fjavaid
FULL MEMBER
- Joined
- Oct 1, 2007
- Messages
- 304
- Reaction score
- 0
This First hand account written by a close frnd #Mubeen Shahid , We have seen PAT so called #Minhaj ul Quran institute development first hand ....
ہِینگ لگے نا پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آئے
ادارہ منہاج القران لوگوں کے پیسے سے بننے اور چلنے والا ادارہ تھا؛ اب بھی لوگوں کے پیسے سے ہی چلتا ہے۔
ایسا ٹرسٹ جو عوامی پیسے سے چلتا ہو، اس کو پروفیسر ڈاکٹر علامہ نوٹنکی نے مالِ مفت سمجھ کر جس نفاست اپنی سیاست کا شوق پورا کرنے کے لئے قربان کیا ہے، بندہ ایسی نفاست کے صدقے جائے۔
میں جتنا عرصہ ٹاوؑن شپ لاہور میں رہا، جو کہ پروفیسر ڈاکٹر علامہ نوٹنکی صاحب کے حلقہِ انتخاب میں واقع ہے، اس دوران ان صاحب کی نوٹنکیوں نے حیران کئے رکھا، بلکہ کئی با تو سر دھننے کی نوبت آ گئی۔ سن دو ہزار دو کے انتخابات میں ان صاحب کی انتخابی مہم کا چشم دید گواہ ہوں، ۔۔ صاحب کا مزاج تکبر و نخوت کے ساتویں آسمان پر تھا، انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں ادارے کے مالی وسائل کو جس طرح نچوڑ کے رکھ دیا، ایسا تو کوئی حرام کے مال کے ساتھ بھی نا کرے۔
ٹاوؑن شپ کے گرد و نواح کی کچی بستیوں میں مزدور طبقہ اور غریب عیسائیوں کی آبادیاں ہیں، تو جناب موصوف نے
ادارے کے پیسے سے گرین ٹاوؑن کے سامنے واقع منہاج یونیورسٹی کے قرب و جوار میں لنگر اور فری میڈیکل کیمپ لگا دیئے، جہاں کئی کئی ہزار کے ٹیسٹ مفت میں کئے گئے۔
ادارے کے پیسے سے موصوف نے اس علاقے کے غریبوں کے ووٹ تو خرید لئے اور اپنی سیاسی تحریک ’پاٹ’ کی اکلوتی سیٹ جیت گئے، لیکن اپنے آبائی حلقے جھنگ میں ایسا بندوبست وقت پر نا ہونے کے باعث موصوف نے ’غیر جمہوری جاہل قوتوں’ کے دیئے ہوئے ہزیمت آمیز شکست کے ہدیہ تبریک کو شرفِ قبولیت بخشا
الیکشن والے دن شام کو ایک اخبار پورے علاقے میں مفت تقسیم کروایا جس میں عوام کو خوش خبری سنائی گئی کہ، ان کی تحریک نے پورے پاکستان میں کلین سویپ کیا ہے، اور عوام کو روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی۔
الیکشن سے اگلے دن منہاج کے کیمپ سے تمام تنبو، شامیانے، قناتیں اتار کر واپس بھجوا دی گئیں، میڈیکل کیمپ کی موج مستی ختم، لنگر ختم۔۔
اس سارے کھیل میں ان حضرت کا اپنا ذاتی ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، لوگوں نے دین اور قرآنِ حکیم کی تعلیم عام کرنے کے لئے جو پیسے منہاج ٹرسٹ کو دیا، وہ سب ان کی سیاسی نوٹنکی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
پھر پچھلے سال دوبارہ اسی سیاسی مہم جوئی کے نام پر لوگوں کی جیب سے اربوں روپے نکلوائے اور زیورات اتروائے، اور اس ساری نوٹنکی پر چند کروڑ خرچ کر کے، باقی روپے جیب میں ڈال کر رفو چکر ہو گئے
لوگوں کو صرف ایک ڈرامہ دیکھنے کہ ملا، اور مریدوں کے ہاتھ صرف اسلام آباد کی ٹھنڈ لگی۔
اب بھی، علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر نوٹنکی صاحب نے کینیڈا سے بیٹھے بیٹھے انقلاب کی قوالی سٹارٹ کی، اور فساد کی پہلی قسط میں ان کی تحریک کے ہاتھ ایک ادھ درجن ’شہداؑ’ آ گئے ہیں،
ان کی سیاست بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح ہے؛
اپنا دھیلہ بھی خرچ نا ہوا؛
ہِینگ لگے نا پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آئے
ہِینگ لگے نا پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آئے
ادارہ منہاج القران لوگوں کے پیسے سے بننے اور چلنے والا ادارہ تھا؛ اب بھی لوگوں کے پیسے سے ہی چلتا ہے۔
ایسا ٹرسٹ جو عوامی پیسے سے چلتا ہو، اس کو پروفیسر ڈاکٹر علامہ نوٹنکی نے مالِ مفت سمجھ کر جس نفاست اپنی سیاست کا شوق پورا کرنے کے لئے قربان کیا ہے، بندہ ایسی نفاست کے صدقے جائے۔
میں جتنا عرصہ ٹاوؑن شپ لاہور میں رہا، جو کہ پروفیسر ڈاکٹر علامہ نوٹنکی صاحب کے حلقہِ انتخاب میں واقع ہے، اس دوران ان صاحب کی نوٹنکیوں نے حیران کئے رکھا، بلکہ کئی با تو سر دھننے کی نوبت آ گئی۔ سن دو ہزار دو کے انتخابات میں ان صاحب کی انتخابی مہم کا چشم دید گواہ ہوں، ۔۔ صاحب کا مزاج تکبر و نخوت کے ساتویں آسمان پر تھا، انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں ادارے کے مالی وسائل کو جس طرح نچوڑ کے رکھ دیا، ایسا تو کوئی حرام کے مال کے ساتھ بھی نا کرے۔
ٹاوؑن شپ کے گرد و نواح کی کچی بستیوں میں مزدور طبقہ اور غریب عیسائیوں کی آبادیاں ہیں، تو جناب موصوف نے
ادارے کے پیسے سے گرین ٹاوؑن کے سامنے واقع منہاج یونیورسٹی کے قرب و جوار میں لنگر اور فری میڈیکل کیمپ لگا دیئے، جہاں کئی کئی ہزار کے ٹیسٹ مفت میں کئے گئے۔
ادارے کے پیسے سے موصوف نے اس علاقے کے غریبوں کے ووٹ تو خرید لئے اور اپنی سیاسی تحریک ’پاٹ’ کی اکلوتی سیٹ جیت گئے، لیکن اپنے آبائی حلقے جھنگ میں ایسا بندوبست وقت پر نا ہونے کے باعث موصوف نے ’غیر جمہوری جاہل قوتوں’ کے دیئے ہوئے ہزیمت آمیز شکست کے ہدیہ تبریک کو شرفِ قبولیت بخشا
الیکشن والے دن شام کو ایک اخبار پورے علاقے میں مفت تقسیم کروایا جس میں عوام کو خوش خبری سنائی گئی کہ، ان کی تحریک نے پورے پاکستان میں کلین سویپ کیا ہے، اور عوام کو روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی۔
الیکشن سے اگلے دن منہاج کے کیمپ سے تمام تنبو، شامیانے، قناتیں اتار کر واپس بھجوا دی گئیں، میڈیکل کیمپ کی موج مستی ختم، لنگر ختم۔۔
اس سارے کھیل میں ان حضرت کا اپنا ذاتی ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، لوگوں نے دین اور قرآنِ حکیم کی تعلیم عام کرنے کے لئے جو پیسے منہاج ٹرسٹ کو دیا، وہ سب ان کی سیاسی نوٹنکی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
پھر پچھلے سال دوبارہ اسی سیاسی مہم جوئی کے نام پر لوگوں کی جیب سے اربوں روپے نکلوائے اور زیورات اتروائے، اور اس ساری نوٹنکی پر چند کروڑ خرچ کر کے، باقی روپے جیب میں ڈال کر رفو چکر ہو گئے
لوگوں کو صرف ایک ڈرامہ دیکھنے کہ ملا، اور مریدوں کے ہاتھ صرف اسلام آباد کی ٹھنڈ لگی۔
اب بھی، علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر نوٹنکی صاحب نے کینیڈا سے بیٹھے بیٹھے انقلاب کی قوالی سٹارٹ کی، اور فساد کی پہلی قسط میں ان کی تحریک کے ہاتھ ایک ادھ درجن ’شہداؑ’ آ گئے ہیں،
ان کی سیاست بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح ہے؛
اپنا دھیلہ بھی خرچ نا ہوا؛
ہِینگ لگے نا پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آئے