What's new

Stupid & Funny from Around the World :Continued

. .
....
1646495816255.png


..
 
. . . . .
‏بیوی نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا:
"مجھے ائیرپورٹ جاناہےکتنےپیسےلو گے؟"
ٹیکسی ڈرائیور 1000 روپے
"اگر میں اپنے شوہر کو ساتھ لےجاؤں تو کرایہ کیا ہو گا؟"
ٹیکسی ڈرائیور جی 1000 روپے ہی ھونگے
عورت اپنےشوہر کیطرف متوجہ ہوتےہوئے
دیکھا میں نےکہا تھا نا کہ تمہاری اوقات ایک ٹکے کی بھی نہیں ھے


______________________________________________


---
*ابن انشاء*
*اردو کی ابتدائی کتاب*
حساب کے چار بڑے قاعدے ہیں:
جمع، تفریق، ضرب، تقسیم

*پہلا قاعدہ*
*جمع*
جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہیں، خصوصاً مہنگائی کے دنوں میں۔سب کچھ خرچ ہو جاتا ہے، کچھ جمع نہیں ہو پاتا۔جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔عام لوگ کے لیے 1-1\2=1+1کیونکہ 1\2 انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں۔
تجارت کے قاعدے سے جمع کریں تو 1+1 کا مطلب ہے گیارہ۔رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور زیادہ ہو جاتا ہے۔قاعدہ وہی اچھا جس میں حاصل جمع زیادہ سے زیادہ آئے بشرطیکہ پولیس مانع نہ ہو۔ایک قاعدہ زبانی جمع خرچ کا ہوتا ہے۔ یہ ملک کے مسائل حل کرنے کے کام آتا ہے۔ آزمودہ ہے۔

*تفریق*
میں سندھی ہوں، تو سندھی نہیں ہے۔
میں بنگالی ہوں، تو بنگالی نہیں ہے۔میں مسلمان ہوں ، تو مسلمان نہیں ہے۔اس کو تفریق پیدا کرنا کہتے ہیں۔حساب کا یہ قاعدہ بھی قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ تفریق کا ایک مطلب ہے، منہا کرنا، یعنی نکالنا ایک عدد میں سے دوسرے عدد کو۔ بعض عدد از خود نکل جاتے ہیں۔بعضوں کو زبردستی نکالنا پڑتا ہے۔ ڈنڈے مار کر نکالنا پڑتا ہے۔ فتوے دے کر نکالنا پڑتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیے۔جو لوگ زیادہ جمع کر لیتے ہیں، وہی زیادہ تفریق بھی کرتے ہیں۔ انسانوں اور انسانوں میں،مسلمانوں اور مسلمانوں میں۔ عام لوگ تفریق کے قاعدے کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ حاصل تفریق کچھ نہیں آتا، آدمی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔


*ضرب*
تیسرا قاعدہ ضرب کا ہے۔ ضرب کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً ضربِ خفیف، ضربِ شدید، ضرب ِ کاری وغیرہ۔ضرب کی ایک اور تقسیم بھی ہے۔پتھر کی ضرب، لاٹھی کی ضرب، بندوق کی ضرب۔علامہ اقبالؒ کی ضرب ِ کلیم ان کے علاوہ ہے۔حاصل ِ ضرب کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ضرب کس چیز سے دی گئی ہے یا لگائی گئی ہے۔آدمی کو آدمی سے ضرب دیں تو حاصل ضرب بھی آدمی ہی ہوتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ زندہ ہو۔ضرب کے قاعدے سے کوئی سوال حل کرنے سے پہلے تعزیرات ِ پاکستان پڑھ لینی چاہیے۔

*تقسیم*
یہ حساب کا بڑا ضروری قاعدہ ہے۔ سب سے زیادہ جھگڑے اسی پر ہوتے ہیں۔ تقسیم کا مطلب ہے بانٹنا۔اندھوں کا آپس میں ریوڑیاں بانٹنا۔بندر کا بلیوں میں روٹی بانٹنا۔چوروں کا آپس میں مال بانٹنا۔ اہلکاروں کا آپس میں رشوت بانٹنا۔مل بانٹ کر کھانا اچھا ہوتا ہے۔دال تک جوتوں میں بانٹ کر کھانی چاہیے، ورنہ قبض کرتی ہے۔تقسیم کا طریقہ کچھ مشکل نہیں ہے۔حقوق اپنے پاس رکھیے، فرائض دوسروں میں بانٹ دیجیے۔ روپیہ پیسہ اپنے کِیسے میں ڈالیے،قناعت کی تلقین دوسروں کو کیجیے۔
آپ کو مکمل پہاڑا مع گُر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر نہیں ہو سکتی۔ آخر کو ١٢ کروڑ کی دولت کو ٢٢ خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہی ہے۔ کسی کو پتا چلا؟

*ابتدائی الجبرا*
یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے چونکہ طالب علم اس سے گھبراتے ہیں اور یہ *جبراً پڑھایا جاتا ہے، اس لیے الجبرا کہلاتا ہے*
حساب اعداد کا کھیل ہے۔ الجبرا حرفوں کا کھیل ہے۔ ان میں سب سے مشہور حرف ''لا'' ہے۔ جسے 'لا' لکھتے ہیں۔ اس کے معنی کچھ نہیں بلکہ یہ ایسا ہے .... کہ کسی اور لفظ کے ساتھ لگ جائے تو اس کے معنی بھی سلب کر لیتا ہے۔ جس طرح لا مکاں، لادوا، لا ولد وغیرہ۔
بعض مستثنیات بھی ہیں۔ مثلاً لاہور، لاڑکانہ، لالٹین، لالو کھیت وغیرہ۔ اگر ان لفظوں کے ساتھ لا نہ ہو تو ہور، ڑکانہ، لٹین اور لو کھیت کے کچھ معنی نہ نکلیں۔آزمائے کو آزمانا جہل کہتے ہیں۔ لیکن الجبرا میں آزمائے کو ہی آزماتے ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کو نئے سرے سے اب ج سکھاتے ہیں بلکہ ان کے مربعے بھی نکلواتے ہیں۔الجبرا کا ہماری طالب علمی کے زمانے میں کوئی خاص مصرف نہ تھا۔اس سے صرف اسکولوں کے طلبہ کو فیل کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ لیکن آج کل یہ عملی زندگی میں خاصا استعمال ہوتا ہے۔ دکاندار اور گداگر اس قاعدے کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔پیسہ لا، اور لا اور لا۔بعض رشتوں میں الجبرا یعنی جبر کا شائبہ ہوتا ہے ، جیسے : مَدر اِن لا، فادر اِن لا وغیرہ۔
مارشل لاء کو بھی الجبرا ہی کا ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔


*ابتدائی جیومیٹری*
جیومیٹری لکیروں کا کھیل ہے۔ علمائے جیومیٹری کو ہم لکیر کے فقیر کہہ سکتے ہیں۔ دنیا نے اتنی ترقی کر لی، ہر چیز بشمول سائنس اور مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن جیومیٹری والوں کے ہاں اب تک زاویہ قائمہ 90 درجہ کا ہوتا ہے اور مثلث کے اندرونی زایوں کا مجموعہ 180 درجے سے تجاوز نہیں کر پایا۔
امریکہ اور روس ہر معاملہ میں لڑتے ہیں، اس معاملے میں ملی بھگت ہے۔ ہم اپنے ملک میں اپنی پسند کا نظام لائیں گے تو اپنی اسمبلی میں ایک قانون بنوائیں گے، چند درجے ضرور بڑھائیں گے۔ مستطیل بھی پرانے زمانے میں جیسی چورس ہوتی تھی ویسی آج کل ہے۔ گول کرنا تو بڑی بات ہے کسی کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ اس کے چار سے پانچ یا چھ ضلعے کر دے۔ ایک آدھ فالتو رہے تو اچھا ہی ہے۔ مغربی پاکستان کے ضلعوں میں ہم رد و بدل کرتے ہیں تو مستطیل وغیرہ کے ضلعوں میں کیوں نہیں کر سکے۔
جیومیٹری میں بنیادی چیزیں ہیں: خط، نقطہ، دائرہ، مثلث وغیرہ۔ اب ہم تھوڑا تھوڑا حال ان کا لکھتے ہیں:

*خط*
خط کی کئی قسمیں ہیں:
خط ِ مستقیم، بالکل سیدھا ہوتا ہے، اس لیے اکثر نقصان اٹھاتا ہے۔ سیدھے آدمی بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔
*خط ِ منحنی*
یہ ٹیڑھا ہوتا ہے بالکل کھیر کی طرح، لیکن اس میں میٹھا نہیں ڈالا جاتا۔
*خط تقدیر*
اسے فرشتے پکی سیاہی سے کھینچتے ہیں۔ یہ مستقیم بھی ہوتا ہے منحنی بھی۔ اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔
*خط ِ بيرنگ*
اس پر لگانے والے ٹکٹ نہیں لگاتے۔ ہمیں دگنے پیسے دینے پڑتے ہیں۔
*خط ِ شکستہ*
یہ وہ خط ہے جس میں ڈاکٹر لوگ نسخے لکھتے ہیں۔ تبھی تو آج کل اتنے لوگ بیماریوں سے نہیں مرتے جتنے غلط دواؤں کے استعمال سے مرتے ہیں۔
*خط ِ استوا*
یہ اس لیے ہوتا ہے کہ کہیں تودنیا میں دن رات برابر ہوں، کہیں تو مساوات نظر آئے۔
خط کی دو اور قسمیں مشہور ہیں
*حسینوں کے خطوط*
یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں دور، بہت دور افق کے پار جانے کا ذکر ہوتا ہے، جہاں ظالم سماج نہ پہنچ سکے۔ یہ تصویر بتاں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حسینوں کے چہروں پر ہوتے ہیں اور جن کو چھپانے کے لیے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پوڈر وغیرہ صرف کیے جاتے ہیں۔
*متوازی خطوط*
یہ ویسے تو آمنے سامنے ہوتے ہیں، لیکن تعلقات نہایت کشیدہ۔ ان کو کتنا بھی لمبا کھینچ کے لے جائیے یہ کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں ان کو ملانے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ آج کل بڑے بڑے ناممکنات کو ممکن بنا دیا گیا ہے تو یہ کس شمار قطار میں ہیں۔








 
Last edited:
.
تھوڑا مزاح ہو جاے۔

عطاء الحق قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ کنوارے بندے کو یہ بڑا فائدہ ہے کہ وہ بیڈ کے دونوں طرف سے اتر سکتا ہے‘

ٹھیک کہتے ہیں ‘ میں تو کہتا ہوں کنوارے بندے کو یہ بھی بڑا فائدہ ہے کہ وہ رات کو گلی میں چارپائی ڈال کر بھی سو سکتا ہے‘‘ کمرے کی کھڑکیاں ہر وقت کھلی رکھ کر تازہ ہوا کا لطف اٹھا سکتا ہے‘رات کو لائٹ بجھائے بغیر سوسکتاہے۔۔۔
میں جب بھی کسی کنوارے کو دیکھتا ہوں حسد میں مبتلا ہوجاتا ہوں‘
شادی شدہ بندے کی یہ بڑی پرابلم ہے کہ وہ کنوارہ نہیں ہوسکتا‘ البتہ کنوارہ بندہ جب چاہے شادی شدہ ہوسکتاہے۔
ہمارے ہاں کنوارہ اُسے کہتے ہیں جس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ بات شادی شدہ بندے پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے‘ کنوارے تو اِس دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔
فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے‘
وہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا مستحق نہیں ہوتا‘
اُس کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا‘
اُس کے دونوں تکیے اس کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں‘
اُسے کبھی تنخواہ کا حساب نہیں دینا پڑتا‘
اُسے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون نہیں آتا کہ ’’آتے ہوئے چھ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا‘‘۔
اُسے کبھی موٹر سائیکل پر کیرئیر نہیں لگوانا پڑتا‘
اُسے کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا پڑتا‘
اُس کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے‘
اُسے کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور کے چکر نہیں لگانے پڑتے‘
اُسے کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس کا چینل تبدیل کرکے ’’میرا سلطان‘‘ لگا دے گا‘
اُس کے ٹی وی کا ریموٹ کبھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا‘
اُسے کبھی ٹی سیٹ خریدنے کی فکر نہیں ہوتی‘
اسے کبھی پردوں سے میچ کرتی ہوئی بیڈ شیٹ نہیں لینی پڑتی‘
اسے کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت نہیں لینی پڑتی‘
اسے کبھی اپنے موبائل میں خواتین کے نمبرزمردانہ ناموں سے save نہیں کرنے پڑتے‘
اسے کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی‘
اسے کبھی انارکلی بازار میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا‘
اسے کبھی بیڈ روم کے دروازے کا لاک ٹھیک کروانے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘
اسے کبھی ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن بند نہ کرنے کا طعنہ نہیں سننا پڑتا‘
اسے کبھی دو جوتیاں نہیں خریدنی پڑتیں‘
اسے کبھی بیوٹی پارلر کے باہر گھنٹوں انتظار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا‘
اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے جانا پڑتا‘
اسے کبھی اپنے براؤزر کی ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘
اسے کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا‘
اسے کبھی کسی کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں
اسے کبھی آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی‘
اسے کبھی موٹر سائیکل کے دونوں شیشے نہیں لگوانے پڑتے‘
اسے کبھی سٹاپ پر موٹر سائیکل گاڑیوں سے پرے نہیں روکنی پڑتی‘
اسے کبھی نہیں پتا چلتا کہ اس کا کون سا رشتہ دار کمینہ ہے‘
اسے کبھی اپنے گھر والوں کی منافقت اور برائیوں کا علم نہیں ہونے پاتا‘
اسے کبھی اپنے گھرکے ہوتے ہوئے کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘
اسے کبھی بہنوں بھائیوں سے ملنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی‘
اسے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑنے پڑتے‘
اسے کبھی ماں کو غلط نہیں کہنا پڑتا‘
اس کی کنگھی اور صابن پر کبھی لمبے لمبے بال نہیں ملتے‘
اسے کبھی بدمزہ کھانے کو اچھا نہیں کہنا پڑتا‘
اسے کبھی میٹھی نیند کے لیے ترسنا نہیں پڑتا‘
اسے کبھی سردیوں کی سخت بارش میں نہاری لینے نہیں نکلنا پڑتا‘
اسے کبھی کمرے سے باہر جاکے سگریٹ نہیں پڑتا‘
اسے کبھی چھت کے پنکھے صاف نہیں کرنے پڑتے‘
اسے کبھی ’’پھول جھاڑو‘‘ خریدنے کی اذیت سے نہیں گذرنا پڑتا‘
اسے کبھی پیمپرزنہیں خریدنے پڑتے
اسے کبھی کھلونوں کی دوکانوں کے قریب سے گذرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا‘
اسے کبھی صبح ساڑھے سات بجے اٹھ کر کسی کو سکول چھوڑنے نہیں جانا پڑتا
اسے کبھی اتوار کا دن چڑیا گھر میں گذارنے کا موقع نہیں ملتا
اسے کبھی باریک کنگھی نہیں خریدنی پڑتی‘
اسے کبھی سستے آلوخریدنے کے لیے چالیس کلومیٹر دور کا سفر طے نہیں کرنا پڑتا‘
اسے کبھی الاسٹک نہیں خریدنا پڑتا‘
اسے کبھی سبزی والے سے بحث نہیں کرنا پڑتی‘
اسے کبھی فیڈر اور چوسنی نہیں خریدنی پڑتی‘
اسے کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رکھنی پڑتی‘
اسے کبھی پیٹی کھول کر رضائیوں کو دھوپ نہیں لگوانی پڑتی‘
اسے کبھی دال ماش اور کالے ماش میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی‘
اسے کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا پڑتا‘
اسے کبھی اپنی فیس بک کا پاس ورڈ کسی کو بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘
اسے کبھی گھر آنے سے پہلے موبائل کے سارے میسجز ڈیلیٹ کرنے کی فکر نہیں ہوتی‘
اسے کبھی ہیرکلپ نہیں خریدنا پڑتے‘
اسے کبھی موٹر کا پٹہ بدلوانے کی فکر نہیں ہوتی‘
اسے کبھی اچھی کوالٹی کے تولیے لانے کی ٹینشن نہیں ہوتی‘
اسے کبھی کسی کے خراٹے نہیں سننے پڑتے‘
اسے کبھی نیند کی گولیاں نہیں خریدنی پڑتیں ‘
اسے کبھی سکول کی فیس ادا کرنے کا کارڈ نہیں موصول ہوتا‘
اسے کبھی کرکٹ میچ کے دوران یہ سننے کو نہیں ملتا کہ ’’آفریدی اتنے گول کیسے کرلیتا ہے؟‘‘ ۔۔۔
کسی سینئر کنوارے کا شعر ہے کہ۔۔۔!!!
’’ہم سے بیوی کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کوبھی تمنا تھی کہ بیاہے جاتے​
 
. . . . . . .
Back
Top Bottom