one time wont make a dent.
Somebody needs to loot the Elites for this purpose
Yes, you are correct. If we do a rational analysis it seems like it wouldn't be easy to complete it on donations. Not at least with one time ones. Following is from an article published on BBC. Nonetheless glad to see Pakistani nation realizing the need to address this issue.
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44790484
کیا چندے سے ڈیم بن سکتا ہے؟
اس فنڈ کے تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا ڈیم جس کی تعمیر کا تخمینہ کم از کم 18 سے 20 ارب ڈالر کا ہو اور تعمیر کا دورانیہ 12 سے 14 سال ہو، کیا وہ محض چندے کی رقم سے بن سکتا ہے؟
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبھاشا ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ کم از کم 18 سے 20 ارب ڈالر ہے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف ماہرین نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے شروع کیے گئے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے لیے قائم کیے گئے اس فنڈ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی افادیت پر سوال اٹھائے۔
کالم نویس اور لندن کے کنگز کالج سے وابستہ دانش مصطفیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے اس فنڈ نے انھیں نوے کی دہائی میں نواز شریف حکومت کی جانب سے شروع کی گئی سکیم ’قرض اتارو ملک سنوارو‘ کی یاد دلا دی ہے۔
’دنیا میں کسی ملک نے ایسے منصوبے پر کام شروع نہیں کیا جس کی مالیت اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً دس فیصد حصے کے برابر ہو۔‘
پانی کے امور کے ماہر حسن عباس نے بھی بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق دنیا میں کہیں بھی اتنا بڑا منصوبہ چندے کی مدد سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور ان منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔
’دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کے لیے اگر آپ پاکستان کے تمام شہری، بشمول نوزائیدہ بچے، اگر اس فنڈ کے لیے 30000 روپے دیں تو شاید کچھ بات بنے۔ لیکن کیا ہمارے ملک میں اوسط تنخواہ اتنی ہے؟ اس فنڈ بنانے کا خیال ناقابلِ عمل لگتا ہے۔‘
ماحولیاتی امور کے ماہر وکیل رافع عالم نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ان کی معلومات میں پاکستان میں آج تک ایسا کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا ہے جس کے لیے عوام سے چندہ لیا گیا ہو۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لوگوں نے سپریم کورٹ کے عزم پر سوالات اٹھائے تھے اور امید کا اظہار کیا کہ قوم اسی فراخدلی کا مظاہرہ کرے گی جیسے 1965 کی جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’ممکن ہے کہ اس فنڈ میں ضرورت سے زیادہ رقم آجائے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionجتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی
لیکن حصار فاؤنڈیشن سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر پرویز عامر نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کیے گئے فنڈ سے ڈیمز کی تعمیر کی کل لاگت کا بمشکل پانچ فیصد حصہ جمع ہو سکتا ہے۔
ساتھ ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ بونڈ جاری کر دے تو مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر فنانشل منصوبہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کی مدد سے زیادہ رقم حاصل ہو سکتی ہے۔
’عوام سے چندے کی اپیل کرنا جذباتی فیصلہ لگتا ہے، نہ کہ کوئی سنجیدہ مشورہ۔‘
یہ بھی پڑھیے
’ہنہ جھیل خشک، ہزاروں مچھلیاں ہلاک‘
پانی ذخیرہ کرنے کے اہلیت اور پانی کا ضیاع
پاکستان میں 15 میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150 ہے جس میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں جو کہ بالترتیب 1974 اور 1967 میں مکمل ہوئے تھے۔
حال ہی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تربیلا ڈیم ’ڈیڈ لیول‘ پر پہنچ گیا ہے جبکہ منگلا ڈیم میں اب صرف آٹھ لاکھ ایکڑ فیٹ پانی رہ گیا ہے۔ ارسا نے مزید کہا کہ اگر ملک میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں تو پانی کا بحران مزید بڑھ جائے گا۔
دوسری جانب آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔
پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔
ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔
گذشتہ سال ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی۔
اس کے علاوہ پانی کے ضیاع کی چند بڑی وجوہات میں موسمی حالات کی تبدیلی اور بارشوں کی کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔