Kashmiri enjoy when India lose against Pak in Cricket match.....They burn Indian flag on 15th August.
They celebrate 14th August.
They rise Pakistani flgs.....
صدر آصف علی زرداری :
کشمیری عوام کی صرف سیاسی و اخلاقی نہیں عملی مدد کریں
ـ 2 گھنٹے 32 منٹ پہلے شائع کی گئی صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر مرحلہ پر ہونے والی بات چیت میں مسئلہ کشمیر سرفہرست رہے گا پاکستان مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی کرکے بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتا ہے اور نہ وہ بھارت سے تجارت مسئلہ کشمیر کی قیمت پر کریگا۔ حریت رہنماء میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات میں صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ حکومت کشمیریوں کی سیاسی و اخلاقی مدد جاری رکھے گی۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور تنائو کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر ہے اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دیگر تنازعات پیدا ہوئے۔ بھارت پاکستان کیخلاف اس وقت جو آبی دہشت گردی کررہا ہے اور جس کی وجہ سے بہترین نہری نظام اور وسیع میدانی رقبہ رکھنے والا زرعی ملک پاکستان آٹے اور چینی کی قلت کا شکار ہے اس نے بھی مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے جنم لیا یہی حال سیاچن اور ہتھیاروں کی دوڑ کا ہے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ اگرچہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور حالیہ دنوں میں قوم کو پہلی بار قائداعظمؒ کے قول کی حقیقی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے لیکن پاکستان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ عوام کی مرضی کے بغیر اسے پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے بلکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں اگر کشمیری عوام بھارت سے ملنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
چونکہ بھارت جانتا ہے کہ استصواب میں کشمیری عوام کی کیا رائے سامنے آئیگی اس لئے وہ روزاول سے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ عالمی فورمز پر کئے گئے جواہر لعل نہرو اور دیگر بھارتی رہنمائوں کے وعدوں سے بھی انحراف کرتا چلا آرہا ہے۔ حالانکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت خود لے کر گیا اور رائے شماری کا وعدہ کرکے 1948ء کی جنگ بندی کرائی کشمیری عوام نے الحاق پاکستان کی خواہش کو کبھی نہیں چھپایا وہ عید پاکستان کی رویت ہلال کے مطابق مناتے ہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی خوشی کا اظہار کرتے اور اپنے گھروں بازاروں اور دفاتر میں پاکستانی پرچم لہراتے ہیں وہ 14؍ اگست کو یوم پاکستان کے موقع پر جشن کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ 15؍ اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر یوم سیاہ مناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنی سات لاکھ فوج کی موجودگی میں بھی جموں و کشمیر میں رائے شماری کا رسک لینے کیلئے تیار نہیں۔ نام نہاد انتخابات میں بھی اسے عوام کی سخت مخالفت اور بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کشمیری عوام اپنی بقائ حق خودارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ پاکستان سے الحاق اور ہمارے قومی و علاقائی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا ہی دعویٰ کیا ہے وہ پاکستان سے صرف سیاسی و اخلاقی نہیں بلکہ عملی امداد کے خواہاں ہیں۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان تک ہر پاکستانی حکومت بھی ان کا ساتھ دیتی رہی ہے لیکن بعدازاں مختلف سیاسی و فوجی حکومتوں نے اپنی اپنی کمزوریوں اور مصلحتوں کے تحت شملہ معاہدہ اعلانِ لاہور اعلان اسلام آباد وغیرہ میں مسلمہ طور پر ایک بین الاقوامی تنازعہ کو دو طرفہ مسئلہ قرار دے کر ایک لحاظ سے بھارت کو قراردادوں سے فرار کا موقع فراہم کیا اور بھارت نے اٹوٹ انگ کی رٹ لگانے کے ساتھ پاکستان پر دراندازی اور دہشت گروں کو مدد دینے کا الزام دینا شروع کر دیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے یہ ظلم کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ناقابل عمل قرار دیکر اپنی طرف سے کئی فارمولے پیش کر دیئے جن میں مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضہ کو برقرار رکھنے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار کرنے اور بین الاقوامی سرحد جی ٹی روڈ تک لانے کے فارمولے شامل تھے پرویز مشرف نے ہی جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی منطق کو پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کے تدارک کیلئے استعمال کرنے کے بیانات کے ذریعے پذیرائی بخشی اور اعتماد سازی کے اقدامات بیک چینل ڈپلومیسی اور تجارت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔ موجودہ حکومت اس لحاظ سے قابل داد ہے کہ اس نے ایک بار پھر بھارت کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے سامنے مسئلہ کشمیر اٹھایا ہے اور امریکہ کو بھی باور کرایا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا نہ تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری آسکتی ہے اور نہ تجارت ممکن ہے۔ امریکہ اور یورپ نے پہلی بار بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ممبئی حملوں کو بہانہ بنا کر بھارت پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے اور جامع مذاکرات کے التواء کا مقصد بھی کشمیر سے توجہ ہٹانا ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ اعتماد سازی کے اقدامات تجارتی اور ثقافتی رابطوں میں اضافے اور پاکستان کی طرف سے کشمیری عوام کی جدوجہد سے لاتعلقی کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے اور ممبئی حملوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ جموں و کشمیر سے فوج واپس بلانے کے بجائے حافظ سعید کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے اور امریکہ اسکی پشت پر ہے وہ ممبئی حملوں کو کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کر رہا ہے اور اس کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان دبائو میں آکر مسئلہ کشمیر کا ذکر چھوڑ دے لیکن پاکستانی عوام ایسا نہیں چاہتے اور فی الوقت مسئلہ کشمیر کا حل اگر ممکن نہ ہو تو بھی پاکستانی اور کشمیری عوام برسوں انتظار کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کے مستقبل اور عوام کے حقوق و مفادات کا سودا نہیں کر سکتے۔ صدر آصف علی زرداری نے حریت کانفرنس کے رہنماء کو جو یقین دہانی کرائی ہے وہ پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کی مظہر ہے لیکن محض زبانی کلامی یقین دہانیاں کافی نہیں ہمیں مذاکرات کی بھیک مانگنے کے بجائے عالمی برادری پر کھل کر واضح کرنا چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرائے بھارت کشمیر سے سات لاکھ فوج واپس بلا کر رائے شماری کا اہتمام کرے اور کشمیری قیادت کی گرفتاریاں نظربندیاں اور ظلم و تشدد کے دیگر حربے بند کرے۔ اس وقت تک تجارت بھی بند کردی جائے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر پر بامقصد مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ہوتا صرف اسی طرح کشمیری عوام کی عملی سیاسی اور اخلاقی امداد ممکن ہے اور کشمیری عوام کی یہی خواہش ہے۔ بھارت کی آبی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ 62 ڈیم مکمل کرکے بھارت ہمیں بنجر صحرائوں میں بدل دیگا اللہ نہ کرے کہ ایسا برا وقت آئے۔