں، اور بحری جہازوں میں سوار افراد کو جب گولہ ، بارود، اور ایک پُر عزم دشمن کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اکثر صدمہ اور حیرانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تما م تر سخت تربیت اور بہترین سے بہترین اسلحہ بھی آپ کو وہ ترغیب نہیں دے سکتا جو کسی بھی لڑائی بھڑائی کے مقصد پر یقین اور دلی نصب العین سے حاصل ہوتی ہے۔ خاک و خون میں لُتھڑے ہوئے دشمن فوجی اور شہری، اور اپنے ہی ساتھیوں کے خون آلودہ اور کٹے پھٹے جسموں کو دیکھ کر جوزخم روح کو لگ جاتے ہیں ان کا کوئی بھی مداوا نہیں۔ شاید اسی لیے امریکی افواج ریموٹ کنٹرول اور روبوٹک جنگی آلات اور چالوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے بارے میں یہ غلط فہمی ہے کہ یہ مقامی طور پر کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ جب کہ امریکی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کسی وڈیو گیم کی طرح جنوبی ریاست نیوادا کے مشہور شہر لاس ویگاس کے قریب صحرا میں واقع اسٹیشنوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے، جو کہ سیٹیلائٹس سے منسلک ہوتے ہیں۔ تاہم ان ڈرونوں کو اڑانے کے لیے کچھ نہ کچھ مقامی مدد ضرور درکار ہوتی ہے، جہاں سے وہ اسلحہ سے لیس ہوتے، اڑان بھرتے، اور پھر کامیابی سے اترجاتے ہیں۔ امریکی اسٹیشنوں سے ان ڈرونوں کو کنٹرول کرنے اور فائر کرنے والے افراد کو اس تباہی بربادی، خاک و خون اور چیخ و پکار کا ذاتی تجربہ نہیں ہوتا،ا ور اس طرح وہ کیمروں سے دیکھنے کے باوجود اس جذباتی اتھل پتھل کا شکار نہیں ہوتے جو کہ ایک زمینی دو بدو لڑائی لڑنے والا فوجی محسوس کرتا ہے۔
امریکی معاشرہ میں چونکہ ازدواجی وفاداری ایک بہت ہی نازک ترین معاملہ ہے، اور اس کی اکثر دھجیاں اڑادی جاتی ہیں، فوجی مہمات میں مصروف اکثر امریکی فوجی اس ذہنی دباﺅ کا شکار رہتے ہیں کہ نہ جانے ان کی دوست یا بیوی اس وقت کہاں گل چھرے اڑا رہی ہے۔ اس کا بھی ان کے ذہنوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ جب وہ گھر فون کرتے ہیں تو چاہے ان کی" گھر والی " کسی کام سے ہی کیوں نہ گئی ہو، وہ اس شک و شبہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک حسن ندال کا تعلّق ہے تو اس کا ایک مسئلہ اس کی زندگی میں صنف نازک کی محبت سے محرومی بھی نظر آتا ہے۔ ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے وہ شادی کے بغیر خواتین سے دور ہی رہتا ہوگا، اور اس کی مسجد کے ایک سابق امام کا یہ کہنا ہے کہ اس نے اپنی ہونے والی بیوی کی صفات کچھ اس قدر سخت بیان کی تھیں کہ ان کا میرج بیورو اس کی مدد کرنے میں اب تک ناکام رہا تھا۔ ایک شادی شدہ زندگی میں اُمنگوں اور ذمہ داریوں میں جو اضافہ ہوجاتا ہے، وہ شدت پسندی میں یقینا کمی کرتا ہے، کیونکہ کسی بھی انتہائی اقدا م کی صورت میں خاندان تباہ ہونے کے امکانات ڈراتے رہتے ہیں۔
خود کشیوں کے اسباب اور اسی قسم کے مسائل اور ذہنی دباﺅکے بارے میں کچھ عرصہ قبل ، امریکیوں کی مثال سامنے رکھتے ہوئے، پاکستانی معاشرہ کی نسبت ہم نے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر موسی مراد سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے دیہی معاشرہ سے آنے والے فوجیوں کو بھی اسی قسم کے شکوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالانکہ ہمارے مسلم معاشرہ میں ایسے واقعات بہت کم ہی ہوتے ہوں گے۔ تاہم، جنگ میں مصروف پاکستانی فوجیوں کو بھی مختلف النوع نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوگا، اور ہمیں ان کے علاج معالجہ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، اور کوئی روبوٹ نہیں۔
یہاں سبق آموز امر یہ ہے کہ امریکی فوجی میجرندال حسن ملک خود ایک ماہرِ نفسیات تھا۔ چنانچہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مسیحاﺅں کو خود بھی حکیموں کی ضرورت رہتی ہے۔ اور ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ فی الوقت حسن خود اپنی زندگی کی جنگ ہسپتال میں لڑ رہا ہے، اور وہ مصنوعی تنفّس پر ہے۔ اگر وہ زخموں سے جانبر ہوگیا تو یقینا اس معمہ کو حل کرنے میں مدد ملے گی، کہ آخر حسن نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا، جب کہ چند گھنٹے قبل ہی وہ ایک عام انداز میں اپنے فوجی اڈہ میں خرید وفروخت میں مشغول تھا ۔۔۔ اور یہ کہ ایسے کتنے مزید افراد اس وقت اندر ہی اندر کھول رہے ہیں، جو کسی وقت بھی پھٹ پڑیں گے۔
ہم اس موقعہ پر اپنی بہادر افواج کو بھی سلام پیش کرتے ہیں، جو کم تر سہولیات کے باوجود پاکستان کے دشمنوں سے نہ صرف اندرونی محاذ پر، بلکہ بیرونی سرحدوں پر بھی نبردآزما ہیں، اور تمام تر جسمانی گھاﺅ اور روحانی دباﺅ بھی ایک عزم کے ساتھ برداشت کررہی ہیں۔ راولپنڈی میں فوجی مستقر پر ہونے والا حملہ اس امریکی واقعہ سے کہیں زیادہ خطرناک تھا،ا ور انہوں نے اس سے بخوبی نمٹا۔ دوسری جانب ہم امریکی قلعہ میں جاں بحق ہونے والے ، زخمی ، اور ان کے اہل خاندان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس اندوہناک حادثہ سے امریکییوں کو شاید یہ احساس ہو کہ چند امریکی جانوں کے مقابلہ میں پاکستانی قوم کی ان گنت قربانیاں کیا قدر و قیمت رکھتی ہیں۔ آخر بقول امریکیوں کے، یہ جنگ بھی تو ہمارے ہاں اس لیے لڑی جارہی ہے کہ ہزاروں میل دور رہنے والے امریکی چین سے رہ سکیں۔ اور شاید امریکی منصوبہ ساز دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے جنگ کے متبادل طریقوں پر غور کرسکیں ۔۔۔ اور فلسطین اور کشمیر جیسے سلگتے ہوئے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں مدد کرکے دنیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھ دیں۔
٭
جمعہ 6 نومبر2009
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا۔۔۔ چینی کہاوت
Justuju Media [Publishers]
ISBN 969-8831-00-00
All Rights Reserved.- Copyright 2009
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a syndicated column. The writer and the syndicating agency, Justuju Multimedia, allows you to publish this article without any changes and editing. The moral and copyrights of the writer are asserted. This article may be published for non commercial purposes, under a fair usage concept.
HASHIM SYED MOHAMMAD BIN QASIM
Justuju Media
Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, ICT and O&D Consultant
Current Affairs Analyst, Radio Islam International, Johannesburg, South Africa
Contributing Editor: Urdupoint.Com, Alqamar.Org
Justuju Media Projects جستجو میڈیا کے پراجیکٹس
The Legend of Akhgar
The Legend of Akhgar
A Tribute to American Sufi Urdu Poet
Sayyid Mohammad Hanif Akhgar Maleehabadi
American Humor
Justuju - American Humour in Urdu
The Best of American Humour Brought to You in Urdu
Saudi Arabia: Discovering its Soul
Zar Grifth
Based on a legendary book about Saudi Arabia "Zar Grifth"
Canadian Urdu Poetry - Kulliyaate Ashar
Kulliyaate Ashar
Beautiful Poems / Ode of Syed
Mohammad Munif Ahaar Malihabadi
Toronto Canada
Kalaame Musavvir
Musavvir Home Page ???? ???ّ?: ??? ??? ۔۔ ?????
Maulana Musavvir's Poetry Rediscovered
Urdu Poetry from early 20th Century
Wrestling Diabetes
Diabetes: Wrestling With
Ziabetes Kay Saath Saath
Dr. Abid Moiz's Landmark Urdu Book on Diabetes Presented
by Justuju
Pablo Picasso - "Computers are useless. They can only give you answers."
Last edited: