What's new

Pakistan Army Appoints New DG ISPR, to Replace Maj. Gen. Asif Ghafoor

Hope the new DGISPR shall grace the prestigious office of ISPR like his predecessors, Col ZA Sulehri, Brigadier AR Siddiqqi, Brigadier Siddique Sallak, Major General Shaukat Sultan , Major General Ather Abbass and off course our favourite General Asif Ghafoor.
Good Luck!!
EOZgjenWAAA-gkc

EOZgjwRWsAAt9OQ

EOZgj_kX0AAUQNr

EOZgkUKW4AINEmF

asif-ghafoor-maj-gen-dg-ispr-ispr.jpg
 
Good decision and timely one, soon will see halt to some childish tweets From civilian side too , there are limits , specially when talking to female reporter and actors , interactions with female meida persons is highly unliked by public specially of top ranks ***,,,,
Stop spewing dirt , oky . Are you crazy , do you know the venom she was spewing . A woman provokes you and you sit and smile ? .

That's weird some coming from a nation who rapes females for apparently no reason.
 
#DGISPR: ’میجر جنرل آصف غفور کو الفاظ کا چناؤ دیکھ بھال کر کرنا چاہیے‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے ذاتی اکاؤنٹ @peaceforchange سے کی گئی ٹویٹس پر ایک طرف تو کچھ حلقوں میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے رویے سے فوج اور ان کے عہدے کی تکریم میں کمی آئی ہے۔

مگر دوسری جانب ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ پاکستان کو ففتھ جنریشن وار فئیر یعنی سوشل میڈیا پر غیر روایتی جنگ کا سامنا ہے اور فوجی ترجمان اس پلیٹ فارم پر تن تنہا پاکستان کا زبردست دفاع کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ میجر جنرل آصف غفور آئی ایس پی آر کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ @OfficialDGISPR کے علاوہ ایک ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ @peaceforchange بھی رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’کشمیر کی حمایت، پاکستانی ٹوئٹر صارفین کو مشکلات‘

سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطلی: پاکستان کی تشویش

فیس بُک نے’آئی ایس پی آر سے وابستہ اکاؤنٹ بند کر دیے‘

اگر ان کے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ کئی مہینوں سے پاکستانی فوج کے ترجمان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں یا بالاکوٹ پر انڈیا کے فضائی حملے کے معاملے پر کبھی انڈین آرمی کے سابق افسران سے ٹوئٹر پر بحث کر رہے ہوتے ہیں یا کبھی انڈین صحافیوں کو جوابات دے رہے ہوتے۔

تاہم ان کی حالیہ ٹویٹس میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ آوارہ کتوں کا ذکر کرتے ہیں، کبھی جلی ہوئی اور جھلسی ہوئی جلد کی دوا برنول کے بارے میں، اور کبھی ایسی مبہم مگر معنی خیز ٹویٹس کرتے ہیں جن کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ وہ شاید کچھ لوگوں کو اشارتاً پیغام یا کوئی تنبیہ دینا چاہ رہے ہیں، جسے ٹوئٹر کی زبان میں 'سب ٹویٹ' کرنا کہتے ہیں۔

ٹوئٹر پر بحث مباحثہ اور بیانیے کی جنگ
_110531407_ag1.jpg
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@PEACEFORCHANGE
حال ہی میں میجر جنرل آصف غفور کی جو ٹویٹ وائرل ہوئی وہ ان کا پاکستانی صحافی ثنا بُچہ کے ساتھ ہونے والا سائبر ٹاکرا تھا۔

صحافی ثنا بُچہ نے 12 جنوری کو آئی ایس پی آر کے بارے میں کی گئی طنزیہ ٹویٹ میں کہا کہ 'دوپٹوں کی رنگائی کے ساتھ پیکو کا کام بھی تسلی بخش کیا جاتا ہے۔‘

اس ٹویٹ کا پس منظر بنا تھا جیو نیوز چینل کی وہ ٹویٹ جس میں موٹروے کے افتتاح کی خبر آئی ایس پی آر سے منسوب کی گئی تھی۔

اس کے جواب میں 13 جنوری کی شب ڈھائی بجے میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کی کہ ’آپ نے شاید اپنے طور پر یہ کام شروع کیا جب آپ کو آئی ایس پی آر سے معاوضہ دیا گیا تھا۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نےاس ٹویٹ میں مزید لکھا کہ ’اگر آپ کے کوئی بقایاجات ہیں تو آپ ثبوت دیکھا کہ حاصل کر سکتی ہیں لیکن آپ کے نجی کاروبار کے عوض کوئی معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔‘

لیکن معاملہ یہاں نہیں تھما، اور ثنا بُچہ نے فوجی ترجمان کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے عہدے اور اپنے ادارے کی عزت کا خیال کریں، جس پر میجر جنرل آصف غفور نے جواباً کہا کہ ’میں نے کوئی لڑائی شروع نہیں کی تھی اور آپ کی جانب سے کی گئی ٹویٹ نے مجھے مجبور کیا کہ میں جواب دوں‘ اور مزید لکھا کہ وہ اپنی رات والی ٹویٹ حذف کر رہے ہیں۔

اس سے ایک روز قبل میجر جنرل آصف غفور کو اپنی ایک اور ٹویٹ حذف کرنی پڑی تھی جس میں انھوں نے انڈین اداکارہ دپیکا پاڈوکون کو نئی دہلی میں طلبہ کی جانب سے دیے گئے ایک مظاہرے میں شرکت کرنے پر داد دی تھی۔انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟

اسی طرح 12 جنوری کو بھی فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ کی جس میں انھوں نے مبہم انداز میں سوال اٹھایا کہ 'کیا ایک بار ذبح ہونے والوں کو دوبارہ ذبح کیا جائے؟' لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ٹویٹ بھی انھوں نے بغیر کسی وضاحت کے حذف کر دی۔

_110531410_ag12jan2020.jpg
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@PEACEFORCHANGE
سات جنوری کو انھوں نے صحافی اور تجزیہ کار سرل المائیڈا کی جانب سےترمیم شدہ آرمی ایکٹ کی منظوری اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر کیے گئے تبصرے کے جواب میں ٹویٹ کی کہ آپ وقت کی پروا کیے بغیر شراب نوش کریں کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت ہے۔

لیکن جہاں ایک جانب میجر جنرل آصف غفور کی پاکستان یا پاکستانی افواج کے ناقدین کے خلاف ٹویٹس پر کچھ لوگ ان کے رویے پر تنقید کررہے ہیں، ، وہیں دوسری جانب انڈین بیانیے کی تردید کرنے والی ان کی ٹویٹس کو بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر پزیرائی ملتی ہے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں ری ٹویٹ اور لائک کی جاتی ہیں۔

فروری 2019 میں بالاکوٹ پر انڈیا کی جانب سے کیے گئے حملے کی 'ناکامی'کا وہ اکثر اپنی ٹویٹس میں ذکر کرتے ہیں اور متعدد بار انھوں نے انڈین میڈیا میں چلنے والی خبروں کے بارے میں نشاندہی کی کہ وہ 'فیک' ہیں۔

اسی طرح اگست 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری حیثیت میں تبدیلی کے بعد انھوں نے وہاں ہونے والی انڈین حکومت کی کارروائیوں پر بار بار ٹویٹ کی اور نشاندہی کی کہ وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ کی سوشل میڈیا پر متاثر کن کارکردگی اور پاکستانی بیانے کو ’عمدہ طریقے سے‘ پھیلانے کا اعتراف انڈین آرمی کے افسران بھی کر چکے ہیں۔

گذشتہ سال دسمبر میں انڈین آرمی کے سائبر سکیورٹی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) راجیش پنت نے ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی مدد سے اپنے بیانیے کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ہے۔

انھوں نے میجر جنرل آصف غفور کے بارے میں بالخصوص بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کامیابی کے ساتھ بیانیے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

'جب وہ کشمیر پر بات کرتے ہیں، تو یورپ کو پیغام جاتا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اسلامی ممالک کو پیغام دیتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔'

فوجی ترجمان کا سوشل میڈیا پر جارحانہ رویہ اور بڑھتی ہوئی سرگرمیاں
سابق فوجی ترجمان لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے عہدے کے دوران ٹوئٹر کو استعمال کرنا شروع کیا تھا اور وہ رابطے کا اتنا موثر ذریعہ تھا کہ ان کے اپنے فالوؤرز لاکھوں کی تعداد میں پہنچ گئے تھے۔

_110531413_bio.jpg
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@PEACEFORCHANGE
جب میجر جنرل آصف غفور نے دسمبر 2016 میں اپنا عہدہ سنبھالا تو اپنے پیشرو کے برعکس، انھوں نے سرکاری ہینڈل کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی ہینڈل بھی استعمال کرنا شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کو بڑھاتے چلے گئے جس کی وجہ سے انھیں کئی بار تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

گذشتہ سال جنوری میں خبر سامنے آئی کہ 'سکیورٹی کے خدشات' کے باعث فوجی افسران پر ذاتی اور سرکاری حیثیت میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد لاگو کر دی گئی ہے جس میں واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ شامل ہیں۔

بعد ازاں فوجی ذرائع نے بھی بی بی سی کو اس خبر کی تصدیق کی تھی۔

تاہم میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ کا استعمال جاری رکھا اور اپنی پریس کانفرنسز میں مسلسل اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ پاکستان روایتی جنگ کے علاوہ ففتھ جنریشن وار فئیر کا سامنا کر رہا ہے جس سے نپٹنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ضروری ہے۔

فروری 2019 میں بالاکوٹ کے واقعے اور پھر اس کے بعد اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے میجر جنرل آصف غفور کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اپنے ذاتی اکاؤنٹ کو استعمال کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور سوشل میڈیا پر جاری بیانیے کی جنگ میں متعدد بار اپنے فالوورز کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دیے۔

اگست میں #WeAreAsifGhafoor اور #IamDGISPR کے ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ ہوئے تو انھوں نے ٹویٹ میں کہا کہ ایسا کرنے سے 'انڈین ٹرولز کو کرارا جواب دیا گیا ہے۔'

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حمایت میں ٹویٹ کرنے والے پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹ جب ٹوئٹر کی انتظامیہ نے اگست اور اس کے بعد دسمبر میں بلاک کیے تو میجر جنرل آصف غفور نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ٹویٹس میں پیغام دیا کہ ٹوئٹر سے ان اقدامات کی شکایات کی جائیں گی تاکہ اس کا سدباب ہو سکے۔

فوجی ترجمان کی جانب سے ذاتی اکاؤنٹ کا استعمال اور تنقید کی بوچھاڑ
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی حالیہ ٹویٹس پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا پاکستان فوج کے اتنے اہم ادارے کا سربراہ کا سرکاری حیثیت کے بجائے ذاتی حیثیت میں ٹویٹ کرنا غیر مناسب تو نہیں؟

بی بی سی نے جب اس حوالے سے آئی ایس پی آر کو فوجی ترجمان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کے بارے میں چند سوالات بھیجے تو وہاں سے جوابات دینے سے معذرت کی گئی اور کہا گیا کہ فوجی ترجمان ذاتی حیثیت میں اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹس کرتے ہیں۔

_109995372__106645425_a375ba5f-9bf1-4d72-bb75-ee8f3bead0e0.jpg
تصویر کے کاپی رائٹISPR
جب بی بی سی نے فوج سے اعلیٰ عہدے پر ریٹائر ہونے والے ایک افسر سے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ 'اس عہدے اور اس حیثیت میں کام کرنے والے کے لیے کوئی چیز ذاتی نہیں ہوتی، اس لیے ذاتی اکاؤنٹ کا بہانہ درست نہیں ہے۔'

لیکن سابق لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج میں صرف ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہ اجازت ہوتی ہے کہ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر کی جانے والے گفتگو پر نظر رکھنے کے لیے وہ ذاتی حیثیت میں بھی سوشل میڈیا استعمال کر لیں تاکہ گمراہ کن خبروں پر نظر رکھی جائے اور اسے روکا جا سکے ۔

'یہ ضرور ہے کہ ذاتی حیثیت میں ٹویٹ کرتے ہوئے یا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے فوجی ترجمان کو نہایت دیکھ بھال کر الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے ۔ وہ ایسا کرتے بھی ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی جانب سے کی گئی ٹویٹس نے مثبت اثر نہیں چھوڑا اور انھیں وہ ٹویٹس فوراً حذف کرنی پڑیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مستقبل میں احتیاط سے کام لیں گے۔'

صحافی اور تجزیہ کار سرل المائیڈا، جن پر میجر جنرل آصف غفور نے ماضی میں ٹوئٹر پر جملے کستے رہے ہیں، نے فوجی ترجمان کے سوشل میڈیا کے رویے پر کہا کہ 'میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹس بے مقصد نہیں ہیں۔ وہ اُن لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو سویلین ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آیر اُن لوگوں کے خلاف تند مزاج رویہ نہیں رکھتے جو کسی وزیر کی اولاد ہوں، یا سابق فوجی ہوں، یا فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہوں۔ صرف وہ شہری ان کے زیر عتاب آتا ہے جس کی کوئی سفارش نہ ہو۔'

جب صحافی ثنا بُچہ سے اسی بابت سوال کیا تو انھوں نے میجر جنرل آصف غفور کا نام لیے بغیر موقف اختیار کیا کہ بیانیے کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہے۔

'ہمارے ملک میں سویلینز اور فوج کے درمیان تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر کو خاص خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن گذشتہ چند ماہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ باقاعدگی سے نشانہ بنا کر لوگوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہیں جو (مبینہ طور پر) اسی ادارے کی زیر نگرانی ہو رہا ہے۔'

ثنا بُچہ نے مزید کہا کہ اس طرح کے طرز عمل سے نہ صرف اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی جگہ کم ہوتی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر، 'بالخصوص خواتین کے خلاف پُر تشدد رویے اور منظم طریقے سے ٹرولنگ میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور بھونڈے قسم کے ہیش ٹیگ ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔'

_110531708_dlcfhmlxoaaacpm.jpg
تصویر کے کاپی رائٹ@PEACEFORCHANGE
انھوں نے کہا کہ 'کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جب میں صبح اٹھ کر ٹوئٹر دیکھتی ہوں تو میری ٹائم لائن پر میرے خلاف غلاظت کا طوفان ہوتا ہے، صرف اس لیے کہ میں نے ٹی وی پر اپنی مرضی کا تبصرہ کیا تھا۔'

دوسری جانب فوجی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اعجاز حیدر نے کہا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کا استعمال اتنا عام ہو گیا ہے کہ امریکی صدر قومی پالیسی کا ٹوئٹر پر اعلان کرتے ہیں، تو اس پلیٹ فارم کا استعمال کیسے کم کیا جائے۔

'ہاں، یہ ضرور ہے کہ اداروں میں سوشل میڈیا استعمال کرنے کے قواعد و ضوابط ہونے چاہیے، خاص طور پر وہ عمودی درجہ بندی والے ادارے جہاں ذاتی حیثیت کو دفتری حیثیت سے الگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔'

تعلقات عامہ یعنی پبلک ریلیشنز کے ماہر، انیق ظفر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جو کسی ادارے کی سربراہی کر رہے ہوں انھیں سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔

'ایسے عہدوں پر فائز افراد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے الفاظ کا چناؤ دیکھ بھال کر کریں، اور خیال کریں کہ سوشل میڈیا پر کون سی جنگ لڑنی ہے اور کون سی نہیں لڑنی۔'

میجر جنرل آصف غفور کے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرنے کے سوال پر انیق ظفر نے کہا کہ حاضر سروس افراد کا سوشل میڈیا استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ اس سے ہمیشہ یہی محسوس ہوگا کہ وہ اپنے ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ذاتی اور دفتری فرق کے بہانے کا سہارا لینا ناکافی ہے۔

'یہ حقیقت ہے کہ انڈیا کے ساتھ جاری حالیہ کشیدگی میں انھوں نے سوشل میڈیا پر موثر کردار ادا کیا جس کا اعتراف انڈیا سے بھی ہوا لیکن ملکی سیاست کے حوالے سے ان کی ٹوئٹر پر سرگرمیاں باعث تفریق بنی ہیں۔'

فوج کا سوشل میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق کیا ہے؟
_110531710_ag13.jpg
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@PEACEFORCHANGE
سوشل میڈیا اور فوجی ضابطوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے والے سابق فوجی افسر نے کہا کہ حاضر سروس فوجی افسران کا سوشل میڈیا پر ہونا ٹھیک نہیں ہے۔

'فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں ایسا نہیں ہے کہ آپ ہر معاملے پر تبصرہ کریں۔ صرف اور صرف اُس وقت بیان جاری کرنا چاہیے جب کوئی ایسی بات ہو جو ادارے کے حوالے سے ہوئی ہو یا کوئی واضح موقف اختیار کرنا ہو۔ فوج کو قومی پالیسی، سفارتکاری اور اندرونی معاملات پر بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ حکومت کا کام ہے اور فوج کو تنقید سے بچانا اور اس کا دفاع کرنا بھی حکومت کا کام ہے، خواہ وہ تنقید کہیں سے بھی ہو۔'

البتہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کی نوعیت ایسی ہو گئی ہے کہ وہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

’اس صورتحال میں آپ کسی محاز کو خالی نہیں چھوڑ سکتے جس سے ملک دشمن عناصر کو فائدہ پہنچ جائے۔‘

انھی خیالات کی تائید کرتے ہوئے دفاعی اور سیاسی مبصر، سابق بریگیڈئیر فاروق حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ جس قسم کے حالات کا پاکستان سامنا کر رہا ہے، اس میں صرف ڈی جی آئی ایس پی آر کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ رکھ سکے چاہے وہ سرکاری ہو یا ذاتی۔

'غیر ملکی قوتیں پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وارفئیر میں مصروف ہیں اور پروپاگینڈا کر کے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے سرکاری اور ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ کو استعمال کر کے اپنا قومی فریضہ نبھا رہے ہیں تاکہ قومی سالمیت کا دفاع کر سکیں۔'

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51132984
 
Its how this shit goes:

Pak liberals claim some fake shit. It gets traction. And then it is reported in India as news by "credible journalists". And Indians then jack off it and feel happy.

Yup that is the modus operandi


Just like that female swine Gul bukhari posted about retirement and alleged house arrest of general sarfaraz sattar and two days later Indian media quoted it
 
ISPR....stands for.....Inter-Services PUBLIC RELATIONS.
i know but gen asif was too much active personally at low level he was answering and retweeting with very tom herry on twitter . he must keep a gap . no wonder he was perfectly running the ISPR but his personal account is responsible of his transfer .
 
Back
Top Bottom