Kompromat
ADMINISTRATOR
- Joined
- May 3, 2009
- Messages
- 40,366
- Reaction score
- 416
- Country
- Location
شہید ہونے والی آئی ایس آئی آفیسر کو داعش نے نہیں پنجابی طالبان نے شہید کیا ہے۔ شرٹ کی بیک سائیڈ پہ لکھی ہوئی تحریر جسے عربی انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اردو اندازِتحریر ہے عربی نہیں۔ بچے کھچے پنجابی طالبان جو ٹی ٹی پی کے ہیں وہ داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والے عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں بہت فعال ہو چکی ہے۔ تا کہ پرامن پاکستان کے متعلق جو تاثر دنیا میں قائم ہو رہا ہے وہ مسخ ہو سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کی تشہیر اس انداز سے کی جائے کہ شام و عراق میں لڑنے والے جتھے جو داعش کی پیروی میں لڑ رہے ہیں وہ یہاں کا رخ کریں۔ اسطرح جوجنگ وہاں مسلط ہے وہ پھیل کر یہاں آجائے
ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ میں جان دے دیتے ہیں۔ لیکن اس گمنام دستے کے لوگ وہ عظیم ترین مجاہد ہیں جن کی شہادت پر اکثر ہماری دعائیں بھی ان کو نہیں ملتیں، پتہ ہے کیوں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا وہ کب کس لمحے اللہ کی رضا کی خاطر ہم پر قربان ہو گئے ہیں۔
ان شہداء کا مقام و مرتبہ اتنا عظیم اور بلند ہے کہ ہم گماں تک بھی نہیں کر سکتے۔ اور ان کا مقام ہمارے دلوں میں اتنا زیادہ کہ بیان کےلیے شائد لفظ بھی نہ مل پائیں۔ میرے پاس لفظ اور آنکھوں میں آنسو ہیں محض ان شہداء کو پیش کرنے کےلیے۔ بڑا غریب سا محسوس کر رہا ہوں خود کو۔ دینے والے ہمارے لیے اپنی جان دے کر چلے جاتے ہیں اور ہم چاہنے کے باوجود فقط دعا کے سوا ان کو کچھ بھی نہیں دے پاتے۔ واقفِ حال لوگ جانتے ہیں، کچھ اس ملک کےلیے شہید ہوئے اور ان کے بیوی بچوں کو شہادت تک نہیں پتہ تھا کہ یہ عجیب و غریب سودا کر چکے ہیں۔ یہ اپنی جان کے بدلے ہماری بقاء اور ہماری حفاظت کا سودا کر چکے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی زندگی میں اپنے اہل و عیال سے وعدہ لے لیتے ہیں کہ دیکھو فرض بہت بھاری ہے۔ وعدہ کرو اگر کبھی میں فرض کی راہ میں قربان ہو گیا تو میرے بعد کبھی افسوس نہیں کرنا کہ بے مقصد جان سے گیا۔
خدارا ان شہادتوں کا رائیگاں مت جانے دینا۔ جو حفاظت پہ متعین ہیں وہ روز شہید ہو رہے ہیں۔ کچھ کا آپ کو پتہ چل جاتا ہے کچھ کا نہیں۔ یہ جنگ ہماری بقاء کی آخری جنگ ہے۔ امن کے دشمن اگر جیت گئے تو ہماری نسلوں اور اسلام کی شناخت مٹا دیں۔ ہمیں ان کے ساتھ مل کے لڑنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پسینے کی جگہ اپنا خون گراتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم میں اکثر ملا فضل اللہ جیسے لوگوں کو عالمِ دین سمجھتے تھے؟ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اب بھی ہم میں وہ لوگ موجود ہیں جو داعش کی بیعت کرنے والے مولوی عبدالعزیز کو عالمِ دین سمجھتے ہیں؟ یہ جنگ ہم سب کے لڑنے کی ہے۔
خود سے وعدہ کروکہ اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑے ہو کر لڑو گے۔ ان شہداء کو جو ہمارے لیے قربان ہوتے ہیں خراجِ تحسین دینے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں کریں گے۔ ہم کبھی کسی ایسے انسان کو عالمِ دین نہیں کہیں گے جو اسلام کا ترجمہ دھشت گردی، وحشت اور بربریت کے الفاظ میں کرتا ہے۔ خود سے وعدہ لو کہ ہم کبھی کسی ایسے انسان کا ساتھ نہیں دیں گے جو انسانیت کے دشمن کو انسانیت کا دشمن کہنے میں ہچکچاتا ہے۔
تحریر: سنگین زادران
ساری زندگی گمنامی میں رہ کر ہماری حفاظت کرنے والے عام طور پر گمنامی میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا اور وہ ہم پہ قربان ہو چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان جب شہید ہوتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اور اس ملک کےلیے شہید ہوئے ہیں، ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارے دفاع پہ متعین کتنے شوق سے اللہ کی راہ میں جان دے دیتے ہیں۔ لیکن اس گمنام دستے کے لوگ وہ عظیم ترین مجاہد ہیں جن کی شہادت پر اکثر ہماری دعائیں بھی ان کو نہیں ملتیں، پتہ ہے کیوں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا وہ کب کس لمحے اللہ کی رضا کی خاطر ہم پر قربان ہو گئے ہیں۔
ان شہداء کا مقام و مرتبہ اتنا عظیم اور بلند ہے کہ ہم گماں تک بھی نہیں کر سکتے۔ اور ان کا مقام ہمارے دلوں میں اتنا زیادہ کہ بیان کےلیے شائد لفظ بھی نہ مل پائیں۔ میرے پاس لفظ اور آنکھوں میں آنسو ہیں محض ان شہداء کو پیش کرنے کےلیے۔ بڑا غریب سا محسوس کر رہا ہوں خود کو۔ دینے والے ہمارے لیے اپنی جان دے کر چلے جاتے ہیں اور ہم چاہنے کے باوجود فقط دعا کے سوا ان کو کچھ بھی نہیں دے پاتے۔ واقفِ حال لوگ جانتے ہیں، کچھ اس ملک کےلیے شہید ہوئے اور ان کے بیوی بچوں کو شہادت تک نہیں پتہ تھا کہ یہ عجیب و غریب سودا کر چکے ہیں۔ یہ اپنی جان کے بدلے ہماری بقاء اور ہماری حفاظت کا سودا کر چکے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی زندگی میں اپنے اہل و عیال سے وعدہ لے لیتے ہیں کہ دیکھو فرض بہت بھاری ہے۔ وعدہ کرو اگر کبھی میں فرض کی راہ میں قربان ہو گیا تو میرے بعد کبھی افسوس نہیں کرنا کہ بے مقصد جان سے گیا۔
خدارا ان شہادتوں کا رائیگاں مت جانے دینا۔ جو حفاظت پہ متعین ہیں وہ روز شہید ہو رہے ہیں۔ کچھ کا آپ کو پتہ چل جاتا ہے کچھ کا نہیں۔ یہ جنگ ہماری بقاء کی آخری جنگ ہے۔ امن کے دشمن اگر جیت گئے تو ہماری نسلوں اور اسلام کی شناخت مٹا دیں۔ ہمیں ان کے ساتھ مل کے لڑنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پسینے کی جگہ اپنا خون گراتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم میں اکثر ملا فضل اللہ جیسے لوگوں کو عالمِ دین سمجھتے تھے؟ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اب بھی ہم میں وہ لوگ موجود ہیں جو داعش کی بیعت کرنے والے مولوی عبدالعزیز کو عالمِ دین سمجھتے ہیں؟ یہ جنگ ہم سب کے لڑنے کی ہے۔
خود سے وعدہ کروکہ اپنے محافظوں کے ساتھ کھڑے ہو کر لڑو گے۔ ان شہداء کو جو ہمارے لیے قربان ہوتے ہیں خراجِ تحسین دینے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں کریں گے۔ ہم کبھی کسی ایسے انسان کو عالمِ دین نہیں کہیں گے جو اسلام کا ترجمہ دھشت گردی، وحشت اور بربریت کے الفاظ میں کرتا ہے۔ خود سے وعدہ لو کہ ہم کبھی کسی ایسے انسان کا ساتھ نہیں دیں گے جو انسانیت کے دشمن کو انسانیت کا دشمن کہنے میں ہچکچاتا ہے۔
تحریر: سنگین زادران