Champion_Usmani
SENIOR MEMBER
- Joined
- Jan 10, 2018
- Messages
- 4,022
- Reaction score
- 0
- Country
- Location
تحریر : محمد عبدالشکور
فلسطین اور اسرائیل تنازع کے کئی رُخ اور بہت سےپہلو ہیں۔
1)مسلمانوں کے لئے یہ اُنکے قبلہ اوّل کی واپسی اور فلسطین کی اسلامی شناخت کی بحالی کا مسئلہ ہے۔ سیدنا عمر نے بیت المقدس کا انتظام سنبھالا اور اس شہر کو امن کا گہوارا بنایا۔ تینوں مذاہب( مسلم، عیسائی، یہودی) کے لوگوں کو طویل عرصے تک اپنے اپنے مقدس مقامات تک عزت و آبرو کے ساتھ رسائی کا پورا پورا حق حاصل رہا۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی فوجوں نے بے انتہا خون بہایا مگر صلاح الدین نے فتح کے بعد ایک بار پھر مثالی امن قائم کیا جس کی اخلاقی برتری اور ساکھ کو مغربی مورخین بھی پوری طرح تسلیم کرتے ہیں۔ بیسوی صدی کے وسط میں مسلمانوں کا یہ قبلہ اوّل ایک بار پھر اُن سے چھین کر مقدس مقامات کی مسلسل بے حرمتی اور اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیتی آبادی میں بدلنے کا آغاز کر دیا گیا۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کی بے حسی، بزدلی اور بے غیرتی کے باوجود ایک عام مسلمان صدمے، بدلے اور حق واپس چھین لینے کے جذبے سے سرشار رہتا ہے۔
2) مقامی آبادی ( مسلم اور عیسائی)کے لئے ان کے گھروں، آبادیوں اور زمینوں سے جبری
بے دخلی اور اسرائیلیوں کی طرف سے غاصبانہ قبضے کا سلسلہ کئی دھائیوں سے جاری ہے۔لاکھوں خاندانوں کے مکانوں اور زمینوں کو ان سے زبردستی چھین کر یہودی آباد کاروں کے حوالے کیا گیا ہے۔اس جبری بے دخلی پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی رہنما بھی اپنی آزادی اور حقوق کے لئے منظم جدوجہد کی قیادت کرتے رہے ہیں- جارج حبش اور امریکا میں
جلا وطن ہونے والے معروف سکالر پروفیسرایڈورڈ سعید نمایاں ترین مزاحمت کار شمار ہوتے رہے ہیں۔
3) انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے بھی یہ مسئلہ بہت اہم رہا ہے۔ لاکھوں انسانوں کی جائیدادوں آزادیء اظہار، آزادیء نقل و حرکت اور سیاسی حقوق کے چھِن جانے کا مسئلہ ہمیشہ سرِ فہرست رہا ہے۔یو این کی جنرل اسمبلی اور یوروپین پارلیمنٹ کی قرار دادیں اس بات کا اہم ثبوت ہیں کہ انسانی حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والے صحافی، پارلیمنٹیرین، اور تنظیمیں یورپ ،جنوبی امریکا اور ایشیا میں بہت مستعد اور فعال رہی ہیں اور اب تک ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کے لئے غیر معمولی کام کئے ہیں۔
4) مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کی طرف سے برتی جانے والی شدید ترین نسل پرستی، بلکہ مخالفین کی نسل کشی کا معاملہ بھی بہت سنگین رہا ہے۔صیہونی اپنے آپ کو برتر نسل اور عربوں کو انسانی شرف سے گِری ہوئی نسل سمجھ کر اُن سےسلوک کرتے آئے ہیں۔اس پر عالمی اداروں کی سینکڑوں تحقیقاتی رپورٹس، عالمی جیورسٹس کے فیصلے اور چشم کُشا میڈیا رپورٹس منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔ ان رپورٹس کو سفید نسل کے کالی نسل کے ساتھ امتیازی سلوک کے مساوی گردانا گیا ہے اور عالمی ضمیر نے اس رویے کی سینکڑوں بار مذمت کی ہے ۔ نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والے لاکھوں امریکی، آسٹریلیائی، یورپی اور ایشیائی رضاکاروں اور کھلاڑیوں نے بہت سی مہمات چلائی ہیں اور چلائے چلے جارہے ہیں۔
صیہونی قوتوں کا عالمی (سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک) اثر و رسوخ اتنا گہرا اور مظبوط رہا ہے کہ اِس قدر بھرپور اورہمہ جہت کوششیں ابھی تک با آور نہیں ہو پائیں۔
یہ صیہونی اثر و رسوخ دہلی، بیجنگ، ماسکو، پیرس، برلن اور لندن سے لیکر دنیا کے موجودہ کیپیٹل واشنگٹن تک پھیلا ہوا ہے اور بظاہرجلدی جلدی اس کی گرفت ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔
شام ،عراق اور لیبیا کی تباہی اور مصر، سعودی عرب اور امارات کے سقوط(سکوت نہیں) کے بعد
صیہونی ریاست تکبر ، بربریت اور سفاکی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ اسے بظاہر یقین ہے کہ یو این او سمیت کوئی طاقت اب اس کا ہاتھ نہیں روک سکتی
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کے انتہائی متبرک دن( ستائیس رمضان) سے اب تک غزہ کی گنجان ترین آبادی پر ساٹھ سے زیادہ مقامات پر ہوائی حملے کر کے بچوں اور عورتوں سمیت ایک سوپچپنُ لوگوں کو شہید اور سینکڑوں کو شدید زخمی کر چکا ہے۔
ایسے عالم میں بکھری بکھری اور ٹوٹی پھوٹی مسلم اُمّہ کے لاکھوں پریشاں حال ،بے بس مگر پُرجوش نوجوان مرد وزن اس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے؟ اور وہ اپنے بل بوتے پرکیا کچھ کر سکتے ہیں؟
یہودیوں کی تباہی کے کچھ نعرے، کچھ جلسے جلوس؟ اور اس پھر اس کے بعد کیا؟
میرا خیال ہے جہاں ہر مشکل اور آرمائش اپنے اندر دُکھ اور بد حالی لے کر آتی ہے وہاں اپنے ساتھ اَن گنت مواقع بھی لے کر آتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فلسطینی اس وقت گھِرے ہوئے، بے یارو مددگار اور خاک و خون میں لتھڑے ہوئے ہیں مگر خوبصورت ترین بات یہ بھی ہے کہ وہ نہتے ہونے کے باوجود اللہ پہ یقین کامل کے ساتھ پورے استقلال اور حوصلے سے کھڑے ہیں۔ پوراعرب سر نگوں ہو چکا ہے مگر غزہ پوری جرآت سے کھڑا ہے۔ فلسطینیوں کے شہید قائد شیخ یاسین نے برسوں پہلے ایک امید افزا بات کہی تھی “ جب ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ فلسطین مقبوضہ بن گیا ہے مگر سمجھتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے باقی عرب آزاد ہیں۔ اب جب ہم بڑے ہو چکے ہیں تو پتہ چلا ہے کی سارا عرب مقبوضہ بن چکا ہے ، صرف فلسطینی آزاد ہیں۔ کیونکہ فلسطین کے غیور سر نڈر کرنے کے لئے تیار نہیں”
آزادی کی جنگیں مہینوں میں نہیں، دھائیوں اور بسا اوقات صدیوں میں جیتی جاتی ہیں۔ ان لمبی جنگوں کے لئے چھوٹے چھوٹے وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ دُور رس منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔
اس لمبی جنگ کے لئے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی تحریکوں اور فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والی مملکتوں کو درج ذیل نکات اپنے پیشِِ نظر رکھنے چاہئیں۔
1) وہ جہاں جہاں بھی ہیں، فلسطین ایشو پراپنی باہمُ الجھنے سے بچیں ۔صبر اور حکمت سے سیاسی جماعتوں ،پریشر گروپس اور میڈیا کے ساتھ یکسوئی اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تنہا فلائٹ لینے کا کبھی نہ سوچیں, چاہے عارضی فائدہ ہی ضائع ہوتاکیوں نہ نظر آئے۔
2) نوجوان نسل اور اہل دانش میں نئےحقائق اور دلائل پر مبنی آگہی مہم چلاتے رہیں۔لوگوں کو پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے وافر ذہنی غذا پہنچاتے رہیں، تاکہ لوگوں میں حوصلہ اور ہمت بھی موجود رہے اور حقائق سے پوری طرح آگہی بھی۔
3) مسلم جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ان سارے طبقات ( سٹیک ہولڈرز) سے مضبوط روابط اور تعلق رکھیں، جو انسانی حقوق اور نسلی تعصب کے خاتمے کے لئے فلسطینیوں کی جد وجہد کے حامی ہیں۔ اُنہیں بلایا جائے، اُن کے پاس جایا جائے، انہیں سنا جائے اور انہیں سنایا جائے۔ یاد رہے نبی پاک نے اس طرح کے مشکل حالات میں بار ہا کامیاب اتحاد (الائینس) بنائے تھے۔
4) فلسطینی متحرک نوجوانوں کو فلسطین سے باہر (یورپ، ترکی،ملائیشیا، پاکستان اور امریکا) پناہ دلوائی جائے اور ان کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کروایا جائے تاکہ اگلی دھائی میں انکی مستقبل کی لیڈرشپ تیار ہو سکے۔ اس کام کے لئے ہمدرد ممالک اور تنظیمیں مشترکہ فنڈ بھی قائم کر سکتی ہیں۔
5) امریکہ اور یورپ میں موجود مسلم اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مدد اور اعتماد دیا جائے۔ اب تو امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھی فلسطینیوں کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
الغرض اس مسئلے کے حل میں ان سارے پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا جائے، ان سے جُڑے حقائق کو سمجھنے اور اس سے وابستہ تمام طبقوں کو ہم آواز کرکے آگے بڑھنے کی صورت نکالی جائے۔اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کامیابی و نصرت کی صورت ضرور نکالے گا۔
فلسطین اور اسرائیل تنازع کے کئی رُخ اور بہت سےپہلو ہیں۔
1)مسلمانوں کے لئے یہ اُنکے قبلہ اوّل کی واپسی اور فلسطین کی اسلامی شناخت کی بحالی کا مسئلہ ہے۔ سیدنا عمر نے بیت المقدس کا انتظام سنبھالا اور اس شہر کو امن کا گہوارا بنایا۔ تینوں مذاہب( مسلم، عیسائی، یہودی) کے لوگوں کو طویل عرصے تک اپنے اپنے مقدس مقامات تک عزت و آبرو کے ساتھ رسائی کا پورا پورا حق حاصل رہا۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی فوجوں نے بے انتہا خون بہایا مگر صلاح الدین نے فتح کے بعد ایک بار پھر مثالی امن قائم کیا جس کی اخلاقی برتری اور ساکھ کو مغربی مورخین بھی پوری طرح تسلیم کرتے ہیں۔ بیسوی صدی کے وسط میں مسلمانوں کا یہ قبلہ اوّل ایک بار پھر اُن سے چھین کر مقدس مقامات کی مسلسل بے حرمتی اور اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیتی آبادی میں بدلنے کا آغاز کر دیا گیا۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کی بے حسی، بزدلی اور بے غیرتی کے باوجود ایک عام مسلمان صدمے، بدلے اور حق واپس چھین لینے کے جذبے سے سرشار رہتا ہے۔
2) مقامی آبادی ( مسلم اور عیسائی)کے لئے ان کے گھروں، آبادیوں اور زمینوں سے جبری
بے دخلی اور اسرائیلیوں کی طرف سے غاصبانہ قبضے کا سلسلہ کئی دھائیوں سے جاری ہے۔لاکھوں خاندانوں کے مکانوں اور زمینوں کو ان سے زبردستی چھین کر یہودی آباد کاروں کے حوالے کیا گیا ہے۔اس جبری بے دخلی پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی رہنما بھی اپنی آزادی اور حقوق کے لئے منظم جدوجہد کی قیادت کرتے رہے ہیں- جارج حبش اور امریکا میں
جلا وطن ہونے والے معروف سکالر پروفیسرایڈورڈ سعید نمایاں ترین مزاحمت کار شمار ہوتے رہے ہیں۔
3) انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے بھی یہ مسئلہ بہت اہم رہا ہے۔ لاکھوں انسانوں کی جائیدادوں آزادیء اظہار، آزادیء نقل و حرکت اور سیاسی حقوق کے چھِن جانے کا مسئلہ ہمیشہ سرِ فہرست رہا ہے۔یو این کی جنرل اسمبلی اور یوروپین پارلیمنٹ کی قرار دادیں اس بات کا اہم ثبوت ہیں کہ انسانی حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والے صحافی، پارلیمنٹیرین، اور تنظیمیں یورپ ،جنوبی امریکا اور ایشیا میں بہت مستعد اور فعال رہی ہیں اور اب تک ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کے لئے غیر معمولی کام کئے ہیں۔
4) مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کی طرف سے برتی جانے والی شدید ترین نسل پرستی، بلکہ مخالفین کی نسل کشی کا معاملہ بھی بہت سنگین رہا ہے۔صیہونی اپنے آپ کو برتر نسل اور عربوں کو انسانی شرف سے گِری ہوئی نسل سمجھ کر اُن سےسلوک کرتے آئے ہیں۔اس پر عالمی اداروں کی سینکڑوں تحقیقاتی رپورٹس، عالمی جیورسٹس کے فیصلے اور چشم کُشا میڈیا رپورٹس منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔ ان رپورٹس کو سفید نسل کے کالی نسل کے ساتھ امتیازی سلوک کے مساوی گردانا گیا ہے اور عالمی ضمیر نے اس رویے کی سینکڑوں بار مذمت کی ہے ۔ نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والے لاکھوں امریکی، آسٹریلیائی، یورپی اور ایشیائی رضاکاروں اور کھلاڑیوں نے بہت سی مہمات چلائی ہیں اور چلائے چلے جارہے ہیں۔
صیہونی قوتوں کا عالمی (سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک) اثر و رسوخ اتنا گہرا اور مظبوط رہا ہے کہ اِس قدر بھرپور اورہمہ جہت کوششیں ابھی تک با آور نہیں ہو پائیں۔
یہ صیہونی اثر و رسوخ دہلی، بیجنگ، ماسکو، پیرس، برلن اور لندن سے لیکر دنیا کے موجودہ کیپیٹل واشنگٹن تک پھیلا ہوا ہے اور بظاہرجلدی جلدی اس کی گرفت ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔
شام ،عراق اور لیبیا کی تباہی اور مصر، سعودی عرب اور امارات کے سقوط(سکوت نہیں) کے بعد
صیہونی ریاست تکبر ، بربریت اور سفاکی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ اسے بظاہر یقین ہے کہ یو این او سمیت کوئی طاقت اب اس کا ہاتھ نہیں روک سکتی
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کے انتہائی متبرک دن( ستائیس رمضان) سے اب تک غزہ کی گنجان ترین آبادی پر ساٹھ سے زیادہ مقامات پر ہوائی حملے کر کے بچوں اور عورتوں سمیت ایک سوپچپنُ لوگوں کو شہید اور سینکڑوں کو شدید زخمی کر چکا ہے۔
ایسے عالم میں بکھری بکھری اور ٹوٹی پھوٹی مسلم اُمّہ کے لاکھوں پریشاں حال ،بے بس مگر پُرجوش نوجوان مرد وزن اس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے؟ اور وہ اپنے بل بوتے پرکیا کچھ کر سکتے ہیں؟
یہودیوں کی تباہی کے کچھ نعرے، کچھ جلسے جلوس؟ اور اس پھر اس کے بعد کیا؟
میرا خیال ہے جہاں ہر مشکل اور آرمائش اپنے اندر دُکھ اور بد حالی لے کر آتی ہے وہاں اپنے ساتھ اَن گنت مواقع بھی لے کر آتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فلسطینی اس وقت گھِرے ہوئے، بے یارو مددگار اور خاک و خون میں لتھڑے ہوئے ہیں مگر خوبصورت ترین بات یہ بھی ہے کہ وہ نہتے ہونے کے باوجود اللہ پہ یقین کامل کے ساتھ پورے استقلال اور حوصلے سے کھڑے ہیں۔ پوراعرب سر نگوں ہو چکا ہے مگر غزہ پوری جرآت سے کھڑا ہے۔ فلسطینیوں کے شہید قائد شیخ یاسین نے برسوں پہلے ایک امید افزا بات کہی تھی “ جب ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ فلسطین مقبوضہ بن گیا ہے مگر سمجھتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے باقی عرب آزاد ہیں۔ اب جب ہم بڑے ہو چکے ہیں تو پتہ چلا ہے کی سارا عرب مقبوضہ بن چکا ہے ، صرف فلسطینی آزاد ہیں۔ کیونکہ فلسطین کے غیور سر نڈر کرنے کے لئے تیار نہیں”
آزادی کی جنگیں مہینوں میں نہیں، دھائیوں اور بسا اوقات صدیوں میں جیتی جاتی ہیں۔ ان لمبی جنگوں کے لئے چھوٹے چھوٹے وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ دُور رس منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔
اس لمبی جنگ کے لئے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی تحریکوں اور فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والی مملکتوں کو درج ذیل نکات اپنے پیشِِ نظر رکھنے چاہئیں۔
1) وہ جہاں جہاں بھی ہیں، فلسطین ایشو پراپنی باہمُ الجھنے سے بچیں ۔صبر اور حکمت سے سیاسی جماعتوں ،پریشر گروپس اور میڈیا کے ساتھ یکسوئی اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تنہا فلائٹ لینے کا کبھی نہ سوچیں, چاہے عارضی فائدہ ہی ضائع ہوتاکیوں نہ نظر آئے۔
2) نوجوان نسل اور اہل دانش میں نئےحقائق اور دلائل پر مبنی آگہی مہم چلاتے رہیں۔لوگوں کو پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے وافر ذہنی غذا پہنچاتے رہیں، تاکہ لوگوں میں حوصلہ اور ہمت بھی موجود رہے اور حقائق سے پوری طرح آگہی بھی۔
3) مسلم جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ان سارے طبقات ( سٹیک ہولڈرز) سے مضبوط روابط اور تعلق رکھیں، جو انسانی حقوق اور نسلی تعصب کے خاتمے کے لئے فلسطینیوں کی جد وجہد کے حامی ہیں۔ اُنہیں بلایا جائے، اُن کے پاس جایا جائے، انہیں سنا جائے اور انہیں سنایا جائے۔ یاد رہے نبی پاک نے اس طرح کے مشکل حالات میں بار ہا کامیاب اتحاد (الائینس) بنائے تھے۔
4) فلسطینی متحرک نوجوانوں کو فلسطین سے باہر (یورپ، ترکی،ملائیشیا، پاکستان اور امریکا) پناہ دلوائی جائے اور ان کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کروایا جائے تاکہ اگلی دھائی میں انکی مستقبل کی لیڈرشپ تیار ہو سکے۔ اس کام کے لئے ہمدرد ممالک اور تنظیمیں مشترکہ فنڈ بھی قائم کر سکتی ہیں۔
5) امریکہ اور یورپ میں موجود مسلم اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مدد اور اعتماد دیا جائے۔ اب تو امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھی فلسطینیوں کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
الغرض اس مسئلے کے حل میں ان سارے پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا جائے، ان سے جُڑے حقائق کو سمجھنے اور اس سے وابستہ تمام طبقوں کو ہم آواز کرکے آگے بڑھنے کی صورت نکالی جائے۔اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کامیابی و نصرت کی صورت ضرور نکالے گا۔
خوف و اضطراب اور امید و ایمان میں گھِرا فلسطین - Turkiye Urdu | ترکیہ اردو
تحریر : محمد عبدالشکور فلسطین اور اسرائیل تنازع کے کئی رُخ اور بہت سےپہلو ہیں۔ 1)مسلمانوں کے لئے یہ اُنکے قبلہ اوّل کی واپسی اور فلسطین کی اسلامی شناخت کی بحالی کا مسئلہ ہے۔ سیدنا عمر نے بیت المقدس کا انتظام سنبھالا اور اس شہر کو امن کا گہوارا بنایا۔ تینوں مذاہب( مسلم، عیسائی، یہودی)...
www.turkeyurdu.com