کرنل لئیق: ڈی ایچ اے کوئٹہ کے مغوی افسر کی ہلاکت کی تصدیق، ساتھی کی تلاش جاری
14 جولائی 2022، 10:06 PKT
اپ ڈیٹ کی گئی 20 منٹ قبل
پاکستان میں عسکری ذرائع نے صوبہ بلوچستان کے ضلع زیارت سے اغوا ہونے والے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ کے افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق لئیق مرزا کو ان کے ایک ساتھی سمیت منگل کی شب زیارت اور کوئٹہ کے درمیان واقع ورچوم کے علاقے سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔
شدت پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے نے جمعرات کی صبح ایک بیان میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ فوجی افسر ان کی تحویل میں ہیں جبکہ اس بارے میں تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کرنل لئیق کی ہلاکت کیسے ہوئی۔
عسکری ذرائع نے بی بی سی اردو کی فرحت جاوید کو بتایا کہ لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے ساتھ اغوا کیے جانے والے شخص ان کے رشتہ دار ہی ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے جاری بیان میں مغوی افسر کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آرمی افسر کے اغوا اور انھیں ہلاک کرنے کا مقصد دہشت اور وحشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔
اغوا کی واردات کہاں پیش آئی؟
ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز حکومت بلوچستان کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے واقعے کے بعد جاری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کا یہ واقعہ ضلع زیارت کے علاقے ورچوم میں پیش آیا۔
،تصویر کا ذریعہAFP
،تصویر کا کیپشن
فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا
مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
بعض اطلاعات کے مطابق منگل کی شب نو بجے مسلح افراد زیارت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی گاڑیوں کو روک رہے تھے۔ انھی میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کی فیملی کی گاڑی بھی شامل تھی۔
ان کی گاڑی کو روکنے کے بعد ڈی ایچ اے کے افسر کو مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ان کے خاندان کے افراد کو چھوڑ دیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ملزمان انھیں اس راستے سے نامعلوم مقام کی جانب لے گئے جو کہ مانگی ڈیم کی جانب جاتا ہے۔
اس واقعے کے بعد فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے جنھوں نے مغوی کے خاندان کو زیارت پہنچانے کے انتظامات کیے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔
جب حکومت بلوچستان کی ایک اعلیٰ شخصیت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے افسر سمیت دو افراد کو اغوا کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے دوسرے شخص ڈی ایچ اے افسر کے ساتھی تھے جو ان کے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ اغوا ہونے والے دوسرے فرد کی شناخت کے حوالے سے تاحال سرکاری حکام کی جانب سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے محکمہ داخلہ اور ضلعی انتظامیہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے اور سیاحوں کی باحفاظت بازیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
،تصویر کا کیپشن
زیارت کہاں واقع ہے؟
زیارت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں صنوبر کے قدیم جنگلات میں سے ایک بڑا جنگل بھی واقع ہے۔
اہم سیاحتی مقام ہونے کے باعث لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد عید اور دیگر تعطیلات میں سیر و سیاحت کے لیے اس علاقے کا رخ کرتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ عمومی طور پر زیارت کا شمار بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں میں کیا جاتا ہے لیکن ماضی میں یہاں چند پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ریزیڈینسی پر حملے کا واقعہ بھی شامل ہے۔
جون 2013 میں اس ریزیڈینسی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
زیارت سے متصل ضلع ہرنائی میں بدامنی کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
Ø¢Ø¦Û Ø§Ûس Ù¾Û Ø¢Ø± Ú©Û Ùطاب٠ÙÛÙÙ¹ÛÙÛÙ¹ کرÙÙ ÙئÛÙ Ùرزا اÙر Ø§Ù Ú©Û ÚÚا زاد Ø¨Ú¾Ø§Ø¦Û Ø¹Ùر جاÙÛد Ú©Ù 12 اÙر 13 جÙÙØ§Ø¦Û Ú©Û Ø¯Ø±ÙÛاÙÛ Ø´Ø¨ زÛارت Ø³Û Ú©ÙØ¦Ù¹Û Ø¢ØªÛ ÛÙØ¦Û Ø§ØºÙا Ú©Ûا Ú¯Ûا تھاÛ
www.bbc.com