What's new

جناب اختر مینگل صاحب سے کچھ سوالات

Kompromat

ADMINISTRATOR
Joined
May 3, 2009
Messages
40,366
Reaction score
416
Country
Pakistan
Location
Australia
پاکستان بنامِ سردار اخترمینگل فرزندِ سردار عطااللہ مینگل کے چھ نکات کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ماضی اور حال کے کچھ سوالات وضاحت طلب ہیں

میرا نام بریگیڈئرریٹائرڈ صغیر حسین ہے میں بحیثیت 2 بلوچ رجمنٹ کمانڈر 5جنوری1975 تہ 25 جون 1977 وڈھ میں تعینات رہا ہوں۔ میرا رابطہ سرکردہ مینگل شخصیات سے تاحال قائم رہا ہے۔ پاکستان بلوچستان اور مینگل قبیلے کی خیرخواہی ہمارے درمیان قربت کا باعث بنی رہی ہے۔ مندرجہ ذیل تبصرہ میری ذاتی معلومات پر مبنی ہے۔

آپ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف تمام
خفیہ اور کھلے فوجی آپریشن بند کیے جائیں۔
فرمائیں۔ جب آپ ریاست پاکستان کے خلاف بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر دہشت گرد کارروائیاں کرے تو ریاست پاکستان کیا کرے۔ 1960 کی دہائی میں آپ کے والد نے قومی اسمبلی میں پاکستان مخالف تقریریں کیں تو آپ کے خلاف حکومت وقت نے ایکشن لیا جواب میں آپ نے اپنے لوگوں کو پہاڑوں پر بھیج دیا۔ فوج اور ایف سی کا جانی نقصان ہوا۔آخر کار فوج نے حالات راست کیے۔

آپ کے والد سردار عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری جیل میں تھے آخر معافی تلافی کے بعد جنرل موسیٰ خان گورنر مغربی پاکستان نے آپ کو رہائی دلوائی، آپ کی رہائی کے بعد وہ میر معتبر جو آپ کی پاکستان مخالف پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے قتل کر دیے گئے۔ وضاحت فرمائیں کہ وہ میر معتبر کس کے کہنے پر قتل کئے گئے اور کس نے ان کو قتل کیا۔

آپ نے اپنا پاکستان مخالف رویہ نہ بدلا اور آپ کے والد نے بحیثیت بلوچستان کے پہلے وزیراعلٰی تمام پنجابی اور سیٹلر اساتذہ کو صوبہ بدر کر دیا جس کے اثرات سے آج دن تک بلوچستان کا تعلیمی نظام سنبہل نہیں پایا اور آپ کے والد محترم نے بحیثیت چیف منسٹر بلوچستان ایک معمولی واقعہ کو بنیاد بناکر 1973 میں دس ہزار کے لشکر کے ساتھ لسبیلہ پر حملہ کیا۔ جاموٹ قبیلے کا جانی اور مالی نقصان اور عزت نفس کو مجروح کیا جس پر امن قائم کرنے کے لیے وفاق نے فوج کی ایک یونٹ ملیر کینٹ سے روانہ کی آپ کے والد نے لوگوں کو حکم دیا کہ پہاڑ پر چلے جائیں ان کے کمانڈروں میں آپ کے چچا مہراللہ چاچا ذیاءاللہ اور آپ کے بڑے بھائی منیر مینگل شامل تھے چند سو لوگ پہاڑوں پر گئے ایف
سی اور فوج کا جانی نقصان ہوا۔

آپ کے والد حیدرآباد کانسپائریسی کیس میں جیل چلے گئے آپ کے والد کے حکم پر بلوچوں کو بھارت میں ٹرینینگ کے لیے بھیجا گیا ان میں آپ کا گھریلو مینیجر غلام حسین گمشاد زئی بھی شامل تھا اسی سلسلے میں ننگِ وطن نجم سیٹھی نامی شخص سہولتکار بنا اور موناباؤ بارڈر پر بلوچوں کو بھارتی فوج کے حوالے کرتا رہا۔

یاد رہے کہ حیدرآباد ٹریبونل سے آپ کے والد اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی گئی تھی فوج اور ایف سی نے جب حالات کنٹرول کر لیے تو جنرل ضیا الحق نے 1977 میں عام معافی کا اعلان کیا اور آپ کے والد، ولی خان، نجم سیٹھی وغیرہ کو رہا کر دیا گیا۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب فریب ناتمام آپ کے والد کی RAW, KGB اور افغان خُفیہ ادارے سے بلواسطہ رابطوں کے بارے میں سُلطانی گواہ کی حیثیت رکھتا ہے اور حیدرآباد کانپائریسی کیس کی سچای پر گواہی دیتا ہے ۔

آپ کے علم میں ہو گا کہ خیر بخش مری کے لیے لشکر گاہ افغانستان میں C130 بھیجا گیا اور جنرل حمید گُل خود اُسکو لینے گے۔

فرمائیں کہ ریاست اور آپ کیلئے کیا کرتی۔ آپ کے قبیلے نے آپ کی ریاست مخالف پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور آپ نے باہر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔

آپ نے 2005 میں
بلوچستان میں تیسری باقاعدہ شورش شروع کردی آپ کا بھائی جاوید مینگل لندن سے لشکر بلوچستان کو کمانڈ کر رہاہے اور RAW, CIA MUSAD اور NDS کے ایجنٹ کی حیثیت سے بلوچستان میں مُحبِ وطن بلوچوں، آبادکاروں، پنجابی مذدوروں کے قتل میں مُلوِس ہے۔ اس کے علاوہ ایف سی اور فوج کا جو نُقصان کیا فرمائیں کہ یہ سب قتل وغارت کس کے زِمہ ہے بلاشُبہ سردار عطااللہ مینگل اس کے بیٹے جاوید مینگل کی طرف اُنگلی اُٹھتی ھے اور آپ اس دھشت گردی کا سیاسی چہرہ ہیں کیونکہ آپ نے کسی مرحلے پر اپنے بھای جاوید مینگل کے دھشت گرد گروہ لشکرِ بلوچستان پر تنقید نہیں کی۔ آپ کو احساس ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بلوچ نوجوانوں نے آپ کے والد اور بھای کے دھشت گردوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔

شہیدِ پاکستان نوابذادہ سِراج رئسانی، مظفر جمالی اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں نے پاکستان، بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے اپنی جانیں قُربان کر دیں۔ آپ کی گزشتہ الیکشن میں سیاسی کامیابی بھی پاکستان مخالف دھشت گردوں کی مرحونِ مِنت ہے ۔

اور فرمائیں کہ 2008 الیکشن کے بعد آپ نے اپنے تمام سیاسی مخالفین اور عوام جِنہوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا تھا ان پر وڈھ کے بازار، وڈھ میں موجود اسکول اور ہسپتال میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی اور وڈھ بازار میں ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہ روِش آج دن تک جاری ہے۔

اگر آپ کے پاس مندر جہ بالا حقائق کا کوی جواب ہے تو قوم کے سامنے پیش کریں۔

یہاں تک صِرف آپ کے پہلے نُکتے کا جواب ھے دوسرے نُکات پر تبصرہ جاری رھے گا۔
 
.
پاکستان بنامِ سردار اخترمینگل فرزندِ سردار عطااللہ مینگل کے چھ نکات کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ماضی اور حال کے کچھ سوالات وضاحت طلب ہیں

میرا نام بریگیڈئرریٹائرڈ صغیر حسین ہے میں بحیثیت 2 بلوچ رجمنٹ کمانڈر 5جنوری1975 تہ 25 جون 1977 وڈھ میں تعینات رہا ہوں۔ میرا رابطہ سرکردہ مینگل شخصیات سے تاحال قائم رہا ہے۔ پاکستان بلوچستان اور مینگل قبیلے کی خیرخواہی ہمارے درمیان قربت کا باعث بنی رہی ہے۔ مندرجہ ذیل تبصرہ میری ذاتی معلومات پر مبنی ہے۔

آپ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف تمام
خفیہ اور کھلے فوجی آپریشن بند کیے جائیں۔
فرمائیں۔ جب آپ ریاست پاکستان کے خلاف بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر دہشت گرد کارروائیاں کرے تو ریاست پاکستان کیا کرے۔ 1960 کی دہائی میں آپ کے والد نے قومی اسمبلی میں پاکستان مخالف تقریریں کیں تو آپ کے خلاف حکومت وقت نے ایکشن لیا جواب میں آپ نے اپنے لوگوں کو پہاڑوں پر بھیج دیا۔ فوج اور ایف سی کا جانی نقصان ہوا۔آخر کار فوج نے حالات راست کیے۔

آپ کے والد سردار عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری جیل میں تھے آخر معافی تلافی کے بعد جنرل موسیٰ خان گورنر مغربی پاکستان نے آپ کو رہائی دلوائی، آپ کی رہائی کے بعد وہ میر معتبر جو آپ کی پاکستان مخالف پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے قتل کر دیے گئے۔ وضاحت فرمائیں کہ وہ میر معتبر کس کے کہنے پر قتل کئے گئے اور کس نے ان کو قتل کیا۔

آپ نے اپنا پاکستان مخالف رویہ نہ بدلا اور آپ کے والد نے بحیثیت بلوچستان کے پہلے وزیراعلٰی تمام پنجابی اور سیٹلر اساتذہ کو صوبہ بدر کر دیا جس کے اثرات سے آج دن تک بلوچستان کا تعلیمی نظام سنبہل نہیں پایا اور آپ کے والد محترم نے بحیثیت چیف منسٹر بلوچستان ایک معمولی واقعہ کو بنیاد بناکر 1973 میں دس ہزار کے لشکر کے ساتھ لسبیلہ پر حملہ کیا۔ جاموٹ قبیلے کا جانی اور مالی نقصان اور عزت نفس کو مجروح کیا جس پر امن قائم کرنے کے لیے وفاق نے فوج کی ایک یونٹ ملیر کینٹ سے روانہ کی آپ کے والد نے لوگوں کو حکم دیا کہ پہاڑ پر چلے جائیں ان کے کمانڈروں میں آپ کے چچا مہراللہ چاچا ذیاءاللہ اور آپ کے بڑے بھائی منیر مینگل شامل تھے چند سو لوگ پہاڑوں پر گئے ایف
سی اور فوج کا جانی نقصان ہوا۔

آپ کے والد حیدرآباد کانسپائریسی کیس میں جیل چلے گئے آپ کے والد کے حکم پر بلوچوں کو بھارت میں ٹرینینگ کے لیے بھیجا گیا ان میں آپ کا گھریلو مینیجر غلام حسین گمشاد زئی بھی شامل تھا اسی سلسلے میں ننگِ وطن نجم سیٹھی نامی شخص سہولتکار بنا اور موناباؤ بارڈر پر بلوچوں کو بھارتی فوج کے حوالے کرتا رہا۔

یاد رہے کہ حیدرآباد ٹریبونل سے آپ کے والد اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی گئی تھی فوج اور ایف سی نے جب حالات کنٹرول کر لیے تو جنرل ضیا الحق نے 1977 میں عام معافی کا اعلان کیا اور آپ کے والد، ولی خان، نجم سیٹھی وغیرہ کو رہا کر دیا گیا۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب فریب ناتمام آپ کے والد کی RAW, KGB اور افغان خُفیہ ادارے سے بلواسطہ رابطوں کے بارے میں سُلطانی گواہ کی حیثیت رکھتا ہے اور حیدرآباد کانپائریسی کیس کی سچای پر گواہی دیتا ہے ۔

آپ کے علم میں ہو گا کہ خیر بخش مری کے لیے لشکر گاہ افغانستان میں C130 بھیجا گیا اور جنرل حمید گُل خود اُسکو لینے گے۔

فرمائیں کہ ریاست اور آپ کیلئے کیا کرتی۔ آپ کے قبیلے نے آپ کی ریاست مخالف پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور آپ نے باہر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔

آپ نے 2005 میں
بلوچستان میں تیسری باقاعدہ شورش شروع کردی آپ کا بھائی جاوید مینگل لندن سے لشکر بلوچستان کو کمانڈ کر رہاہے اور RAW, CIA MUSAD اور NDS کے ایجنٹ کی حیثیت سے بلوچستان میں مُحبِ وطن بلوچوں، آبادکاروں، پنجابی مذدوروں کے قتل میں مُلوِس ہے۔ اس کے علاوہ ایف سی اور فوج کا جو نُقصان کیا فرمائیں کہ یہ سب قتل وغارت کس کے زِمہ ہے بلاشُبہ سردار عطااللہ مینگل اس کے بیٹے جاوید مینگل کی طرف اُنگلی اُٹھتی ھے اور آپ اس دھشت گردی کا سیاسی چہرہ ہیں کیونکہ آپ نے کسی مرحلے پر اپنے بھای جاوید مینگل کے دھشت گرد گروہ لشکرِ بلوچستان پر تنقید نہیں کی۔ آپ کو احساس ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بلوچ نوجوانوں نے آپ کے والد اور بھای کے دھشت گردوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔

شہیدِ پاکستان نوابذادہ سِراج رئسانی، مظفر جمالی اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں نے پاکستان، بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے اپنی جانیں قُربان کر دیں۔ آپ کی گزشتہ الیکشن میں سیاسی کامیابی بھی پاکستان مخالف دھشت گردوں کی مرحونِ مِنت ہے ۔

اور فرمائیں کہ 2008 الیکشن کے بعد آپ نے اپنے تمام سیاسی مخالفین اور عوام جِنہوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا تھا ان پر وڈھ کے بازار، وڈھ میں موجود اسکول اور ہسپتال میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی اور وڈھ بازار میں ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہ روِش آج دن تک جاری ہے۔

اگر آپ کے پاس مندر جہ بالا حقائق کا کوی جواب ہے تو قوم کے سامنے پیش کریں۔

یہاں تک صِرف آپ کے پہلے نُکتے کا جواب ھے دوسرے نُکات پر تبصرہ جاری رھے گا۔
Are you the writer of it ????
 
. . .
Back
Top Bottom