ایک گاؤں میں ورموکس (vermox) پیٹ کے کیڑے مارنے کی دوا بہت بکنے لگی۔ پورے ضلعے جتنی ورموکس صرف اسی ایک گاؤں میں بک رہی تھی۔
دوا بنانے والی کمپنی بھی حیرت زدہ رہ گئی۔ کمپنی کے ایم ڈی نے خود گاؤں وزٹ کرنے کی ٹھان لی۔مصیبتیں جھیل کر، دھکے کھا کر، گرمی میں صحرائی گاؤں گیا تو پتہ چلا کہ کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہے، واحد عطائی طبیب ہے، جو کسی ڈاکٹر کے پاس رہنے کے بعد یہاں پریکٹس کرنے لگا تھا۔
کمپنی کے بندے نے اپنا تعارف کرایا اور آنے کی وجہ بتائی تو عطائی نے اسکو وہیں خاموش بیٹھنے کا کہا اور مریض دیکھنا شروع کردیئے۔
پہلا مریض آیا۔بولا کہ کل باسی روٹی کھالی تھی تو اب میرے پیٹ میں درد ہے۔ عطائی نے، نسخے میں ورموکس لکھی اور بھیج دیا۔
دوسرا آدمی چوٹ کے ساتھ آیا۔ بولا کہ کھجور کے اوپر چڑھا تھا ،گرگیا۔ عطائی نے اسکو بھی ورموکس لکھ دی۔
تیسرا آدمی ناک پہ چوٹ کے ساتھ آیا ۔بولا کہ بھینس کا دودھ نکال رہا تھا تو بھینس نے ٹانگ ماردی۔ عطائی نے اسکو بھی ورموکس تجویز کرکے بھیج دیا۔
کمپنی کا ایم ڈی بول اٹھا کہ ان سب کو ورموکس کی کیوں ضرورت پڑی۔؟۔
عطائی؛ پہلے بندے کو کیڑا تھا تو باسی روٹی کھالی۔ دوسرے کو کیڑا تھا، تو کھجور پہ چڑھ دوڑا۔ تیسرے کو بھی کیڑا ہی تھا کہ بھینس کی ٹانگ کے پاس بیٹھ گیا۔ غرض، یہاں ہر کسی کو خود ہی کیڑا ہوتا ہے جو مرض پیدا کرتا ہے۔
کمپنی کا ایم ڈی ،خاموشی سے اٹھ کر جانے لگا، تو عطائی نے ایک پرچہ پہ "ورموکس" لکھ کر اسکے ہاتھ میں بھی تھما دیا۔
ہائیں ! مجھے کیوں ورموکس۔؟۔
عطائی: اچھی خاصی تمہاری دوا بک رہی تھی تو تمہیں سکون کرنا چاہئیے تھا۔
مگر تمہیں بھى کیڑا تھا، جس نے بیٹھنے نہ دیا، اتنی تکلیفیں جھیل کر اتنے دور دراز گاؤں آن دھمکے۔*
-----------------------------------------------
*اچھا خاصا ملک چل رھا تھا ہمیں بھی تبدیلی کے کیڑے نے کچھ اسی طرح ہی کاٹا تھا۔*
(منقول)