What's new

Secularists should 'mend ways or leave country', says PTI lawmaker

The document I posted doesn't say anything like what you are saying.

You posted an interview of Jinnah (post#423) in which he talks about an Islamic State. I pointed it out to you that those who translated (into English) the Bazm-e-Tolu-e-Islam Udru article (that published the urdu version/translation of this interview citing Orient Press news agency as the original source) have themselves admitted that they have never been able to locate the original English transcript of this interview reported by the Orient Press. In other words, there is absolutely no proof whatsoever that Jinnah actually said what is being attributed to him by Bazm-e-Tolu-e-Islam. Hope that helps
 
Last edited:
You posted an interview of Jinnah (post#423) in which he talks about an Islamic State. I pointed it out to you that those who translated (into English) the Bazm-e-Tolu-e-Islam Udru article (that published the urdu version/translation of this interview citing Orient Press news agency as the original source) have themselves admitted that they have never been able to locate the original English transcript of this interview reported by the Orient Press. In other words, there is absolutely no proof whatsoever that Jinnah actually said what is being attributed to him by Bazm-e-Tolu-e-Islam. Hope that helps

To clear your doubts about Jinnah, go to his 'guide and inspiration' (as Jinnah said of Iqbal)! Any doubts you have will be cleared after reading Iqbal and his 1930 speech.

It was Iqbal's vision that Jinnah materialised.
 
Both the alleged speech made at Hyderabad and the "laboratory of Islam" speech allegedly made by our beloved Qaid have been demonstrated to be hoaxes by my very dear friend- the world famous lawyer and historian Mr Yasser Latif Hamdani, who is well known as the Sole Spokesman of Jinnah sahib.

Regards
 
To clear your doubts about Jinnah, go to his 'guide and inspiration' (as Jinnah said of Iqbal)! Any doubts you have will be cleared after reading Iqbal and his 1930 speech.

It was Iqbal's vision that Jinnah materialised.

I have no doubts about Jinnah and his vision. You guys are a confused lot who hold Jinnah in high regard but follow his ideological opponents (i.e. Maududi & co)

Both the alleged speech made at Hyderabad and the "laboratory of Islam" speech allegedly made by our beloved Qaid have been demonstrated to be hoaxes by my very dear friend- the world famous lawyer and historian Mr Yasser Latif Hamdani, who is well known as the Sole Spokesman of Jinnah sahib.

Regards

Any link/reference will be highly appreciated. Regards
 
دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز
==============
ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی "مجبوری" ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 711 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ" الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو" نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ "غلبہ اسلام" کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز "دوقومی نظریے" کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو "نظریاتی" اور "اسلامی" ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
.
@Khafee @Verve @Zarvan @My-Analogous
 
دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز
==============
ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی "مجبوری" ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 711 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ" الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو" نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ "غلبہ اسلام" کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز "دوقومی نظریے" کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو "نظریاتی" اور "اسلامی" ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
.
@Khafee @Verve @Zarvan @My-Analogous
Very true
 
دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز
==============
ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی "مجبوری" ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 711 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ" الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو" نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ "غلبہ اسلام" کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز "دوقومی نظریے" کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو "نظریاتی" اور "اسلامی" ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
.
@Khafee @Verve @Zarvan @My-Analogous


The author of this article is absolutely clueless on what the Two Nation Theory is, and why was this unIslamic theory rejected by Mullahs and clerics of all Muslim sects.


During the struggle for the freedom, the most important issue which concerned Muslim Scholars (and political activists) was about the national and religious identity of Indian Muslims and their position in the future India ...


Hussain Ahmed Madani (The Rector of Darul Uloom Deoband) and many others advocated "Composite Nationalism", (i.e. despite cultural, linguistic and religious differences, the people of India were but one nation). The proponents of composite nationalism believed/argued that this idea was consistent with the teachings of the Holy Quran and that the Prophet (PBUH) himself had set a practical example of Composite Nationalism when he signed the Constitution of Medina (Meesaq-e-Medina)



Then there were those who advocated the idea of "Muslim Nationalism in India" ... This idea formed the basis of the Two Nation Theory ... This idea/theory implies/implied that We were Muslims before being Indian ... And We were Indian before being (Non-Indian) Muslim ... This theory created and propounded by modernist and reformist Muslims (like Sir Syed) was inspired by Western Political Theories (of John Lock, Thomas Paine, Milton etc.).... It in a way advocated a Pan-Islamism that was restricted by geographical boundaries of the Nation state (of India, and now Pakistan).


And there were others (like Maududi) who were of the view that neither Composite Nationalism nor Muslim Nationalism were Islamic in their orientation, therefore, they warned the Muslims of the sub-continent to be beware of both. Few of them advocated "Pan-Islamism"


I believe the Pakistani nationalist ideology is very unique, and (for the Pakistani Muslims at least) Pakistani Nationalism and Islam are not mutually exclusive ..... I for one do not prioritize a Pakistani identity over Muslim identity (or vice versa). But there are those who claim to be Pakistani First, and then there are those who say that they are Muslim First. Both these claims are consistent with TNT as the TNT has both ingredients; Pan-Islamic and Nationalist. But as it is Pan-Islamism that is restricted by the Nation State boundary (and not the other way around), "Pakistani First" is the more valid position.
 
Last edited:
The author of this article is absolutely clueless on what the Two Nation Theory is, and why was this unIslamic theory rejected by Mullahs and clerics of all Muslim sects.


During the struggle for the freedom, the most important issue which concerned Muslim Scholars (and political activists) was about the national and religious identity of Indian Muslims and their position in the future India ...


Hussain Ahmed Madani (The Rector of Darul Uloom Deoband) and many others advocated "Composite Nationalism", (i.e. despite cultural, linguistic and religious differences, the people of India were but one nation). The proponents of composite nationalism believed/argued that this idea was consistent with the teachings of the Holy Quran and that the Prophet (PBUH) himself had set a practical example of Composite Nationalism when he signed the Constitution of Medina (Meesaq-e-Medina)



Then there were those who advocated the idea of "Muslim Nationalism in India" ... This idea formed the basis of the Two Nation Theory ... This idea/theory implies/implied that We were Muslims before being Indian ... And We were Indian before being (Non-Indian) Muslim ... This theory created and propounded by modernist and reformist Muslims (like Sir Syed) was inspired by Western Political Theories (of John Lock, Thomas Paine, Milton etc.).... It in a way advocated a Pan-Islamism that was restricted by geographical boundaries of the Nation state (of India, and now Pakistan).


And there were others (like Maududi) who were of the view that neither Composite Nationalism nor Muslim Nationalism were Islamic in their orientation, therefore, they warned the Muslims of the sub-continent to be beware of both. Few of them advocated "Pan-Islamism"


I believe the Pakistani nationalist ideology is very unique, and (for the Pakistani Muslims at least) Pakistani Nationalism and Islam are not mutually exclusive ..... I for one do not prioritize a Pakistani identity over Muslim identity (or vice versa). But there are those who claim to be Pakistani First, and then there are those who say that they are Muslim First. Both these claims are consistent with TNT as the TNT has both ingredients; Pan-Islamic and Nationalist. But as it is Pan-Islamism that is restricted by the Nation State boundary (and not the other way around), "Pakistani First" is the more valid position.
Like article almost you engaging with are clueless They just take few words Seculars Liberals and trying to prove nothing but existence of those above two words. They trying hard to prove Jinnah was not secular or moderate Muslim but not seeing his practical life. When a head of state chose An Ahmdi his first foreign Minister and select a Hindu as and a Christian as Chief of Army telling loud enough he doesn't want state involve in religion.

The first cabinet of Pakistan took oath on 15th August 1947. It included the following members:
Liaquat Ali Khan Prime Minister, Minister for Foreign Affairs and Defense
I.I. Chundrigar Minister for Commerce, Industries and Works
Sardar Abdur Rab Nishtar Minister for Communications
Raja Ghazanfar Ali Minister for Food, Agriculture and Health (In December he was shifted to Evacuee and Refugee Rehabilitation).
Jogendra Nath Mandal Minister for Labour and Law
Ghulam Muhammad Minister for Finance
Fazlur Rahman Minister for Interior, Information and Education
In December Muhammad Zafrullah Khan was inducted as Minister for Foreign Affairs and Common wealth relations and Abdus Sattar Pirzada was given the portfolio of Food, Agriculture and Health. Raja Ghazanfar Ali’s ministry was changed and he was made in charge of the Ministry of Evacuee and Refugee Rehabilitation.
 
الحاد اور حب الوطنی
کیا ایک ملحد "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کا وفادار ہوسکتا ہے؟
یہ قطعی ناممکن ہے کہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام راتوں رات "لبرل یا دہریے" بن جائیں اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ چند اینکرز یا فیس بک کے چند پیجز یا کچھ زرخرید کالم نویسوں یا چند سیاستدانوں کے بل بوتے پر پورے ملک میں اسلام دشمنی کا بیج بو سکتا ہے تو یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں مذہب اتنی شدت سے راسخ ہے کہ بعض اوقات خود مذہبی علما بھی اپنے عوام کی شدت اور مذہبی حالت دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔
عوام کے ذہنوں میں جو کچھ غلط صحیح اسلام موجود ہے وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں، چاہے وہ نقلی پیروں کے ہاتھوں عقیدت سے لٹتے رہیں یا آتش فشاں خطیبوں کے جملوں سے اپنے ذہنوں میں تعصب کی چنگاریاں بھر کرفریق مخالف سے نفرت پر مجبور ہوتے رہیں، وہ یہ سب گوارا کرلیتے ہیں لیکن اپنے ذہنوں میں موجود اسلام پر کوئی کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔(اگر کوئی "ملحد مجاہد" ان ساری چیزوں کو جہالت سمجھ کراسے الحاد کی روشنی سے زائل کرنے کا سوچتا ہے اور جدید ترین طریقے بھی بروئے کار لاتا ہے تو اسے کم ازکم دوتین سو سال لگاتار محنت کرنی پڑے گی تب جاکر سولہ کروڑ عوام جو شاید دوتین سو سال بعد اربوں کی تعداد میں ہوں اپنے عقیدے بدلنے کے بارے میں تیار ہوں)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب وہ معمولی معمولی عقیدوں کو ترک نہیں کرتے تو وہ سب سے بنیادی عقیدہ جس پر تمام عقیدوں کی اساس ہے کیسےترک کر سکتے ہیں کہ "اللہ کوئی نہیں"
پاکستان کی بنیادوں میں اسلام ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ اقوام عالم کی نظر میں پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور پاکستانی عوام کو اس پر فخر ہے۔ لبرل ہزار بار شور مچاتے رہیں کہ نظریہ پاکستان غلط تھا، دوقومی نظریہ غلط تھا یا قائد اعظم خود لبرل تھے، بہرحال پاکستان سے وفاداری کی پہلی سیڑھی ہی اسلام ہے۔کیونکہ اسلام بذات خود حب الوطنی کا سبق دیتا ہے۔
ایک ملحد جب فیس بک سے لاگ آؤٹ ہو کرگھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے قدم قدم پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام نظر آتے ہیں۔جن میں سے ایک کثیر تعداد نے داڑھیاں رکھی ہوتی ہیں، عورتوں نے نقاب یا برقعے پہنے ہوتے ہیں۔ مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں آتی ہیں ، یہ سب دیکھ کر غصے کے مارے اس کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور وہ ہزاردانہ تسبیح نکال کردل ہی دل میں "جہالت جہالت" کاورد شروع کردیتا ہے("جاہل "اور" جہالت" ملحدین کے مرغوب ترین الفاظ ہیں) اسلامی تہواروں کے موقع پر ملحداپنے آپ کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں،رمضان مبارک میں چوبیس گھنٹے ان کا حلق خشک اور منہ سے جھاگ نکلتی رہتی ہے، مسلمان اتنی بھوک پیاس محسوس نہیں کرتے جتنی ملحد گرمی اور جلن محسوس کرتے ہیں۔
ان سارے عوامل کے پیش نظر ملحدین چاہتے ہیں کہ پاکستان سے اسلام کو دیس نکالا دیا جائے، یہاں بھی کمال اتاترک ٹائپ کا انقلاب لایا جائےلیکن اپنی مسلسل کوشش اور ہر محاذ پر منہ کی کھانے کے بعد وہ براہ راست پاکستان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔اور اس دشمنی کا اظہار وہ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں
"انڈیا سے الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آج کم ازکم ہم سیکولر تو ہوتے"
"اسرائیل کو نہ مان کر پاکستان عالمی برادری میں بدنام ہوچکا ہے"
"کھانے کو کچھ نہیں اور پاکستان بم پہ بم بناتا جارہا ہے"
"پاک فوج ہماری معیشت کھا گئی "
ملحدین چاہتے ہیں یہاں سیکولر انقلاب آئے،اور اس کا جو طریقہ انہوں نے اپنایا ہوا ہے وہ واقعی قابل تشویش ہے۔اگر ملک میں بدامنی ، دنگا فساد ہوگا تو انقلاب کی راہ ہموار ہوگی، اگر عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا ہوگی تو انقلاب کی راہ ہموار ہوگی، یقین کیجیے پاکستان میں بم دھماکے ہوں، خودکش بمبار خود کو اڑائیں تو سب سے زیادہ خوش ہونے والی قوم ملحدین کی ہوتی ہے، یہ ایک تیر سے دوشکار کرتے ہیں۔
فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے، عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے درد بھری پوسٹوں کی بھرمار کرکے سارا ملبہ مولویوں اور اسلام پر ڈالنے کا گولڈن چانس مل جاتا ہےاور پاکستان تو کمزور ہوتا ہی ہے، اس کی خوشی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
کیا ہم ملحدین کو محب وطن پاکستانی کہہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ٹولہ پاکستان اور اسلام کا بدترین دشمن ہے۔جو کھاتے پاکستان کا ہیں، سہولیات پاکستان کی استعمال کرتے ہیں اور پاکستانی اداروں میں ملازمتیں بھی کرتے ہیں لیکن جس پلیٹ سے کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق جو نسلیں غیر موافق حالات کا سامنا کریں وہ ختم ہوجاتی ہیں، پاکستان کا ماحول اور حالات الحاد کے لیے قطعی غیر موافق ہیں، اس لیے ملحدین کو چاہیئے کہ یا تو وہ موافق ماحول میں خود کو ڈھال کر پاکستان دشمنی ترک کردیں یا پھر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں سے کوچ کرجائیں اور ایسے ملک میں رہیں جہاں کے حالات ان کے موافق ہوں۔
ثوبان تابش
 
ملحدین کو چاہیئے کہ یا تو وہ موافق ماحول میں خود کو ڈھال کر پاکستان دشمنی ترک کردیں یا پھر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں سے کوچ کرجائیں اور ایسے ملک میں رہیں جہاں کے حالات ان کے موافق ہوں

So Mr. Taabish is parroting exactly what the PTI MNA said in the OP. If a majority of people do indeed think this way, then things will progress quite predictably to demands for a complete theocracy. If that is what the people want, then they should indeed have it.
 

Country Latest Posts

Back
Top Bottom