they say that Indian navy ships bombed Karachi... can someone explain the extent of that attack?
@MM_Haider if you could read the Urdu language, a much detailed description is here:
سقوط ڈھاکہ کے 50 سال: 1971 کی پاکستان انڈیا جنگ میں جب پاکستانی آبدوز ہنگور نے نئی تاریخ رقم کر دی
9 دسمبر 2021، 09:47 PKT
،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMAD TASNEEM
،تصویر کا کیپشن
ہنگور آبدوز کو کراچی کی بندرگاہ میں دیکھا جا سکتا ہے
یہ نو دسمبر 1971 کی رات تقریباً سات بجے کا وقت تھا۔ انڈین نیوی کے 45 سالہ کپتان مہندرا ناتھ ملا اپنے جنگی بحری جہاز آئی این ایس 'کھکری' میں ریاست گجرات کے قریب دیو ہیڈ کے ساحلی علاقے میں ایک پاکستانی آبدوز کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس تلاش میں ان کے ساتھ آئی این ایس کرپان نامی فریگیٹ جنگی جہاز بھی شامل تھا۔
کیپٹن ملا اس بات سے بے خبر تھے کہ جس آبدوز کو وہ تلاش کر رہے ہیں وہ ان سے کچھ ہی فاصلے پر گھات لگائے ان کا انتظار کر رہی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کا سامنا ہونے والا تھا۔ یہ پاکستان نیوی کی ڈیفنی کلاس آبدوز پی این ایس ہنگور تھی جسے 36 سالہ احمد تسنیم کمان کر رہے تھے۔ اس لمحے میں شاید دونوں کپتان ہی نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔
بی بی سی نے پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل احمد تسنیم سے اس تاریخی معرکے کے 50 سال مکمل ہونے پر گفتگو کی جن کا ہنگور آبدوز تک پہنچنے کا سفر 1963 میں راولپنڈی کے آرمی ہاؤس میں صدر ایوب خان کے ایک جملے سے شروع ہوا۔
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
’صدر ایوب نے کہا جاؤ، یہاں کیوں وقت ضائع کر رہے ہو‘
1963 میں لیفٹینینٹ احمد تسنیم صدر ایوب خان کے اے ڈی سی تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان کو امریکہ سے پہلی آبدوز ملنے والی ہے۔ وہ اس سے پہلے برطانیہ کے شہر ڈارٹمتھ میں ٹریننگ کے دوران ایک آبدوز دیکھ کر اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے لیکن اس وقت پاکستان کے پاس کوئی آبدوز نہیں تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں صدر ایوب خان کے ملٹری سیکرٹری کے پاس گیا کہ مجھے نیوی کی آبدوز سروس میں جانے کی اجازت دی جائے۔‘ اس وقت لیفٹینینٹ احمد تسنیم کی بطور اے ڈی سی ایک سال کے لیے مزید تعیناتی ہو چکی تھی۔ صدر ایوب خان کے ملٹری سیکرٹری کی جانب سے جواب ملا کہ وہ خود صدر سے بات کر لیں۔
’میں نے تھوڑا انتظار کیا کہ دیکھیں کس دن صدر کا موڈ کچھ اچھا ہو تو ان سے بات کروں۔ ایک دن ایسا موقع ملا تو میں نے صدر ایوب خان سے درخواست کر دی۔ میں نے کہا سر مجھے بہت شوق ہے اور اب ایک آبدوز آ بھی رہی ہے تو مجھے اجازت دیں کہ میں سب میرین سروس جوائن کر لوں۔‘
وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا صدر ایوب خان انھیں کہیں گے کہ ابھی انتظار کریں لیکن جواب ملا کہ 'احمد تم پروفیشنل افسر ہو۔ یہاں کیوں وقت ضائع کر رہے ہو۔ جاؤ اپنی سروس جوائن کرو۔‘
یہ آبدوز غازی تھی جس کے پہلے عملے میں احمد تسنیم بھی شامل ہوئے اور بعد میں 1965 کی جنگ میں غازی کے سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔
سنہ 1971 کی جنگ سے پہلے انھیں فرانس سے حاصل کردہ تین نئی ڈیفنی کلاس آبدوزوں میں سے ایک ’ہنگور‘، جس کا مطلب ہے شارک، کی کمان مل گئی۔
’میں نے انڈین نیوی کی کچھ کمزوریاں پکڑ لیں‘
نومبر 1971 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کے آثار واضح ہو چکے تھے۔ ایسے میں پاکستان نیوی نے غازی سمیت تمام آبدوزوں کو جنگ سے پہلے ہی ممکنہ اہداف پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
وائس ایڈمرل احمد تسنیم کے مطابق انھیں بمبئی کا ساحلی علاقہ دیا گیا تھا۔ یہ علاقہ ان کے لیے نیا نہیں تھا۔ اس سے پہلے وہ اگست کے مہینے میں ایک مشق کے دوران یہاں پٹرولنگ کر چکے تھے۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMAD TASNEEM
،تصویر کا کیپشن
1963 میں لیفٹینینٹ احمد تسنیم صدر ایوب خان کے اے ڈی سی تھے
'اس مشق کا مقصد یہ تھا کہ انٹیلیجنس حاصل کی جائے اور یہ جانچا جائے کہ انڈیا کے بحری جہاز کس طرح پٹرولنگ کرتے ہیں، وہاں پر پانی کی کیفیت کیسی ہے۔‘
احمد تسنیم کے مطابق 'اس دوران انھیں تین چار ایسی معلومات حاصل ہوئیں جن کا بعد میں فائدہ ہوا۔ کس جگہ ریڈار ہے، کس جگہ پر پانی کی گہرائی کتنی ہے اور کیسے ریڈار سے بچا جا سکتا ہے۔‘
لیکن اس سے پہلے کہ ہنگور بمبئی کے قریب پہنچتی، کمانڈر احمد تسنیم کو ایک بڑی مشکل نے گھیر لیا۔
’انڈین نیوی کا جنگی جہاز سمجھا کہ ہنگور ماہی گیروں کی کشتی ہے‘
احمد تسنیم کے مطابق بمبئی پہنچنے سے پہلے ہی ان کی آبدوز کے ایئرکنڈیشنر کے پلانٹ کا پمپ خراب ہو گیا جو سمندر سے پانی لے کر آبدوز کو ٹھنڈا رکھتا تھا۔ یہ خرابی صرف بندرگاہ پر ہی ٹھیک ہو سکتی تھی کیوں کہ انھیں آبدوز کو سمندر کی سطح سے اوپر لانا پڑتا۔
’آپ یوں سمجھیں گے آبدوز ایک تھرمس کی طرح ہے جس میں اگر ایئرکنڈیشنر کام نہ کر رہا ہو تو نمی بڑھ جاتی ہے جس سے آبدوز کے آلات صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس پمپ میں جہاں سے پانی آتا تھا وہ آبدوز کی نچلی طرف تھا۔‘
ہنگور کے عملے سے مشورے کے بعد احمد تسنیم نے ایک خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ ’ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے واپس جانے کے ہم اس خرابی کو سمندر میں رہتے ہوئے ہی ٹھیک کریں گے۔ یہ ایک خطرہ تو تھا لیکن ہم انڈیا کے ساحل سے کافی دور سمندر میں چلے گئے۔‘
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوا کہ اگر آبدوز کو سطح پر لایا گیا اور انڈیا کا کوئی جہاز قریب سے گزرا تو کیا ہو گا؟ احمد تسنیم نے اس کا ایک توڑ نکالا۔
’میں نے رات کے وقت آبدوز کو ایک ایسے رخ پر سمندر کی سطح پر لٹایا جس سے وہ پمپ پانی سے باہر آگیا۔ نیوی کی زبان میں ہم اسے لسٹنگ کہتے ہیں۔ احتیاطی طور پر ہم نے آبدوز کے باہر بتیاں لگا کر اسے ایسی شکل دی جس سے دور سے یہ ایک ماہی گیروں کی کشتی لگے اور آبدوز کے عملے نے پمپ پر کام کرنا شروع کر دیا۔‘
،تصویر کا کیپشن
پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل احمد تسنیم
’ڈائیو کرتا تو انڈیا کا جہاز ہمیں ڈبو دیتا‘
ابھی پمپ درست ہو رہا تھا کہ احمد تسنیم کو اچانک آواز آئی ’کیپٹن، برج‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ ایمرجنسی ہے کپتان فورا آبدوز کے برج پر پہنچیں۔ احمد تسنیم کہتے ہیں کہ ابھی وہ نکلے ہی تھے کہ ان کے ٹیلی گراف انچارج بشیر کا پیغام ملا ’سر، کنفرمڈ وار شپ کالنگ کوسٹل کمانڈ نیٹ‘ یعنی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ انڈین بحریہ کا ایک جنگی جہاز ان کے قریب پہنچ چکا تھا۔
اس خطرناک صورت حال سے بچنے کے لیے آبدوز کے باہر موجود واچ آفیسر نے فوراً سمندر کے نیچے جانے کی اجازت مانگی لیکن احمد تسنیم نے انکار کر دیا۔
’اس نے ایک بار پھر کہا جس پر میں نے پھر انکار کر دیا۔ میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر میں نے ابھی ڈائیو کیا تو انڈین جنگی جہاز کو اس بات کی تصدیق ہو جائے گی یہ کوئی آبدوز ہے اور ڈائیو کے دوران اس نے فائر کیا تو نوے فیصد اس بات کا امکان تھا کہ آبدوز ہٹ ہو گی لیکن اگر میں ڈائیو نہ کروں تو کم از کم پچاس فیصد امکان ہے کہ وہ فشنگ بوٹ ہی سمجھ کر واپس چلا جائے گا کیوں کہ یہ رات کا وقت تھا۔ میں نے سوچا میں یہ رسک لیتا ہوں۔‘
احمد تسنیم کا یہ رسک خطرناک ثابت ہو سکتا تھا لیکن انڈین جنگی جہاز تقریباً ایک ہزار گز کی دوری سے سرچ لائٹ کے ذریعے ہنگور کا جائزہ لے کر واپس لوٹ گیا۔ یاد رہے کہ یہ رات کا وقت تھا اور ابھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ احمد تسنیم کا ماننا ہے کہ انڈین جہاز کو یہی لگا کہ یہ کوئی مچھیروں کی کشتی ہے۔
’انڈین جنگی جہاز کراچی کی طرف جارہے تھے‘
ہنگور کا ایئرکنڈیشن پمپ ٹھیک ہونے کے بعد احمد تسنیم نے بمبئی کا رخ کیا جہاں ان کو جانے کا حکم ملا تھا۔
اسی سفر کے دوران انھوں نے ایک انڈین جنگی بحری بیڑے کو دیکھا جو ان کے خیال میں بمبئی سے کراچی کی سمت جا رہا تھا۔
ابھی جنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا اور نہ ہی انھیں نیول ہیڈکوارٹر سے کوئی حکم ملا تھا کہ وہ کسی بھی انڈین جہاز کو نشانہ بناتے۔ کپتان احمد تسنیم نے محسوس کیا کہ انھیں کم از کم ان جہازوں سے متعلق کراچی ہیڈ کوارٹر کو خبردار کر دینا چاہیے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’دو یا تین دسمبر کی رات ہمیں چھ انڈین بحری جنگی جہاز، جن کا رخ کراچی کی طرف تھا، نظر آئے۔ میں نے ریڈیو سائلنس بریک کی اور نیول ہیڈ کوارٹر کو کوڈ ورڈ میں بتایا کہ اتنے جہاز بمبئی سے نکلے ہیں اور ان کا رخ کراچی کی جانب ہے۔ یہ بھی ایک رسک تھا لیکن میرے خیال میں مجھے نیول ہیڈ کوارٹر کو بتانا چاہیے تھا۔‘ ان کا خدشہ درست ثابت ہوا کیوں کہ دو دن بعد ہی جنگ چھڑ گئی۔
،تصویر کا ذریعہAHMAD TASNEEM
انڈین نیوی کو ہنگور کی موجودگی کا علم ہو گیا تھا؟
چار دسمبر کو کپتان احمد تسنیم کو وہ پیغام موصول ہوا جس کا وہ اب تک انتظار کر رہے تھے۔ جنگ شروع ہو چکی تھی اور انھیں انڈین نیوی کے جہازوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دی جا چکی تھی۔
اس وقت ہنگور آبدوز بمبئی کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈیو سائلنس بریک کرنے سے عین ممکن ہے کہ انڈین نیوی کو ان کی پوزیشن معلوم ہو گئی ہو لیکن اگلے تین دن تک اس علاقے میں انھیں کوئی انڈین بحری جہاز نظر نہیں آیا۔
احمد تسنیم نے بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ انڈین بحریہ کو یہ معلوم تھا کہ ان کی آبدوز وہاں موجود ہے اسی لیے انڈین نیوی کے جہاز اس علاقے میں نہیں آ رہے تھے۔
کیپٹن احمد تسنیم نے یہ صورتحال جانچ کر اپنا علاقہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
’میں نے نیول ہیڈ کوارٹر کو درخواست کی کہ مجھے مزید شمال میں جانے کی اجازت دی جائے اور سات یا آٹھ دسمبر کو ہنگور بمبئی کے شمال میں انڈیا کی گجرات ریاست کے دیو ہیڈ کے علاقے میں پہنچ گئی۔‘
تاہم انڈین آرمی کے ریٹائرڈ میجر جنرل این کورڈوزو اپنی کتاب ’دی سنکنگ آف آئی این ایس کھکری: سروائیورز ٹیلز‘ میں کچھ اور دعویٰ کرتے ہیں۔
ان کے مطابق تقریباً پانچ دسمبر کے قریب انڈین نیوی کو معلوم ہوا کہ ایک پاکستانی آبدوز دیو ہیڈ سے 16 ناٹیکل میل دوری پر موجود ہے جس کے بعد انڈین نیول ہیڈ کوارٹر نے اس آبدوز کی تلاش کے لیے تین جہازوں پر مشتمل خصوصی ٹیم تشکیل دی جس کی کمان کیپٹن مہندرا ناتھ ملا کو سونپی گئی جو کمانڈر ایف چودہ سکواڈرن تھے۔
کتاب کے مطابق اس ہنٹر کلر گروپ میں کیپٹن ملا کا اینٹی سب میرین جہاز کھکری، کرپان اور کتھر شامل تھے لیکن یہ تیسرا جہاز خراب ہو گیا۔
،تصویر کا ذریعہGOVT OF INDIA
،تصویر کا کیپشن
آئی این ایس کھکری
انڈین نیوی کے جہاز کی وہ غلطی جو مہنگی ثابت ہوئی
این کورڈوزو کے مطابق انڈین نیوی کے دونوں جہاز، کھکری اور کرپان، تیز رفتار تھے اور اینٹی سب میرین صلاحتیں رکھتے تھے۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاکستانی آبدوز کی قسم کیا ہے اور وہ کتنی گہرائی تک باآسانی آ سکتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے زیادہ گہرے پانی میں جانے کی بجائے ساحل کے قریب رہ کر اپنی تلاش کا آغاز کر دیا۔
ادھر ہنگور میں کپتان احمد تسنیم بھی اب دونوں جہازوں کو دیکھ سکتے تھے لیکن تارپیڈو فائر کرنے کے لیے انھیں جہازوں کے نزدیک جانا پڑتا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'آٹھ دسمبر کی صبح ہم نے سینسرز سے معلوم کیا کہ انڈیا کے دو یا تین جہاز موجود ہیں لیکن وہ کم گہرے پانی میں پھر رہے تھے کیوں کہ ان کو علم تھا کہ ڈیفنی کلاس آبدوز کم پانی میں نہیں آ سکتی۔‘
ایسے میں احمد تسنیم نے غور سے جہازوں کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کیا ان کی کوئی ایسی کمزوری ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 1971 میں پاکستان اور انڈیا کی بحریہ کامن ویلتھ کی کتابیں ہی استعمال کرتی تھیں جس کا مطلب تھا کہ سمندری جنگ کی بنیادی حکمت عملی دونوں حریف ایک ہی جگہ سے سیکھ رہے تھے۔
احمد تسنیم نے جلد ہی بھانپ لیا کہ انڈین نیوی کے جنگی بحری جہازوں کا سرچ پیٹرن ایک مخصوص طریقے میں تھا جسے وہ بھی جانتے تھے اور اب ان کے لیے اپنی حکمت عملی بنانا کچھ آسان ہو گیا تھا۔
،تصویر کا کیپشن
دیو ہیڈ کا علاقہ جس کے قریب ہنگور نے کھکری کو ڈبویا
'جب میں نے دیکھا کہ وہ کس طریقے سے سرچ کر رہے ہیں تو مجھے علم ہوا کہ وہ ایک مخصوص پیٹرن تھا جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کے پیچھے جانے کی بجائے کیوں نہ ان کا انتظار کیا جائے کیوں کہ آبدوز کی رفتار جہاز کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔'
اب پاکستانی آبدوز کے کمانڈر کپتان احمد تسنیم کو ایک اور فیصلہ کرنا تھا۔ انڈین جہازوں کا سرچ پیٹرن معلوم ہونے کے بعد ہنگور کی ٹیم ارادہ کر چکی تھی کہ انڈین جہازوں سے محفوظ فاصلہ رکھتے ہوئے کسی ایسی جگہ پوزیشن بنا لی جائے جہاں سے پیٹرن کے مطابق انڈین جہاز گزریں گے اور تب ان پر فائر کیا جائے۔
اس کے لیے انھیں کم گہرے پانی کی طرف جانا تھا جو خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ احمد تسنیم کے مطابق 'ہنگور کو کم از کم بھی 100 میٹر گہرائی میں رہنا چاہیے لیکن ہم نے تھوڑا رسک لیا اور 65 میٹر گہرائی تک چلے گئے جس کی انڈین جنگی جہاز توقع نہیں کر رہے ہوں گے۔‘
اب ہنگور کے اوپر یعنی سطح سمندر تک تقریبا 40 میٹر پانی اور نیچے یعنی سمندر کی تہہ اور ہنگور کے درمیان صرف 25 میٹر تک پانی باقی تھا۔ایک ایک قدم پھونک پھونک کر لینا تھا۔
این بیلینٹائن اپنی کتاب 'دی ڈیڈلی ٹریڈ' میں لکھتے ہیں کہ ہنگور کے اگلے حصے میں موجود 30 سالہ تارپیڈو آفیسر وسیم خان نے انھیں بتایا کہ یہ ایک ایسا وقت تھا جب ہنگور سمندر کی تہہ کے بہت قریب تھی اور بعض اوقات تو آبدوز اور سمندر کی تہہ میں صرف پانچ میٹر فاصلہ باقی رہ گیا تھا۔
'ایسے میں آبدوز کو چلانا کافی مشکل تھا اور مجھے بار بار کپتان احمد تسنیم کی ڈائیونگ افسر کو ہدایات سنائی دیتی تھی کہ تھوڑا اوپر، تھوڑا اوپر۔‘
'کھکری کے کپتان مہندرا ناتھ ملا بے چین تھے‘
انڈین آرمی کے ریٹائرڈ میجر جنرل این کورڈوزو اپنی کتاب 'دی سنکنگ آف آئی این ایس کھکری: سروائیورز ٹیلز' میں لکھتے ہیں کہ اس دن کیپٹن مہندرا ناتھ ملا کچھ بے چین تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو جہاز کی رفتار کچھ کم رکھنی پڑ رہی تھی۔
این کورڈوزو لکھتے ہیں کہ انڈین جہازوں کے سونار (ایک ایسا سماعتی ریڈار جس کے ذریعے آبدوز کا سراغ لگایا جاتا ہے) کی رینج بڑھانے کے لیے ایک تجربہ کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے جہاز کو معمول سے آہستہ چلانا پڑ رہا تھا۔
،تصویر کا ذریعہSUDHA MULLAH
اب نو دسمبر کی شام ہو چکی تھی۔ سمندر میں اندھیرا چھانے کے باوجود آئی این ایس کھکری اور آئی این ایس کرپان اپنی لائٹس بھی بند کیے ہوئے تھے کہ کہیں دشمن کی آبدوز ان کو دیکھ نہ لے۔
'صرف چند سیکنڈز تھے جن میں فیصلہ کرنا تھا'
اب ہنگور مکمل طورپر ایسی پوزیشن میں آ چکی تھی جہاں سے تارپیڈو انڈین جہازوں پر فائر کیا جا سکتا تھا۔ کیپٹن احمد تسنیم نے فاصلہ ناپا، انڈین جہاز کرپان رینج میں آ چکا تھا۔ انھوں نے تارپیڈو ٹیم کو حکم دیا اور 30 سالہ تارپیڈو افسر وسیم خان نے پہلا تارپیڈو پہلے انڈین جہاز کی جانب فائر کر دیا۔
اگلے چند منٹ انتہائی اعصاب شکن تھے۔ تارپیڈو انڈین جہاز کی جانب جا رہا تھا۔ احمد تسنیم کے مطابق تقریباً چار سے پانچ منٹ کا وقت لگا ہو گا لیکن ان کی ٹیم کے لیے یہ بہت طویل بھی تھا اور مایوس کن بھی، کیوں کہ تمام تر تیاری کے باوجود تارپیڈو نے ٹارگٹ مس کر دیا۔
احمد تسنیم کہتے ہیں کہ 'ہم نے کرپان کی جانب ایک ہومنگ تارپیڈو فائر کیا تھا جو آواز سن کر ٹارگٹ کی طرف جاتا ہے۔ اس تارپیڈو نے اپنا ٹارگٹ ایکوائر بھی کیا لیکن پھٹا نہیں۔'
مزید پڑھیے
1971 کی جنگ: زخمی انڈین پائلٹ جنھیں جان بچانے کے لیے تالاب میں چھپنا پڑا
بنگلہ دیش کا قیام: کیا جنگ شروع کرنے کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا؟
پاکستان اور انڈین کمانڈرز کے دوران جنگ ایک دوسرے کو خطوط اور چائے کا ذکر
وہ کہتے ہیں کہ 'ہم تھوڑے سے مایوس ضرور ہوئے کیوں کہ یہ تارپیڈو ہم نے ایسے فائر کیا تھا جیسا کہ کتاب میں بتایا گیا ہے۔ لیکن مایوس ہونے کا وقت نہیں تھا۔ ہم نے آپس میں فوری مشورہ کیا کہ ایک اور چانس لیتے ہیں۔'
اگلے چند لمحات احمد تسنیم کے ذہن پر آج بھی نقش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف چند سیکنڈز تھے جن میں فیصلہ کرنا تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔
پہلا تارپیڈو فائر ہونے کے بعد ان کی وہاں موجودگی کا راز کھل چکا تھا۔ انڈین جہازوں کو ہنگور کی پوزیشن معلوم ہو چکی تھی۔
احمد تسنیم کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ کسی طریقے سے وہاں سے نکل جاتے۔ لیکن انھوں نے اپنی ٹیم سے جس میں ایگزیکٹیو آفیسر عبیداللہ خان، تارپیڈو آفیسر وسیم خان، لیفٹینینٹ فصیح بخاری بھی شامل تھے، مشورے کے بعد چند ہی منٹ میں ایک اور غیر متوقع فیصلہ لیا۔
’ہم نے وہ کیا جو کتاب کہتی تھی کہ نہیں کرنا‘
اسی اثنا میں کیپٹن ملا کا جہاز کھکری ہنگور کے قریب پہنچ چکا تھا۔ احمد تسنیم نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈین جہاز ان کی دائیں جانب پہنچ چکا تھا اور اب اس پر فائر کے لیے انھیں اپنی آبدوز کو نا صرف تیزی سے موڑنا تھا بلکہ اس کے بعد اسے آہستہ کر کے فائر کرنا تھا۔
احمد تسنیم کہتے ہیں کہ 'ہم نے پہلا تارپیڈو سو فیصد کتابی احکامات کے مطابق فائر کیا لیکن ہمیں کامیابی نہیں ملی۔ لیکن پھر دوسرا تارپیڈو ہم نے ایسے فائر کیا جو کتاب میں لکھا ہے کہ ایسے نہیں کرنا کیوں کہ اگر تیز سپیڈ میں ٹرن لے کر آبدوز کو سنبھالے بغیر تارپیڈو فائر کریں تو خطرہ ہوتا ہے کہ یہ کہیں واپس آپ ہی کی طرف آجائے۔'
'میں نے رفتار بڑھائی اور آبدوز کو موڑ کر تھوڑا سنبھالا جس کے بعد ایک اور تارپیڈو آئی این ایس کھکری کے عقب کی جانب فائر کیا جو جہاز کے میگزین کے نیچے پھٹا جہاں ایمونیشن (اسلحہ) سٹور کیا جاتا ہے۔'
ککھری کے میگزین میں تقریبا 60 ٹن ایمونیشن موجود تھا۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMAD TASNEEM
،تصویر کا کیپشن
انڈین آبدوز کو تباہ کرنے کے بعد کیپٹن احمد تسنیم کی جانب سے پاکستان نیوی کو بھیجا جانے والا پیغام
'60 ٹن ایمونیشن پھٹتا ہے تو جہاز باقی نہیں رہتا'
احمد تسنیم کے مطابق اتنا زوردار دھماکہ ہوا کہ ہنگور آبدوز بھی ہل گئی اور انھیں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ انڈین جہاز تباہ ہو گیا ہے۔
'ہم نے یہ دھماکہ ریکارڈ بھی کیا جس کی آڈیو ہمارے پاس موجود ہے۔ غالباً پہلے تارپیڈو کا دھماکہ ہوا جس کے بعد جہاز کا میگزین بھی پھٹ گیا اور تقریبا دو منٹ کے اندر اندر جہاز بریک ہو کر ڈوب گیا۔'
اس وقت نو دسمبر 1971 کی رات 8:45 ہو چکے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا ایسا واقعہ تھا جب سمندری جنگ کے دوران ایک آبدوز نے کسی جنگی بحری جہاز کو تباہ کیا تھا۔
ہنگور کے چیف پیٹی آفیسر محمد شفیق انجن روم چھوڑ کر احمد تسنیم کو مبارک باد دینے آئے تو انھیں جواب ملا 'تھینک یو، ناؤ گیٹ بیک ٹو یور بلڈی ڈیوٹی۔'
احمد تسنیم کے سخت جواب کی وجہ یہ تھی کہ اب انڈین نیوی کے دوسرے جہاز کو علم ہو چکا تھا کہ ہنگور کہاں موجود ہے۔ ایسے میں کوئی بھی تاخیر پاکستانی آبدوز کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ آئی این ایس کرپان اب ہنگور کی جانب بڑھ رہا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا، احمد تسنیم کو کچھ کرنا تھا۔
احمد تسنیم کہتے ہیں کہ 'سیلف ڈیفنس میں آئی این ایس کرپان پر تیسرا تارپیڈو فائر کیا گیا لیکن کیوں کہ اب انڈین نیوی کے جہاز کو معلوم ہو چکا تھا اس لیے اس نے بھی پینترا بدلا اور تیز رفتار پر جہاز کو گھمانا شروع کر دیا تاکہ بچا جا سکے۔
لیکن ایسا کرنے سے اس کی رفتار کچھ کم ہوئی اور احمد تسنیم کے مطابق تارپیڈو آئی این ایس کرپان کو لگا 'لیکن جہاز ڈوبا نہیں، ڈیمج ضرور ہوا ہو گا۔'
'کیپٹن ملا نے ڈوبتا جہاز چھوڑنے سے انکار کر دیا'
دھماکے سے قبل کھکری کا عملہ جہاز کے برج پر روزانہ کی طرح خبریں سننے اکھٹا ہوا تھا۔'یہ آکاش وانی ہے، اب اشوک باجپائی سے خبریں سنیے' کا جملہ مکمل ہی ہوا تھا کہ زوردار دھماکہ ہوا۔ کیپٹن ملا جو اپنی کرسی پر بیٹھے تھے دھماکے کی شدت سے گرے اور ان کے سر سے خون گرنا شروع ہو گیا۔
دھماکے کے بعد جہاں جہاز کی نچلی سطح پر موجود عملہ فورا ہلاک ہو گیا تھا وہیں جہاز کے اوپر موجود عملے کے پاس چند ہی منٹ تھے کہ جس میں انھیں اپنی جان بچانی تھی۔
انڈین نیوی کی جانب سے کیپٹین مہندرا ناتھ ملا کو دیے جانے والے اعزاز کی تفصیل میں لکھا گیا ہے کہ انھوں نے اس وقت نہایت اطمینان سے جہاز کے باقی عملے کو جان بچانے اور سمندر میں لائف بوٹ کے ذریعے اترنے میں مدد کی۔ ان کے افسران نے جب انھیں ایک کشتی میں اترنے کو کہا تو انھوں نے انکار کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہROLI BOOKS
این کورڈوزو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں جب کیپٹین ملا کو لائف جیکٹ دی گئی تو انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ 'تم لوگ میری فکر نہ کرو'۔ کھکری کے عملے نے آخری بار کیپٹین ملا کو ڈوبتے جہاز کے ڈیک پر اپنا آخری سگریٹ سلگائے اطمینان سے بیٹھے دیکھا تھا۔'
کیپٹین ملا نے اپنے ڈوبتے جہاز کے ساتھ ڈوبنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں بحری جنگ کے اس پرانی روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں کسی بھی ڈوب جانے والے جہاز کا کپتان اپنے جہاز کے ساتھ ہی پانی کی گہرائیوں میں چلا جاتا تھا۔ لیکن یہ ایک ایسی روایت تھی جو کافی عرصے سے ختم ہو چکی تھی۔
کیپٹین ملا کی بیوہ نے 2017 میں بی بی سی ہندی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے شوہر کو معلوم تھا کہ ان کے بہت سے سپاہی جہاز میں پھنس چکے ہیں اور باہر نہیں نکل سکتے۔ 'ایسے میں انھوں نے یہ مناسب نہیں سمجھا ہو گا کہ وہ اپنی جان بچا لیتے۔'
'ایسے عمل کے لیے بہت بہادری درکار ہوتی ہے'
وائس ایڈمرل ریٹائرڈ احمد تسنیم سے جب ان کے مخالف کپتان مہیندرا ناتھ ملا کے بارے میں رائے مانگی گئی تو انھوں نے کہا کہ 'کیپٹن ملا نے ایک ایسی روایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا جس کا رواج ختم ہو چکا تھا اور ان پر لازم نہیں تھا کہ وہ ایسا کرتے۔ ایسے عمل کے لیے بہت بہادری، بہت قوت ارادی درکار ہوتی ہے۔'
،تصویر کا ذریعہSUDHA MULLA
وائس ایڈمرل احمد تسنیم کے مطابق کیپٹین ملا نے 'بہت بہادری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس پر وہ ان کا احترام کرتے ہیں۔ آئی ول پے ہومیج ٹو کیپٹن ملا۔'
کیپٹن ملا کے ساتھ آئی این ایس ککھری پر موجود انڈین نیوی کے 18 افسران اور 176 اہلکار بھی اس معرکے میں ہلاک ہوئے جو آج تک انڈین نیوی کی تاریخ میں سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے۔
'تین دن تک انڈین نیوی نے ہمارا جینا دوبھر کر دیا، فل مارکس ٹو دیم'
اس واقعے کا علم ہوتے ہی انڈین نیوی نے ہنگور کو تلاش اور تباہ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے کراچی بندرگاہ پر ایک اور حملے کا منصوبہ بھی ترک کر دیا۔
اس آپریشن میں ہوائی جہازوں، بحری بیڑوں سمیت ہیلی کاپٹرز بھی شامل تھے جنھوں نے ہنگور کی پوزیشن، رفتار اور ممکنہ واپسی کے راستے کا تعین کر لیا تھا۔
احمد تسنیم کہتے ہیں کہ 'ان کو معلوم تھا کہ میری پوزیشن کیا ہے۔ ان کو یہ بھی علم تھا کہ اب میں نے واپس کراچی کی طرف جانا ہے۔'
احمد تسنیم کو دو مشکلات درپیش تھیں۔ ایک طرف انڈین نیوی کے جہاز ان کی پوزیشن کی جانب آ رہے تھے تو دوسری جانب وہ ابھی تک کم گہرے پانی میں تھے جہاں ان کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔
احمد تسنیم کے مطابق انڈین نیوی نے ان تین دنوں میں ہنگور کو ڈبونے کے لیے کم از کم 156 ڈیپتھ چارج اٹیک کیے۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMAD TASNEEM
،تصویر کا کیپشن
کراچی بندرگاہ واپسی پر احمد تسنیم کی بیٹیاں ان کا استقبال کر رہی ہیں
'ہر حملے میں تین سے چار بم پانی میں گرائے جاتے جن میں سے دو پانی میں 100 میٹر سے اوپر اور دو 100 میٹر سے نیچے پھٹتے تھے جس کا مقصد ہوتا تھا کہ اگر آبدوز ہے تو وہ ان کے درمیان سینڈوچ ہو جائے'۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سمندر کے نیچے آبدوز میں ہیں اور 3000 گز دوری پر بھی ایک ڈیپتھ چارج پھٹ جائے تو وہ آبدوز کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ 'ہمارے سب سے قریب جو ڈیپتھ چارج پھٹا وہ 1000 گز دور تھا'۔ ساتھ ہی ساتھ یہ خوف کہ اگلا دھماکہ کب ہو ہنگور کے عملے کے لیے پریشان کن تھا۔
احمد تسنیم کہتے ہیں کہ آبدوز میں سب اکھٹے جیتے ہیں یا اکھٹے مرتے ہیں، نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیے
غازی آبدوز جس کے ڈوبنے کی اصل وجہ پچاس سال بعد بھی ایک معمہ ہے
1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجا
انڈین کپتان کے ہاتھوں بنا جنگی قیدی جو پاکستانی فضائیہ کا سربراہ بنا
ہنگور نے انڈین نیوی سے کیسے پیچھا چھڑایا؟
احمد تسنیم کے مطابق دو تین دن تک جب انھیں کراچی واپسی کا راستہ نہیں ملا سکا تو وہ ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اب کیا کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے کچھ ایسا کیا جس کی اُن کو توقع نہیں تھی۔ آپ سمجھیں کہ میں نے کراچی کی طرف جانا چھوڑ دیا اور فرض کر لیں کہ ہم بمبئی کی طرف چلے گئے۔'
سمت کی تبدیلی کی اس ترکیب سے احمد تسنیم انڈین نیوی کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے جو انھیں کراچی کے راستے میں ہی تلاش کرتے رہے۔ ہنگور نے نسبتاً لمبا راستہ اختیار کیا اور احمد تسنیم کے مطابق وہ 'کافی فاصلہ دے کر واپسی کی طرف آئے اور 18 دسمبر کو کراچی پہنچے۔'
،تصویر کا ذریعہCOURTESY AHMAD TASNEEM
'ہم نے کراچی کو بچا لیا'
احمد تسنیم اور ہنگور کا عملہ جنگ شروع ہونے سے قبل کراچی سے روانہ ہوا تھا اور اب وہ ایک ایسے وقت میں کراچی پہنچے جب نہ صرف جنگ ختم ہو چکی تھی بلکہ پاکستان کا نقشہ تبدیل ہو چکا تھا۔
میں نے سوال کیا کہ کراچی پہنچ کر جب انھیں جنگ کے نتائج کے بارے میں علم ہوا تو ان کے کیا تاثرات تھے۔
انھوں نے جواب دیا کہ 'آبدوز میں ہم نیچے ریڈیو نہیں سنتے۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں جب مشرقی پاکستان کے واقعے کا پتہ چلا تو بہت افسوس ہوا لیکن ہمارے عملے کو فخر تھا کہ سب میرین ہسٹری میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ہم نے پہلا جہاز ڈبویا ہے۔'
اس سے بھی بڑھ کر احمد تسنیم کے مطابق ہنگور کی بڑی کامیابی ان کے نزدیک یہ تھی کہ ان کا پیچھا کرنے میں انڈین نیوی کو کراچی بندر گاہ پر ایک اور حملے کے منصوبے کو منسوخ کرنا پڑا۔
'اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ اس جنگ میں میرا حصہ کیا تھا تو اس کی بجائے کہ ہنگور نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلا جنگی بحری جہاز جہاز ڈبویا، جو اعزاز اپنی جگہ ہے، لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہم نے انڈین بحریہ کو کراچی پر تیسرا حملہ کرنے سے روک دیا جو زیادہ نقصان دہ ہو سکتا تھا۔'
کھکری آج بھی سمندر میں دفن ہے
،تصویر کا کیپشن
کراچی میں نیوی میوزیم میں ہنگور آبدوز
احمد تسنیم کو حکومت پاکستان نے ستارہ جرات کے اعزاز سے نوازا۔ مجموعی طور پر ہنگور آبدوز کے عملے کو چار ستارہ جرات اور چھ تمغہ جرات دیے گئے۔
احمد تسنیم وائس ایڈمرل کے عہدے پر ریٹائر ہوئے جب کہ ان کے ایگزیکٹیو آفیسر عبید اللہ خان بھی وائس ایڈمرل کے عہدے تک پہنچے۔
ہنگور کے نیویگیشن آفیسر فصیح بخاری بعد میں پاکستان نیوی کے سربراہ یعنی چیف آف نیول سٹاف بنے۔ ادھر کیپٹن مہندرا ناتھ ملا کو انڈیا کے دوسرے بڑے عسکری ایوارڈ مہا ویر چکرا سے نوازا گیا۔
ہنگور آبدوز 2006 میں ڈی کمیشن ہونے کے بعد کراچی میں نیوی میوزیم میں یادگار کے طور پر محفوظ ہے جبکہ آئی این ایس کھکری آج بھی ریاست گجرات کے قریب سمندر میں دفن ہے۔
Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø¨ØØ±Û ÙÙج Ú©Û Ø±Ûئر اÛÚÙر٠(ر) اØÙد تسÙÛÙ Ú©Û Ùطاب٠ÛÙÚ¯Ùر ÙÛ Ø¯ÙØ³Ø±Û Ø¹Ø§ÙÙÛ Ø¬ÙÚ¯ Ú©Û Ø¨Ø¹Ø¯ Ù¾ÛÙا جÙÚ¯Û Ø¨ØØ±Û Ø¬Ûاز ÚبÙÛØ§Ø Ø¬Ù Ø§Ù¾ÙÛ Ø¬Ú¯Û Ø§Ø¹Ø²Ø§Ø² ÛÛØ ÙÛک٠اس Ø³Û Ø¨Ú¾Û Ø¨ÚÛ Ø¨Ø§Øª اÙÚÛ٠بØرÛÛ Ú©Ù Ú©Ø±Ø§ÚÛ Ù¾Ø± ÙÛ ØªÛسرا ØÙÙÛ Ú©Ø±ÙÛ Ø³Û...
www.bbc.com