Sugar Inquiry Report Supplementary.
View attachment 620753 View attachment 620753 View attachment 620754 View attachment 620757 View attachment 620758
Detailed Reports Both Wheat and Suger.
Elements with in GOP and Bureaucracy Involved. Something like this is unprecedented in Pakistan no Government have ever implicated their own in an inquiry before. Those who keep IK in the same league as Nawaz and Zardari need to stop and think about it.
From what i see IK has decided to take everyone head on including the elements who let Nawaz go he should have done this from day one. But the snakes around him got to him first he needs to cut their Heads first or he will become just another causality.
ایف آئی اے انکوائری رپورٹ: جہانگر ترین سمیت اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات چینی اور آٹے بحران کی ذمہ دار قرار
اعظم خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionکاروباری افراد جو چینی ذخیرہ کرتے ہیں ان کا مؤقف ہے کہ چینی کے کاروبار کے لیے چینی ذخیرہ کرنا ناگزیر ہے
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں ملک میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی کے بحران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔
حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فروری کے مہینے میں ایف آئی اے کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔ ایف آئی اے نے تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے تحقیقات کے بعد یہ رپورٹس تیار کی ہیں۔
ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیے
’شوگر مل کو گنا دینے سے بہتر ہے ہم خود ہی گڑ بنا لیں‘
کیا پاکستان میں چینی کے بحران کی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے؟
کیا چینی قرض ہی پاکستان کے اقتصادی بحران کا ذمہ دار ہے؟
اس کمیشن میں انٹیلیجنس بیورو، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک، ڈائریکٹوریٹ جنرل اور ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا گیا سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کی وجہ سے انھوں نے کم وقت میں زیادہ سبسڈی حاصل کی اور بہت ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع بھی یقینی بنایا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionچینی بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر عبدالرزاق داؤد سے ملاقات کی اور ان سے وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت لینے کی درخواست کی۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ کمیشن نے انکوائری کے دوران شوگر ملز ایسوسی ایشن سے مؤقف ہی نہیں لیا۔
خیال رہے کہ جہانگر ترین نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور کئی آزاد ارکان کو اپنے ذاتی جہاز میں بٹھا کر عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالا لے کر آتے اور جاتے رہے تھے۔
خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ان کے پاس وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کی وزارت ہے۔ وہ عمران خان کے ساتھ اکثر اہم میڈیا بریفنگز میں بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں اور صوبائی وزیر خزانہ ہیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے بیٹے ہیں۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام عائد کرتی آئی ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionلاہور کی ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ تین روز میں آٹھ ہزار سے زائد چینی کے تھیلے قبضے میں لیے ہیں جن کا مجموعی وزن چار لاکھ کلو سے زیادہ بنتا ہے
چینی کا بحران کیسے پیدا ہوا؟
تحقیقاتی کمیشن کی فہرست میں جہانگر ترین کی ’جے ڈی ڈبلیو‘ شوگر ملز اور ’جے کے کالونی- II‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سال 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا ہے۔
جے ڈی ڈبلیو نے کل چینی کی پیداوار 640،278 ٹن کی جس میں سے 121،621 برآمد کی گئی جو کل برآمدات کا15.53 فیصد بنتا ہے۔ جہانگیر ترین کو حکومت کی طرف سے 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جو کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد بنتا ہے۔
جہانگیر ترین کی ہی جے کے کالونی- II نے 70،815 ٹن چینی کی پیداوار کی اور 1،000 ٹن برآمد کر لی اور پھر اس پر مزید سبسڈی بھی حاصل کی۔
وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے ’آر وائی کے گروپ‘ نے 31.17 فیصد چینی برآمد کی اور 18.31 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 45 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
دیگر کمپنیوں میں ’الموئیز انڈسٹریز‘ اور ’تھل انڈسٹری کارپوریشن‘ ہیں جنھیں کل سبسڈی کا 16.46 فیصد دیا گیا۔
کمیشن رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹوئٹر پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ انھیں تین ارب روپے کی ملنے والی سبسڈی میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی مسلم لیگ ن کے گذشتہ دور میں دی گئی جب وہ اپوزیشن میں تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹس @JahangirKTareen@JAHANGIRKTAREEN
ان کا کہنا ہے کہ ’میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی برآمد کی اور یہ مارکیٹ کا 20 فیصد تک بنتا ہے جبکہ برآمدگی ’پہلے آئیں پہلے پائیں‘ کی بنیاد پر کی گئیں۔
مونس الہیٰ نے مقامی میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم انھوں نے یہ وضاحت بھی دی کہ ان کا رحیم یار خان ملز میں بلاواسطہ شیئرز ہیں لیکن ملز انتظامیہ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
جبکہ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ خسرو بختیار کا ابھی تک مؤقف سامنے نہیں آیا۔
انکوائری کمیشن رپورٹ کے مطابق سبسڈی اور برآمدات کی اجازت حاصل کرنے والی دیگر شوگر ملز میں ہنزہ شوگر ملز، انڈس شوگر ملز، فاطمہ شوگر ملز، حسین شوگر ملز، شیخو شوگر ملز، نون شوگر ملز، جوہر آباد شوگر ملز اور ہدیٰ شوگر ملز شامل ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹFIA
Image captionایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کا عکس
سبسڈی اور برآمدات کے لیے کس نے دباؤ ڈالا؟
انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت سے متعلق بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے برآمدات کی اجازت دی۔
تاہم اس انکوائری میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت بھی دی۔
رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
آٹے کا بحران
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔
پاکستان میں جنوری اور فروری میں میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہو گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، جس میں سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52167028