Who is Pakistans friend?
Asif Ali Zerdari whose corruption destroyed Pakistan inside out? PPP who really destroyed the fabric of society and now they are on the road of separation from Pakistan? Nawazsharif? Who became a billionaire and turned Pakistan into a beggar? The CSP officers, who lead govt organizations like gangs, negotiate with local govt orgs and private contractors, loot the money, make the papers white, and Pakistan is always pushed to borrow more? Military that is running all sorts of businesses now, and Kashmiris are getting killed day and night and TTP attacks Pakistan whenever it pleases them. We know that Bhuttos policies first broke Pakitan, then led Pakistan on the path of total destruction.
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سب ناکام ہو چکے ہیں…سیاستدان، جرنیل، بیورو کریٹ، سماجی کارکن، مصلح، صحافی، دانشور اور واعظینِ منبر و محراب۔ 2022ء کا سورج ان کی بد اعمالیوں کا نوحہ پڑھتے ہوئے طلوع ہوا۔ پچھہتر برس زوال کا سفر، جس میں ہر کوئی حصے دار ہے لیکن اس خوفناک ناکامی کا ملبہ دوسرے پر ڈالتا ہے اور اسے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ اس مملکتِ خداداد پاکستان کی لوٹ مار میں ہر کسی کا برابر کا حصہ ہے۔ سیاستدان برسرِاقتدار تھے تو خاکی افسران اپنی بساط برابر حصہ وصول کرتے تھے، بلکہ ان پر تو نوازشات کی بارش ہوتی تھی۔ پاکستان کی سول سروس میں ان آفیسران کی بے تحاشہ تعداد قائدِ عوام ذوالفقار بھٹو کی خصوصی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ’’اہل ترین‘‘ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے گھوسٹ سکولوں تک کی نشاندہی کیلئے ان پر ہی بھروسہ کیا اور پھر امنِ عامہ سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک سب انہیں دے دیا۔ جرنیلوں نے جب کبھی عنانِ اقتدار سنبھالی تو ان کے پائوں مضبوط کرنے کیلئے یہی سیاستدان اپنا کاندھا پیش کرتے رہے اور اپنی خدمات کے عوض، وہ اپنی حیثیت، اوقات اور مرتبے کے مطابق ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محمد خان جونیجو اور شریف خاندان سے لے کر زرداری خاندان تک کون ہے جس نے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ ان کے محلات، بزنس ایمپائرز، ملکی اور غیر ملکی اثاثے سب فوجی آمروں کے دَور میں ہی بڑھے کیونکہ یہ مارشل لائوں کی خوشنما چھتری تلے اطمینان سے عوامی نمائندگی کا ’’خوبصورت‘‘ سیاسی فریضہ ادا کر رہے تھے۔ بیورو کریٹس کے کیا کہنے، ان کیلئے تو جو بھی حکمران ہوتا، ان کے سروں کا تاج ہوتا۔ اقتدار کے بالا خانے میں ان کی حیثیت ایک ایسی رقاصہ کی سی رہی ہے جو ہر نئے آنے والے کے ذوق کے مطابق بن سنور جاتی ہے اور اسی کی پسند کے گیت گانے لگتی ہے: معشوقِ مابہ شیوۂ ہر کس موافق است باما شراب خورد بہ زاہد نماز کرد ترجمہ: ’’میرے معشوق کے اطوار بھی ہر کسی کو موافق آتے ہیں۔ میرے ساتھ بیٹھ کر شراب پی لیتا ہے اور زاہد کے پاس جا کر نماز پڑھ لیتا ہے‘‘۔ عدلیہ کے سیاسی کردار پر تو علیحدہ سے کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جسٹس منیر کے پہلے فیصلے سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان کے آخری فیصلے تک تمام کو ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا جائے تو پڑھنے والوں کو خود بخود ایک ترتیب وار فہرست میسر آ جائے گی کہ جب کبھی بھی میرے وطن کی قابض اور غالب اشرافیہ نے اپنے قبضے کے جواز کیلئے عدلیہ کو پکارا انہوں نے فوراً لبیک کہا۔ دانشور، صحافی، سماجی کارکن، مصلح اور منبر و محراب کے واعظین اپنی اپنی صلاحیتوں کی داد اسی طرح وصول کرتے رہے، جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ خوش ہوتے تو دامن موتیوں سے بھر دیتے۔ پاکستان کے آغاز ہی سے پلاٹوں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کی فہرست اگر نکال لی جائے تو آپ کو اس ملک کے لٹنے کی ایک ترتیب وار کہانی مرتب کرنے میں ذرا دیر بھی نہیں لگے گی۔ پہلی آئین ساز اسمبلی توڑنے والے گورنر جنرل غلام محمد کے دورِ اقتدار میں 1955ء میں پہلا کوٹری بیراج مکمل ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جو نہ صرف آرمی چیف تھے، بلکہ اس سیاسی حکومت میں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ بھی تھے، انہیں 500 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی۔ الاٹمنٹ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں بیوروکریٹ اور جج حضرات شامل ہیں۔ جب ایوب خان کے دور میں گدو بیراج مکمل ہوا، تو نوازشات کا رُخ انہی مہربانوں کی طرف گھوم گیا۔ جسٹس منیر جس نے ایوب کے مارشل لاء کو نظریۂ ضرورت کی چھتری فراہم کی تھی اسے 150 ایکڑ الاٹ ہوئے اور دیگر جج حضرات میں جسٹس ایس اے رحمن کو 150 ایکڑ ، جسٹس انعام اللہ خان 240 ایکڑ، جسٹس محمد دائود 240 ایکڑ اور جسٹس فیض اللہ خان 240 ایکڑ۔ سیاستدانوں میں ملک خدا بخش بچہ 159 ایکڑ، خان غلام سرور خان 240 ایکڑ، امریکہ پلٹ وزیر خزانہ این ایم عقیلی 249 ایکڑ اور ساتھ ہی بیگم عقیلی کو بھی 251 ایکڑ، بیورو کریٹس میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کو 150 ایکڑ، سید حسن 150 ایکڑ، ایس ایم شریف 239 ایکڑ، این اے قریشی 150 ایکڑ دیئے گئے۔ ایوب خان کے اس شاہانہ رویّے سے جرنیل بھی مستفید ہوئے، پہلے ایوب خان نے ایک بار پھر خود 247 ایکڑ اپنے آپ کو الاٹ کئے، پھر جنرل موسیٰ کو 250 ایکڑ، جنرل امرائو خان کو 240 ایکڑ اور بریگیڈیئر سید انور 246 ایکڑ عطا ہوئے۔ زمینوں کی الاٹمنٹ کی یہ لسٹ جو 1955ء میں بننا شروع ہوئی تھی، اس وقت ایک ضخیم ڈائریکٹری بن چکی ہے جس میں لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ کے علاقے گلبرگ میں ایکڑ ایکڑ کے پلاٹوں سے لے کر نوتعمیر ہونے والے دارالحکومت اسلام آباد کے قیمتی رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کے وصول کنندگان میں سیاستدان، جرنیل، بیورو کریٹ، صحافی، سماجی کارکن، دانشور اور واعظین سب شامل ہیں۔ زمینوں اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ تو لوٹ مار کی داستان کا نکتہ آغاز ہے۔ یہ وہ سرا ہے جسے پکڑ کر ان لوگوں اور ان کے قبیل کے ہزاروں افراد کی جائدادوں، ملوں، فیکٹریوں، پلازوں اور کاروباری سلطنتوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ تو آغاز کے لوگوں میں سے کچھ نام ہیں جنہوں نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے اور اسے لوٹنے کی بنیاد ڈالی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ایک مرحوم گورنر کے والد سیکرٹری انڈسٹریز تھے، جب ان کی شادی ہوئی تو شادی میں جو تحائف وصول ہوئے ان میں چھ مرسڈیز کاریں بھی شامل تھیں۔ یہ رشوت اور چور بازاری کا وہ سلسلہ تھا جو ایوب خان کے مارشل لاء سے بہت پہلے ہی اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا۔ لائسنس، کوٹے، ٹیکس میں چھوٹ، ایس آر اوز، برآمدی، درآمدی اشیاء کے اجازت نامے، کیا کچھ نہیں ہوا، لوٹ مار کی افراتفری میں کسی کو یاد تک نہ رہا کہ اس ملک میں ایک خطہ مشرقی پاکستان بھی ہے جو آخر کار ہم سے جدا ہو گیا۔ بھٹو کی حکومت آئی تو اس وقت اس ملک میں بائیس سرمایہ دار خاندان بہت مشہور تھے۔ بھٹو نے سب کچھ قومی ملکیت میں لے لیا اور کارپوریشنیں بنا کر لوگوں کو نوازا۔ ضیاء الحق آئے تو ضبط شدہ ہزاروں ملیں اور کارخانے تو بحق سرکار ضبط ہی رہے، لیکن خصوصی ’’شاہانہ‘‘ مہربانی کرتے ہوئے تین کارخانے مالکان کو مفت واپس کر دیئے، جن میں ایک شریف خاندان کی اتفاق فونڈری بھی تھی جسے فیکٹری دوبارہ چلانے کیلئے خطیر رقم بھی دی گئی۔ سیاست، کاروبار، زراعت اور کرپشن گلے میں بانہیں ڈال کر میرے ملک کی سڑکوں پر آج بھی رقصاں ہے۔ میرے ملک کی کہانی آسکر وائلڈ (Oscar wilde) کے ناول (The Picture of the Dorian Grey)جیسی ہے۔ ناول میں ایک نیک سیرت مصّور کی ایک خوبصورت نوجوان ڈورین گرے سے دوستی ہوتی ہے، جو ایک دن کسی بڑے شہر میں جا کر رہنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ نیک دل مصّور اس کی ایک تصویر بنا کر اسے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ دیکھو شہر میں اگر تم نے کوئی گناہ بھی کیا تو اس تصویر پر ایک کالا دھبہ پڑ جائے گا۔ ڈورین گرے، تصویر کو صندوق میں بند کر کے شہر کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ وہ ہر طرح کے گناہ اور جرم میں ملوث ہو کر ایک دن پکڑا جاتا ہے اور اسے موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اسے وہ تصویر یاد آتی ہے۔ وہ اسے دیکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ صندوق سے تصویر نکالتا ہے تو اس کا چہرہ مکمل سیاہ ہو چکا ہوتا ہے۔ میرے ملک کے چہرے پر بھی سیاستدانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، صحافی، دانشور، سماجی کارکن اور واعظین نے اپنے اپنے گناہوں کے چھینٹے اس طرح پھینکے کہ اس کا چہرہ بالکل تاریک ہو چکا ہے۔ ایسے میں ذلت کے مارے بائیس کروڑ عوام کو کوئی بتا سکتا ہے کہ 280 ارب ڈالر سالانہ جی ڈی پی رکھنے والے ملک پر 122 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اور 204 ارب ڈالر کے برابر اپنے بینکوں سے لیا گیا قرضہ کس پر خرچ ہوا، اور آج اس ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی راستہ کسی کے پاس ہے۔ ارشاد ارشی کا شعر یاد آتا ہے۔ میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس جانے کی رسم پہ کھلتا ہے یہ در اب کے برس
Google translation:
All have failed; politicians, generals, bureaucrats, social workers, reformers, journalists, intellectuals and preachers of the pulpit. The sun of 2022 rose while lamenting their misdeeds. Seventy-five years of decline, in which everyone is a participant, but he lays the wreckage of this terrible failure on others and is not ashamed to look into his collar. Everyone has an equal share in the plunder of this God-given kingdom of Pakistan. If the politicians were in power then the khaki officers would get their fair share. In fact, they would be showered with favors. The sheer number of these officers in Pakistan's civil service is the result of the special kindness of Quaid-e-Awam Zulfiqar Bhutto. The "most deserving" Chief Minister Shahbaz Sharif relied on them to identify even the ghost schools and then gave them everything from public order to road construction. Whenever the generals came to power, these same politicians continued to offer their shoulder to strengthen their feet and in return for their services, they would become the masters of black and white in the country according to their status, times and status. From Zulfiqar Ali Bhutto to Muhammad Khan Junejo and from the Sharif family to the Zardari family, who has not benefited? Their palaces, business empires, domestic and foreign assets all flourished under military dictatorships as they satisfactorily performed the "beautiful" political duty of public representation under the beautiful umbrella of martial law. What bureaucrats have to say, for them whoever was the ruler would have a crown on their head. In the upper echelons of power, her status has been like that of a dancer who adapts to the tastes of every newcomer and sings the songs of her choice. Kurdish translation Translation: “My beloved's manners also suit everyone. He would sit with me and drink alcohol and go to Zahid and offer prayers. There is no need to write about the political role of the judiciary separately. From the first judgment of Justice Munir to the last judgment of Justice Irshad Hassan Khan, if all are collected in one book, then the readers will automatically get a systematic list that whenever the occupying and dominant elite of my country He called on the judiciary to justify his occupation. He immediately responded. Intellectuals, journalists, social workers, reformers, and preachers of the pulpit and mihrab continued to receive gifts of their talents in the same way as the kings of old would have filled their feet with pearls if they had been happy. If the list of allotments of plots and lands from the beginning of Pakistan is taken out, it will not take you long to compile a systematic story of the plunder of this country. The first Kotri Barrage was completed in 1955 during the reign of Governor-General Ghulam Muhammad, who dissolved the first Constituent Assembly. Field Marshal Ayub Khan, who was not only the army chief but also the defense minister and interior minister in this political government, was allotted 500 acres of land. The list of allottees includes bureaucrats and judges. When the Guddu Barrage was completed in the time of Ayub Khan, the favor turned to these benefactors. Justice Munir, who had provided an umbrella of necessity to Ayub's martial law, was allotted 150 acres and among other judges, Justice SA Rehman was allotted 150 acres, Justice Inamullah Khan 240 acres, Justice Muhammad Dawood 240 acres, and Justice Faizullah. Khan 240 acres. Politicians include Malik Khuda Bakhsh Bacha 159 acres, Khan Ghulam Sarwar Khan 240 acres, US Treasury Secretary NM Aqeeli 249 acres as well as Begum Aqeeli 251 acres, Mirza Ghulam Ahmad Qadiani's grandson MM Ahmed 150 acres in Bureaucrats. Syed Hassan 150 acres, SM Sharif 239 acres, NA Qureshi 150 acres were given. The generals also benefited from this majestic attitude of Ayub Khan. First Ayub Khan once again allotted 247 acres to himself, then 250 acres to General Musa, 240 acres to General Amrao Khan and 246 acres to Brigadier Syed Anwar. This list of land allotments, which began in 1955, has now become a huge directory, ranging from one-acre plots in the Lahore Improvement Trust's Gulberg area to valuable residential and commercial plots in the newly constructed capital Islamabad. Recipients include politicians, generals, bureaucrats, journalists, social workers, intellectuals, and preachers. The allotment of lands and plots is the beginning of the story of looting. This is the tip that can be grasped to reach the properties, mills, factories, plazas, and business empires of these people and thousands of their tribesmen. These are just some of the names of the early people who laid the foundation of this God-given kingdom of Pakistan as their fiefdom and return to it. The father of a late PPP governor in Sindh was Secretary Industries. Among the gifts he received at his wedding were six Mercedes cars. It was a series of bribery and smuggling that had taken root in this country long before Ayub Khan's martial law. Licenses, quotas, tax breaks, SROs, exports, imports permits, nothing happened, in the chaos of looting no one remembers that there is a region in this country East Pakistan which in the end we Separated from When Bhutto's government came, 22 capitalist families were very famous in this country. Bhutto took everything into national ownership and rewarded the people by forming corporations. When Zia-ul-Haq came, thousands of confiscated mills were found and the factories were confiscated by the government, but with special "royal" kindness.
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Naraz Baloch, PTM, TTP, Racism...... I can write a lot. Pakistan is not going into hell due to the acts of corrupt, Pakistan is going into hell due to the silence of capable-sincere people.
Who is Pakistans friend then?