What's new

Dear Friend Captain Roohullah Shaheed

Alpha Zairo

MEMBER

New Recruit

Joined
Sep 2, 2020
Messages
24
Reaction score
0
Country
Pakistan
Location
Pakistan
دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نجانے کتنی بار کوئٹہ کو لہو رنگ کیا نجانے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑیں کتنے گھروں کے چراغ گل کئے یہ تو معلوم نہیں مگرایک بات جو نہایت وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کےہردشمن کوہر بار پاکستانی قوم کے بےمثال جرات و جذبے کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی۔ ہر مشکل میں ہر برے وقت میں اس کے نوجوان سینوں میں حیدری جذبہ لئے اپنی قوم کے سامنے ڈھال بن گئے۔ انہوں نے دشمن کے ہر وار، ہر ہتھیار کو اپنے سینے پیش کر کے روکا۔ ان نوجوانوں میں سے بیشتر کو تو ان کی عمروں سے بھی زائد گولیاں لگیں مگر پھر بھی وہ ملک و قوم کے دفاع کا بوجھ اپنے کندھوں پر لئے یکے بعد دیگرے اپنی جانیں دیتے چلے گئے۔ ان نوجوانوں کے انہی جذبوں کے سامنے مرعوب ہو کر متعدد بار تو دشمنوں نے اپنے گھٹنے ٹیکے جس کی تاریخ بھی شاہد ہے۔ بے مثل کردار و گفتار کے مالک ان سرفرشوں کے بارے میں اکثر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شاید خدا نے ان کی تخلیق کسی خاص مٹی سے کی ہے۔ اسی لئے تو یہ باقیوں سے اس قدر منفرد و ممتاز ہوتے ہیں کہ ان کی ایک جھلک دیکھ کے ہی یہ گمان ہوجائے کہ یہ تو 'خدا کے پراسرار بندے ہیں'۔ خدا کے یہی بندے اکثر خدا کی مخلوق کے لئے اک مسیحا کا درجہ پا لیتے ہیں کیونکہ یہ سرفروش ان کے تحفظ کے لئے کسی بھی حال میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ کس قدر خوش نصیب ہے پاکستانی معاشرہ کہ جس میں آج کل کےنفسا نفسی کے دور میں بھی مائیں اقبال کے شاہینوں کی خصوصیات کے حامل بیٹے جنتی ہیں جو وقت آنے پر دھرتی ماں کی محض ایک پکار پر لبیک کہ اپنی ماؤں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی کی لاج بھی رکھتے ہیں۔ میری آج کی کہانی بھی پاک فوج کے ایک ایسے ہی شیرو دلیرافسر کی ہے جس نے موت کے خوف سامنے اتنا بڑا کلیجہ دیکھایا کہ خود موت بھی شر مندہ ہوجائے۔
دہشت گردی کی ہولناکیوں کے اثرات ہمارے معاشرے پر گزشتہ پندرہ سولہ سال سے مرتب ہورہے ہیں ہماری اکانومی تک اس کی نذر ہو چکی ہے۔ اس ناسور کو بطورپراکسی پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سےایک جال کی مانند اس کی سر زمین پر بچھایا گیا اور اس بہتی گنگا میں ہر طرح کی ملکی اورغیر ملکی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے اپنے ہاتھ دھوئے۔ القاعدہ اور آئی ایم یو (اسلامک موومنٹ آف ازبکستان) کے حملوں سے تو ہم واقف ہی تھے مگر داعش جو کہ افغانستان کےدرالحکومت کے علاوہ خراسان(ننگر ہار، کنڑ اور نورستان) میں اپنےپنجے گاڑھ چکی ہے،نے بھی ہم پر منظم دہشت گرد حملے کی صورت میں وار کرنے کے لئے 24 اکتوبر 2016ء میں کوئٹہ کے سب سے حساس ترین علاقے سریاب روڈ کا انتخاب کیا جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے شرپسندوں کے نشانے پر ہے۔ کوئٹہ کو خون سے نہلانے کے لئے جدید اسلحے سے لیس داعش( خراسان چیپٹر) کے تین خودکش بمباروں نےمنگل کی شب تقریباً 11 بجے سریاب روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ کالج پر دھاوا بولا جہاں اس وقت ساڑھے سات سو کے قریب پولیس اہلکار زیر تربیت تھے۔ ان شر پنسدوں نے ان نہتے اہلکاروں پر اندھا دھند فائر کھول دیا اور متعدد کو یرغمال بنا لیا۔ اس فائر کے نتیجے میں تقریباً 61 کیڈٹس شہید اور 165 کے قریب زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2006ء اور 2008ء میں بھی پولیس کی اسی تربیت گاہ پر راکٹ حملے ہو چکے ہیں جو اس کالج کی حساسیت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس حملے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کمانڈوز کے دستے پہنچے جنہوں نے ریسکو آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا اور ایک خود کش بمبار کو شروع میں ہی ہلاک کر کےسینکڑوں اہلکاروں کی جانیں بچائیں۔ اسی معرکے میں پاک فوج کے ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افسر کیپٹن روح اللہ مہمند کی داستان شجاعت بھی سامنے آئی جن کی بہادری اور جوانمردی نے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ستائیس سالہ اس نوجوان افسر کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے مگر سالہا سال سے ان کا خاندان پشاور میں مقیم ہے۔ کیپٹن روح اللہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والدین انہیں ڈاکٹر بنانے کی خواہش رکھتے تھے مگر روح اللہ پاک فوج میں شمولیت اختیار کر کے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ا نہوں نے 2011ء میں 125 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور یوں پاک فوج کی ایک مایہ ناز یونٹ 50 بلوچ رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ بعد ازاں روح اللہ نے ایس ایس جی (ایسپیشل سروس گروپ) میں شمولیت اختیار کی اور ان کا تعلق 2 لائٹ کمانڈو یونٹ سے تھا۔ کیپٹن روح اللہ کو عسکری حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کا شمار پاک فوج کے ان چند افسران میں ہوتا ہے جنہوں نے سینکٹروں کی تعداد میں ملٹری اور ریسکیو آپریشنز میں شرکت کی۔ اس نوجوان افسر کے کریڈٹ پر متعدد نمایاں ترین ملٹری آپریشنز ہیں جن میں باچا خان یونیورسٹی، کرسچیئن کالونی کے علاوہ مردان کچہری چوک ریسکیو آپریشن شامل ہے۔ علاوہ ازیں، آپریشن ضرب عضب کے بعد انہوں نے تقریباً سات سو سے زائد کی تعداد میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز( آئی بی اوز) میں حصہ لیا۔ اس نوجوان افسر کی انہی خدمات کے عوض انہیں آرمی چیف کی جانب سے اعزازی سند سے نوازا جانا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔کیپٹن روح اللہ کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ کسی بھی معرکے پر جانے سے قبل دو رکعت نماز نفل ضرور ادا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج میں ریسکیو آپریشن پر جانے سے قبل بھی جلدی سے وضو کر کےدو رکعت نماز نفل ادا کئے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچتے ہی کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر ایک ایک کر کے کالج کے کمروں کو کلیئر کرنا شروع کیا اس طرح جب انہوں نے دس کمروں کو کلیئر کرا لیا تو ایک خود کش بمبار بھاگ کر ان کے قریب آنے لگا جس کے سر پر نشانہ لے کر کیپٹن روح اللہ نےا سے خود کش جیکٹ پھاڑنے سے قبل ہی جہنم واصل کر دیا۔ اگر یہ دہشت گرد خودکش دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا توایس ایس جی کے اہلکاروں سمیت کوئی بھی ان میں سے زندہ نہ بچ پاتا اور آج اس آپریشن کے نتائج بالکل مختلف ہوتے ۔متعدد اہلکاروں کی جان بچانے کے بعد جب وہ گیارہیوں بیرک میں داخل گئے تو وہاں گھپ اندھیرا تھااور تقریباً 40 سے 50 اہلکار اس بیرک میں موجود تھے۔ کیپٹن روح اللہ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا، سارے اپنے بندے ہو؟ میں ایس ایس جی کا افسر ہوں۔ تم لوگ ہاتھ اوپر کر کے باہر نکل جاؤ۔ اتنے میں کیپٹن روح اللہ کو احساس ہوا کے چارپائی کے نیچے کوئی ہے جو کہ تیسرا خودکش بمبار تھا۔ اس سے قبل کے وہ اپنی جیکٹ بلاسٹ کرتا پاک فوج کے اس بہادر سپوت نے نہایت پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےخود کو اس پر گرا کر اس کے خودکش دھماکے کی شدت کو کم کر دیا۔ اور یوں بیرک میں موجود چالیس سے زائد پولیس اہلکاروں کی جان بچ گئی اور انہیں محض معمولی چوٹیں آئیں۔ مگرکیپٹن روح اللہ شدید زخمی ہوئے،خودکش بمبار کی ہڈی سر میں لگنے کے باعث وہ کومہ چلے گئے تھے اور ان کی ٹانگیں بھی سلامت نہیں رہیں تھیں۔ انہیں فوراً سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیاگیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے بے باک صلاحیتوں کے حامل اس نوجوان کے لئے غازی کا نہیں بلکہ شہید کا درجہ منتخب کر رکھا تھا اس لئے فجر کے وقت 25 اکتوبر 2016ء کو کیپٹن روح اللہ جام شہادت نوش کر گئے۔ادھر کیپٹن روح اللہ کی والدہ عین اسی وقت خواب میں اپنے بیٹے کی آواز سے بیدار ہو جاتیں ہیں جو انہیں آواز دے کر پکار رہا تھا امی۔۔ امی۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ان کے بیٹے کی ان کو آخری پکار ہے اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے لخت جگر کی آواز نہیں سن پائیں گی۔ آفرین ہے ایسی ماؤں پر جو روح اللہ جیسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں جو وقت آنے پر ملک و قوم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور مسکراتے ہوئے اپنی جانیں اپنی دھرتی پر قربان کر دیتے ہیں۔ کیپٹن روح اللہ مہمند کی نمازے جنازہ ان کی والدہ کے آبائی علاقے چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں ادا کی گئی، وہاں سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر پشاور میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ کیپٹن روح اللہ کو ان کے بےمثال جرأت و جذبے کے اعتراف میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے تمغہ جرأت بعد از شہادت سے نوازا گیا۔اس نوجوان نے اپنی جان تو دے دی مگر ملک و قوم کی جانب سے ان کی قربانی کو جو پذیرائی ملی وہ بھی دیدنی تھی۔ بلاشبہ کیپٹن روح اللہ جیسے نوجوان ہی معاشرے کے دیگر نوجوانوں کے لئے جہاں مشعل راہ ہیں وہیں یہ پاکستان دشمن قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام بھی ہیں کہ جب تک ان ہماری صفوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی بھی پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
Proud of you brother[emoji173]
FB_IMG_1601972421360.jpeg
FB_IMG_1601972382627.jpeg
FB_IMG_1599588343948.jpeg
 

Attachments

  • FB_IMG_1599361995052.jpeg
    FB_IMG_1599361995052.jpeg
    88.7 KB · Views: 44
Last edited by a moderator:
It will be better to share posts in English language so that all the members from around the world can read & understand. English is formal language of the forum. At-least a conclusive para summarizing the content of the post will be helpful.

Regards,
 
دشمن قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نجانے کتنی بار کوئٹہ کو لہو رنگ کیا نجانے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑیں کتنے گھروں کے چراغ گل کئے یہ تو معلوم نہیں مگرایک بات جو نہایت وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کےہردشمن کوہر بار پاکستانی قوم کے بےمثال جرات و جذبے کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی۔ ہر مشکل میں ہر برے وقت میں اس کے نوجوان سینوں میں حیدری جذبہ لئے اپنی قوم کے سامنے ڈھال بن گئے۔ انہوں نے دشمن کے ہر وار، ہر ہتھیار کو اپنے سینے پیش کر کے روکا۔ ان نوجوانوں میں سے بیشتر کو تو ان کی عمروں سے بھی زائد گولیاں لگیں مگر پھر بھی وہ ملک و قوم کے دفاع کا بوجھ اپنے کندھوں پر لئے یکے بعد دیگرے اپنی جانیں دیتے چلے گئے۔ ان نوجوانوں کے انہی جذبوں کے سامنے مرعوب ہو کر متعدد بار تو دشمنوں نے اپنے گھٹنے ٹیکے جس کی تاریخ بھی شاہد ہے۔ بے مثل کردار و گفتار کے مالک ان سرفرشوں کے بارے میں اکثر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شاید خدا نے ان کی تخلیق کسی خاص مٹی سے کی ہے۔ اسی لئے تو یہ باقیوں سے اس قدر منفرد و ممتاز ہوتے ہیں کہ ان کی ایک جھلک دیکھ کے ہی یہ گمان ہوجائے کہ یہ تو 'خدا کے پراسرار بندے ہیں'۔ خدا کے یہی بندے اکثر خدا کی مخلوق کے لئے اک مسیحا کا درجہ پا لیتے ہیں کیونکہ یہ سرفروش ان کے تحفظ کے لئے کسی بھی حال میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ کس قدر خوش نصیب ہے پاکستانی معاشرہ کہ جس میں آج کل کےنفسا نفسی کے دور میں بھی مائیں اقبال کے شاہینوں کی خصوصیات کے حامل بیٹے جنتی ہیں جو وقت آنے پر دھرتی ماں کی محض ایک پکار پر لبیک کہ اپنی ماؤں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اپنی مٹی کی لاج بھی رکھتے ہیں۔ میری آج کی کہانی بھی پاک فوج کے ایک ایسے ہی شیرو دلیرافسر کی ہے جس نے موت کے خوف سامنے اتنا بڑا کلیجہ دیکھایا کہ خود موت بھی شر مندہ ہوجائے۔
دہشت گردی کی ہولناکیوں کے اثرات ہمارے معاشرے پر گزشتہ پندرہ سولہ سال سے مرتب ہورہے ہیں ہماری اکانومی تک اس کی نذر ہو چکی ہے۔ اس ناسور کو بطورپراکسی پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سےایک جال کی مانند اس کی سر زمین پر بچھایا گیا اور اس بہتی گنگا میں ہر طرح کی ملکی اورغیر ملکی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے اپنے ہاتھ دھوئے۔ القاعدہ اور آئی ایم یو (اسلامک موومنٹ آف ازبکستان) کے حملوں سے تو ہم واقف ہی تھے مگر داعش جو کہ افغانستان کےدرالحکومت کے علاوہ خراسان(ننگر ہار، کنڑ اور نورستان) میں اپنےپنجے گاڑھ چکی ہے،نے بھی ہم پر منظم دہشت گرد حملے کی صورت میں وار کرنے کے لئے 24 اکتوبر 2016ء میں کوئٹہ کے سب سے حساس ترین علاقے سریاب روڈ کا انتخاب کیا جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے شرپسندوں کے نشانے پر ہے۔ کوئٹہ کو خون سے نہلانے کے لئے جدید اسلحے سے لیس داعش( خراسان چیپٹر) کے تین خودکش بمباروں نےمنگل کی شب تقریباً 11 بجے سریاب روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ کالج پر دھاوا بولا جہاں اس وقت ساڑھے سات سو کے قریب پولیس اہلکار زیر تربیت تھے۔ ان شر پنسدوں نے ان نہتے اہلکاروں پر اندھا دھند فائر کھول دیا اور متعدد کو یرغمال بنا لیا۔ اس فائر کے نتیجے میں تقریباً 61 کیڈٹس شہید اور 165 کے قریب زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2006ء اور 2008ء میں بھی پولیس کی اسی تربیت گاہ پر راکٹ حملے ہو چکے ہیں جو اس کالج کی حساسیت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس حملے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کمانڈوز کے دستے پہنچے جنہوں نے ریسکو آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا اور ایک خود کش بمبار کو شروع میں ہی ہلاک کر کےسینکڑوں اہلکاروں کی جانیں بچائیں۔ اسی معرکے میں پاک فوج کے ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افسر کیپٹن روح اللہ مہمند کی داستان شجاعت بھی سامنے آئی جن کی بہادری اور جوانمردی نے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ستائیس سالہ اس نوجوان افسر کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے مگر سالہا سال سے ان کا خاندان پشاور میں مقیم ہے۔ کیپٹن روح اللہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والدین انہیں ڈاکٹر بنانے کی خواہش رکھتے تھے مگر روح اللہ پاک فوج میں شمولیت اختیار کر کے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ا نہوں نے 2011ء میں 125 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور یوں پاک فوج کی ایک مایہ ناز یونٹ 50 بلوچ رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ بعد ازاں روح اللہ نے ایس ایس جی (ایسپیشل سروس گروپ) میں شمولیت اختیار کی اور ان کا تعلق 2 لائٹ کمانڈو یونٹ سے تھا۔ کیپٹن روح اللہ کو عسکری حلقوں میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کا شمار پاک فوج کے ان چند افسران میں ہوتا ہے جنہوں نے سینکٹروں کی تعداد میں ملٹری اور ریسکیو آپریشنز میں شرکت کی۔ اس نوجوان افسر کے کریڈٹ پر متعدد نمایاں ترین ملٹری آپریشنز ہیں جن میں باچا خان یونیورسٹی، کرسچیئن کالونی کے علاوہ مردان کچہری چوک ریسکیو آپریشن شامل ہے۔ علاوہ ازیں، آپریشن ضرب عضب کے بعد انہوں نے تقریباً سات سو سے زائد کی تعداد میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز( آئی بی اوز) میں حصہ لیا۔ اس نوجوان افسر کی انہی خدمات کے عوض انہیں آرمی چیف کی جانب سے اعزازی سند سے نوازا جانا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔کیپٹن روح اللہ کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ کسی بھی معرکے پر جانے سے قبل دو رکعت نماز نفل ضرور ادا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج میں ریسکیو آپریشن پر جانے سے قبل بھی جلدی سے وضو کر کےدو رکعت نماز نفل ادا کئے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچتے ہی کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر ایک ایک کر کے کالج کے کمروں کو کلیئر کرنا شروع کیا اس طرح جب انہوں نے دس کمروں کو کلیئر کرا لیا تو ایک خود کش بمبار بھاگ کر ان کے قریب آنے لگا جس کے سر پر نشانہ لے کر کیپٹن روح اللہ نےا سے خود کش جیکٹ پھاڑنے سے قبل ہی جہنم واصل کر دیا۔ اگر یہ دہشت گرد خودکش دھماکہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا توایس ایس جی کے اہلکاروں سمیت کوئی بھی ان میں سے زندہ نہ بچ پاتا اور آج اس آپریشن کے نتائج بالکل مختلف ہوتے ۔متعدد اہلکاروں کی جان بچانے کے بعد جب وہ گیارہیوں بیرک میں داخل گئے تو وہاں گھپ اندھیرا تھااور تقریباً 40 سے 50 اہلکار اس بیرک میں موجود تھے۔ کیپٹن روح اللہ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا، سارے اپنے بندے ہو؟ میں ایس ایس جی کا افسر ہوں۔ تم لوگ ہاتھ اوپر کر کے باہر نکل جاؤ۔ اتنے میں کیپٹن روح اللہ کو احساس ہوا کے چارپائی کے نیچے کوئی ہے جو کہ تیسرا خودکش بمبار تھا۔ اس سے قبل کے وہ اپنی جیکٹ بلاسٹ کرتا پاک فوج کے اس بہادر سپوت نے نہایت پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےخود کو اس پر گرا کر اس کے خودکش دھماکے کی شدت کو کم کر دیا۔ اور یوں بیرک میں موجود چالیس سے زائد پولیس اہلکاروں کی جان بچ گئی اور انہیں محض معمولی چوٹیں آئیں۔ مگرکیپٹن روح اللہ شدید زخمی ہوئے،خودکش بمبار کی ہڈی سر میں لگنے کے باعث وہ کومہ چلے گئے تھے اور ان کی ٹانگیں بھی سلامت نہیں رہیں تھیں۔ انہیں فوراً سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیاگیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے بے باک صلاحیتوں کے حامل اس نوجوان کے لئے غازی کا نہیں بلکہ شہید کا درجہ منتخب کر رکھا تھا اس لئے فجر کے وقت 25 اکتوبر 2016ء کو کیپٹن روح اللہ جام شہادت نوش کر گئے۔ادھر کیپٹن روح اللہ کی والدہ عین اسی وقت خواب میں اپنے بیٹے کی آواز سے بیدار ہو جاتیں ہیں جو انہیں آواز دے کر پکار رہا تھا امی۔۔ امی۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ان کے بیٹے کی ان کو آخری پکار ہے اس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے لخت جگر کی آواز نہیں سن پائیں گی۔ آفرین ہے ایسی ماؤں پر جو روح اللہ جیسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں جو وقت آنے پر ملک و قوم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور مسکراتے ہوئے اپنی جانیں اپنی دھرتی پر قربان کر دیتے ہیں۔ کیپٹن روح اللہ مہمند کی نمازے جنازہ ان کی والدہ کے آبائی علاقے چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں ادا کی گئی، وہاں سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر پشاور میں ان کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ کیپٹن روح اللہ کو ان کے بےمثال جرأت و جذبے کے اعتراف میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے تمغہ جرأت بعد از شہادت سے نوازا گیا۔اس نوجوان نے اپنی جان تو دے دی مگر ملک و قوم کی جانب سے ان کی قربانی کو جو پذیرائی ملی وہ بھی دیدنی تھی۔ بلاشبہ کیپٹن روح اللہ جیسے نوجوان ہی معاشرے کے دیگر نوجوانوں کے لئے جہاں مشعل راہ ہیں وہیں یہ پاکستان دشمن قوتوں کے لئے ایک واضح پیغام بھی ہیں کہ جب تک ان ہماری صفوں میں ایسے نوجوان موجود ہیں کوئی بھی پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
Proud of you brother[emoji173]View attachment 676771View attachment 676773View attachment 676775
He was a true hero 👏
 
There is a needle of pain, which becomes news and goes down the veins. Who can count the tears of those who are left behind when the khaki uniforms on the young bodies bathe in their own blood? With zero bombs in our lives, we never know how much some people will pay for our peace.
Can anyone understand this love and longing wrapped in the words of a brother ...
We are indebted, we are indebted
FB_IMG_1598479881442.jpeg
FB_IMG_1601972397993.jpeg
 
The point of pain is that only men in khaaki are striving , men outside khaaki dress need to get up and participate in every aspect of millat e islamia with their pumping blood, i know about very few preparing themselve, they are a rare specie
 
4th Shahadat Anniversary Of Capt Roohullah Shaheed(Tamgha_e_Jurat)[emoji1191]

His parents wanted him to become a doctor. What he did was join Pakistan Army. After completing training as an officer, he opted for the Special Service Group (SSG - Elite commando faction of Pakistan Army.) In SSG, he was allocated to the Quick Response Group (Again, elite within elite.) His job was to respond within seconds to a terrorist attack in the allocated region.

During his short-span career, he responded to five key terrorist attacks, and the disturbing thing about all these attacks was that the attackers were suicide bombers, while equipped with weapons and ammunition. Their mission was a one-way mission: to kill as many people as possible. These attacks include the 2014 Peshawar school massacre, Bacha Khan University, and the Christian colony attack. Remember, in all of these attacks he was always the first soldier to enter the attacked site. In the case of Bacha Khan University, he was the first soldier who jumped off from the aircraft toward the attacked building.

After, serving in Peshawar for a year, he was transferred to Quetta, Baluchistan.

Just a month went by that the sad day arrived.

It was late in the evening, he had changed uniform and was about to go to bed, when he was approached by his men that Quetta Police Academy is under attack. New police recruits were sleeping in their hostels while totally unarmed. The terrorists have started mass shooting them.

He grabbed his weapon, and ordered his team to get in the vehicle in a second. As his station was in a bit distance from the Academy, it took him a few minutes to reach the site.

Now, the militants had cut off electricity and they were shooting these new recruits in the dark. Captain Rohullah was informed through intelligence briefing that the three attackers are wearing suicide jackets too. It was an extremely difficult operation, as a little mistake can take away life of so many people.

In a while, one of the attackers was shot so he didn’t get a chance to detonate his shit, the other was cornered and he blew himself up. Now, one attacker was missing. The Captain started searching the rooms in the hostel when he came to a large room.

According to eye witnesses:

“We were hiding under beds, we saw a man entered the room while kicking the door with full force. As it was dark, so we didn’t see his face, all we saw his weapon as the light was reflecting on it. We thought a terrorist entered the room and the death is certain.

He uttered loudly: Are you our people?

We were silent and he said again: Are you our people?

Then he identified himself as an SSG soldier. We immediately replied: Yes Sir. We are new police recruits and we are hiding under beds.

He said: Put your hands up and immediately evacuate the room.

When we were leaving the room, captain was standing in door and tapping each one of us on shoulder.

In one corner of the room, he noticed a man hiding under a chorpoy (small bed.) He shouted on him: Who are you? he didn’t reply. He shouted again: Identify yourself or I am going to shoot you? Again, no reply.”

[According to one eye-witness, before the captain entered the room, we noticed a person silently entered the room and got under a bed. We thought of him as our person hiding from terrorists, BUT he actually was a suicide bomber.]

As the police personnel were evacuating the room, he remained silent until the last person left the room.

Now, the captain and the suicide bomber were alone in the room.

Here is the tragic part:

What could possibly be the best strategy at that time?

Of course, to shoot the bomber immediately, either to the head or heart, wouldn’t give him a chance to live for another second.

BUT the Captain wanted something else. He wanted to capture him alive to understand the “behind-the-scenes” of the attack. Now, this is what you call a touch of madness. Normally, no one can even tolerate the risk of being in the same room with a suicide bomber. If they can, his next immediate action would be to shoot the bomber asap. Capturing a suicide bomber alive! MY GOD!! That’s not what normal people do!!!

According to the last person who left the room:

“As I stepped out from the room, Captain jumped over the suicide bomber!!! And it followed by a massive explosion. I fell unconscious and regained consciousness in a hospital with the news that Captain Roohullah didn’t survive injuries.”

He was 26 years old and was going to get married in 3 months. Later, he was awarded Tamgh-e-juraa’t (one of the highest medals of bravery) by then Army Chief, Gen. Raheel Shareef.

Speaking to Media, his brother said:

Roohullah was about to be married and his mother was busy in preparation. But today we are waiting for his dead body at our village, where thousands of people have come to offer funeral prayer.

So, in the end I would say that he didn't throw away his life, but he did it for a greater cause, a cause to defend his country. A cause to protect humanity. His bravery and sacrifices will be remembered for generations to come.

May Allah raise his ranks in Heaven. Aameen
FB_IMG_1599361995052.jpeg
received_406603083704901.jpeg
FB_IMG_1601972400927.jpeg
FB_IMG_1601972386777.jpeg
 
Back
Top Bottom